منزل کی طرف

 آج کے اس جلسے کا جو عنوان ہے وہ محض ایک عنوان نہیں ہے بلکہ یہ وقت کے دل کی دھڑکنیں ہیں۔ ہم ایک ایسے مسئلے پر سوچنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو ساری دنیا کو درپیش ہے اور جس پر ہر جگہ غور و فکر کیا جا رہا ہے۔ یوں سمجھیے کہ پوری انسانیت کی طرف سے ایک سوال کیا گیا ہے اور ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہے۔

پچھلی چند صدیوں کی تاریخ مذہب کے خلاف انسان کی بغاوت کی تاریخ ہے۔ قدیم ترین زمانے سے مذہب کو یہ حیثیت حاصل تھی کہ وہ فکر و عمل کے ہر میدان میں انسانی زندگی کی رہنمائی کرتا تھا۔ مگر صنعتی انقلاب اور سائنس کی ترقی کے بعد جب انسان تمدنی اعتبار سے ایک نئے دور میں داخل ہوا تو اسی کے ساتھ اس نے چاہا کہ ہر اس چیز سے علیحدگی اختیار کر لے جس کا تعلق ماضی سے ہو۔ چنانچہ اس نے مذہب کے پرانے راستے کو چھوڑ کر نئی خود ساختہ راہوں پر اپنا سفر شروع کر دیا۔ گاڑی کی تبدیلی کے ساتھ اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ اس کی سمت بھی نئی ہونی چاہیے۔ لیکن پچھلے سو برس کے تجربے نے اس خیال کی غلطی واضح کر دی ہے۔ زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اس قسم کی جتنی کوششیں کی گئیں وہ بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ اور اب انسان ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی پچھلی حالت کی طرف لوٹ جائے۔ انسانیت کا بھٹکا ہوا قافلہ دوبارہ اپنی صحیح منزل کی طرف واپس ہونے کے لیے بے چین ہے۔ مذہب جو ماضی میں انسان کا دستور العمل تھا وہ مستقبل میں پھر انسان کا دستور العمل بننے والا ہے۔

قانون کی ناکامی

 پچھلے سماج میں مذہب جو کام کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ صدیوں کے دوران میں مختلف بزرگوں کی تعلیم و تلقین کی وجہ سے کچھ خاص تصورات لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گئے تھے۔ اور ان کے خلاف سوچنا یا عمل کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ مذہب کی منسوخی کے بعد جب یہ گرفت ڈھیلی ہوگئی تو اس کی جگہ لینے کے لیے اصلاحی قسم کے قوانین وجود میں آئے۔ دوسرے لفظوں میں خدا کی اطاعت گزاری کی جگہ قانون کی حکمرانی نے لے لی۔ قانون اس متعین ضابطے کو کہتے ہیں جس کو کسی سماج میں لازمی طور پر قابل تسلیم قرار دیا گیا ہو اور جس کی خلاف ورزی پر آدمی کو سزا دی جا سکتی ہو۔ اس قسم کے قوانین ہر ملک میں نہایت وسیع پیمانے پر بنائے گئے۔ اس طرح گویا زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں ریاست کی طرف سے حکماً یہ بتایا گیا کہ وہ صحیح ترین رویہ کیا ہے جسے آدمی کو اختیار کرنا چاہیے۔ مگر ان قوانین کا فائدہ صرف یہ ہوا ہے کہ جو برائی پہلے سیدھے طریقے سے ہوتی تھی وہ ہیر پھیر کے ذریعہ ہونے لگی۔ قانون نے صرف برائی کی شکلوں کو بدلا ہے اصل برائی کو روکنے میں وہ بالکل ناکام ثابت ہوا ہے۔

(ایسا نہیں ہے کہ اس دوران میں مذہب کا بالکل خاتمہ ہوگیا ہو۔ زندگی کے دھارے کے نیچے وہ ہمیشہ باقی رہا اور آج بھی باقی ہے۔البتہ زندگی کی سرگرمیوں میں پہلے جو مقام اسے حاصل تھا وہ بعد کو اسے حاصل نہیں رہا)۔

حکومت دیکھتی ہے کہ کاروباری لوگ چیزوں میں ملاوٹ کر رہے ہیں، ناجائز اسٹاک رکھتے ہیں اور مختلف طریقوں سے عام پبلک کو پریشان کرتے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے وہ ایک قانون بناتی ہے اور اس کے نفاذ کے لیے مارکیٹنگ انسپکٹروں کی ایک فوج مقرر کردیتی ہے جو قانون کی دفعات لے کر ایک ایک دکان کو جانچنا شروع کرتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ دکان دار انہیں رشوت دے کر لوٹا دیتے ہیں۔ اب حکومت اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کو حرکت میں لاتی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ بھی صرف یہ نکلتا ہے کہ جو رشوت پہلے صرف مارکٹنگ انسپکٹر لے رہے تھے، اس میں ایک اور محکمہ کے لوگ حصے دار بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جب بھی حکومت کے علم میں کوئی برائی آتی ہے تو وہ اس کے خلاف ایک قانون بنا دیتی ہے یا ایک آرڈر جاری کر دیتی ہے۔ مگر اس کا فائدہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ چلنے والے اپنا راستہ بدل کر چلنے لگتے ہیں۔ اگر کسی چیز کو درآمد و برآمد پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اسمگلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں تو جعلی حسابات کے رجسٹر تیار ہو جاتے ہیں۔  کسی چیز کی کمی کے پیش نظر اس کے خرچ کو مقرر حد میں رکھنے کے لیے اس پر کنٹرول کیا جاتا ہے تو بلیک مارکٹنگ اور جعلی پرمٹ کا کاروبار جاری ہو جاتا ہے۔ کسی کاروبار کو قومی ملکیت میں لیا جاتا ہے تو سرکاری افسر اس قدر لوٹ مچاتے ہیں کہ نفع کے بجائے اس میں حکومت کو گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے۔ اس طوفان بے تمیزی میں اگر کوئی پکڑ لیا جائے اور معاملہ عدالت تک پہنچنے کی نوبت آئے تو وہاں بھی غلط کارروائیاں اور جھوٹی شہادتیں اس کو بچانے کے لیے موجود ہیں۔

غرض قانون اور حقیقت کے درمیان ایک طرح کی آنکھ مچولی ہو رہی ہے جس میں ناکامی تمام تر قانون کے حصے میں آئی ہے۔

مادی فلسفہ

 دوسری چیز جو بہتر سماج کا خواب پورا کرنے کے سلسلے میں انسان کے سامنے تھی وہ مادی خوش حالی ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ جب لوگوں کی آمدنیاں بڑھ جائیں گی، جب لوگوں کو اپنی ضرورت کی چیزیں فراغت کے ساتھ حاصل ہونے لگیں گی تو وہ کس لیے بدعنوانی کریں گے۔ کس لیے دوسروں کو تکلیف دیں گے، مگر واقعات سے اس نظریے کی تردید ہوتی ہے۔ بلا استثنا تمام ملکوں کا یہ حال ہے کہ وہاں جس رفتار سے مادی ترقی میں اضافہ ہوا ہے اسی نسبت سے جرائم کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔ میں یہاں اختصار کے خیال سے صرف انٹرنیشنل کریمنل پولیس کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دوں گا جس نے دنیا کے 34 ملکوں کے اعدادو شمار جمع کرکے شائع کیےہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق غریب ملکوں میں جرائم کا اوسط ان ملکوں سے بہت کم ہے جو خوش حال ہیں، اور جن کا معیار زندگی بہت بڑھا ہوا ہے۔ برطانیہ میں 1946 ء میں اٹھارہ سال کا ایک لڑکا صرف دو پونڈ ساڑھے سات شلنگ فی ہفتہ کما سکتا تھا۔ لیکن آج پونے چھ پونڈ کما لیتا ہے۔ اور ہوشیار قسم کے نوجوان سات آٹھ پونڈ سے بھی زیادہ کما لیتے ہیں۔ اور پھر انہیں یقین ہے کہ چند سال بعد جب وہ سن بلوغ کو پہنچیں گے تو وہ تیرہ پونڈ فی ہفتہ کی اوسط قومی آمدنی کی مستحق ہوں گے۔

 روزگار کے یہ مواقع اور یہ معیار زندگی ہندوستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن مندرجہ بالا اعدادوشمار کے مطابق1952ء میں ہندوستان میں ایک لاکھ آبادی کے درمیان قابل ذکر جرائم کی تعداد165تھی۔ جب کہ برطانیہ میں اتنی ہی آبادی میں1342جرائم ریکارڈ کیےگئے۔ امریکہ جو تمام دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند ملک سمجھا جاتا ہے وہاں جرائم کی تعداد ایک لاکھ آبادی میں 1322تھی۔(لیڈر18 فروری1955ء) اور وہاں کے سب سے بڑے تجارتی شہر نیویارک کا تو یہ حال ہے کہ ہر ایک سکنڈ میں شدید جرم کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔ جرائم کی اس بڑھتی ہوئی رفتار نے ترقی یافتہ ملکوں میں زندگی کا سکون برہم کر دیا ہے۔ آدمی اس طرح زندگی گزار رہا ہے کہ اس کو اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔ کسی بینک کو نہیں معلوم کب ڈاکوئوں کا ایک گروہ موٹروں اور مشین گنوں سے مسلح ہو کر اس کے اوپر حملہ کر دے گا۔ کسی خاتون کو نہیں معلوم کہ شام کے وقت جب وہ دفتر سے لوٹ رہی ہوگی تو وہ راستہ میں اغوا کر لی جائے گی یا واپس اپنے گھر پہنچے گی۔ انگلینڈ میں قاتل کے لیے موت کی سزا کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ مگر جرائم کی بڑھتی ہوئی وبا کو دیکھ کر وہاں کے ایک مشہور اہل قلم اور سابق ممبر پارلیمنٹ سرایلن ہربرٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ سزائے موت کو دوبارہ جاری کیا جائے۔ اور نہ صرف قاتل کو بلکہ چوروں، نقب زنوں اور عورت کی عصمت پر حملہ کرنے والوں کو بھی یہی سزا دی جائے۔

 اوپر کی گفتگو سے جہاں مادی نظریات کی ناکامی ثابت ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ان کے اندر وہ کون سا بنیادی خلا ہے جس نے انہیں مکمل ناکامی سے دو چار کیا ہے۔ یہ خلا دراصل محرک کا خلا ہے۔ آپ ایک کارخانے کو صرف بجلی کا بٹن دبا کر حرکت میں لا سکتے ہیں۔ مگر انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ اسی وقت کوئی کام کرتا ہے جب اس کے اپنے اندر اس کے کرنے کا جذبہ پیدا ہو چکا ہو۔ آج دنیا کے پاس زندگی گزارنے کے لیے بہترین قسم کے کاغذی نقشے ہیں اور اس کو عمل میں لانے کے لیے جدید ترین سازو سامان موجود ہیں۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے بے کار پڑا ہوا ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 آج مجرمین کو پکڑنے کی ٹکنیک اتنی ترقی کر گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ملک میں جرم کرکے دوسرے مقام پر بھاگ جانے کی کوشش کرے تو اس کے سرحد پار کرنے سے پہلے ریڈیو فوٹو کے ذریعہ ساری دنیا میں اس کا حلیہ نشر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پولیس کے افراد اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر انجام نہیں دیتے، اس لیے جرم کی روک تھام کے یہ سارے مواقع بیکار ثابت ہو رہے ہیں۔ اقتصادیات اور اعدادوشمار کے ماہرین نہایت کامیاب طریقے پر    ’’ کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ‘‘ حاصل کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ مگر عملہ کے اندر لوٹ کھسوٹ کی ذہنیت کی وجہ سے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے وصول کی ہوئی رقم کم سے کم لوگوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ حکومت کی تشکیل کے لیے نہایت وسیع قسم کے جمہوری طریقے دریافت کیےگئے ہیں۔ مگر لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کے غلط استعمال کی وجہ سے جمہوریت عملاً ایک تماشا بن کر رہ گئی ہے۔

 ابھی حال میں(اپریل 1960ء) جنوبیکوریا کے الیکشن کے بعد اعلان کیا گیا کہ صدارت کے انتخاب میں ڈاکٹر سنگمن رہی (Syngman Rhee)کو90 فیصدی ووٹ ملے ہیں۔ مگر اعلان کے بعد جب عوام نے بغاوت کر دی اور ڈاکٹر رہی کو اپنا صدارتی محل چھوڑ کر بھاگنا پڑا تو معلوم ہوا کہ ’’90 فیصدی‘‘ کی حقیقت اعداد و شمار کے دھوکے کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ سماجی اصلاح کے لیے مستقل محکمے قائم ہیں اور اس کے لیے ایسے ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو انسانی آرزوئوں کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر عملاً یہ صرف ان لوگوں کے لیے لوٹ کھسوٹ کا ایک عنوان ہے جو اس کام پر مامور کیےگئے ہیں۔ آج عالمی اتحاد کے نہایت خوبصورت نظریےکتابوں میں لکھے ہوئے موجود ہیں اور آپس میں تعلق قائم کرنا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ آپ ٹیلی فون ریسیور اٹھا کر دنیا کے کسی بھی حصے کے آدمی سے بات کر سکتے ہیں اور ہوائی جہاز سے اڑ کر چند گھنٹے میں کہیں سے کہیں پہنچ سکتے ہیں۔ مگر انسان کے اپنے رویے کی وجہ سے یہ سارا سازوسامان ایک مصیبت ثابت ہو رہا ہے۔ آج سائنس کی بہترین کوششیں صرف ایسے آلات تیار کرنے میں لگی ہوئی ہیں جو دم بھر میں زندہ انسانوں اور آباد شہروں کو ختم کر دیں۔

ایک دوسرے کے خلاف شبہات کا یہ حال ہے کہ امریکہ کی اسٹریٹجک ایر کمانڈ کے تین ہزار ہوائی جہاز ہر وقت آسمان میں اڑتے رہتے ہیں تاکہ اپنے ملک کو اچانک حملے سے بچائیں۔ دوسری طرف روس کی سرحدوں پر ہزاروں آدمی نہایت قیمتی آلات اور دور بینیں لیے ہوئے رات دن یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ امریکہ کا کوئی جاسوس ہوائی جہاز ان کی سرحد کے اندر تو نہیں گھس آیا ہے۔

محّرک کی ضرورت

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی بہتری کے لیے آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ کوئی قانونی ڈھانچہ یا مادی سازو سامان نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، جو آدمی کے اندر یہ جذبہ ابھارے کہ وہ اپنی اندرونی تحریک سے صحیح کام کرنے پر مجبور ہو اور غلط سمت میں جانے سے بچے۔ یہ کام صرف مذہب کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چند سو برس پہلے بڑے جوش سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ زندگی گزارنے کے سلسلے میں انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں۔ مذہب حرام و حلال کے کچھ اصول دیتا ہے، وہ ہم اپنے قانون ساز ادارے کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔ مذہب دوسری دنیا کی سزا سے ڈراتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو، اس کے لیے ہمارا عدالتی نظام اور ہماری جیلیں کافی ہیں۔ مذہب یہ ترغیب دلاتا ہے کہ ہمارے حکموں کو مانو تو تمہاری اگلی زندگی خوش گوار ہوگی۔ اس کے لیے بھی ہم کو موت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی مادی ترقیوں کے ذریعہ ہم اسی دنیا کی زندگی کو جنت بنا سکتے ہیں۔ مگر یہ تمام امیدیں واقعات کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکی ہیں۔ اور اب انسان دوبارہ اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ لمبی مدت تک ٹھوکریں کھانے کے بعد اب انسان کی سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ صرف کاغذی نقشے اور مادی ذرائع و وسائل کافی نہیں ہیں۔ اس کے سوا ایک اور چیز ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ وہ ہے خود انسان کا اپنا جذبہ۔ اس کے اندر ایک ایسا ارادہ جو اصلاحات کی خارجی کوششوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تیار ہو۔ دوسرے لفظوں میں ایک ایسا محرک جو اندر سے آدمی کو عمل پر اکسائے، جو آدمی کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے پر مجبور کرے۔

 یہی اندرونی محرک تمام اصلاحات کی جان ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہو تو ساری ترقیوں کے باوجود آپس میں اس قدر چھین جھپٹ ہوگی کہ زندگی سکون سے محروم ہو جائے گی اور بہترین قسم کے معاشی منصوبے صرف ٹھیکیداروں اور انجینئروں کے لیے لوٹ کھسوٹ کا موقع ثابت ہوں گے۔

 مگر تمام نظریات میں صرف مذہب ہی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ آدمی کے اندر اس قسم کا اندرونی محرک پیدا کر سکے۔ انسانی قانون بدعنوانی سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کسی عدالت میں پیشی کا حوالہ دے سکتا ہے جس کے متعلق معلوم ہے کہ جھوٹے بیانات اور غلط شہادتوں کے ذریعہ بہت آسانی سے اس کو گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ مذہب قادر مطلق کی عدالت میں حاضر ہونے سے ڈراتا ہے جس سے بچنا کسی حال میں ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انسانی ساخت کا نظام کبھی بھی کوئی بہتر سوسائٹی تعمیر نہیں کر سکتا۔ یہ صرف مذہب ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ لینن نے مذہب کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے نزدیک آسمان پر جنت تعمیر کرنے سے زیادہ اہم کام زمین پر جنت تعمیر کرنا ہے۔‘‘ مگر تجربے نے ثابت کر دیا کہ زمین پر وہی لوگ جنت تعمیر کر سکتے ہیں جو آسمان پر جنت تعمیر کرنے کا مقصد اپنے سامنے رکھتے ہوں۔ اور جن کے پیش نظر آسمان پر جنت کی تعمیر نہ ہو وہ زمین و آسمان دونوں جگہ صرف دوزخ کی تعمیر کریں گے۔

مذہب کے بارے میں یہ تصور محض ایک ذہنی اپج یا خوش عقیدگی نہیں ہے بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔ پچھلی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ کروڑوں انسان اس امید میں نیکی کی راہ چلے ہیں کہ انہیں اس کا بدلہ آنے والی زندگی میں ملے گا۔ اور بے شمار لوگ محض اس خوف سے بدی سے بچتے رہے ہیں کہ کہیں ان کی بداعمالیاں انہیں عذاب دائمی کے حوالے نہ کر دیں۔ مگر مادی دور میں اس قسم کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ آج اگر کوئی انسان بھلائی کی راہ پر چلتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ بھی دراصل پرانے مذہبی تصورات ہی کا اثر ہے۔ ورنہ جہاں تک مادی تہذیب کا تعلق ہے وہ تو انسان کو خود غرض اور غیر ذمہ دار بنانے کے سوا اور کوئی صلاحیت نہیں رکھتی۔

 اس صورت حال نے تمام دنیا کے سنجیدہ انسانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ حقیقت لوگوں کی سمجھ میں آنے لگی ہے کہ اصل مسئلہ انسان کا ذہن بدلنا ہے، نہ کہ قانون اور معیار زندگی کو بدلنا۔ خود وہ ممالک جو مادیت کا گڑھ ہیں وہاں بھی ایسے لوگ اٹھ رہے ہیں جو بڑی شدت کے ساتھ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ملکوں سے جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں ان میں بار بار اس قسم کے فقرے دہرائے جارہے ہیں کہ’’اگر نوع انسانی اپنی خیریت چاہتی ہے تو اس کو لازماً کلچر کے ایک روحانی استحکام کی طرف پلٹنا ہوگا۔‘‘’’اب اخلاقی انضباط کا دوبارہ حصول اور روحانی نظام کی طرف واپسی انسانی بقاء کے لیے ناگزیر شرط کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔‘‘ آج ایک نئی روحانی شیرازہ بندی کی ضرورت ہے۔ جس کے ذریعہ اخلاق اور کلچر کے درمیان وہ مرکزی تعلق بحال ہو جائے جو انسانی ارتقا کی ہر سطح پر اور ہر دور میں موجود رہا ہے۔‘‘(کرسٹوفرڈاسن)۔

ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو اصل ضرورت کا احساس ہو چکا ہے مگر اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے عام طور پر جن عملی شکلوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ یا تو غلط ہیں یا ناقص ہیں۔

دیوار کی ضرورت

غلط شکل سے میری مراد وہ تجویزیں ہیں جو اس امید میں پیش کی جا رہی ہیں کہ محض اخلاقی اپیلوں کے ذریعہ آدمی کے ا ندر اس قسم کا احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علم بردار وہ لوگ ہیں جو مذہب میں عقیدہ نہیں رکھتے مگر اخلاق کی ضرورت بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ دریافت ہو جائے کہ مذہب کی دیوار سے مدد لیے بغیر اخلاق کی چھت کھڑی ہو جائے۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اسی گروہ کی ایک مثال ہیں۔

1956ء کا واقعہ ہے۔ میک گل یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد پروفیسر مائیکل بریچر نے ایک انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا۔’’کیا آپ مختصر طور پر مجھے بتائیں گے کہ آپ کے نزدیک اچھے سماج کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں۔‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا۔

’’میں کچھ معیاروں کا قائل ہوں، وہ ہر فرد اور ہر سماجی گروپ کے لیے ضروری ہیں اور اگر وہ معیار باقی نہ رہیں تو تمام مادی ترقی کے باوجود آپ کسی قابل قدر نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان معیاروں کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔ ایک تو مذہبی طریقہ ہے۔ لیکن یہ اپنے تمام رسوم و تقریبات کے ساتھ مجھے تنگ نظر آتا ہے۔ میں اخلاقی اور روحانی قدروں کو مذہب سے علیحدہ رکھ کر بڑی اہمیت دیتا ہوں۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ ان کو ماڈرن زندگی میں کس طرح قائم رکھا جا سکتا ہے۔‘‘

Nehru: A Political Biography, London, 1959, pp. 607-608

ان فقروں میں پنڈت نہرو نے اپنے طبقے کے لوگوں کی نہایت صحیح ترجمانی کی ہے۔ جو لوگ مذہب سے الگ رہ کر اخلاقی قدروں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی مشترک خصوصیت یہ ہے کہ وہ سب کے سب بے یقینی میں مبتلا ہیں۔ وہ خود اپنے مقدمے کی کمزوری تسلیم کرتے ہیں۔ وہ ایک چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ وہ انسانوں سے اسے کس طرح منوائیں۔ انہیں اپنے خیالات کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔

 کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شخص کوئی بدعنوانی کرتا ہے تو اس لیے کرتا ہے کہ اس میں اسے اپنی تمنائیں پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں وہ اس کو اپنی ترقی اور کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس میں اسے عزت اور دولت پانے کی توقع ہوتی ہے۔ پھر آخر کس لیے وہ اسے چھوڑ دے گا۔ کیا محض اس لیے کہ کچھ لوگ اسے اخلاق اور انسانیت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کیا محض کسی کے اپدیش کی خاطر کوئی شخص ایسا کر سکتا ہے کہ نفع کے بجائے نقصان کو اپنے لیے قبول کر لے۔

 حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ انسانیت(مانوتا) کے نام پر لوگوں کو اخلاقیات کا پابند بنانا چاہتے ہیں وہ ہوا میں عمارت کھڑی کر رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی عمارت کبھی وجود میں نہیں آ سکتی۔

ایک مثال لیجیے۔ ہندوستانی ریلوں پر ہر بیس مسافروں میں سے ایک آدمی بلاٹکٹ سفر کرتا ہے اور اس طرح مرکزی خزانے کو تقریباً پانچ کروڑ روپے سالانہ کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ اس وبا کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں بارہ ہزار سات سو اشخاص ملازم ہیں جن پر ہر سال دو کروڑ انیس لاکھ روپے صرف ہوتے ہیں۔ جب ہزاروں آدمیوں کا یہ عملہ اور سالانہ سوا دو کروڑ روپے کا خرچ بلاٹکٹ سفر کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا تو حکومت نے ایک اخلاقی تدبیر سوچی۔ حکومت کی طرف سے ایک خاص پوسٹر چھپوا کر تمام اسٹیشنوں پر لگا دیا گیا۔ جس پر لکھا ہوا تھا

Ticketless travel is a social evil.

 یعنی بے ٹکٹ سفر کرنا سماجی گناہ ہے۔ مگر اس کا حاصل اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کہ کرایہ وصول نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو جو کچھ نقصان ہو رہا تھا اس میں اس پروپیگنڈے کے اخراجات کا مزید اضافہ ہوگیا۔ اصل صورت حال بدستور اپنی جگہ باقی رہی۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نقطہ نظر بار بار کے تجربے میں قطعی طور پر ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس کے باوجود ساری دنیا میں اخلاق کی اسی خیالی بنیاد پر تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ آج جو منصوبے بن رہے ہیں، جو سیاسی اور سماجی ڈھانچے کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ وہ سب اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ افراد اور سرکاری عملہ اس کی تکمیل میں اپنا حصہ صحیح طور پر ادا کریں گے۔ اس کے بغیر کسی اسکیم کی کامیابی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر حالات پکار رہے ہیں کہ یہ امیدیں بالکل فرضی ہیں۔

اس کے لیے کالج کے طلبہ کی مثال کافی ہوگی۔ کالجوں میں جو لوگ پڑھتے ہیں ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ آج کے شہری اور کل کے سرکاری لوگ ہیں۔ ان کی زندگی میں ہم بیک وقت دونوں کردار دیکھ سکتے ہیں۔ ان طلبہ کو اخلاق اور تہذیب سکھانے کے لیے کروڑوں روپے صرف کیےجا رہے ہیں مگر ان کا حال یہ ہے کہ سال بھر کھیل کود میں گزارتے ہیں اور جب امتحان آتا ہے تو پرنسپل کو پستول دکھا کر پرچہ آئوٹ کر لیتے ہیں۔ ان کی آزادی بلکہ آوارگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ناچ گانے کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے اگر انہیں رعایتی پاس نہ ملے تو وہ اس قدر اودھم مچاتے ہیں کہ پولیس کو گولی چلانی پڑتی ہے اور سارے شہر میں کرفیو نافذ ہو جاتا ہے۔

کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کے بل پر ہمارے سیاسی لیڈروں نے بڑی بڑی اسکیمیں بنائی ہیں اور اس کے لیے اربوں روپے کے ٹیکس ملک کے اوپر لاد رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سماج اور موجودہ سرکاری مشنری دونوں کسی قومی ذمہ داری کو اٹھانے کے بالکل نااہل ہو چکے ہیں۔ سڑکوں پر سے مین ہول کے ڈھکن کا غائب ہو جانا سماج کی طرف سے اس بات کا انتہائی اعلان ہے کہ وہ آپ کی کسی اسکیم کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سرکاری عملہ کے اندر رشوت اور ناکردگی کی بڑھتی ہوئی وبا صاف بتا رہی ہے کہ جن ہاتھوں سے کام لیا جانے والا ہے وہ ہاتھ مفلوج ہو چکے ہیں۔ آج کے انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف اس چیز کو مانتا ہے جس کی صداقت تجربے سے ثابت ہوگئی ہو۔ مگر یہی انسان ایک ایسے عمل پر اب تک اصرار کیےچلا جا رہا ہے جس کو تجربہ رد کر چکا ہے اور جس کے حق میں نظری استد لال تو کبھی موجود ہی نہیں تھا۔

عیسائیت

دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کی امیدوں کا مرکز مذہبی تعلیمات ہیں ان میں ایک تو عیسائیت کو ماننے والے ہیں جو بڑے زور شور کے ساتھ اپنے مذہب کو ان مسائل کے حل کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں عیسائی مصنفین کی اچھی خاصی تعداد نے اسی قسم کے مضامین لکھنے کو اپنا مستقل موضوع بنا لیا ہے۔ ان میں بعض چوٹی کے مفکرین بھی شامل ہیں۔ اس مقصد کے لیے اجتماعی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ مثلاً سوئزر لینڈ سے ایک تحریک اٹھی ہے جس کا نام ہے اخلاقی اسلحہ بلندی(moral re-armament)۔ اس کے بانی ڈاکٹر فرینک بک مین ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا پرستی کے تحت اخلاقی قدروں کو رواج دیا جائے اور لوگوں کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی پیدا کی جائے۔ خاص طور پر ایمانداری، پاکیزگی، بے غرضی، باہمی خیر خواہی اور محبت کو پھیلایا جائے۔ اسی طرح امریکہ میں خاص اسی مقصد کے لیے ایک ادارہ (Research Centre in Creative Altruism)کے نام سے 1949ء سے قائم ہے جس کو ایک پبلک فنڈ سے پندرہ ہزار ڈالر سالانہ کی امداد ملتی ہے۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر پروفیسر سوروکن(Sorokin) ہیں۔1941ء میں انہوں نے پہلی بار اپنے تحقیق و مطالعہ کے نتائج پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت سب سے اہم کام انسان کے اندرون یا اس کے نفس کی اصلاح ہے۔ جس پر تمام تر خود غرضی کا تسلط ہوگیا ہے۔ اور یہ ضروری ہے کہ اس کے برعکس، اس میں بے لوث محبت کے اس جذبے کو پیدا کیا جائے اور ابھارا جائے جو آفاقی ہو۔ فرد کی اصلاح کے بغیر جو انقلاب بھی لایا جائے گا وہ بالکل سطحی ہوگا اور ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ موجودہ حالات کا علاج تجویز کرتے ہوئے وہ اپنی کتاب (Crisis of our Age)میں لکھتے ہیں

’’انسان کی پوری ذہنیت اور اس کے جملہ رحجانات میں اس تبدیلی کی ضرورت ہے جس کا رخ ان اصولوں کی طرف ہو جس کو پہاڑی کے وعظمیں پیش کیا گیا تھا۔ جب اس قسم کی تبدیلی ایک خاص حد تک ہو چکی ہوگی، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ اس نہج پر سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں بآسانی تبدیلی ہو سکے۔ لیکن اس تبدیلی کے بغیر کتنی ہی سیاسی اور اقتصادی بہتری اور میکانکی نوعیت کی تعمیر کیوں نہ کی جائے اس سے خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔‘‘پہاڑی کا وعظ حضرت مسیح علیہ السلام کی ایک خاص تقریر ہے جو انجیل کی پہلی کتاب میں پانچویں، چھٹے اور ساتویں باب میں درج ہے۔ اس میں نہایت موثر انداز میں خدا پرستی اور اعلیٰ اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے۔ راست بازی رحم دلی، باہم صلح کرانا، صبر کرنا، حق کی روشنی پھیلانا، ناحق خون نہ کرنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، لوگوں کے حقوق ادا کرنا، عورت کی عصمت پرحملہ نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، زیادتی کا جواب نرمی سے دینا، ریا و نمائش سے بچنا، مال کی حرص نہ کرنا، اور عیب جوئی سے بچنا یہ اس کے چند خاص اجزاء ہیں۔

(پہاڑی کا وعظ حضرت مسیح علیہ السلام کی ایک خاص تقریر ہے جو انجیل کی پہلی کتاب میں پانچویں، چھٹے اور ساتویں باب میں درج ہے۔ اس میں نہایت موثر انداز میں خدا پرستی اور اعلیٰ اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے۔ راست بازی رحم دلی، باہم صلح کرانا، صبر کرنا، حق کی روشنی پھیلانا، ناحق خون نہ کرنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، لوگوں کے حقوق ادا کرنا، عورت کی عصمت پرحملہ نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، زیادتی کا جواب نرمی سے دینا، ریا و نمائش سے بچنا، مال کی حرص نہ کرنا، اور عیب جوئی سے بچنا یہ اس کے چند خاص اجزاء ہیں)۔

ہندو ازم

اس قسم کے مذہبی لوگوں میں دوسرا قابل ذکر گروہ جدید ہندو مفکرین کا ہے۔ سی راج گوپال اچاریہ نے خاص اسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے

Hinduism: Doctrine and way of Life

اس کتاب میں انہوں نے دکھایا ہے کہ آج کی دنیاکچھ روحانی تہذیبی بنیادوں کی طالب ہے اور وہ اخلاق اور کلچر جس کی جڑیں ویدانت میں اتری ہوئی ہیں، بلاشبہ اس ضرورت کو پوری کر سکتا ہے۔‘‘ صنعتی انقلاب نے جو مسائل پیدا کیےہیں، عمل اور اخلاقی قدروں کے درمیان آج جو علیحدگی نظر آتی ہے، سوسائٹی کے خود غرض عناصر جس طرح قانون کے ذریعہ استحصال کی کوشش کر رہے ہیں اور سیاسی معاشی میدانوں میں اس کو ناجائز کامیابی کے لیے استعمال کرتے ہیں، متضاد مقاصد کے درمیان انسانی طاقت جس بری طرح ضائع ہو رہی ہے، ان تمام خرابیوں کا ذکر کرنے کے بعد وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا دنیا کو ایک ایسا مذہب پیش کیا جا سکتا ہے جو سائنس کا مخالف نہ ہو اور عملی زندگی اور ریاستی معاملات کو حق پرستی کی بنیاد پر تعمیر کر سکے۔ اور اس کے بعد خود ہی کہتے ہیں کہ ویدانت اس سوال کا جواب ہے(Vedanta is the answer) ۔ ’’واضح لفظوں میں‘‘ وہ لکھتے ہیں’’دعویٰ یہ ہے کہ ایک اخلاقی کوڈ اور اقدار کا ایک نظام ہندو مفکرین نے مذہبی فلسفے سےتیار کیا ہے جس کو ویدانت کہا جاتا ہے جو نہ صرف یہ کہ سائنس کے مطاق ہے بلکہ ایک بہتر اور مستحکم سماجی تنظیم کی نہایت عمدہ اور موزوں بنیاد بن سکتا ہے جس کی تمام دنیا کے بہترین لوگ تمنا رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

ہندو ازم موجودہ ترقی یافتہ سماج کی ضرورتوں کو کس طرح پورا کر سکتا ہے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں

بھگوت گیتا میں یہ بات نہایت واضح طریقے پر بیان کر دی گئی ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل اور سماجی ذمہ داریوں کو اپنی حیثیت کے مطابق انجام دے، نہ کہ منافع کی غرض سے، ہم کو اب سماجی اور اقتصادی مصلحین بتا رہے ہیں کہ اسٹیٹ اس بات کی نگرانی کرے گی کہ مرد اور عورت محض اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کام نہ کریں۔ بلکہ اجتماعی مفاد کو بھی سامنے رکھیں۔ اور یہ بالکل وہی بات ہے جو بھگوت گیتا میں کہی گئی ہے— اس میں نہایت واضح طریقے پر بار بار بتایا گیا ہے کہ تمام کام دیانت داری اور بے غرضی کے ساتھ اجتماعی بہبود(لوک سنگرہ)کے لیے کیا جائے نہ کہ شخصی تمنائوں کی تسکین کے لیے۔ درحقیقت گیتا نے تمام سوشلسٹ اصولوں کو نہایت عمدہ طریقے پر پیش کر دیا ہے۔ (صفحات22-23)

دونوں مذاہب پر تبصرہ

 عیسائیت اور ہندو ازم کی طرف سے جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کو میں بالکل بے بنیاد نہیں کہتا۔ مگر یقینی طور پر میں اس کو نہایت ناقص حل سمجھتا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ انجیل اور وید میں اخلاق کے اعلیٰ اصول لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ مگر انسان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ محض اخلاقیات کی ایک فہرست نہیں ہے۔ اس قسم کی فہرست کا علم انسان کو بہت پہلے سے ہے اور اس سلسلے میں شاید ہم انسانی معلومات میں کوئی خاص اضافہ نہیں کر سکتے۔ آج انسان کو دراصل ایک ایسے محرک کی ضرورت ہے جو ان معلوم اخلاقیات پر عمل کرنے کے لیے ابھارتا ہو۔ وہ اس کے اندر ایسا مضبوط داعیہ پیدا کرے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے اس کو وہ کرنے لگے اور اس لحاظ سے دونوں مذاہب تقریباً خالی ہیں۔

مگر یہ خالی ہونا اس نوعیت کا نہیں ہے جیسا کہ اوپر ہم نے ’’اخلاق کے نام پر اخلاق‘‘ پیدا کرنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ یہ مذاہب جس طرح اخلاق کے کچھ اصول بتاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی تعلیمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو ان پر عمل نہیں کریگا۔ وہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر ایک برے انجام سے دو چار ہوگا۔ دونوں مذہبوں میں زندگی بعد موت کا تصور موجود ہے اور دونوں مرنے کے بعد کسی نہ کسی شکل میں اچھے یا برے انجام کی خبر دیتے ہیں۔ یہی دراصل وہ چیز ہے جو آدمی کو بدعنوانیوں سے روکنے والی ہے۔ یہ تصور وہاں بھی آدمی کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے جہاں کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا۔ اس طرح ان مذاہب میں وہ قدر بنیادی طور پر موجود ہے جس کو اوپر ہم نے محرک عمل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا ایک کُھلا ہوا ثبوت خود ان مذاہب کی تاریخ میں موجود ہے۔ سابق دور میں ان مذاہب کی بنیاد پر جو سوسائٹی بنی تھی وہ اخلاقی اعتبار سے صریح طور پر موجودہ مادہ پرست سوسائٹی سے بہتر تھی۔ مگر ان مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے مذاہب کو صحیح شکل میں محفوظ نہیں رکھا اور ان کی تعلیمات اب جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں وہ اس قدر ناقص اور الجھی ہوئی ہیں کہ کسی وسیع اور پائیدار اصلاح کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔

عیسائیت کا حال یہ ہے کہ جس انجیل میں پہاڑی کا وعظ ہے اسی میں مسیحی مذہب کا یہ عقیدہ بھی درج ہے کہ نجات کے لیے کسی عمل کی ضرورت نہیں۔ صرف یسوع مسیح پر ایمان لانا کافی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ہے۔ کیونکہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہوگئے۔ اس لیے خدا نے اپنے بیٹے کو دنیا میں بھیجا اور اس کو سولی پر چڑھا کر’’اس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا‘‘ جس کو مان کر دوسرے لوگ اپنے گناہ بخشوا لیں۔ اب نجات کے لیے عمل کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف ’’خدا کے بیٹے ‘‘کی اس حیثیت کو تسلیم کرنا کافی ہے۔ کیونکہ’’انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راست باز ٹھہرتا ہے۔‘‘ (نیا عہدنامہ، اعمال،باب3) ایسی حالت میں کوئی شخص آخر کس لیے عمل کے جھنجھٹ میں پڑے گا۔ کفارہ عقیدہ تسلیم کرنے کے بعد وہ کون سا محرک ہے جو آدمی کو نیکی کے لیے ابھارے اور برائی سے روکنے پر مجبور کرے۔

 انجیل کا یہ تضاد ہمارے نزدیک سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیم کا تضاد نہیں ہے۔ مگر آج عیسائیت کے نام سے جو چیز موجود ہے وہ قطعی طور پر یہی ہے۔ آں جناب نے تو مذہب کو اس کی صحیح ترین شکل میں پیش کیا تھا۔ مگر آپ کے ماننے والے آپ کی تعلیمات کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ دوسروں کی تشریح و تعبیر میں شامل ہو کر اصل حقیقت گم ہوگئی۔ انجیل کو دیکھیے تو ایک طرف اس میں بہترین موثر انداز میں آخرت کا ذکر اور اعلیٰ اخلاقیات کی تعلیم ملے گی۔ جس کو پڑھ کر آدمی کی روح بیدار ہوتی ہے اور اس کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے مگر اس کے بعد جب وہ اگلے صفحات میں سینٹ پال کا فلسفہ پڑھتا ہے تو اس کو یہ تمام چیزیں بےضرورت معلوم ہونے لگتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کفارہ کے عقیدے نے عیسائی مذہب میں عمل کی بنیاد کو اسی طرح کمزور کر دیا ہے جیسے کسی ملک کے دستور میں یہ لکھ دیا جائے کہ اگرچہ یہاں پولیس اور عدالت کا نظام قائم رہے گا مگر کسی کو اس کی غلط روی پر سزا نہیں دی جائے گی۔ کیونکہ آدمی پاک باز رہنے پر قادر نہیں ہے۔

ہندو مذہب کا معاملہ بھی تقریباً یہی ہے۔ بظاہر وہ صرف اخلاقی اپیل نہیں کرتا بلکہ سزا اور انعام کا بھی ایک نظریہ اپنے پاس رکھتا ہے، جس کو’’کرم‘‘ کہتے ہیں، یعنی اپنے کیےکا پھل پانا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ نظریہ بھی اپنی ابتدائی شکل میں ایک صحیح نظریہ ہوگا۔ مگر اب تو وہ نہایت ناقص صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ہندو مذہب پر فلسفہ کا جو لمبا دور گزرا ہے۔ غالباً اس زمانے میں لوگوں کی ذہنی موشگافیوں نے اس کی ہئیت بدل دی۔ اور ایک صحیح چیز نے غلط شکل اختیار کر لی۔ اب یہ نظریہ جس صورت میں ہمارے سامنے ہے اس کو آواگون یا پُنر جنم کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جیسا عمل کرتا ہے اسی کے لحاظ سے وہ اگلے جنموں میں اچھے یا برے جسم میں پیدا ہوتا ہے اور پیدائش کا یہ چکر برابر چلتا رہتا ہے۔ اس عقیدے کی رو سے آج جو وجود انسان، حیوان، پرند، درخت، سبزی گھاس یا کیڑے مکوڑے کی شکل میں نظر آ رہا ہے وہ سب پچھلے اعمال کے نتیجے میں ہے۔ پنر جنم کا یہ نظریہ معمولی اختلاف کے ساتھ ہندو مذہب کی تمام شاخوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔

 اس نظریے کے اوپر بھی ہماری تنقید وہی ہے جو عیسائیت کے سلسلے میں ہم لکھ چکے ہیں۔ یعنی اس کے اندر جو محرک ہے وہ نہایت ناقص اور محدود ہے۔ وہ آدمی کے اندر کوئی ایسا زوردار داعیہ پیدا نہیں کرتا جس کی رغبت سے وہ اچھائی کی طرف لپکے اور جس کا ڈر اسے برائیوں سے روکنے پر مجبور کرے۔ فرض کیجیے ایک کلرک کو ایک غلط کام کے لیے پچاس ہزار روپیے رشوت میں مل رہے ہیں۔ کیا صرف اس لیے وہ ملتے ہوئے فائدے کو چھوڑ دے گا کہ مرنے کے بعد جب اس کا دوسرا جنم ہوگا تو اس میں وہ مچھر مکھی ہو جائے گا یا آم اور ببول کی شکل میں پیدا ہوگا۔ اینٹی کرپشن قانون کے تحت ملنے والی سزا کا خوف اگر اس کو اس عمل سے نہیں روکتا تو اگلے جنم میں کیڑا مکوڑا یا درخت بن جانے میں وہ کون سی ہولناکی ہے جو آدمی کو لرزا دے اور اس کو جرم سے باز رکھے۔ اس نظریے کے مطابق وحشیانہ جرائم کی ایک بہت بڑی سزا جو منوسمرتی میں بتائی گئی ہے وہ یہ کہ ایسا آدمی دوسرے جنم میں چنڈال کے گھر میں پیدا ہوگا۔ چنڈال سے مراد پاسی، ملاح، دھوبی، ڈوم، چمار وغیرہ ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں ان قوموں کی یہ حالت رہی ہو۔ مگر اب تو ان کا لقب ہریجن(خدا والے) ہے۔ ان کو وقت کے دستور میں دوسرے انسانوں کے برابر درجہ حاصل ہے۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بنگلوں اور کاروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ حتیٰ کے ایک اچھوت لیڈر اگر الیکشن میں جیت جائے تو وہ وزارت کا عہدہ حاصل کرکے برہمن آبادی کے اوپر حکومت کرتا ہے اوران کے لیے قانون بناتا ہے۔ آخر اس طرح کے انجام میں وہ کون سا بھیانک پن ہے جو کسی کو جرم سے روکنے کا سبب بن سکے۔

 اور بالفرض اگر اس سزا کی کوئی ایسی تعبیر کی جائے جس میں وہ بھیانک نظر آنے لگے تو اس کے بعد بھی اس کے اندر ایک ایسا خلا باقی رہتا ہے جو آدمی کے جذبات کو سرد کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر آپ ایک تباہ حال آدمی کو لیں اور اس سے پوچھیں کہ تم نے اپنے پچھلے جنم میں کیا کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ انجام بھگت رہے ہو تو وہ کچھ نہ بتا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم اس سے پہلے دنیا میں آئے بھی تھے یا نہیں۔ پنر جنم کے عقیدے کے مطابق انسان کو اس کے عمل کا بدلہ دینے کا معاملہ بالکل بے خبری میں انجام پاتا ہے اور یہ بے خبری پنر جنم کی تمام شکلوں میں موجود ہوتی ہے۔ جن احساسات رکھنے والے ایک وجود نے اپنی زندگی میں ایک کام کیا تھا۔ اس کو جب اپنے اس عمل کا انجام ملتا ہے تو وہ اپنے پچھلے وجود کو بھول چکا ہوتا ہے۔ کیا ایسے ایک واقعہ کو سزا کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے بے ہوشی کا انجکشن دے کر کسی کی چیر پھاڑ کی جائے۔ بلکہ زیادہ ٹھیٹ لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے آج کے عمل کا بدلہ کل دوسرے شخص کو ملے گا اور میری آج کی بداعمالیوں کی سزا کل کسی اور کو بھگتنی پڑے گی۔ مرنے کے بعد جب میں اپنے موجودہ شعور اور موجودہ احساسات کے ساتھ ختم ہو جائوں گا تو اس کے بعد کی پیدائش کو میری پیدائش کیوں کہا جائے۔ پھر جس عمل کا انجام میرے بعد دوسرے انسان کو ملنے والا ہے اس کے لیے آخر میں کیوں کوشش کروں اور جس بدعملی کی سزا دوسرے وجود کو بھگتنی ہے اس سے میں کیوں ڈروں، پُنر جنم میں روح کے قالب بدلنے کو جس شکل میں پیش کیا گیا ہے ممکن ہے اس کو منطقی استدلال اور فلسفیانہ بحثوں کے ذریعے ایک انسان کا مختلف جنم قرار دیا جا سکے مگر قطعی طور پر یہ ایک لفظی استدلال ہوگا۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ بات بالکل ناقابل فہم ہے کہ اس طرح کے مختلف جنموں کو ایک انسان کا جنم کس بنا پر کہا جاتا ہے۔

 اسی طرح اس نظریے کے اندر انسانی کامیابی کا جو تصور دیا گیا ہے اس میں بھی ہمارے لیے کوئی کشش نہیں ہو سکتی۔ پنر جنم کے مطابق انسان کی کامیابی یہ ہے کہ اس کی روح مختلف قالبوں میں پیدا ہو کر ارتقا کرتی رہے یہاں تک کہ بالآخر خدا یا پرماتما کے وجود میں گم ہو جائے جس کو نجات یانروان کہا جاتا ہے۔ یہاں مجھے اس نظریے کے علمی اور فلسفیانہ پہلوئوں سے بحث نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس طرح کے ایک نظریے میں وہ کون سی کشش ہے جس کے لیے آدمی دنیا کے دکھ جھیلے اور زندگی بھر خواہ مخواہ ذمہ داریاں پوری کرنے اور حقوق ادا کرنے کا کھڑاگ اپنے سر مول لے۔ اس کامیابی میں انسان کو کیا ملا۔ اس کو زیادہ سے زیادہ پرماتما کی اپنی تکمیل کہا جا سکتا ہے، نہ کہ کسی انسان کا ارتقا۔ پھر جس عمل کا فائدہ تمام تر دوسرے کو ملنے والا ہو اس میں آدمی کیوں محنت کرے۔ ممکن ہے کچھ مخصوص قسم کے فلسفیانہ ذوق رکھنے والے لوگوں کو اس طرح کے نامعلوم ارتقا سے دلچسپی ہو۔ مگر عام انسان جن جذبات اور جن تمنائوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے اس میں کوئی کشش نہیں ہو سکتی اور صرف یہ واقعہ فلسفہ نروان کے خلاف فطرت اور خلاف واقعہ ہونے کا کافی ثبوت ہے۔

اسلام

اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے کون سا دھرم سب سے بہتر ہے۔ اس کا جواب اسلام کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ تمام خصوصیات اس کے اندر مکمل ترین شکل میں موجود ہیں جو ایسے ایک دھرم میں ہونا ضروری ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کی طرف سے میں کسی ایسی چیز کا انکشاف کرنے والا ہوں جس کی بقیہ دنیا کو اب تک خبر نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی یہ حیثیت اپنے اصول کے نئے پن کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ جو کچھ دوسروں کے پاس بگڑی ہوئی شکل میں ہے وہ اس کو صحیح اور بے آمیز شکل میں پیش کرتا ہے۔ خدا اور آخرت کا تصور جو دوسرے مذاہب میں موجود ہے، یہی اسلام کے حل کی اصل بنیاد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے مذاہب میں یہ حقیقت صدیوں کے گردوغبار میں چھپ گئی تھی اور اسلام نے اس کو تمام ملاوٹوں سے صاف کرکے خالص شکل میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کی طرف دنیا کو ہم جو بلا رہے ہیں اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ اسلام کوئی نئی اور انوکھی چیز ہے جو ابھی تک کسی کو معلوم نہیں تھی۔ بلکہ یہ وہی ابدی حقیقت ہے جو ہمیشہ سے انسانوں کے پاس موجود رہی ہے۔ چونکہ لوگوں نے اپنی غفلت سے اس کو مٹا دیا تھا یا اسے بدل ڈالا تھا اس لیے خدا نے اپنے آخری رسولؐ کے ذریعہ اس کو دوبارہ اپنی صحیح اور مکمل صورت میں ہمارے پاس بھیجا ہے۔

 انسان کو اپنی زندگی کی تنظیم کے سلسلے میں بہت سی چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ اس کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہے، اس کے لیے ایک معاشی اور سیاسی ڈھانچے کی ضرورت ہے، اس کو شادی بیاہ کے ایک متعین طریقے کی ضرورت ہے۔ لباس، کھانا، پینا، اُٹھنا، بیٹھنا، ہر چیز میں اس کے لیے کچھ آداب و قواعد کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی اس کی ایک ضرورت ہے کہ اس کا ایک سماجی تہوار ہو جس میں لوگ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوں اور اپنی جائز تمنائیں پوری کریں۔ اس طرح کی اور بہت سی چھوٹی بڑی چیزیں ہیں جو زندگی گزارنے کے لیے لازمی ہیں اور ان کے متعلق بہرحال انسان کو ایک متعین شکل بتانا ضروری ہے۔

بلاشبہ یہ سب کچھ اسلام کے اندر موجود ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی ہے کہ اسلام کی بتائی ہوئی شکل دوسری مروجہ شکلوں کے مقابلے میں کس طرح زیادہ جامع اور زیادہ مفید ہے۔ مگر یہاں مجھے ان تمام پہلوئوں پر بحث نہیں کرنی ہے۔ جیسا کہ پچھلی گفتگو سے واضح ہو چکا ہے۔ زندگی میں ان چیزوں کی ضرورت زیادہ تر عملی پہلو سے ہے، نہ کہ حل مسئلہ کے پہلو سے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ایک تفصیلی ڈھانچے کا موجود ہونا بذات خود زندگی کو بہتر نہیں بناتا۔ یہ سب چیزیں اگرچہ زندگی کے لیے ضروری ہیں مگر ان کی حیثیت روح کے ساتھ جسم کی سی ہے۔ روح کے ظاہر ہونے کے لیے ایک جسم کا ہونا ضروری ہے۔ مگر کسی انسانی وجود میں اصل چیز اس کی روح ہوتی ہے، نہ کہ جسم۔ اگر یہ روح نہ ہو تو جسم خواہ کتنی ہی مکمل حالت میں موجود ہو ہم اس سے انسان کا کام نہیں لے سکتے۔ اسی طرح بہتر زندگی کی تعمیر کے سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ انسان کی اپنی اصلاح ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو زندگی کی پوری اسکیم میں فیصلہ کن عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ موجود ہو تو دوسری تمام چیزیں ٹھیک ٹھیک کام کریں گی اور اگر یہ نہ ہو تو کوئی بھی خارجی نقشہ ہمارے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔

زندگی کے اس اہم ترین سوال کا جوب اسلام کے اندر انتہائی مکمل اور صحیح شکل میں موجود ہے۔ اسلام سب سے پہلے یہ بتاتا ہے کہ یہ کائنات کوئی الل ٹپ جگہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خدا ہے جو اپنی زبردست طاقت کے ذریعہ پوری دنیا پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اس طرح وہ انسان کے اندر ایک ایسی طاقت کا عقیدہ پیدا کرتا ہے جس کی پکڑ سے انسان اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا۔ اور نہ اس سے بھاگ کر کہیں جا سکتا۔ وہ زندگی کے بارے میں یہ تصور دیتا ہے کہ وہ دو مرحلوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اور موجودہ مرحلہ اگلے مرحلے کی تیاری کے لیے ہے۔ ہم آج جو کچھ کریں گے اس کا اچھایا یا برا بدلہ اگلی زندگی میں پائیں گے۔ اس طرح آدمی کے اندر آئندہ زندگی میں کامیاب بننے کی طلب پیدا ہوتی ہے اور دنیا کی حرص جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے اس کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ جب ٹرین سامنے کھڑی ہو تو کوئی شخص پلیٹ فارم کی بنچ پر جگہ حاصل کرنے کے لیے جھگڑا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جو شخص دنیا کی بے ثباتی اور اگلی زندگی کی اہمیت کو سمجھ جائے اس کے لیے ناممکن ہے کہ دنیوی منافع کے لیے لوگوں سے چھین جھپٹ کرے۔ آج چمبل کی وادی (ضلع آگرہ) میں25 ہزار پولیس گھیرا ڈالے پڑی ہے مگر ڈاکوئوں کا گروہ اس کے قابو میں نہیں آتا۔ اسلام فرشتوں کی ایک ایسی پولیس کا تصور دیتا ہے جو ہر انسان کے دونوں کندھوں پر بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے تمام اعمال کا ریکارڈ تیار کر رہی ہے۔ جو مرنے کے بعد خدا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ یہ خیال آدمی کو اپنے تمام کھلے اور چھپے معاملات میں چوکنا کر دیتا ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ مستقل طور پر ایسی پولیس کے پہرے میں ہے جس سے پیچھا چھڑانے کی کوئی سبیل نہیں۔

دوسری دنیا کے بارے میں اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ وہاں جنت اور جہنم ہے۔ جنت انتہائی عیش کی جگہ ہے اور جہنم بدترین عذاب کا مقام۔ وہ تمام لذیذ اور بہترین چیزیں جن کی انسان تمنا کر سکتا ہے اسلام ایک ایک کا نام لے کر بتاتا ہے کہ وہ نہایت اعلیٰ شکل میں جنت میں موجود ہوں گی۔ اور سخت ترین عذاب کی تمام صورتیں جن سے انسان آشنا ہے، ان کے متعلق بتاتا ہے کہ وہ جہنم میں جانے والے شخص کو بھگتنا پڑیں گی۔ ہر وہ انسان جو پیدا ہوا ہے اس کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ان میں سے کسی ایک میں رہنا ہے۔ یہ چیز آدمی کو بے قرار کر دیتی ہے اور وہ اپنے ایک ایک لمحے کو فضولیات سے بچا کر صحیح ترین کام میں لگانا شروع کر دیتا ہے۔ پھر اسلام یہ بتاتا ہے کہ جس خدا کی عدالت میں تمہارا معاملہ جانے والا ہے اس پر نہ کسی کا زور ہے اور نہ کوئی سفارش وہاں سنی جانے والی ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حضور اپنی زبان کھول سکے۔ یہ چیز اس کو بتاتی ہے کہ جھوٹے سہاروں پر تکیہ کرنا چھوڑ دے۔ اور صرف خدا سے اپنا تمام تعلق قائم کرے۔ پھر یہ کہ یہ سب کچھ اس طرح پیش آئے گا کہ ہم اپنے موجودہ احساسات کے ساتھ اپنی زندگی کا شعور رکھتے ہوں گے۔ اپنی پچھلی زندگی ہر شخص کو اچھی طرح یاد ہوگی بلکہ اس کے سامنے ہوگی۔ موت اس کے لیے محض نیند کی طرح کا ایک درمیانی وقفہ ہوگا اور وہ دوسری زندگی کو اسی طرح اپنی زندگی سمجھے گا جس طرح سو کر اٹھنے والا کوئی شخص سمجھتا ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو اسی طرح پہچانے گا جس طرح وہ آج پہچانتا ہے۔ غرض آج ہمارا جو وجود ہے، اسی وجودکے ساتھ ہم اپنی جزا یا سزا پائیں گے۔

اس طرح اسلام کا آخرت کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو آدمی کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ اس نظریے میں اس بات کی مکمل صلاحیت ہے کہ وہ سماج کی ضرورت کے مطابق نہایت فرض شناس اور دیانت دار شہری پیدا کرے اگر اس نظریے کو کسی آبادی میں وسیع پیمانے پر پھیلا یا جائے اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کو اچھی طرح بٹھا دیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ حساس اور ذمے دار بن جائینگے۔ جب ایک شخص کو منتخب کرکے کسی کام پر لگا دیا جائے گا تو وہ اس احساس کے تحت اپنی ڈیوٹی کو ٹھیک ٹھیک انجام دے گا کہ اس کا جواب اسے مالک کائنات کو دینا ہے جو اس کی تمام سرگرمیوں سے باخبر ہے، جس کی نگاہ سے اس کا کوئی چھوٹا یا بڑا کارنامہ چھپ نہیں سکتا۔

 مدینے کے ایک باشندے ابو مسعود انصاری کا واقعہ ہے، وہ اپنے غلام کو مار رہے تھے، اتنے میں انہوں نے پیچھے سے ایک آواز سنی— اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، ‌لَلهُ ‌أَقْدَرُ ‌عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ (ابو مسعود! یاد رکھو اس غلام کے اوپر تم کو جتنا اختیار ہے تمہاراخدا اس سے زیادہ تمہارے اوپر اختیار رکھتا ہے) دیکھا تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یہ فقرہ سنتے ہی ان کا حال بدل گیا۔ انہوں نے فوراً اپنا ہاتھ روک لیا اور بولے کہ اے خدا کے رسول! میں اس غلام کو خدا کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں پکڑ لیتی۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1659) اس طرح اسلام ایک ایسا نظریہ عطا کرتا ہے جس کے ذریعہ آپ کسی بھی شخص کو کسی بھی مقام پر ٹوک سکتے ہیں اور وہ خود اپنے فائدے کی خاطر مجبور ہوگا کہ اس کی تنبیہ پر غور کرے۔ جبکہ موجودہ نظام میں کسی کو بدعنوانی سے روکنے کے لیے صرف پولیس کے دفتر میں اس کی رپورٹ درج کرائی جا سکتی ہے، ایک ایسا دفتر جو رشوت لے کر اپنا ریکارڈ جلا سکتا ہے۔ اور اگر عدالت میں بھی جانا ہوا تو ملزم کو خوب معلوم ہے کہ ایک قابل وکیل کو فیس ادا کرنے کی صلاحیت ہونا کسی بھی مقدمے کو جیتنے کی کافی ضمانت ہے۔

غلط فہمی کا ازالہ

اوپر کی سطروں میں میں نے اسلام کے تصور زندگی کو اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ آج ہم جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، ان کو وہ کس طرح حل کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہی اس کی کل حیثیت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کوئی فرضی نظریہ نہیں ہے جو مسائل پیش آنے کے بعد ضرورت کے طور گھڑ لیا گیا ہو۔ حل مسائل کی غرض سے ہم دنیا کو کوئی فلسفیانہ فریب نہیں دے رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سوال کہ ’’زندگی کے مسائل کا حل کیا ہے۔‘‘ یہ بذات خود کوئی الگ سوال نہیں۔ بلکہ وہ اس بڑے سوال کا جزء ہے کہ     ’’زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے۔‘‘ حقیقت سے مطابق ہونے ہی کا دوسرا نام مسائل کا حل ہونا ہے۔ جس نظام فکر کو اپنانے سے زندگی کے مسائل حل ہو جائیں، یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہی نظام فکر کائنات کی اصل حقیقت ہے اور کسی نظام فکر کا اصل حقیقت ہونا خود بخود یہ معنی رکھتا ہے کہ اس سے انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

خاتمہ

اس وقت میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا مقصد ذہنی طور پر آپ کو اس مقام تک پہنچانا ہے جہاں سے آپ اپنی منزل کو دیکھ سکیں۔ اور ان سوالات کا جواب پالیں جو آپ کو اور ساری انسانیت کو گھیرے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کو میری بات لازماً صحیح نظر آنی چاہیے۔ میں آپ کو اختلاف کا حق دیتا ہوں۔ مگر یاد رکھیے کہ جب کسی معاملے میں آدمی کو اپنی رائے مختلف نظر آتی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ اس کی حقیقی رائے ہو۔ اکثر رائیں محض آدمی کے موروثی جذبات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ آدمی کہتا ہے کہ ’’میرا خیال یہ ہے‘‘۔ حالانکہ وہ دراصل ماحول کا خیال ہوتا ہے جس کو وہ اپنا سمجھ کر دہرا دیتا ہے۔ عقیدے، رائیں اور تعلقات بیشتر حالات میں تاریخ اور ماحول کے اثر سے بنتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جنہوں نے فی الواقع اپنے خاندان اور اپنے گردوپیش سے اوپر اٹھ کر خالص عقلی غور و فکر کے نتیجے میں کوئی عقیدہ اپنایا ہو، کوئی رائے قائم کی ہو یا کسی سے اپنے تعلقات جوڑے ہوں۔ اس لیے آج آپ جس عقیدے کو اپنا عقیدہ اور جس طریق زندگی کو اپنا طریق زندگی کہتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ واقعہ بھی ایسا ہی ہو۔ بہت ممکن ہے کہ ایک مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے یہ چیزیں آپ کے ساتھ چمٹ گئی ہوں میں آپ کو یہی معلوم کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ آپ سوچیے کہ آپ نے جس عقیدے کو اپنا رکھا ہے وہ فی الواقع آپ کی سوچی سمجھی راہ ہے یا محض باپ دادا کی پیروی میں آپ بے سوچے سمجھے اس پر چلے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ان دونوں کے فرق کو سامنے رکھیں گے اور وراثتی جذبات اور ماحول کے تاثرات سے الگ ہو کر اپنی راہ ڈھونڈھنے کی کوشش کریں گے تو لازماً میری تائید کریں گے اور اس وقت آپ کو صاف نظر آئے گا کہ حقیقۃً انسان کی منزل کس طرف ہے۔

(یہ مقالہ آریہ سماج(الٰہ آباد) کے ایک جلسہ میں پیش کیا گیا جو سرو دھرم سمیلن کے عنوان سے 22مئی1960ء کو ہوا تھا) ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom