ہنسنا اور رونا

ٹائمس آف انڈیا ( ۲۰ جنوری  ۱۹۸۹) کے صفحہ اول پر ایک روتے ہوئے آدمی کی تصویر ہے ۔ یہ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن ہیں جو بے اختیار رو رہے ہیں اور ہاتھ میں رومال لیے ہوئے اپنے آنسوؤں کو پونچھ رہے ہیں ۔ یہ ۱۸ جنوری ۱۹۸۹ کی تصویر ہے جب کہ وہ اپنے ۸  سالہ دور حکومت کو ختم کر کے واشنگٹن کے صدارتی محل (وہائٹ ہاؤس) سے واپس جارہے ہیں ۔ اس کے بعد آپ ٹائمس آف انڈیا (۲۱ جنوری ۱۹۸۹) کا صفحۂ اول دیکھیں تو اس میں آپ کو ایک شخص کا ہنستا ہوا چہرہ نظر آئے گا۔ یہ جارج بش ہیں جو اسی دن امریکہ کے ۴۱  ویں منتخب صدر کی حیثیت سے واشنگٹن کے وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے ۔ ایک ہی عمارت ہے۔ مگر ایک آدمی اس سے روتا ہوا نکل رہا ہے اور دوسرا آدمی اس میں ہنستا ہوا داخل ہو رہا ہے ۔

 یہ دو آدمیوں کی شکل میں ہر آدمی کی تصویر ہے ۔ لوگ دنیا کی کامیابی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ اس کو پا کر ہنستے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ " آٹھ سال"  بعد یہ کامیابی ان کا ساتھ چھوڑ دے گی ۔ اسی طرح جو لوگ اپنی کامیابی سے محروم ہوتے ہیں، وہ روتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ آٹھ سالہ کامیابی کے آگے ان کے لیے ابدی کامیابی کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے، بشرطیکہ وہ اس ابدی کامیابی کے لیے وہی محنت کریں جو انھوں نے آٹھ سالہ کامیابی کے لیے کی تھی ۔

موجودہ دنیا میں انسان کا ہنسنا اور اس کا رونا دونوں ہی بے معنی ہیں ۔ کیوں کہ اس کا ہنسنا بھی غیر حقیقی چیز کے لیے ہے اور اس کا رونا بھی غیر حقیقی چیز کے لیے۔ اس دنیا کی یافت اور محرومی دونوں ہی بالکل غیر حقیقی ہیں۔ اور جب دونوں غیر حقیقی ہیں تو ان کے پانے یا ان کے کھونے پر انسان کا ردّ     عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہیے ۔

 انسان کو چاہیے کہ وہ حقیقی چیز کو اپنا مقصود بنائے ، وہ آخرت کی ابدی کامیابی کے لیے عمل کرے ۔ جو لوگ ایسا کریں ، وہی وہ لوگ ہیں جو ہنسنے والے دن ہنسیں گے ۔ جو لوگ ایسا نہ کریں ، ان کے لیے صرف ایک انجام مقدر ہے ––––––  دنیا میں بھی رونا اورآخرت میں بھی رونا ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom