روحانی تہذیب
بچوں کا ایک کھیل ہوتا ہے جس کا نام جگساپزل (Jigsaw Puzzle) ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کی مکمل تصویر کو الگ الگ ٹکڑوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ یہ گتہ یا پلاسٹک یا لکڑی کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ مختلف انداز کے ٹکڑے بچوں کو دے دیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کو اس طرح جوڑو کہ فلاں چیز (مثلاً اونٹ) کی صورت بن جائے۔ جو بچہ ٹکڑوں کو جوڑ کر مطلوبہ صورت بنا لے وہ کامیاب کہا جاتا ہے اور جو بچہ مطلوبہ صورت نہ بنا سکے وہ ناکام قرار پاتا ہے۔
ایک اسکول میں بچوں کو جانچنے کے لیے اسی قسم کا ایک کھیل دیا گیا۔ اس میں موٹے گتہ کے بہت سے ٹکڑے تھے۔ ان کو جوڑ کر ہندوستان کا نقشہ بنانا تھا۔ بچے ٹکڑوں کو ادھر ادھر جوڑتے رہے۔ مگر ہندوستان کی مکمل تصویر کسی طرح نہ بن پاتی تھی۔ آخر ایک طالب علم کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ ’’ممکن ہے ان ٹکڑوں میں کہیں کوئی اشارہ موجود ہو۔‘‘ یہ سوچ کر اس نے ایک ٹکڑے کو الٹ کر دیکھا تو اس کے پیچھے ہلکی سیاہی سے ’’آسام‘‘ لکھا تھا۔ اب اس کو ایک سراغ مل گیا۔ اس کے بعد اس نے مزید ٹکڑے اُلٹے تو ہر ایک پر ملک کی کسی نہ کسی ریاست کا نام دھندلے حروف میں درج تھا۔ اب وہ راز کو سمجھ گیا۔ اس نے جان لیا کہ ہر ٹکڑا کسی نہ کسی متعین ریاست کی نمائندگی کر رہاہے۔
بچّہ کے ذہن میں ہندوستان کے مجموعی نقشہ کا تصور پہلے سے موجود تھا۔ اس نے اس اجمالی تصوّر کے مطابق ٹکڑوں کو جوڑنا شروع کیا۔ اب فوراً ہی ہندوستان کا نقشہ بن کرتیار تھا۔ یہ طالب علم کامیاب ہوا اور بقیہ تمام طالب علم ناکام قرار دے دیے گئے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ اس دنیا کا ہے جس کے بنانے والے نے اس کو بنا کر انسان کو یہاں رکھا ہے۔ یہ دنیا بھی ایک قسم کا جگساپزل کا کھیل ہے۔ انسان کاامتحان یہی ہے کہ وہ یہ کھیل کھیلے اور اس میں کامیابی حاصل کرے۔
انسان کو مشین کی ضرورت تھی۔ اس کو خودکار سواریوں کی ضرورت تھی۔ اس کو آرام دہ مکانات کی ضرورت تھی۔ اس کو بے شمار دوسری مادی چیزیں درکار تھیں۔ مگر قدرت نے ایسا نہیں کیا کہ ان چیزوں کو بنا بنایا آسمان سے اتار دے۔ اس دنیا میں ہوا اور پانی اور روشنی جیسی چیزیں تو موجود ہیں مگر ٹائپ رائٹر موٹر کار اور رہائشی بنگلے کہیں تیار شدہ حالت میں موجود نہیں۔ ان چیزوں کو آدمی خود بنا کر تیار کرتا ہے۔
ان کو بنانے کی صورت کیا ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ قدرت نے ان کے تمام اجزاء خام شکل میں زمین پر پھیلا دیے۔ کچھ چیزوں کو زمین کے نیچے دفن کر دیا۔ یہ گویا ایک عظیم جگساپزل کے بہت سے ٹکڑے ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اب انسان کے ذمہ یہ کام ہے کہ وہ ان کو تلاش کر کے حاصل کرے اور ان کو جوڑ کر بامعنی چیزیں بنائے۔
جدید مادی تہذیب کی صورت میں انسان نے بے شمار نئی نئی چیزیں بنائی ہیں۔ یہ سب چیزیں اگرچہ مکمل طور پر ہماری اس دنیا کے سامانوں سے بنی ہیں مگر ان میں سے کوئی چیز بھی اپنی موجودہ تکمیلی صورت میں کہیں موجود نہیں تھی۔ انسان نے ان کے مختلف بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جمع کیا اور لمبے تجربے کے بعد ان کو جگساپزل کی طرح جوڑ کر بامعنی چیزوں کی صورت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسی عمل کے نتائج میں جن کو ٹیلی فون ، کار اور فرنیچر کہتے ہیں۔
یہ ہماری مادی تہذیب کا معاملہ تھا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ہماری روحانی تہذیب کا بھی ہے۔ دونوں جگہ قدرت نے ایک ہی نمونہ کو ہمارے لیے پسند کیا ہے۔ روحانی دنیا کی تعمیر کا معاملہ بھی ایک قسم کے جگساپزل کا معاملہ ہے۔ مادی دنیا کی تعمیر کے لیے قدرت نے ہمارے چاروں طرف مادی ٹکڑے بکھیرے تھے۔ یہاں قدرت نے اسی طرح بہت سے معنوی ٹکڑے ہمارے چاروں طرف بکھیر دیےہیں۔ اسی کے ساتھ ہر ٹکڑے پرمخفی اشارات بھی درج ہیں۔ انسان کاامتحان یہ ہے کہ وہ ان اشارات کو پڑھے اور ان کے مطابق مختلف ٹکڑوں کو اپنے اپنے مقام پر جوڑ کر صحیح اور بامعنی تصویر بنائے۔
یہی موجودہ دنیا میں آدمی کا اصل امتحان ہے۔ آدمی کو بہرحال یہاں اس امتحان میں کھڑا ہونا ہے کہ وہ ان ٹکڑوں پر لکھے ہوئے اشاروں کو پہچانے اور ان کے مطابق بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑ کر مطلوبہ تصویر بنائے۔ مادی تہذیب کی تعمیر میں اگر انسان قدرت کے اس نہج کی پیروی نہ کرتا تو اس کو کبھی جدید طرز کا جگمگاتا ہوا شہر دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ روحانی تہذیب کی تعمیر میں سنجیدگی کے ساتھ اس نہج کی پیروی نہ کر ے تو اس کے لیے یہاں ناکامی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔
انسان کی تمام گمراہیاں اسی مخصوص جانچ میں ناکام ہونے کا نتیجہ ہیں۔ انسان مادی تہذیب کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑ کر ان کا جگساپزل بنانے کے معاملہ میں انتہائی سنجیدہ تھا اس لیے وہاں وہ پوری طرح کامیاب ہوا۔ اس کے برعکس، روحانی تہذیب کے معاملہ میں وہ پوری طرح سنجیدہ نہیں۔ اسی لیے اس دوسرے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان صحیح طور پر اپنا جگساپزل بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔
شرک، الحاد اور دوسرے تمام غلط قسم کے فکری نظام اسی لیے وجود میں آئے کہ انسان قدرت کے مختلف ٹکڑوں پر لکھے ہوئے اشارات کو پڑھ نہ سکا اور ان کو اِدھر کا اُدھر اور اُدھر کا اِدھر جوڑ دیا۔ مثال کے طور پرمظاہر کائنات میں تنوع کو دیکھ کر اس نے خدائی میں تنوع کا عقیدہ قائم کر لیا۔ اس نے کہاکہ جب چیزیں کئی ہیں تو ان کے خدا بھی کئی ہونے چاہئیں۔ حالانکہ مظاہر کائنات میں تنوع خدا کی صفات میں تنوع کی علامت تھی نہ کہ خود خدائی میں تنوع کی علامت۔ اسی طرح کائنات میں نظام تعلیل (Causatian) کی دریافت کو اس نے خدا کی دریافت کے ہم معنی سمجھ لیا۔ حالانکہ وہ خدا کے طریق کار کی دریافت کے ہم معنی تھا نہ کہ خود خدا کی دریافت کے ہم معنیٰ ، وغیرہ۔
اب دیکھیے کہ ان ٹکڑوں پر کس قسم کے اشارات لکھے ہوئے ہیں اور کس طرح انہیں بامعنی طور پر جوڑا جا سکتا ہے۔ جب ہم اس نظر سے انسان اور کائنات کے معاملہ پر غور کرتے ہیں تو مختلف رہنما چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مثلاً ہنسی۔ اس کائنات میں صرف ایک انسان ہے جو ہنستا ہے۔ ہنسنے کی طاقت ہوا اور پانی ، جنگل اور پہاڑ ، چاند اور ستارے، کسی چیز میں نہیں۔ حتیّٰ کہ جانوروں اور پرندوں میں بھی نہیں۔ ہنسنا انسان کی انتہائی امتیازی خصوصیت ہے۔ ہنسنا شعوری لذّت کی علامت ہے اور لذّت کا شعور انسان کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری معلوم کائنات میں انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے لیے ہنسی (بالفاظ دیگر خوشی) مقدر کی گئی ہے۔ انسان کے سوا کوئی بھی دوسری مخلوق ایسی نہیں جو ہنسے اور خوشی منائے۔
اس کے بعد جب ہم مزید غور کرتے ہیں تو ہمیں اس جگساپزل کا ایک اور اشاراتی ٹکڑا ہاتھ آتاہے۔ اور وہ لذّت ہے۔ یہاں بھی ہم پاتے ہیں کہ انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو لذّت کوجانتا ہے۔ کھانا ، پینا، ازدواجی تعلقات وغیرہ، بظاہر انسان اور جانوروں میں مشترک ہیں۔ مگر جانوروں کے لیے ان چیزوں میں کوئی لذّت نہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں جبلت اور ضرورت کے لیے کرتے ہیں، نہ کہ لذّت لینے کے لیے۔ اس کے برعکس، انسان جب کھاتا پیتا ہے، جب وہ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے تو وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ لطف و لذّت انسان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ کسی بھی دوسری مخلوق کو یہ چیز حاصل نہیں۔
مذکورہ اشارات نے ہمیں کائناتی جگساپزل کے دو ٹکڑوں کی طرف رہنمائی کی۔ ایک ہنسی اور دوسری لذّت۔ اس سے ہم نے جاناکہ انسان کی فطرت کے اعتبار سے اس کی کامیابی یہ ہو گی کہ اس کو خوشی ملے، وہ لذّت کا مالک بن سکے۔
اس کے بعد ہم مزید مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے علم میں ایک اور ٹکڑا آتا ہے۔ اور وہ یہ کہ ہنسی اور لذّت کے احساسات اگرچہ صرف انسان کو ملے ہیں۔ مگر موجودہ دنیا میں کوئی انسان ان کوپورے طورپر حاصل کرنے پر قادر نہیں۔ یہاں کی محدودیتیں (limitations) فیصلہ کن طور پر انسان کی راہ میں حائل ہیں۔ بیماری ، حادثہ ، بڑھاپا ، موت اور اسی طرح اپنے اندر اور باہر کی دوسری کمیاں ہماری دنیا کی زندگی کو بے مسرت اور بے لذت کر دیتی ہیں۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں ان کو ہم موجودہ دنیا میں حاصل نہیں کر پاتے۔
یہاں پہنچ کر جب ہم مزید غور کرتے ہیں تو ایک اور اشاراتی ٹکڑا ہمارے ہاتھ آتا ہے۔ اور وہ انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ تمام معلوم چیزوں میں وہی ایک ایسی مخلوق ہے جو کَل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ سورج آج ڈوبتا ہے اور کل طلوع ہوتا ہے۔ مگر سورج کوکل کا شعور نہیں۔ چیونٹی اگلے موسم کے لیے خوراک جمع کرتی ہے اور بیا اپنی آئندہ نسل کے لیے گھونسلے بناتا ہے۔ مگر چیونٹی یا بیا یہ سب کچھ جبلت (instinct) کے تحت کرتے ہیں نہ کہ ’’کَل‘‘ کے تصور کے تحت۔
تمام موجودات میں ’’کل‘‘ کا تصور صرف انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ کل کی کامیابی صرف انسان کے لیے خاص ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز ہم چاہتے ہیں اور اپنی محدودیتوں کی وجہ سے اس کو حاصل نہیں کر سکتے وہ ہمارے لیے کل کے دن (بالفاظ دیگر مستقبل میں) مقدر کی گئی ہے۔ موجودہ دنیا میں ہم اپنی اس طلب کا صرف جزئی تعارف حاصل کرتے ہیں۔ اس کو ہم کامل طور پر صرف کل کے دور میں پائیں گے۔
یہاں پہنچ کر ایک اور اشاراتی ٹکڑا ہماری رہنمائی کرتا ہے اور وہ نیند ہے۔ ہر آدمی پر نیند طاری ہوتی ہے۔ وہ بے خبر ہو کر سو جاتا ہے۔ مگر عین اس وقت جب کہ آدمی کا جسم ایک قسم کی موت کی آغوش میں ہوتا ہے اس کا ذہن (یا روح) پوری طرح زندہ ہوتا ہے۔ آدمی کا ذہن اس وقت بھی سوچتا ہے۔ وہ سفر کرتا ہے۔ وہ فیصلے کرتا ہے۔ گویا جسمانی موت کے باوجود انسان کا ذہنی وجود پوری طرح زندہ رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ آدمی نہ صرف کل کا تصوّر رکھتا ہے بلکہ وہ کل کے دن تک زندہ موجود بھی رہتا ہے۔ موت کے باوجود وہ ختم نہیں ہوتا۔ آدمی کی زندگی ایک ایسا تسلسل ہے جو ’’آج‘‘ سے لے کر ’’کل‘‘ تک چلا گیا ہے۔
اب ہماری تصویر حیات ایک حد تک پوری ہو چکی ہے۔ تاہم ایک چیز ابھی باقی ہے۔ وہ یہ کہ کَل کا دن کس کے لیے کیا ہو گا اور کس کے لیے کیا نہیں ہو گا۔ یہاں جب ہم اپنی تلاش جاری کرتے ہیں تو دوبارہ ہم کو جگساپزل کا ایک اور اشاراتی ٹکڑا ملتا ہے ، جو ہماری تصویرکو مکمل کردیتا ہے۔ یہ ٹکڑا ہے انسان کے اندر خیر اور شر (صحیح اور غلط) کا تصوّر۔
معلوم کائنات میں یہ صرف انسان کی انفرادی خصوصیت ہے کہ وہ کسی چیز کو صحیح سمجھتا ہے اور کسی چیز کو غلط۔ حقیقت واقعہ کا اعتراف اس کے نزدیک سب سے بڑی نیکی ہے اور حقیقت واقعہ کاانکار اس کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی اسی طرح امانت اور خیانت ، احسان مندی اور احسان فراموشی ، سچ اور جھوٹ ، وعدہ خلافی اور بے وفائی ، انصاف اور ظلم ، تواضع اور سرکشی، حق کی ادائیگی اور حق کی پامالی کے درمیان وہ فرق کرتا ہے۔ وہ ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھتا ہے۔ یہ واقعہ انسان کے معاملہ کو دوسری مخلوقات کے معاملہ سے الگ کر دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کامیابی اخلاقی معیار پر جانچی جائے گی جب کہ دوسری چیزوں کی کامیابی صرف مادی اعتبار سے دیکھی جاتی ہے۔
ہمارے جگساپزل کا یہ آخری ٹکڑا ہماری تصویرکو بالکل مکمل کر دیتا ہے۔ اس کو ملانے کے بعد حیات انسانی کا جو کامل تصور بنتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان ہی واحد مخلوق ہے جس کے لیے اس کے پیدا کرنے والے نے خوشی اور لذّت کو مقدّر کیا ہے۔ مگر یہ خوشی اور لذّت اس کو ’’آج‘‘ کی زندگی میں ملنے والی نہیں۔ یہ اس کو صرف ’’کل‘‘ کی زندگی میں ملے گی۔ تاہم یہ لازوال نعمت ہر آدمی کو اپنے آپ نہیں مل جائے گی۔ اس کے لیے اسے ایک امتحان میں کامیاب ہونا پڑے گا۔ وہ یہ کہ آدمی ’’آج‘‘ کی زندگی میں اس کے واقعی استحقاق کا ثبوت دے۔ وہ انکار حق سے بچے اور اقرار حق کی میزان پر پورا اُترے۔ وہ غلط روش کو چھوڑے اور صحیح روش کو اختیار کرے۔ وہ وقتی سطح پر جینے کے بجائے ابدیت کی سطح پر جیے۔ وہ صرف ’’آج‘‘ والا بن کر رہنے کے بجائے ’’کل‘‘ والا بن کر رہے۔ جو شخص ایسا کرے گا وہ آنے والی ’’کل‘‘ کی زندگی میں کامل انسان کے روپ میں ظاہر ہو گا۔ وہ اس خوشی اور لذّت کو ابدی طور پر پا لے گا جس کا موجودہ زندگی میں اس نے صرف ابتدائی تعارف حاصل کیا تھا۔
مادی تہذیب وقتی دنیاکی تعمیر ہے اور روحانی تہذیب ابدی دنیا کی تعمیر۔ تاہم دونوں دنیائوں میں کامیابی کا ایک ہی اصول ہے۔ قدرت کے متفرق اشاروں کو پڑھ کر ان سے ایک کامل نقشہ بنانا۔
موجودہ دنیامیں ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے قدرت کے اشاروں کو نہیں پڑھا اور قدرت کے چھپے ہوئے مواقع کو اپنے حق میں استعمال نہیں کیا وہ پچھڑی ہوئی قومیں بن کر رہ گئیں۔ ان کے حصہ میں صرف یہ آیا کہ وہ دوسری ترقی یافتہ قوموں کی سیاسی اور معاشی غلام بن کر رہ جائیں۔
اسی طرح آنے والی دنیا میں وہ لوگ کامیاب رہیں گے جنہوں نے اپنے اندر روحانی تہذیب کی تشکیل کی اور وہ لوگ برباد ہو کر رہ جائیں گے جو اپنے اندر روحانی تہذیب کی تشکیل نہ کر سکے۔ ہماری موجودہ زندگی ہماری اگلی زندگی کا تعارف ہے۔ انسان کا آج کا انجام اس کے کل کے انجام کو بتا رہا ہے۔
روسی ناول نگار دوستووسکی (1821-1881) کاایک ناول ہے جس کا نام ہے جرم و سزا۔ اس کا ہیرو ایک بدخو، بدمزاج، کریہہ المنظر، لاولد اور بوڑھی عورت کو اس لیے قتل کردیتا ہے کہ اس کی روزافزوں مگر بے کار دولت کو اپنی اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ذریعہ بنائے۔ جب یہ واقعہ ہوتا ہے تو نہ صرف ناول کے قاری بلکہ ناول کے سارے کردار اسے مجرم قرار دیتے ہیں۔
بڑھیا کی دولت اس شخص کے لیے اتنی ہی مفید تھی جتنا کسی شیر کے لیے ہرن کا گوشت۔ شیر ایک ہرن کو مار کر اس کا خون پی جائے تو کسی کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی اور نہ اس کے لیے کوئی تعزیری قانون بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ مگر اسی قسم کا فعل ایک انسان کرتا ہے تو ساری انسانیت چیخ اٹھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کو اس کے فعل کی پوری سزا دی جائے۔ صحیح اور غلط کی یہ تقسیم صرف انسان کی نفسیات میں پائی جاتی ہے۔ دوسری تمام موجودات قانون فطرت یا جبلت کے تحت عمل کرتی ہیں ، وہ اس قسم کے کسی فرق سے خالی ہیں۔
اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود ہے۔ وہ ہر فعل کو صحیح اور غلط کی ترازو پر تولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اخلاقی حدود کے اندر زندگی گزارے۔ جب کہ جانور اس قسم کا کوئی شعور نہیں رکھتے۔جانوروں کے یہاں صرف مفید اور مضر کی تقسیم ہے، نہ کہ صحیح اور غلط کی۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے لیے ایک ایسے ضابطہ کی ضرورت ہے جس میں اس کے اخلاقی شعور کے مطابق صحیح اور غلط کو متعین کیا گیا ہو۔ جانوروںکو جو ضابطہ درکار ہے وہ ابتدا سے ان کی جبلّت میں موجود ہوتا ہے۔ انسان اپنے ساتھ اپنا ضابطہ نہیں رکھتا۔ یہ خلا بتاتا ہے کہ انسان کے لیے ضرورت ہے کہ باہر سے اس کو ایک ضابطۂ اخلاق فراہم کیا جائے۔ ’’قانون‘‘ یہی ضابطۂ اخلاق فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مگر اس کا یہ حال ہے کہ پانچ ہزار برس کی بہترین کوششوں کے باوجود انسانی دماغ ابھی تک اپنے لیے قانون کی کوئی متفقہ بنیاد دریافت نہ کر سکا۔
کچھ لوگ اس ناکامی کو یہ حیثیت دیتے ہیں کہ ابھی انسان اپنی تلاش کے مرحلہ میں ہے۔ وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا۔ ٹاکویلی (Tocqueville) کے یہ الفاظ اسی قسم کے لوگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں
A new science of politics is indispensable to a new world.
(نئی دنیا کے لیے ایک نیا علم سیاست ضروری ہے) مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ناکامی تلاش کی ناکامی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز کی تلاش میں ہے جہاں وہ اپنی کوششوں سے پہنچ ہی نہیں سکتا۔
انسان کے اندر اخلاقی شعور ہونا مگر انسان کا خود سے اخلاقی قانون وضع نہ کر سکنا ، نظام فطرت کاایک خلا ہے۔ یہ خلا وحی کی ضرورت ثابت کرتا ہے۔ اگر ایک بار اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے بعد اسلام تک پہنچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔