اسلام کا تعارف

کائنات کا ایک خدا ہے جو اس کا خالق اور مالک ہے۔ خدا نے ایک خاص اسکیم کے تحت ہم کو پیدا کیا ہے جس کا علم وہ اپنے مخصوص اور منتخب بندوں کے ذریعہ ہم تک بھیجتا ہے جن کو ہم رسول کہتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے کے آخری رسول ہیں اور اب تمام دنیا کو آپ کی پیروی کرنی ہے۔ جو شخص آپ کی دعوت کو پائے اور پھر اس کو قبول نہ کرے۔ وہ صرف آپ ہی کا انکار نہیں کرتا بلکہ درحقیقت خدا کے تمام نبیوں کا انکار کر دیتا ہے۔ ایسا شخص خدا کا وفادار نہیں۔ بلکہ اس کا باغی ہے۔ اور خدا کی رحمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے — یہ ہے مختصر طور پر دین اسلام کا تعارف جس کی مجھے اس مضمون میں تشریح کرنی ہے۔

خدا کا وجود

سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ بعض لوگ اس بات کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سارا کارخانہ محض ایک اتفاقی حادثے کے طور پر وجود میں آگیا ہے۔ اور اپنے آپ چلا جا رہا ہے۔ ہکسلے کے الفاظ میں — چھ بندر ایک ایک ٹائپ رائٹر لے کر بیٹھ جائیں۔ اور اربوں کھربوں سال تک الل ٹپ طریقے سے ان کو پیٹتے رہیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کے سیاہ کیےہوئے کاغذات کے ڈھیر میں کسی صفحے پر شیکسپیئر کی ایک نظم نکل آئے۔ اسی طرح اربوں اور کھربوں سال تک مادے کے اندھے عمل کے دوران میں بالکل اتفاق سے یہ دنیا بن گئی ہے۔

یہ جواب جس نے صدیوں سے بہت سے لوگوں کو فریب میں مبتلا کر رکھا ہے ، یہ دراصل کوئی جواب نہیں ہے ۔ بلکہ محض چند الفاظ کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ اتفاق یا حادثہ بذات خود کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر جو چیز خود ہی اپنا وجود نہ رکھتی ہو وہ کسی دوسری چیز کو وجود میں لانے کا سبب کس طرح بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی یہ تشریح کائنات کے اوپر بالکل چسپاں نہیں ہوتی۔ یہ محض ایک بے بنیاد دعویٰ ہے جو ذہنوں میں گھڑ لیا گیا ہے۔ اور کائنات کی حقیقی ساخت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے برعکس، خدا کا تصور کائنات کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ وہ خود کائنات کے اندر سے بول رہا ہے۔ کائنات اتنی پرحکمت اور اتنی منظم ہے کہ اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی اتفاقی حادثے کے طور پر وجود میں آ گئی ہو۔ زمین پر جاندار چیزوں کی بقا کے لیے جو حالات ضروری ہیں وہ نہایت مکمل طور پر یہاں موجود ہیں۔ کیا محض اتفاق کے نتیجے میں اتنے عمدہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

کائنات میں نشانیاں

زمین اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لٹو کی مانند گھومتی ہے۔ اگر زمین کی رفتار ایک سو میل فی گھنٹہ ہوتی تو ہمارے دن اور رات اب کے دن اور رات سے دس گنا زیادہ لمبے ہوتے۔ زمین کی تمام ہریالی اور ہماری بہترین فصلیں سو گھنٹے کی مسلسل دھوپ میں جھلس جاتیں اور جو بچ رہتیں وہ لمبی رات میں پالے کی نذر ہو جاتیں۔

سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے ، اپنی سطح پر بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ سے دہک رہاہے۔ یہ حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ ’’کائناتی انگیٹھی‘‘ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرہ بھر زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلہ پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہو گی کہ ہم سب لوگ جم کر برف ہو جائیں گے۔ اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آ جائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہو گی کہ تمام جاندار اور تمام پودے جل بھن کر خاک ہو جائیں گے۔

زمین کا کرہ فضا میں سیدھا کھڑا نہیں ہے بلکہ 23 درجے کا زاویہ بناتا ہوا ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہ جھکائو ہمیں ہمارے موسم دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہو جاتا ہے اور مختلف قسم کی نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہیں۔ اگر یہ جھکائو نہ ہوتاتو سمندر سے اٹھتے ہوئے بخارات سیدھے شمال یا جنوب کو چلے جاتے اور ہمارے براعظم برف سے ڈھکے رہتے۔

چاند ہم سے تقریباً ڈھائی لاکھ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار میل دور ہوتا تو سمندروں میں مدوجزر کی لہریں اتنی بلند ہوتیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے گھس کر ختم ہو جاتے۔

یہ ہماری کائنات کے چند نہایت معمولی اور بالکل سادہ واقعات ہیں۔ ان کے سوا بےشمار ایسے واقعات ہیں جو ظاہر کرتے ہیںکہ ہماری زمین پر ان کا اجتماع محض اتفاقی طور پر نہیں ہو سکتا ۔ اور نہ محض اتفاق انہیں باقی رکھ سکتا ہے۔ یقیناً کوئی ہے جو ان واقعات کو وجود میں لایا ہے اور ان کو اس قدر منظم طریقہ پر مسلسل باقی رکھے ہوئے ہے۔ کائنات اتنی مربوط اور منظم ہے کہ جب بھی ہم اس کے کسی واقعہ کو بیان کرتے ہیں تو درحقیقت ہم اس کو محدود کر دیتے ہیں۔ کائنات کے ایک ایک جزء کے اندر اتنی حکمتیں ہیں کہ جب بھی ہم اس کی کسی حکمت کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم اس کو ایک کمتر درجے کی چیز بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایسی ایک کائنات کو خدا کی مخلوق ماننا اگر کسی کو خلافِ عقل معلوم ہوتا ہے تو اس سے زیادہ خلاف عقل بات یہ ہے کہ اس کائنات کو بے خدا فرض کر لیا جائے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر خدا نے سب چیزیں پیدا کی ہیں تو خود خدا کو کس نے پیدا کیا ہے۔ مگر یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر حال میں پیدا ہوتا ہے۔ خواہ ہم خدا کو مانیں یا نہ مانیں۔ ہم دو میں سے کسی ایک چیزکو بلا سبب ماننے پرمجبور ہیں۔ یا خدا کو بے سبب مانیں یا کائنات کو۔ ہمارے سامنے ایک عظیم کائنات ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں ، جس کو ہم محسوس کرتے ہیں ۔ ہم مجبور ہیں کہ اس کائنات کے وجود کو تسلیم کریں۔ ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے ۔ پھر ہم یا تو یہ کہیں کہ کائنات خود سے وجود میں آ گئی ہے یا یہ کہیں کہ کوئی اور ہستی ہے جس نے اس کو بنایا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہم کسی نہ کسی کو بلا سبب تسلیم کریں گے پھر کیوں نہ ہم خدا کو بلاسبب مان لیں جس کو ماننے کی صورت میں ہمارے تمام سوالات کاجواب مل جاتا ہے۔ جبکہ کائنات کو بلاسبب ماننے کی شکل میں کوئی مسئلہ حل نہیںہوتا۔ وہ تمام سوالات جو اس مسئلہ کے اردگرد پیدا ہوتے ہیں وہ سب کے سب بدستور باقی رہتے ہیں۔

بعض لوگوں نے فلسفیانہ موشگافی کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کائنات کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ سب کچھ صرف ہمارا وہم ہے۔ مگر ایک شخص جب یہ بات کہتا ہے تو ٹھیک اسی وقت وہ کائنات کے وجود کو تسلیم کر لیتا ہے۔ آخر یہ سوال ہی کیوں پیدا ہوا کہ کائنات کوئی چیز ہے یا نہیں۔ سوال پیدا ہونا خود ظاہر کرتا ہے کہ کوئی چیز ہے جس کے بارے میں سوال درپیش ہے ۔ اور کوئی ہے جس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے۔ اس طرح فلسفۂ تشکیک بیک وقت انسان اور کائنات دونوں کو تسلیم کر لیتا ہے۔

خدا کے ساتھ ہمارا تعلق

خدا کو ماننے کے بعد فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے پچاس سال پہلے یہ خیال کیاجاتا تھاکہ اگر خدا کا کوئی وجود ہے بھی تو اس سے ہمارا تعلق نہیں ہو سکتا۔ مگر جدید کوانٹم نظریہ کے ذریعہ خود سائنس نے اس کی تردید کر دی ہے پہلے یہ سمجھاجاتا تھا کہ کائنات ایک مشین ہے جو ایک مرتبہ حرکت دینے کے بعد مسلسل چلی جا رہی ہے۔ اس نظریہ پر سائنس دانوں کو اس قدر یقین تھاکہ انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانک (Max Planck) نے جب روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے مشین ہونے کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو اس پر سخت تنقیدیں ہونے لگیں اور اس کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر اس نظریے کو زبردست کامیابی ہوئی اور بالآخر وہ ترقی کرکے نظریۂ مقادیر برقیات ( quantum theory) کی صورت میں آج علم طبیعیات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ (تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو، ماڈرن سائنٹفکتھاٹ، صفحات 12-20)

پلانک کا نظریہ اپنی ابتدائی شکل میں یہ تھاکہ قدرت چھلانگوں کے ذریعہ حرکت کرتی ہے۔ 1917ء میں آئن سٹائن نے اس بات کی وضاحت کی کہ پلانک کا نظریہ صرف عدم تسلسل (discontinuity )کو ثابت نہیں کرتا بلکہ زیادہ انقلاب انگیز نتائج کا حامل ہے۔ یہ اصولِ تعلیل کو اس کے بلند مقام سے معزول کر رہا ہے جو اس سے پہلے عالم فطرت کے تمام واقعات کا واحد رہنما سمجھاجاتا تھا قدیم سائنس نے بڑے وثوق سے اعلان کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کر سکتی ہے جو سبب اور نتیجے کی مسلسل کڑیوں کے مطابق اس کے آغاز سے لے کر انجام تک معین ہو چکا ہے۔ مگر اب معلوم ہواکہ یہ محض ناقص مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ خدا کو اگر ماننا ہی ہے تو سبب اول کی حد تک اسے مان لو ورنہ آج کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب معلوم ہوا کہ کائنات صرف حرکت اول ہی کے لیے کسی محرک کی محتاج نہیں تھی بلکہ وہ ہر آن حرکت دیےجانے کی محتاج ہے۔ کوانٹم نظریہ دوسرے لفظوںمیں یہ بتاتا ہے کہ کائنات ایک خود چالو مشین نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی مشین ہے جس کو ہر آن چلایا جا رہا ہے۔ گویاایک حی ّو قیوم ہستی کا مسلسل فیضان ہے جو اس کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی وہ اپنا فیضان واپس لے لے تو ساری کائنات اس طرح ختم ہو جائے گی جیسے سینما گھر میں بجلی کا سلسلہ ٹوٹنے سے پردۂ سیمین کے سارے واقعات غائب ہو جاتے ہیں اور ناظرین کے سامنے ایک سفید کپڑے کے سوا اور کچھ نہیں رہتا۔ یہ کہنا صحیح ہو گاکہ اس دنیا کا ہر ذرہ اپنے وجود اور حرکت کے لیے ہر آن قادرِ مطلق سے اجازت طلب کرتا ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنی ہستی کو قائم نہیں رکھ سکتا۔

کائنات کے ساتھ خدا کایہ تعلق خود بتاتا ہے کہ انسان کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہونا چاہیے۔

ظاہر ہے کہ جس نے ہمیں خلق کیا ہے، جو ہمارے لیے تمام موزوں ترین حالات کو مسلسل باقی رکھے ہوئے ہے اور ان کو ہمارے حق میں ہموار کرتا رہتا ہے۔ جو ہر آن ہماری پرورش کر رہا ہے۔ اس کا ہمارے اوپر یہ لازمی حق ہے کہ ہم اپنے مقابلے میں اس کی برتر حیثیت کو تسلیم کریں اور بالکل اس کے بندے بن جائیں۔ انسان جن قدروں سے واقف ہے ان میں سب سے نمایاں اور اہم ترین قدر یہ ہے کہ احسان کرنے والے کا احسان مانا جائے۔ محسن خواہ اپنی طرف سے نہ دبائے مگر جو احسان مند ہے وہ خود اس کے سامنے دب جاتا ہے ، محسن کے آگے اس کو نظر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کا خدا ہونا خود ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کی خدائی کو تسلیم کریں اور اس کی مرضی پوری کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ بندے کی طرف سے خدا کی اطاعت کے لیے اس کے سوا کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔

مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ یہ صرف حق شناسی کا تقاضا نہیں ہے کہ ہم خدا کی خدائی اور اس کے مقابلے میں اپنی بندگی کو تسلیم کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راہ بھی نہیں ہے۔ ہماری زندگی کے سارے مسائل خدا سے متعلق ہیں۔ ہم کو جو کچھ ملے گا ، اسی سے ملے گا۔ اس کے سوا کوئی اور ہمیں کچھ نہیں دے سکتا۔ ہم اس کائنات میں اس قدر عاجز اور مجبور ہیں کہ خدا کی مدد کے بغیر ایک لمحہ کے لیے اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتے۔ پھر خدا کو چھوڑ کر آخر ہم اور کہاں جا سکتے ہیں۔

ذرا غور کیجیے، یہ ہندوستان کی شمالی سرحد پر ہمالیہ پہاڑکا ڈھائی ہزار میل لمبا سلسلہ کس نے قائم کیا ہے۔ ہم نے یا خدانے۔ اگر ہمالیہ پہاڑ نہ ہوتا تو خلیج بنگال سے اٹھنے والی جنوب مشرقی ہوائیں جو ہر سال ہمارے لیے بارش لاتی ہیں بالکل پانی نہ برساتیں۔ وہ سیدھی روس کی طرف نکل جاتیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ تمام شمالی ہندوستان منگولیاکی طرح ریگستان ہوتا۔

آپ کو معلوم ہے کہ سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے ، اور زمین ایک مرکز گریز قوت (Centrifugal Force) کے ذریعہ اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً چھ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہو جائے گی ، اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الائو کے اندر کوئی تنکا گر جائے۔ ظاہر ہے کہ زمین کو یہ طاقت ہم نے نہیں دی ہے بلکہ اس خدا نے دی ہے جس نے زمین کو پیدا کیا ہے۔

کائنات کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں اس کانام نظام شمسی ہے ، اگر آپ کسی دور دراز مقام پر بیٹھ کر اس نظام کا مشاہدہ کر سکیں تو آپ دیکھیں گے کہ اتھاہ خلا کے اندر ایک آگ کا گولا بھڑک رہا ہے جو ہماری زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔ جس سے اتنے بڑے بڑے شعلے نکلتے ہیں جو کئی کئی لاکھ میل تک فضا میں اڑتے چلے جاتے ہیں ، اسی کا نام سورج ہے۔ پھر آپ ان سیاروں کو دیکھیں گے جو سورج کے چاروں طرف اربوں میل کے دائرے میں پروانوں کی طرح چکر لگا رہے ہیں۔ ان دوڑتی ہوئی دنیائوں میں ہماری زمین نسبتاً ایک چھوٹی دنیا ہے جس کی گولائی تقریباً پچیس ہزار میل ہے۔ یہ ہمارا نظام شمسی ہے جو بظاہر بہت بڑا معلوم ہوتا ہے۔ مگر کائنات کی وسعت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

کائنات میں اتنے بڑے بڑے ستارے ہیں جن کے اوپر ہمارا پورا نظام شمسی رکھا جا سکتا ہے۔ اس بے انتہا وسیع اور عظیم کائنات میں ہماری زمین فضا میں اڑنے والے ایک ذرے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ ہم ایک چھوٹے سے کیڑے کی مانند اس ذرے سے چمٹے ہوئے ہیں اور خلا میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سفر میں مصروف ہیں۔

یہ کائنات کے اندر ہماری حیثیت ہے۔ غور کیجیے انسان کس درجہ حقیر ہے۔ وہ خارجی طاقتوں کے مقابلے میں کس قدر عاجز ہے۔ پھر جب ہماری حیثیت یہ ہے تو ہم خالقِ کائنات سے مدد طلب کرنے کے سوا اور کیاکر سکتے ہیں۔ جس طرح ایک چھوٹے بچے کی ساری کائنات اس کے ماں باپ ہوتے ہیں ۔ اس کی زندگی ، اس کی ضرورتوں کی تکمیل اور اس کے مستقبل کاانحصار بالکل اس کے والدین کے اوپر ہوتا ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ انسان اپنے رب کا محتاج ہے۔ ہم خدا کی مدد اور اس کی رہنمائی کے بغیر اپنے لیے کسی چیز کا تصور نہیں کر سکتے۔ وہی ہمارا سہارا ہے اور اسی کی طرف ہمیں دوڑنا چاہیے۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ انسان خدا کی رہنمائی اور اس کی مدد کا محتاج ہے۔ خدا کے مقابلہ میں انسان کی یہی حیثیت قرار پاتی ہے اور خود انسان کے لیے بھی اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ وہ خدا سے اپنے لیے مدد اور رہنمائی کی درخواست کرے۔ یہ حقیقت پسندی ہے اور حقیقت پسندی بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

معرفت کا حصول

 یہاں پہنچ کر جب ہم اپنے گردو پیش کی دنیا پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے خالق کی طرف سے اپنی مخلوقات کے لیے مدد اور رہنمائی کا ایک مستقل عمل جاری ہے۔ جس کو جس چیز کی ضرورت ہے اس کو وہ چیز پہنچائی جا رہی ہے۔

ایک معمولی بھڑ(انجنا) کی مثال لیجیے۔ بھڑکا طریقہ ہے کہ وہ انڈے دینے سے پہلے زمین میں ایک گڑھا کھودتی ہے اور ایک ٹڈے کو قابو میں کرکے اس کو گڑھے میں رکھ دیتی ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ نہایت صحت کے ساتھ ٹڈے کے اس خاص عصبی مقام پر ڈنک مارتی ہے، جس سے ٹڈا مرتا نہیں صرف بے ہوش رہتا ہے اور تازہ گوشت کا ذخیرہ بن جاتا ہے۔ بھڑ اب اس بے ہوش ٹڈے کے ارد گرد انڈے دیتی ہے تاکہ انڈوں سے نکل کر بچے اس زندہ ٹڈے کو دھیرے دھیرے کھاتے رہیں۔ کیونکہ مردہ گوشت ان بچوں کے لیے مہلک ہے۔ اتنا انتظام کر لینے کے بعد بھڑ وہاں سے اڑ جاتی ہے اور پھر کبھی آ کر بچوں کو نہیں دیکھتی۔ مگر اس کے باوجود بھڑ کا یہ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو وہ بھی ٹھیک اسی عمل کو دہراتا ہے۔ ساری بھڑیں اس کام کو زندگی میں ایک بار اور پہلی بار بالکل ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہیں۔ غور کیجیے کہ وہ کون ہے جو اس بھڑ کے بچے کو سکھاتا ہے کہ اپنی نسل کو جاری رکھنے کے لیے وہ بھی آئندہ وہی عمل کرے جو اس کے ساتھ اس کے ماں باپ نے کیا تھا۔ حالانکہ اپنے ماں باپ کے عمل کو اس نے کبھی نہیں دیکھا۔

اسی حیرت ناک عمل کو دیکھ کر فرنچ فلسفی برگساں (Henri Louis Bergson, 1859-1941) نے کہا تھاکیا بھڑ نے کسی اسکول میں ماہر عضویات کی تعلیم حاصل کی ہے۔

اسی طرح ایک لمبی مچھلی کو لیجیے جسے انگریزی میں(eel) کہتے ہیں۔ ڈنمارک کے ماہر حیوانات ڈاکٹر شمٹ(Johannes Schmidt) نے کئی سال کی تحقیق کے بعد معلوم کیا ہے کہ یہ عجیب و غریب جاندار اپنی زندگی کی جوانی میں ہر جگہ کے آبی مرکزوں اور ندیوں سے نکل نکل جزیرۂ برموڈا کے پاس جمع ہوتے ہیں جہاں بحر اٹلانٹک سب سے زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ یورپ کی ایلیں(eels)سمندر میں تین ہزار میل کا راستہ طے کرکے یہاں پہنچتی ہیں۔ وہیں یہ سب مچھلیاں بچے دیکر مر جاتی ہیں۔ یہ بچے جب آنکھ کھولتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک سنسان آبی مرکز میں پڑا ہوا پاتے ہیں۔ ان کے پاس بظاہر معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی وہ وہاں سے لوٹ کر دوبارہ انہیں کناروں پر آ لگتے ہیں جہاں سے ان کے والدین چلے گئے تھے۔ وہ آگے بڑھتے ہوئے اپنے ماں باپ والی ندیوں، جھیلوں اور آبی مرکزوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی آبی مرکز سے ایلیں ہمیشہ کے لیے غائب نہیں ہو جاتیں۔ اور یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ امریکہ کی کوئی ایل یورپ میں نہیں ملتی اور نہ یورپ کی کوئی ایل امریکہ کے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ پھر آمدورفت کی یہ معلومات انہیں کہاں سے حاصل ہوتی ہیں۔

یہ کام’’وحی‘‘ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ وحی، پیغام رسانی کے اس مخفی سلسلے کو کہتے ہیں جو خدا اور اس کی مخلوقات کے درمیان جاری ہے۔ کوئی مخلوق زندگی گزارنے کے لیے کیا کرے اور خالق کائنات نے اپنی مجموعی اسکیم کے اندر اس کے ذمے جو فرض عائد کیا ہے اس کو کس طرح انجام دے، اسی کو بتانے کا نام وحی ہے۔ اس وحی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کا تعلق انسان کے سوا دوسری مخلوقات سے ہے، اور دوسری وہ جس کا تعلق انسان سے ہے۔

انسان کے سوا جتنی زندہ مخلوقات اس زمین پر پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب ارادے سے خالی ہیں۔ ان کا کام کسی سوچے سمجھے فیصلے اور ارادے کے تحت نہیں ہوتا بلکہ ایک غیرشعوری قسم کے طبعی میلان کے تحت ہوتا ہے جس کو ہم جبلت(instinct) کہتے ہیں۔ یہ گویا ایک طرح کی زندہ مشینیں ہیں جو محدود دائرے میں اپنا متعین عمل کرکے ختم ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کے جانداروں کے لیے ترک و اختیار کا کوئی سوال نہیں۔ اس لیے ان کے پاس جو وحی آتی ہے وہ حکم اور قانون کی شکل میں نہیں آتی بلکہ جبلت یا عادت فطری کی شکل میں آتی ہے۔ ان کی ساخت اس طرز کی بنا دی جاتی ہے کہ وہ ایک مخصوص کام کو بار بار دہراتے رہیں۔ مگر انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فیصلے کی قوت رکھتا ہے۔

وہ اپنے ارادے سے کسی کام کو کرتا ہے اور کسی کو نہیں کرتا۔ وہ ایک کام کرنا شروع کرتا ہے، پھر اسے بالقصد چھوڑ دیتا ہے اور ایک کام کو نہیں کرتا اور بعد کو اسے کرنے لگتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ انسان بھی اگرچہ اسی طرح خدا کا بندہ ہے جس طرح اس کی دوسری مخلوقات، مگر اس کو حالت امتحان میں رکھا گیا ہے۔ جو کام دوسری مخلوقات سے عادت فطرت کے تحت لیا جا رہا ہے انسان کو وہی کام اپنے فیصلے اور ارادے سے کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے پاس جو وحی آتی ہے وہ حکم اور قانون کی شکل میں آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں عام حیوانات کی وحی ان کی فطرت میں پیوست کر دی گئی ہے۔ اور انسان کی وحی خارج سے اسے سنائی جاتی ہے۔ عام حیوانات کو کیا کرنا ہے اس کا علم وہ پیدائشی طور پر اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ اس کے برعکس، انسان جب عقل اور ہوش کی عمر کو پہنچتا ہے تو خدا کی طرف سے پکار کر اسے بتایا جاتا ہے کہ تم کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔

 اس پیغام رسانی کا ذریعہ رسالت ہے۔ جو شخص یہ پیغام لے کر آتا ہے اس کو ہم رسول کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ایک نیک بندے کو چن لیتا ہے اور اس کے قلب پر اپنا پیغام اتارتا ہے۔ اس طرح وہ شخص براہ راست خدا سے اس کی مرضی کا علم حاصل کرکے دوسرے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ رسول گویا وہ درمیانی کڑی ہے جو بندے کو اس کے خدا سے جوڑتی ہے۔

وحی کا مسئلہ

اب ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہے کہ کسی بندہ خاص پر خدا کی وحی کس طرح آتی ہے اور یہ کہ موجودہ زمانے میں وہ کون سی ’’وحی‘‘ ہے جس سے ہمیں خدا کی مرضی کا علم حاصل ہوگا۔

 اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے، انسان نے جو مشینیں اور جو آلات بنائے ہیں وہ تقریباً سب کے سب لوہے کے ہیں۔ اگر لوہے کی تاریخ سامنے رکھی جائے تو یہ بات نہایت عجیب معلوم ہوگی کہ انسان نے کس طرح اس کو دریافت کیا، جبکہ انسان کو لوہے کے متعلق پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔ اس نے کس طرح اس کے ذرات کو یکجا کیا جو مختلف مرکبات کی شکل میں زمین کی مختلف چٹانوں کے ساتھ مخلوط ہو کر منتشر پڑے تھے۔ اور پھر انہیں خالص لوہے کی ٹھوس شکل میں تبدیل کیا۔

 یہی حال دوسری ایجادات کا بھی ہے۔ یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ ان ایجادات کی طرف انسانی ذہن کی رہنمائی کس طرح ہوئی۔ وہ کون سی قوت ہے جو تجربہ اور مشاہدہ کے دوران ایک سائنس داں کو اس مخصوص نکتے تک پہنچا دیتی ہے جہاں پہنچ کر اسے ایک مفید اور کارآمد نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ جو بات ہم کو معلوم نہیں تھی وہ کیسے معلوم ہوگئی۔ اس علم کاذریعہ وہی خدائی فیضان ہے جس کو ہم وحی کہتے ہیں۔ سب کچھ جاننے والا اپنے علم میں سے تھوڑا سا حصہ اس کو عطا کر دیتا ہے جو کچھ نہیں جانتا۔

یہ فیضان وحی کا ابتدائی درجہ ہے جو غیر محسوس طور پر آتا ہے اور ہر شخص کو اس میں سے حصہ ملتا ہے۔ وحی کی دوسری قسم زیادہ ترقی یافتہ ہے، جو شعوری طور پر آتی ہے اور صرف ان لوگوں کے پاس آتی ہے جن کو رسالت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہو۔ انسان کے پاس حقیقت کا علم اور دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ جو خدا کی طرف سے آیا ہے وہ اسی دوسری قسم کی وحی کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے۔

وحی کی حقیقت کو ہم بس اسی قدر سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا دراصل ایک ایسا مطالبہ کرنا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہے۔ ایک اڑتے ہوئے جہاز کو زمین سے لاسلکی پیغام بھیجا جاتا ہے جس کو ہوائی جہاز پر بیٹھا ہوا آدمی پورے یقین کے ساتھ صاف الفاظ میں سن لیتا ہے۔ یہ ہماری قریبی زندگی کا ایک واقعہ ہے۔ مگر آج تک اس کی مکمل توجیہ نہیں ہو سکی کہ یہ واقعہ کس طرح وجود میں آتا ہے۔ یہی حال ان تمام واقعات کا ہے جن سے ہم اس زمین پر واقف ہیں۔ ہم تمام حقیقتوں کو صرف مجمل طور پر جانتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کسی حقیقت کو آخری حد تک سمجھنے کی کوشش کرتے میں ہماری قوتیں جواب دینے لگتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی کلی واقفیت ہمارے بس سے باہر ہے۔ ایسی صورت میں وحی کی حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے کا مطالبہ کرنا کسی ایسے ہی آدمی کا کام ہو سکتا ہے جو خود اپنی حقیقت سے بے خبر ہو۔

 سائنس نے اب یہ تسلیم کر لیا ہے کہ حقیقت مطلق کا علم حاصل کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس سلسلے میں میں پروفیسر ہائزن برگ(Heisen Berg) کی دریافت کا حوالہ دوں گا جس کو وہ اصول عدم تعین(principle of indeterminacy) کا نام دیتا ہے۔ جیمز جنیز نے اس اصول کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’قدیم سائنس کا خیال تھا کہ کسی ذرے مثلاً ایک الکٹران کا مقام مکمل طور پر بتایا جا سکتا ہے جبکہ ہم یہ جان لیں کہ کسی خاص وقت میں فضا کے اندر اس کا مقام اور اس کی رفتار کیا ہے۔ اگر ان معلومات کے ساتھ بیرونی اثر انداز طاقتوں کا بھی علم ہو جائے تو الکٹران کے تمام مستقبل کو معین کیا جا سکتا تھا۔ اور اگر کائنات کے تمام ذروں کے متعلق ان باتوں کا علم ہو جاتا تو ساری کائنات کے مستقبل کے متعلق پیشین گوئی کی جا سکتی تھی۔

مگر ہائزن برگ کی تشریح کے مطابق جدید سائنس اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان مقدمات کی دریافت میں قوانین قدرت حائل ہیں۔ اگر ہم یہ جان لیں کہ ایک الکٹران فضا میں کس خاص مقام پر ہے جب بھی ہم ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتے کہ وہ کس رفتار سے حرکت کر رہا ہے۔ قدرت کسی حد تک گنجائش سہو(margin of error) کی اجازت دیتی ہے، لیکن اگر ہم اس گنجائش میں گھسنا چاہیں تو قدرت ہماری کوئی مدد نہیں کرتی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدرت بالکل صحیح پیمائشوں سے قطعاً آشنا ہے۔ اسی طرح اگر ہمیں کسی الکٹران کی حرکت کی ٹھیک ٹھیک رفتار معلوم ہو تو قدرت ہمیں فضا کے اندر اس کا صحیح مقام دریافت کرنے نہیں دیتی، گویا کہ الکٹران کا مقام اور اس کی حرکت کسی لالٹین کی سلائڈ کی دو مختلف سمتوں پر نقش ہیں۔ اگر ہم سلائڈ کو کسی خراب لالٹین میں رکھیں تو ہم دورخوں کے درمیان نصف کو روشنی میں لاسکتے ہیں۔ اور الکٹران کے مقام اور اس کی حرکت دونوں کو کچھ نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ اچھی لالٹین کے ذریعہ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم ایک پر جتنی زیادہ روشنی ڈالیں گے، دوسرا اتنا ہی دھندلا ہوتا چلا جائے گا۔ خراب لالٹین، قدیم سائنس ہے جس نے ہمیں اس فریب میں مبتلا کر دیا کہ اگر ہمارے پاس بالکل مکمل لالٹین ہو ہم کسی خاص وقت پر ذرے کے مقام اور اس کی رفتار کا ٹھیک ٹھیک تعین کر سکتے ہیں۔ یہی دھوکہ تھا جس نے سائنس میں جبریت (determinism) کو داخل کر دیا، مگر اب جبکہ جدید سائنس کے پاس زیادہ بہتر لالٹین ہے اس نے ہم کو صرف یہ بتایا ہے کہ حالت اور حرکت کی تعین حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں جنہیں ہم بیک وقت روشی میں نہیں لا سکتے(ماڈرن سائنٹفک تھاٹ، صفحہ17-18)۔

اس سلسلہ میں آخری سوال یہ ہے کہ خدا کی وحی جو مختلف زمانوں میں انسانوں کے پاس آتی رہی ہے ان میں سے کون سی وحی ہے جس کی آج کے انسانوں کو پیروی کرنا ہے۔ اس کا جواب بالکل سادہ ہے۔ بعد کے لوگوں کے لیے وہی وحی قابل اتباع ہو سکتی ہے جو سب کے بعد آئی ہو۔ حکومت ایک ملک میں کسی شخص کو اپنا سفیر بنا کر بھیجتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شخص کی سفارت اسی وقت تک کے لیے ہے جب تک وہ اس عہدے پر باقی ہو، جب اس کی مدت کارکردگی ختم ہو جائے اور دوسرے شخص کو اس عہدے پر مامور کر دیا جائے تو اس کے بعد وہی شخص حکومت کا نمائندہ ہوگا جس کو سب سے آخر میں نمائندگی کا موقع دیا گیا ہے۔

اس اعتبار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ آخری رسول ہیں، جو آج اور آئندہ قیامت تک کے لیے انسانیت کے رہنما ہیں، جو ساتویں صدی عیسوی میں عرب سے اٹھے تھے۔ جن کے بعد نہ کوئی نبی ہوا اور نہ آئندہ کوئی نبی ہوگا۔ آپ کا تمام نبیوں کے بعد تشریف لانا اس بات کی کافی وجہ ہے کہ آپ ہی کو حال اور مستقبل کے لیے خدا کا نمائندہ قرار دیا جائے۔ کیونکہ بعد کو آنے والا اپنے سے پہلے آنے والوں کو منسوخ کر سکتا ہے مگر پہلے آنے والا اپنے بعد آنے والے کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ ہم ان تمام نبیوں کو مانتے ہیں جو خدا کی طرف سے آئے، ان میں سے کسی کا بھی ہم انکار نہیں کرتے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے رسولوں میں تفریق نہ کرو۔(البقرۃ، 2:285) مگر یہ ظاہر ہے کہ اطاعت اور پیروی صرف وقت کے نبی ہی کی ممکن ہے اور اسی کی ہونی چاہیے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ہی وقت کے نبی ہیں۔ اور اب تمام انسانوں کو آپ ہی کی پیروی کرنی ہے۔ جب کوئی نبی آتا ہے تو وہ دراصل اپنے وقت کے لیے خدا کا حکم ہوتا ہے۔ وقت کے نبی کو چھوڑ کر اس سے پہلے کے کسی نبی کی اطاعت کا دعویٰ کرنا خدا پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہے۔ ایسا شخص خدا کے یہاں اس کے وفاداروں میں شمار نہیں ہوگا بلکہ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور خود تاریخ کے وہ رسول اس سے برأت کریں گے جن کی پیروی کا آج وہ دعویٰ کر رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے پرانی اور ابتدائی مذہبی کتاب رگ وید ہو، جو خدا کی ہدایت کے تحت مرتب کی گئی ہو، جیسا کہ انجیل نسبتاً درمیانی زمانے کی الہامی کتاب ہے۔ مگر اب یہ تمام کتابیں آئوٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے مضامین کی صحت مشکوک ہے۔ اور اس سے قطع نظر کہ ان میں سے کوئی کتاب بھی اپنے کو آخری اور دائمی کتاب کی حیثیت سے پیش نہیں کرتی، صرف یہ واقعہ کہ وہ خدا کے آخری ہدایت نامے سے پہلے نازل کی گئی تھیں، ان کو آج کے لیے منسوخ قرار دے دیتا ہے۔

 ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو خدا کا رسول ہی کیوں تسلیم کریں، میرا جواب یہ ہے کہ جن وجوہ سے آپ دوسرے رسولوں کو رسول مانتے ہیں انہیں وجوہ سے آخری رسول کو بھی رسول ماننا پڑےگا۔ آپ کسی دوسرے رسول کے بارہ میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ خدا کی طرف سے آئے تھے، جو بھی اصول بنائیں گے اور جو مقدمات قائم کریں گے، ٹھیک ٹھیک انہیں دلائل اور انہیں مقدمات کی بنا پر آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کا رسول ماننا ہوگا۔ اگر آپ آخری رسول کا انکار کرتے ہیں تو آپ کو سارے رسولوں کا انکار کر دینا پڑے گا۔ اور اگر دوسرے رسولوں کو مانتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آخری رسول کو بھی تسلیم کریں اور جوں ہی آپ آخری رسول کو تسلیم کرتے ہیں، آپ کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اسی کو آخری سند قرار دیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننا اور آپ کو آخری سند تسلیم نہ کرنا دونوں بالکل متضاد چیزیں ہیں، جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ خدا کے آخری حکم کی موجودگی میں اس کے سابقہ حکموں کا حوالہ دینا خدا کی اطاعت کا ایک ایسا طریقہ ہے جس سے خدا کبھی راضی نہیں ہو سکتا یہ خود اپنے نفس کی اطاعت ہے، نہ کہ خدا کی اطاعت۔

تعصب یا خدا پرستی

 آخر میں میں یہ کہوں گا کہ مذہب یا خدا پرستی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ نسلی تعلق یا سماجی حالات کے نتیجہ میں آدمی کا کوئی مذہب بن جائے اور آدمی اس کو پکڑے رہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی عقل کو استعمال کرے اور سنجیدہ مطالعہ کے ذریعے کسی رائے پر پہنچے اور اس کو شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کر لے۔ بظاہر دونوں ہی مذہب دکھائی دیتے ہیں۔ مگر پہلی چیز کا نام تعصب ہے اور دوسری چیز کا نام خدا پرستی۔

خدا ہر قسم کے تعصب اور بے عقلی سے پاک ہے۔ اس لیے خدا کبھی ایسے شخص کو نہیں اپنائے گا جو تعصب اور غیر معقولیت کا سرمایہ لیے ہوئے اس کے پاس پہنچے۔ خدا کا محبوب بندہ تو وہی ہے جو تمام تعصبات سے اوپر اٹھ کر سنجیدگی اور معقولیت کے راستہ کو اختیار کرے۔ خدا صرف اس شخص کو اپنے پڑوس کے لیے قبول کرے گا جو  اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ غیر  مزکّیٰ شخصیت کے حامل افراد کو وہ رد کرکے دور پھینک دے گا تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے محرومی اور رسوائی کا عذاب سہتے رہیں۔

(آریہ سماج کی جشن جبلیکے موقع پر سیوہارہ(بجنور) میں ایک آل مذاہب کانفرنس ہوئی اس موقع پر29 نومبر1959 کو اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے راقم الحروف نے یہ مقالہ پڑھا) ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom