انسان اپنے آپ کو پہچان
اگر کسی مجلس میں یہ سوال اٹھایا جائے کہ آج انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو مختلف لوگ اس کا مختلف جواب دیں گے۔ کوئی کہے گا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ بند کیا جائے، کوئی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے گا۔ اور کوئی کہے گا کہ پیدا وار اور تقسیم کے نظام کو درست کرنا یہ موجودہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ غرض طرح طرح کے جوابات سنائی دیں گے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ابھی انسان کو نہیں جانتا۔ اگر وہ اپنے آپ کو جانتا تو سب کے جوابات ایک ہوتے۔ سب یہ کہتے کہ آج انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو بھول گیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ اسے ایک روز مرنا ہے اور مرنے کے بعد اپنے مالک کے پاس حساب و کتاب کے لیے جانا ہے۔ اگر ہم زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیں تو ہم دنیا کو نہیں بلکہ آخرت کو اصل مسئلہ قرار دیں گے۔
سب سے بڑا مسئلہ
آج بھی دنیاکے بیشتر انسان خدا اور آخرت کو مانتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اس کے منکر ہوگئے ہوں مگر اس ماننے کا تعلق ان کے عمل سے نہیں ہے۔ حقیقی زندگی میں ہر شخص کے سامنے صرف یہ سوال ہے کہ وہ اپنی آج کی دنیا کو کس طرح کامیاب بنائے۔ اگر ہماری رصدگاہیں کسی روز یہ اعلان کر دیں کہ زمین کی قوت کشش ختم ہوگئی ہے اور وہ چھ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچی جا رہی ہے تو ساری دنیا میں کہرام مچ جائے گا۔ کیوں کہ اس طرح کی ایک خبر کے معنی یہ ہیں کہ چند ہفتوں کے اندر روئے زمین سے ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔
مگر یہ دنیا ہر آن ایک اس سے زیادہ شدید خطرے سے دو چار ہے اور کوئی نہیں ہے جو اس سے گھبرانے کی ضرورت محسوس کرتا ہو۔ یہ خطرہ کیا ہے، یہ قیامت کا خطرہ ہے جو زمین و آسمان کی پیدائش کے روز ہی سے اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے اور جس کی طرف ہم سب لوگ نہایت تیزی سے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ عقیدے کی حد تک سبھی لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں جو فی الواقع اس کے بارے میں سنجیدگی سے کچھ سوچنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔
اگر آپ شام کے وقت کسی کھلے ہوئے بازار میں کھڑے ہو جائیں اور وہاں دیکھیں کہ لوگ کس لیے دوڑ بھاگ کر رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آج کے انسان کس چیز کو اپنا اصل مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے بھرے ہوئے بازار میں موٹروں کی آمدورفت کس لیے ہو رہی ہے، دکان دار کس لیے اپنی دکانیں سجائے ہوئے ہیں۔ انسانوں کے غول کے غول کہاں آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی بات چیت کا موضوع کیا ہے اور ایک دوسرے کی ملاقات کس غرض سے ہو رہی ہے، کن چیزوں سے لوگ دلچسپی لے رہے ہیں، ان کی بہترین صلاحیتیں اور ان کے جیب کے پیسے کس مقصد کے لیے خرچ ہو رہے ہیں، جو خوش ہے وہ کیا چیز پا کر خوش ہے اور جو چہرے اداس نظر آتے ہیں، کس چیز کی محرومی نے انہیں اداس بنا دیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے کیا چیز لے کر نکلے ہیں اور کیا چیز لے کر واپس جانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کی مصروفیتوں سے، ان کے منہ سے نکلی ہوئی آوازوں سے، ان سوالات کا جواب معلوم کر سکیں تو اسی سے آپ کو اس سوال کا جواب بھی معلوم ہو جائے گا کہ آج کا انسان کس چیز کو اپنا اصل مسئلہ سمجھتا ہے اور کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بازاروں کو چہل پہل اور مصروف ترین سڑکوں پر انسانوں کی مسلسل آمدورفت پکار رہی ہے کہ آج کا انسان اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑ رہا ہے، وہ آخرت کو نہیں بلکہ صرف دنیا کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ خوش ہے تو اس لیے خوش ہے کہ اس کی دنیوی تمنائیں پوری ہو رہی ہیں۔ اگر وہ غمگین ہے تو اس لیے غمگین ہے کہ اس کی دنیوی خواہشیں پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ آج کی ضرورتیں، آج کا آرام، آج کی عزت، آج کے مواقع، بس انہیں کو پالینے کا نام لوگوں کے نزدیک کامیابی ہے، اور انہیں سے محروم رہنے کا نام لوگوں کے نزدیک ناکامی۔ یہی وہ چیز ہے جس کے پیچھے سارا انسانی قافلہ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ کسی کو بھی آنے والے دن کی فکر نہیں۔ ہر شخص بس آج کے پیچھے دیوانہ ہو رہا ہے۔
صرف بڑے بڑے شہروں کا یہ حال نہیں ہے بلکہ جہاں بھی چند انسان بستے ہیں اور کچھ چلتے پھرتے لوگ موجود ہیں۔ ان سب کا یہی حال ہے۔ آپ کسی کو دیکھیے وہ اسی خیال میں ڈوبا ہوا نظر آئے گا۔ مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، بوڑھا ہو یا جوان، جاہل ہو یا عالم، شہری ہو یا دیہاتی حتیٰ کہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی سب کے سب اسی سمت میں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ آج آدمی کی سب سے بڑی تمنا صرف یہ ہے کہ دنیا میں جتنا کچھ حاصل کر سکتا ہے حاصل کر لے، اسی کو وہ اپنے لیے ’’کام‘‘ سمجھتا ہے۔ اسی کے لیے اپنے بہترین اوقات اور بہترین صلاحیتوں کو صرف کرتا ہے۔ اسی کی فکر میں رات دن مشغول ہے۔ حد یہ ہے کہ اگر ضمیر اور ایمان کو قربان کرکے یہ چیز ملے تو وہ اپنا ضمیر اور ایمان بھی اس دیوی کی نذر کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ دنیا کو حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ وہ جس طرح بھی ملے۔
مگر اس طرح کی ہر کامیابی صرف دنیا کی کامیابی ہے۔ آخرت میں وہ بالکل کام نہیں دے سکتی۔ جو شخص صرف آج کی دنیا بنانے کی فکر میں ہے اور آخرت کی طرف سے غافل ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنی جوانی میں اپنے بڑھاپے کے لیے جمع نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جب اس کی قوتیں جواب دے دیتی ہیں اور وہ کام کرنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کاکوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میرے پاس مکان نہیں ہے مگر اب وہ اپنا مکان نہیں بنا سکتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے پاس موسموں سے بچنے کے لیے کپڑا اور بستر نہیں ہے مگر اب اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے کپڑا اور بستر مہیا کرسکے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے مگر اب وہ اپنے کھانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ حسرت کے ساتھ کسی دیوار کے سایہ میں چیتھڑا لپیٹے ہوئے پڑا رہتا ہے جس پر کتے بھونکتے ہیں۔ اور لڑکے کنکر مارتے ہیں۔
ہم اپنی آنکھوں سے اس طرح کی مثالیں دیکھتے ہیں جس سے ایک ہلکا اندازہ ہو سکتا ہے کہ آخرت کی کمائی نہ کرنے والے کے لیے آخرت کی زندگی کیسی ہوگی۔ مگر اس کے باوجود ہمارے اندر کوئی کھلبلی پیدا نہیں ہوتی۔ ہم میں کا ہر شخص صرف اپنے آج کی تعمیر میں مصروف ہے وہ اپنے کل کی کوئی فکر نہیں کرتا۔
جنگ کے زمانہ میں جب ہوائی حملے کا سائرن بجتا ہے اور اپنی مہیب آواز سے یہ اعلان کرتا ہے کہ’’دشمن کے ہوائی جہاز آتشیں بموں کو لیے غول درغول چلے آ رہے ہیں اور تھوڑی دیر میں شہر کو آگ اور دھوئیں سے بھر دیں گے، لوگ فوراً پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔‘‘ تو یکایک ہر شخص قریب کی پناہ گاہ کے راستے پر چل پڑتا ہے اور دم بھر میں انتہائی آباد سڑکیں بالکل سنسان ہو جاتی ہیں۔ جو شخص ایسا نہ کرے اس کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ احمق ہے یا اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔
یہ دنیا کے چھوٹے خطرے کا معاملہ ہے۔ دوسرا ایک اس سے بڑا اور اس سے زیادہ یقینی خطرہ ہے جس کے متعلق کائنات کے مالک کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے۔ خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اعلان کیا ہے کہ’’لوگو میری عبادت کرو، ایک دوسرے کے حقوق پورے کرو اور میری مرضی کے مطابق زندگی گزارو۔ جو ایسا نہیں کرے گا میں اس کو ایسی سخت سزا دوں گا جس کا وہ تصور نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مستقل عذاب ہوگا جس میں وہ ہمیشہ تڑپتا رہے گا اور کبھی اس سے نکل نہ سکے گا‘‘۔ اس اعلان کو ہر کان نے سنا ہے اور ہر زبان کسی نہ کسی شکل میں اس کا اقرار کرتی ہے۔ مگر لوگوں کا حال دیکھیے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لیے لوگ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ زندگی کا قافلہ نہایت تیزی سے اس راستے پر بھاگا جا رہا ہے جدھر جانے سے اس کو منع کیا گیا ہے۔ فوجی ہیڈ کوارٹر سے جو سائرن بجتا ہے اس پر عمل کرنے کے لیے فوراً لوگ دوڑ پڑتے ہیں اور مالک کائنات کی طرف سے جس خطرے کا اعلان کیا گیا ہے اس سے کسی کو پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ لوگ اس کی پکار پر نہیں دوڑتے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی ہیڈ کوارٹر کا سائرن جس خطرے کا اعلان کرتا ہے اس کا تعلق آج کی دنیا سے ہے جس کو آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کے نتیجے کو فوراً محسوس کر لیتا ہے۔ مگر خدا کی طرف سے جس خطرے کا اعلان کیا گیا ہے وہ مرنے کے بعد پیش آئے گا۔ ہمارے اور اس کے درمیان موت کی دیوار حائل ہے۔ وہ آج کی آنکھوں سے ہمیں نظر نہیں آتا۔ ہم نہ اس کے ہوائی جہازوں کو دیکھتے ہیں نہ اس کے بموں کو اور نہ اس کی آگ اور دھویں کی بارش کو۔ اس لیے ہوائی حملے کے سائرن کا تو لوگ فوراً یقین کر لیتے ہیں مگر خدا نے جس عذاب کی خبر دی ہے اس کو سن کر ان کے اندر کوئی سراسیمگی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے بارے میں وہ یقین پیدا نہیں ہوتا جو لوگوں کو عمل کے لیے بیتاب کر دے۔
مگر اللہ تعالیٰ نے ہم کو صرف وہی دو آنکھیں نہیں دی ہیں جو پیشانی کے نیچے نظر آتی ہیں اور سامنے کی چیزوں کو دیکھ لیتی ہیں۔ ہمارے پاس ایک اور آنکھ ہے جو زیادہ دور تک دیکھ سکتی ہے۔ جو چھپی ہوئی حقیقتوں کو بھی دیکھتی ہے۔ یہ آنکھ عقل کی آنکھ ہے۔ لوگوں کی بےیقینی کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی اس دوسری آنکھ کو استعمال نہیں کرتے۔ وہ سامنے جو کچھ دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ بس یہی حقیقت ہے۔ حالانکہ اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جو چیز ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس سے زیادہ یقینی ہے وہ چیز جو ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس کائنات میں وہ کون سی حقیقت ہے جس کو ہر شخص مانتا ہو تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا۔ یعنی موت۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر بڑے چھوٹے کو تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ کسی بھی وقت اس کی موت آ سکتی ہے مگر جب موت کا خیال آتا ہے تو عام طور پر لوگ صرف اتنا سوچتے ہیں کہ’’میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا۔‘‘ مرنے سے پہلے وہ اپنی زندگی کے بارے میں بہت سوچتے ہیں مگر مرنے کے بعد انہیں صرف گھر اور بچوں کی فکر ہوتی ہے۔ بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے تو وہ ساری عمر لگا دیتے ہیں مگر جو مستقبل خود ان کے سامنے آنے والا ہے اس کی تعمیر کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ گویا ان کے مرنے کے بعد صرف ان کے بچوں کا وجود باقی رہے گا، خود ان کا کوئی وجود نہیں ہوگا جس کے لیے انہیں تیاری کرنے کی ضرورت ہو۔
اس انداز میں لوگوں کا سوچنا یہ بتاتا ہے کہ انہیں شاید اس کا احساس نہیں ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے بلکہ اصل زندگی مرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ مر کر جب وہ قبر میں دفن ہوتے ہیں تو درحقیقت وہ قبر میں دفن نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسری دنیا میں داخل کر دیے جاتے ہیں۔ تو وہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے سے پہلے یہ سوچتے کہ’’مرنے کے بعد میرا کیا انجام ہوگا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا بیشتر انسان خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی اس یقین سے خالی ہو گیا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نئی زندگی حاصل کرتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جو موجودہ زندگی سے زیادہ حقیقی ہے، جو موجودہ زندگی سے زیادہ اہم ہے۔
موت کے بعد آنے والی زندگی کے بارے میں شبہ دو وجہوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ہر انسان مر کر مٹی میں مل جاتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان مر کر ختم ہوگیا تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دوبارہ کس طرح زندگی پائے گا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ موت کے بعد جو دنیا ہے وہ ہم کو نظر نہیں آتی۔ آج کی دنیا کو تو ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے مگر اس کے بعد والی دنیا کو اب تک کسی نے نہیں دیکھا۔ اس لیے ہم کو یقین نہیں آتا کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہو سکتی ہے۔ آیئے ان دونوں سوالوں پر غور کریں۔
موت کے بعد زندگی
’’جب میں مر کر مٹی ہو جائوں گا تو کیا مجھے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔‘‘ اس سوال کو اس طرح متعین کرکے تو بہت کم لوگ سوچتے ہیں مگر ہر وہ شخص جو اس بات پر گہرا یقین نہیں رکھتا کہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی سے سابقہ پیش آنے والا ہے اس کے ذہن میں ضرور یہ سوال دبا ہوا رہتا ہے۔ جو شخص آج کی زندگی میں کل کی زندگی کے لیے فکر مند نہیں ہے وہ اس بات کا ثبوت پیش کر رہا ہے کہ وہ کل کی زندگی کے متعلق شبہ میں مبتلا ہے۔ خواہ وہ باقاعدہ اس مسئلے پر سوچتا ہو یا نہ سوچتا ہو۔
لیکن اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو نہایت آسانی سے اس کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ موت کے بعد پیش آنے والی حقیقتوں کو ہماری نگاہوں سے چھپا دیا ہے کیوں کہ وہ ہمارا امتحان لے رہا ہے، مگر کائنات میں ایسی بے شمار نشانیاں پھیلا دی ہیں جن پر غور کرکے ہم تمام حقیقتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ کائنات ایک آئینہ ہے جس میں دوسری دنیا کا عکس نظر آتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ہم اپنی موجودہ شکل میں اول روز سے موجود نہیں ہیں۔ انسان کی ابتداء ایک بے شکل حقیر مادے سے ہوتی ہے جو ماں کے پیٹ میں بڑھ کر انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور پھر باہر آ کر مزید ترقی کرکے پورا انسان بن جاتا ہے۔ ایک بے شعور اور حقیر مادہ جو اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خالی آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا اس کا بڑھ کر چھ فٹ لمبا انسان بن جانا ایک ایسا واقعہ ہے جو روزانہ اس دنیا میں پیش آتا ہے۔ پھر یہ سمجھنے میں آپ کو کیا دقت پیش آتی ہے کہ ہمارے جسم کے اجزاء جو نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات بن کر زمین میں منتشر ہو جائیں گے تو دوبارہ وہ پورے انسان کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
ہر انسان جس کو آپ چلتا پھرتا دیکھتے ہیں وہ دراصل انسان کی شکل میں بے شمار ایٹم ہیں جو پہلے ہماری زمین اور ہماری فضا کے اندر نامعلوم وسعتوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ پھر ہوا، اور پانی اور خوراک نے ان ایٹموں کو لا کر ایک انسانی وجود میں اکٹھا کر دیا اور اب ہم انہیں منتشر ایٹموں کے مجموعے کو ایک چلتے پھرتے انسان کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ یہی عمل دوبارہ ہوگا۔ ہمارے مرنے کے بعد ہماری زندگی کے اجزاء ہوا اور پانی اور زمین میں منتشر ہو جائیں گے اور اس کے بعد جب خدا کا حکم ہوگا تو وہ اسی طرح اکٹھا ہو کر ایک وجود کی شکل میں مجسم ہو جائیں گے جس طرح وہ پہلی بار مجسم ہوئے تھے۔ ایک واقعہ جو ہو چکا ہے وہی اگر دوبارہ ظہور میں آئے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔
خود مادی دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ زندگی کو دوسری بار دہرایا جا سکتا ہے۔ ہر سال برسات میں ہم دیکھتے ہیں کہ زمین میں سبزہ اگتا ہے اور ہرطرف ہریالی پھیل جاتی ہے پھر گرمی کا زمانہ اس کے لیے موت کا پیغام بن کر آتا ہے اور ساری زمین خشک ہو جاتی ہے۔ جہاں سبزہ لہلہا رہا تھا وہاں چٹیل میدان دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس طرح ایک زندگی پیدا ہو کر مر جاتی ہے۔ لیکن اگلی بار جب برسات کا موسم آتا ہے اور آسمان سے بارش ہوتی ہے تو وہی مرے ہوئے سبزے دوبارہ جی اٹھتے ہیں اور خشک زمین پر سبزہ زار نظر آنے لگتی ہے۔ اسی طرح انسان بھی مرنے کے بعد زندہ کیےجائیں گے۔
ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ زندگی بعد موت کے بارے میں شبہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا تصور موجودہ جسمانی وجود کی شکل میں کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خارج میں جو ایک چلتا پھرتا جسم دکھائی دیتا ہے، یہی اصل انسان ہے اور جب یہ سڑگل جائے گا اور اس کے اجزاء مٹی میں مل چکے ہوں گے تو اس کو دوبارہ کس طرح مجسم کرکے کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایک زندہ انسان کی موت آتی ہے، وہ خاموش ہو جاتا ہے، اس کی حرکت رک جاتی ہے۔ اس کی تمام صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ زمین کے نیچے دبا دیا جاتا ہے یا بعض قوموں کے رواج کے مطابق جلا کر دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ ریزے ریزے ہو کر اس طرح منتشر ہو جاتا ہے کہ پھر اس کا کوئی وجود ہمیں نظر نہیں آتا۔ ایک زندہ انسان کو اس طرح ختم ہوتے ہوئے ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ انسان جو ختم ہو چکا ہے وہ دوبارہ کیسے موجود ہو جائے گا۔
مگر ہمارا اصل وجود ہمارا یہ جسم نہیں ہے جس کو ہم بظاہر چلتا پھرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ بلکہ اصل وجود وہ اندرونی انسان ہے جو آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ جو سوچتا ہے، جو جسم کو متحرک رکھتا ہے جس کی موجودگی جسم کو زندہ رکھتی ہے اور جس کے نکل جانے کے بعد جسم تو باقی رہتا ہے مگر اس میں کسی قسم کی زندگی نہیں پائی جاتی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی مخصوص جسم کا نام نہیں ہے بلکہ اس روح کا نام ہے جو جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ جسم کے متعلق ہم کو معلوم ہے کہ یہ بہت سے انتہائی چھوٹے چھوٹے ریزوں سے مل کر بنا ہے جس کو زندہ خلیہ(living cell) کہتے ہیں۔ ہمارے جسم میں خلیوں کی وہی حیثیت ہے جو کسی مکان میں اس کی اینٹوں کی ہوتی ہے۔ ہمارے جسمانی مکان کی یہ اینٹیں یا اصطلاحی زبان میں خلیے ہماری حرکت اور عمل کے دوران برابر ٹوٹتے رہتے ہیں جس کی کمی ہم غذا کے ذریعے پوری کرتے ہیں۔ غذا ہضم ہو کر یہی مختلف قسم کے خلیے بناتی ہے جو جسم کی ٹوٹ پھوٹ کو مکمل کر دیتے ہیں۔ اس طرح انسان کا جسم مسلسل گھستا اور بدلتا رہتا ہے۔ پچھلے خلیے ٹوٹتے ہیں اور نئے خلیے ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یہ عمل ہر روز ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد سارے کا سارا جسم بالکل نیا ہو جاتا ہے۔
یہ عمل اوسطاً دس سال میں مکمل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کا جسم جو دس سال پہلے تھا۔ اس میں آج کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ آج آپ کا جسم ایک نیا جسم ہے۔ دس سال کے عرصے میں آپ کے جسم کے جو حصے ٹوٹ کر الگ ہوئے ہیں۔ اگر ان کو پوری طرح یکجا کیا جا سکے تو بعینہ آپ کی شکل کا ایک دوسرا انسان کھڑا کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ اگر آپ کی عمر سو سال ہو تو آپ ہی جیسے تقریباً دس انسان بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ انسان بظاہر دیکھنے میں آپ کی طرح ہوں گے۔ مگر وہ سب کے سب مردہ جسم ہوں گے جن کے اندر آپ موجود نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ آپ نے پچھلے جسموں کو چھوڑ کر ایک نئے جسم کو اپنا قالب بنا لیا ہے۔
اس طرح آپ کا جسم بنتا بگڑتا رہتا ہے مگر آپ کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جس چیز کو آپ’’میں‘‘ کہتے ہیں وہ بدستور باقی ہے۔ آپ نے اگر کسی سے دس سال پہلے معاہدہ کیا تھا تو آپ ہر وقت تسلیم کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ’’میں‘‘ نے کیا تھا۔ حالانکہ اب آپ کا پچھلا جسمانی وجود باقی نہیں ہے۔ وہ ہاتھ اب آپ کے جسم پر نہیں ہے جس نے معاہدے کے کاغذات پر دستخط کیےتھے اور نہ وہ زبان موجود ہے جس نے معاہدے کی بابت گفتگو کی تھی۔ لیکن’’آپ‘‘ اب بھی موجود ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ دس سال پہلے جو معاہدہ میں نے کیا تھا وہ میرا ہی معاہدہ تھا اور اب بھی میں اس کا پابند ہوں یہی وہ اندرونی انسان ہے جو جسم کے ساتھ بدلتا نہیں بلکہ جسم کی کتنی ہی تبدیلیوں کے باوجود اپنے آپ کو باقی رکھتا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ انسان کسی خاص جسم کا نام نہیں ہے جس کے مرنے سے انسان بھی مر جائے۔ بلکہ وہ ایک ایسی روح ہے جو جسم سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے اور جسم کے اجزاء منتشر ہونے کے بعد بھی بدستور باقی رہتی ہے۔ جسم کے بدلنے اور روح کے نہ بدلنے میں اس حقیقت کا صاف اشارہ موجود ہے کہ جسم فانی ہے مگر روح فانی نہیں۔
بعض نادان لوگ یہ کہتے ہیں کہ زندگی اور موت نام ہے کچھ مادی اجزاء کے اکٹھے ہونے اور پھر منتشر ہو جانے کا۔ ان اجزاء کے ملنے سے زندگی بنتی ہے اور ان کے الگ ہو جانے سے موت واقع ہوتی ہے۔ اسی نظریے کو اردو شاعر چکسبتؔ (وفات 1926)نے ان لفظوں میں ادا کیا ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
مگر یہ ایک ایسی بات ہے جس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر زندگی محض ’’عناصر میں ظہور ترتیب‘‘ کا نام ہے تو اس کو اس وقت تک باقی رہنا چاہیے جب تک عناصر کی یہ ترتیب موجود ہے اور یہ بھی ممکن ہونا چاہیے کہ کوئی ہوشیار سائنس داں ان عناصر کو یکجا کرکے زندگی پیدا کر سکے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مرنے والوں میں صرف وہی نہیں ہیں جن کو کوئی ایسا حادثہ پیش آئے جو ان کے جسم کے ٹکڑے کر دے۔ بلکہ ہر حالت میں اور ہر عمر کے لوگ مرتے ہیں۔ بعض مرتبہ اچھے خاصے تندرست انسان کے دل کی حرکت یکایک اس طرح بند ہو جاتی ہے کہ کوئی ڈاکٹر بتا نہیں پاتا کہ ایسا کیوں ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مرنے والے کا جسم اپنی سابقہ حالت میں لیٹا ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں’’عناصر کا ترتیبی ظہور‘‘ مکمل طور پر موجود ہے۔ مگر اس کے اندر جو روح تھی وہ نکل چکی ہے۔ سارے عناصر اسی خاص ترتیب کے ساتھ اب بھی موجود ہوتے ہیں جواب سے چند منٹ پہلے تھے مگر اس کے اندر زندگی موجود نہیں ہوتی۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مادی عناصر کی ترتیب زندگی پیدا نہیں کرتی بلکہ زندگی اس سے الگ ایک چیز ہے جو اپنا مستقل وجود رکھتی ہے۔
کسی لیبارٹری میں زندہ انسان نہیں بنایا جا سکتا اگرچہ جسم کی شکل ہر وقت بنائی جا سکتی ہے۔ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ زندہ جسم کے اجزاء بالکل معمولی کیمیاوی ایٹم ہوتے ہیں۔ اس میں کار بن وہی ہے جو ہم کالک میں دیکھتے ہیں۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن وہی ہے جو پانی کی اصل ہے۔ نائٹروجن وہی ہے جس سے کرۂ ہوا کا بیشتر حصہ بنا ہے۔ اور اسی طرح دوسری چیزیں۔ مگر کیا ایک زندہ انسان محض معمولی ایٹموں کا ایک خاص مجموعہ ہے جو کسی غیر معمولی طریقے سے ترتیب دے دیا گیا ہے۔ یا وہ اس کے علاوہ کچھ اور ہے۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان کا جسم فلاں فلاں مادی اجزاء سے مل کر بنا ہے مگر انہیں اجزاء کو یکجا کرکے ہم زندگی پیدا نہیں کر سکتے۔ دوسرے لفظوں میں ایک زندہ انسان کا جسم محض بے جان ایٹموں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایٹم اور زندگی دونوں ہے۔ مرنے کے بعد ایٹموں کا مجموعہ تو ہمارے سامنے موجود رہتا ہے مگر زندگی اس سے رخصت ہو کر دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زندگی مٹنے والی چیز نہیں ہے۔ بلکہ باقی رہنے والی چیز ہے۔ اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی بعد موت کا نظریہ کس قدر عقلی اور فطری نظریہ ہے۔ یہ حقیقت پکار رہی ہے کہ زندگی صرف وہی نہیں ہو سکتی جو موت سے پہلے نظر آتی ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ہمیں زندہ رہنا چاہیے۔ ہماری عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ دنیا اور اس کی عمرفانی ہے مگر انسان ایک ایسا وجود ہے جو اس کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ جب ہم مرتے ہیں تو درحقیقت ہم مرتے نہیں بلکہ زندہ رہنے کے لیے دوسری دُنیا میں چلے جاتے ہیں۔ موجودہ زندگی ہماری مسلسل عمر کا محض ایک مختصر وقفہ ہے۔
دوسری دنیا
اب اس سوال پر غور کیجیے کہ دوسری زندگی کیسی ہوگی۔ خدا کے رسول کہتے ہیں کہ وہاں جنت اور دوزخ ہے۔ ہر شخص جو مرتا ہے وہ ان دو میں سے کسی ایک کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔ جو شخص آج کی دنیا میں خدا کا فرمانبردار ہوگا اور نیک عمل کرے گا اس کو جنت کی آرام گاہ میں جگہ ملے گی۔ اور جو بدکردار اور خدا کا نافرمان ہوگا اس کو جہنم کی تکلیفوں میں ڈالا جائے گا۔
اس کو سمجھنے کے لیے اس حقیقت پر غور کیجیے کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے اس کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک واقعہ ہے جیسے کہ بہت سے واقعات ہوتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ وہ خاص ارادے کے تحت کیا گیا ہے۔ پہلی حیثیت کو ہم واقعاتی کہہ سکتے ہیں اور دوسری کو اخلاقی۔ ایک مثال سے اس کو مزید وضاحت ہو جائے گی۔
اگر کسی درخت پر کوئی پتھر اٹکا ہوا ہو، آپ اس کے نیچے سے گزریں اور یکا یک پتھر آپ کے اوپر گر پڑے اور آپ کا سر ٹوٹ جائے تو آپ درخت سے لڑائی نہیں کریں گے نہ اس پر خفا ہوں گے بلکہ خاموشی سے اپنا سر پکڑے ہوئے گھر چلے جائیں گے۔ اس کے برعکس، اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر آپ کے اوپر ایک پتھر کھینچ مارے جس سے آپ کا چہرہ زخمی ہو جائے تو آپ اس پر برس پڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کا سر توڑ ڈالیں جس طرح اس نے آپ کا سر توڑا ہے۔
درخت اور انسان میں یہ فرق کیوں ہے۔ کیوں آپ درخت سے بدلہ نہیں لیتے اور انسان سے بدلہ لینا چاہتے ہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ درخت اس احساس و شعور سے خالی ہے جو انسان کو حاصل ہے۔ درخت کا عمل صرف واقعاتی نوعیت رکھتا ہے جب کہ انسان کا عمل واقعاتی اور اخلاقی دونوں ہے۔
اس سے ظاہر ہوا کہ انسان کے عمل کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی وجہ سے کوئی واقعہ دنیا میں ظاہر ہوا۔ دوسرے یہ کہ وہ عمل جائز تھا یا ناجائز۔ صحیح جذبے سے کیا گیا تھا یا غلط جذبے سے۔ اس کو ہونا چاہیے تھا یا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جہاں تک عمل کی پہلی حیثیت کا تعلق ہے اس کا پورا انجام اسی دنیا میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ مگر اس کی دوسری حیثیت کا انجام اس دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اور کبھی ظاہر ہوتا ہے تو نہایت ناقص شکل میں۔ جس شخص نے آپ کو پتھر مارا اس کے عمل کا یہ انجام تو فوراً ظاہر ہوگیا کہ آپ کا سر ٹوٹ گیا مگر اس کے عمل کا دوسرا انجام کہ اس نے اپنی قوتوں کا غلط استعمال کیا اس کا انجام ظاہر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس نے چاہا تھا کہ سرتوڑے اور سر ٹوٹ گیا۔ اس نے چاہا تھا کہ ایک غلط کام کرے مگر اس کے اس دوسرے ارادے کا کوئی نتیجہ ہمارے سامنے نہیں آیا۔ نتیجہ نام ہے انسانی ارادے کے خارجی ظہور کا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی ارادے کا ایک نتیجہ(واقعاتی نتیجہ) ہمیشہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ پھر انسانی ارادے کا دوسرا نتیجہ— اخلاقی نتیجہ — بھی ضرور ظاہر ہونا چاہیے۔
آخرت انسانی عمل کے اسی دوسرے پہلو کا مکمل انجام ظاہر ہونے کی جگہ ہے۔ جس طرح آدمی کے عمل کا ایک پہلو کچھ واقعات کو ظہور میں لاتا ہے۔ اسی طرح اس کے عمل کا دوسرا پہلو کچھ دوسرے واقعات کو پیدا کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلی قسم کے واقعات کو ہم اسی دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور دوسری قسم کے واقعات کو ہم مرنے کے بعد دیکھیں گے۔
ہر آدمی جو دنیا میں زندگی گزار رہا ہے وہ اپنے عمل سے اپنے لیے کوئی نہ کوئی نتیجہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ خواہ وہ بیکار بیٹھا ہو یا کسی کام میں مشغول ہو، اس کی ہر حالت اس کے موافق یا مخالف ایک ردعمل پیدا کرتی ہے۔ اس کے عادات و اخلاق سے لوگ اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوتوں کو جس طرح استعمال کرتا ہے اسی کے لحاظ سے اس کے کام بنتے یا بگڑتے ہیں، وہ اپنی کوششوں کو جس چیز میں لگاتا ہے اس نوعیت کی چیزوں پر اس کا حق قائم ہوتا ہے۔
غرض ہر شخص اپنے گردوپیش اپنی ایک دنیا کی تخلیق کر رہا ہے جو عین اس کے عمل کے مطابق ہے۔ یہ آدمی کے عمل کا ایک پہلو ہے جو موجودہ دنیا سے متعلق ہے۔ اسی طرح اس کے کام کی دوسری حیثیت، صحیح یا غلط ہونے کی حیثیت بھی اپنا ایک انجام پیدا کرتی ہے جو دوسری دنیا میں ذخیرہ ہو رہا ہے۔ ہمارے عمل کا اخلاقی پہلو مستقل طور پر اپنے انجام کی تخلیق کر رہا ہے اور اسی کا نام مذہب کی اصطلاح میں جنت اور دوزخ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہر آن اپنے لیے جنت یا دوزخ تعمیر کر رہا ہے۔ چونکہ اس دنیا میں آدمی کو امتحان کی غرض سے ٹھہرایا گیا ہے اس لیے جنت اور دوزخ اس کی نگاہوں سے اوجھل رکھی گئی ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور قیامت آئے گی تو ہر شخص اپنی تعمیر کی ہوئی دنیا میں پہنچا دیا جائے گا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہمارے عمل کا کوئی اخلاقی انجام ہے تو وہ ہم کو نظر کیوں نہیں آتا۔ مثلاً مکان بنانا ایک عمل ہے جس کا انجام یہ ہے کہ مکان بن کر کھڑا ہو جائے۔ یہ انجام ظاہر ہوتا ہے اور اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مگر اس عمل کا یہ پہلو کہ وہ جائز طریقے پر بنایا گیا ہے یا ناجائز طریقے پر، یہ بھی اگر کوئی انجام پیدا کرتا ہے تو وہ کہاں ہے۔ کیا ایسا بھی کوئی انجام ہو سکتا ہے جس کو دیکھا اور چھوا نہ جا سکتا ہو۔
اس کا جواب خود عمل کی ان دونوں حیثیتوں میں موجود ہے۔ کسی عمل کی جو واقعاتی حیثیت ہے اس کو ہر شخص دیکھتا ہے حتیٰ کہ کیمرے کی بے جان آنکھ بھی اس کو صاف طور پر دیکھ لیتی ہے۔ مگر کسی عمل کی اخلاقی حیثیت نظر آنے والی چیز نہیں ہے۔ وہ صرف محسوس ہوتی ہے دیکھی نہیں جاتی۔ عمل کی دونوں حیثیتوں کا یہ فرق خود اشارہ کر رہا ہے کہ دونوں قسم کا انجام کس طرح ظاہر ہونا چاہیے۔ یہ اس بات کا صریح اشارہ ہے کہ عمل کی پہلی حیثیت کا انجام اسی دنیا میں نظر آنا چاہیے جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور عمل کی دوسری حیثیت کا انجام اس دنیا میں نظر آئے گا جو ابھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ گویا جو کچھ ہے، یہی دراصل ہونا بھی چاہیے تھا۔
مگر یہ صرف عقلی امکان ہی کی بات نہیں ہے۔ کائنات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بالفعل یہاں دونوں قسم کے انجام پائے جاتے ہیں۔ ایسے بھی جنہیں ہم واقع ہونے کے بعد فوراً دیکھ لیں اور ایسے بھی جو اگرچہ ہماری آنکھوں کو نظر نہیں آتے مگر وہ ایک حقیقت کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ کائنات میں ایسے غیر مرئی نتائج کا موجود ہونا صریح طورپر ظاہر کرتا ہے کہ اسی قسم کے دوسرے غیر مرئی نتائج بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق اپنے اندر ایسے نتائج کے ہونے کا اقرار کرتی ہے۔
مثال کے طور پر آواز کو لیجیے۔ آپ جانتے ہیں کہ آواز نام ہے ایسی لہروں کا جن کو آنکھ کے ذریعہ دیکھا نہیں جا سکتا۔ جب ہم بولنے کے لیے زبان کو حرکت دیتے ہیں تو اس کی حرکت سے ہوا میں کچھ لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ انہیں لہروں کو ہم آواز کہتے ہیں۔ آواز ایک طرح کا غیر مرئی نقش ہے جو ہماری زبان کے ہلنے سے ہوا میں پیدا ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص بولتا ہے تو اس کی آواز لہروں کی شکل میں نقش ہو جاتی ہے۔ اور مستقل طور پر باقی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اب سے ہزاروں برس پہلے کسی انسان نے جو آواز اپنے منہ سے نکالی تھی، جو گفتگو یا تقریر کی تھی سب کی سب ہوا کے اندر لہروں کی شکل میں موجود ہے۔ اگرچہ آج ہم ان آوازوں کو نہیں دیکھتے اور نہ اسے سنتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے پاس ان کو گرفت کرنے والے آلات ہوں تو کسی بھی وقت ان کو بعینہٖ اپنی سابق شکل میں دہرایا جا سکتا ہے۔
اس مثال کے ذریعہ ہم دوسری دنیا کے مسئلے کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ جس طرح ہمارے چاروں طرف ہوا کا ایک غلاف ہے۔ اور ہماری ہر آواز منہ سے نکلتے ہی اس پر نقش ہو جاتی ہے۔ حالانکہ نہ ہم ہوا کو دیکھتے ہیں اور نہ اپنی آواز کے نقوش کو۔ ٹھیک اسی طرح وہ دوسری دنیا بھی ہم کو چاروںطرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اور ہماری نیتوں اور ارادوں کو مسلسل ریکارڈ کرتی جا رہی ہے۔ اس کے پردے پر ہمارے اعمال کے نقوش ثبت ہو رہے ہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو جائیں گے۔ گرامو فون میں چابی بھری ہوئی ہو اور ریکارڈ اس کے اوپر گھوم رہا ہو تو سوئی رکھتے ہی ریکارڈ کی خاموش تختی یکایک اس طرح بول پڑتی ہے۔ جیسے وہ اسی کی منتظر تھی کہ کوئی اس کے اوپر سوئی رکھے اور وہ اپنے اندر کی آواز نکالنا شروع کر دے۔ اسی طرح ہمارے تمام اعمال کا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے اور جب کائنات کا مالک حکم دے گا تو سارا ریکارڈ اس طرح سامنے آ جائے گا کہ اس کو دیکھ کر آدمی بے اختیار کہے گا:مالِ هذَا الْكِتابِ لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَاّ أَحْصاها (17:49)۔ یعنی، یہ کیسی کتاب ہے۔ میرا چھوٹا بڑا کوئی عمل ا یسا نہیں ہے جو اس نے محفوظ نہ کر لیا ہو ۔
آخری بات
اوپرمیں نے جو کچھ بیان کیا ہے۔اب آخر میں پھرایک بار اس کو اپنے ذہن میں دہرا لیجیے۔ آپ کی زندگی ایک نہایت طویل اور مسلسل زندگی ہے۔موت اس زندگی کی آخری حد نہیں ہے بلکہ وہ اس کے دوسرے دور کی ابتداء ہے۔ موت ہماری زندگی کے دو مرحلوں کے درمیان حدّ فاصل قائم کرتی ہے۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ کسان ایک فصل بوتا ہے، اس پر کوشش کرتا ہے۔ اپنا سرمایہ اس میں لگاتا ہے۔ یہاں تک کہ فصل تیار ہو کر سوکھ جاتی ہے۔ اس وقت وہ اسے کاٹ لیتا ہے تاکہ اس سے غلّہ حاصل کر کے اپنی سال بھرکی خوراک کا انتظام کرے۔ فصل کا کٹنا فصل کے ایک دور کا ختم ہونا اور اس کے دوسرے دور کا آغاز ہونا ہے۔ اس سے پہلے بونا اور فصل کو تیارکرنا تھا۔ اس کے بعد اس کا پھل حاصل کرنا اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرنا ہے۔ فصل کٹنے سے پہلے صرف کوشش اور خرچ تھا اور فصل کٹنے کے بعد صرف اپنی محنت کا نتیجہ پانا اور اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔
ٹھیک یہی حال ہماری زندگی کا بھی ہے۔ ہم اس دنیا میں اپنی آخرت کی فصل تیار کر رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص آخرت میں اپنا ایک کھیت رکھتاہے جس میں وہ یا تو کاشت کر رہا ہے یا اس کو خالی چھوڑے ہوئے ہے۔ اس نے یا تو خراب بیج استعمال کیےہیں یا اچھے بیچ ڈالے ہیں۔ اس نے بیج ڈال کر یا تو اسے چھوڑ دیا ہے یا وہ بیج ڈالنے کے بعد مسلسل اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس نے یا تو کانٹوں کی فصل بوئی ہے یا پھل اور پھول اگائے ہیں۔ وہ یا تو اپنی ساری قوت اس کھیتی کو بہتر بنانے میں لگائے ہوئے ہے یا دوسرے غیر متعلق مشاغل اور دلچسپیوں میں بھی وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اس فصل کی تیاری کی مدت اس وقت تک ہے جب تک ہم کو موت نہیں آ جاتی۔ موت آخرت کی فصل کاٹنے کا دن ہے۔ جب اس دنیا میں ہماری آنکھ بند ہو گی تو دوسری دنیامیں ہماری آنکھ کھلے گی۔ وہاں ہماری عمر بھر کی تیار کی ہوئی کھیتی ہمارے سامنے موجود ہو گی۔
یاد رکھیے کاٹنے کے دن وہی کاٹتا ہے جس نے کاٹنے سے پہلے کھیتی کی ہو اور وہی چیز کاٹتا ہے جو اس نے اپنے کھیت میں بوئی تھی۔ اسی طرح آخرت میں ہر شخص کو وہی فصل ملے گی جو اس نے موت سے پہلے تیار کی ہے۔ ہر کسان جانتا ہے کہ اس کے گھر میں ٹھیک اتنا ہی غلّہ آئے گا جتنی اس نے محنت کی ہے اور وہی چیز آئے گی جو اس نے بوئی تھی۔ اسی طرح آخرت میں بھی آدمی کو اسی کے بقدر ملے گا جتنی اس نے جدوجہد کی ہے اور وہی کچھ ملے گا جس کے لیے اس نے کوشش کی ہو۔
موت کوشش کی مدّت ختم ہونے کا آخری اعلان ہے اور آخرت اپنی کوششوں کا انجام پانے کی آخری جگہ۔ موت کے بعد نہ دوبارہ کوشش کرنے کا موقع ہے اور نہ آخرت کبھی ختم ہونے والی ہے۔ کتنا سنگین ہے یہ واقعہ۔ کاش انسان موت سے پہلے اس حقیقت کو سمجھ لے کیوں کہ موت کے بعد سمجھنا کچھ بھی کام نہ آئے گا۔ موت کے بعد ہوشیار ہونے کے معنی صرف یہ ہیں کہ آدمی اس بات پرافسوس کرے کہ اس نے ماضی میں کتنی بڑی غلطی کی ہے ، ایک ایسی غلطی جس کی اب کوئی تلافی نہیں ہو سکتی۔
انسان اپنے انجام سے غافل ہے حالانکہ زمانہ اس کو نہایت تیزی سے اس وقت کی طرف لیے جا رہا ہے جب فصل کٹنے کا وقت آ جائے گا۔ وہ دنیا کے حقیر فائدوں کو حاصل کرنے میں مصروف ہے اور سمجھتا ہے کہ میں کام کر رہا ہوں۔ حالانکہ دراصل وہ اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کر رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک عظیم موقع ہے جس کو استعمال کر کے وہ اپنے لیے ایک ناقابل قیاس حد تک شاندار مستقبل بنا سکتا ہے۔ مگر وہ کنکریوں سے کھیل رہا ہے۔ اس کا رب اس کو اپنی جنت کی طرف بلا رہا ہے جو لامتناہی عزت اور آرام کی جگہ ہے۔ مگر وہ چند دن کی جھوٹی لذت میں کھویا ہوا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں حاصل کر رہا ہوں حالانکہ وہ صرف ضائع کر رہا ہے۔ دنیا میں مکان بنا کر وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی زندگی کی تعمیر کر رہا ہوں حالانکہ وہ صرف ریت کی دیواریں اٹھا رہا ہے جو اسی لیے بنتی ہیں کہ بننے کے بعد منہدم ہو جائیں۔
انسان اپنے آپ کو پہچان۔ تو کیا کر رہا ہے اور تجھے کیا کرناچاہیے!(1960)