دور جدید میں انسان کے مسائل

 اسلام کی تعلیمات کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ایک خدا سے متعلق، اور دوسرا بندوں سے متعلق۔ پہلی قسم کی تعلیمات کو عبادات کہا جا سکتا ہے اور دوسری قسم کی تعلیمات کو معاملات۔

عبادات سے متعلق اسلام کی جو تعلیمات ہیں وہ ناقابل تغیر ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کمی بیشی جائز نہیں جس چیز کو اسلام میں بدعت کہا گیا ہے:كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ( سنن النسائی، حدیث نمبر 1578 )۔ اس کا تعلق حقیقۃً انہیں اول الذکر حصہ احکام سے ہے۔

 مگر ثانی الذکر احکام(معاملات) کی نوعیت اس سے مختلف ہے۔ اس شعبہ میں ہم کو صرف بنیادی احکام دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ہم کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ ہر دور کے حالات کے مطابق ہم ان احکام کو منطبق کرتے رہیں۔ اجتہاد کا تعلق اسی دوسرے حصہ احکام سے ہے۔ اجتہاد حقیقۃً بدلے ہوئے دنیوی حالات میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کا انطباق تلاش کرنے کا دوسرا نام ہے۔

 دونوں قسم کی تعلیمات کا یہ فرق حدیث سے واضح ہے۔ چنانچہ عبادات سے متعلق احکام کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2697)۔ یعنی، جو شخص ہمارے اس دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اس میں نہ ہو وہ قابل رد ہے۔

 دوسرے حصہ احکام کی مختلف نوعیت تأبیر نخل(pollination of date palms) کے واقعہ سے واضح ہے۔ پیغمبر اسلام ایک بار مدینہ کے باہر کھجوروں کے ایک باغ سے گزرے۔ وہاں کچھ لوگ درخت کے اوپر چڑھے ہوئے کچھ کر رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ تم کیا کر رہے ہو۔ لوگوں نے بتایا کہ ہم نر کو مادہ پر مار رہے ہیں۔ آپ نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ چنانچہ وہ لوگ رک گئے۔ مگر یہ زرخیزی کا معاملہ تھا اور زرخیزی کے بغیر درختوں میں پھل نہیں آتے۔ چنانچہ اس سال کھجور کی پیداوار بہت کم ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ویسا ہی کرو جیسا تم پہلے کرتے تھے۔ کیوں کہ تم اپنے دنیوی معاملات کو زیادہ بہترجانتے ہو :أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُورِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر 2363)۔

ان دونوں روایات سے واضح طور پر ثابت ہے کہ عبادات کے معاملہ میں کوئی اجتہاد نہیں ہے مگر جہاں تک معاملات کا تعلق ہے ان میں اجتہاد اور انطباق کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے۔

 مجھے اس مقالہ میں اسلامی احکام کے صرف دوسرے حصہ کے بارے میں گفتگو کرنی ہے۔ تاہم اس دوسرے حصہ کے بھی دو الگ الگ پہلو ہیں۔ اس اعتبار سے زیربحث موضوع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسانی معاملات میں اسلام کے بنیادی نقطہ نظر سے ہے۔ دوسرے حصہ کا تعلق اس بنیادی قانونی ڈھانچہ سے ہے جو اسلامی شریعت انسان کے مسائل کے حل کے لیے پیش کرتی ہے۔ یہاں میں اپنی گفتگو کو موضوع کے پہلے حصہ تک محدود رکھوں گا۔

 قرآن میں ہے کہ حق اگر ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب میں فساد ہو جاتا(المومنون، 23:71)۔

تخلیق کے بارہ میں خدا کا منصوبہ ایک کامل منصوبہ ہے۔ انسان کے سوا بقیہ کائنات ٹھیک ٹھیک اسی خدائی منصوبہ پر چل رہی ہے۔ اس لیے بقیہ کائنات نہایت درست ہے، اس میں کہیں کوئی خرابی نہیں(الملک، 67:3) مگر انسان اپنے عمل کے لیے آزاد ہے۔ وہ حق کو چھوڑ کر اپنی خواہش پر چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی دنیا میں فساد برپا رہتا ہے۔ انسان کا بگاڑ دراصل انسان کی آزادی کی قیمت ہے۔

 انسان کے مسائل کا حل اسلام کے نزدیک وہی ہے جو بقیہ کائنات کے مسائل کا حل ہے۔ انسان اپنی خواہش پر چلنے کے بجائے اسی حق پر چلے جس پر کائنات کی بقیہ تمام چیزیں چل رہی ہیں۔ ایسا کرتے ہی انسانی سماج میں وہی اصلاح اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی جو بقیہ کائنات میں بروقت موجود ہے۔

 حق پر چلنا کیا ہے اور خواہش پر چلنا کیا۔ اس کی ایک مثال لیجیے جو قرآن میں ہے:سورج کے لیے ممکن نہیں کہ وہ چاند سے ٹکرا جائے اور نہ رات ایسا کر سکتی ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے۔ ہر ایک اپنے مدار میں گردش کرتا ہے (36:40)۔

خدا کے منصوبہ کے مطابق خدا کا قانون ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مدار میں چلے۔ اسی کے مطابق تمام فلکیاتی اجرام حرکت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے درمیان آپس میں ٹکرائو نہیں ہوتا۔ اس حق کا اطلاق انسان پر اس طرح ہوگا کہ آدمی اپنے اپنے دائرہ میں عمل کرے۔ اگر ہر آدمی ایسا کرے تو پورے سماج کا نظام درست رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر ہر آدمی اپنی خواہش پر چلنے لگے تو لوگوں میں ٹکرائو ہوگا اور سوسائٹی میں اور بین الاقوامی زندگی میں فساد برپا ہو جائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ جب بیرونی سیاسی غلبہ سے آزاد ہوا تو ایک امریکی اپنے گھر سے باہر نکلا وہ سڑک پر آزادانہ طور پر چل رہا تھا۔ دوسرے راہ گیروں کا لحاظ کیےبغیر وہ اپنا ہاتھ زور زور سے ہلا رہا تھا۔ اسی اثناء میں اس کا ہاتھ ایک راہ گیر کی ناک سے ٹکرا گیا۔

راہ گیر نے بگڑ کر کہا کہ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تم اس طرح اپناہاتھ بے ڈھنگے طور پر ہلاتے ہوئے کیوں چل رہے ہو، امریکی نے جواب دیا کہ اب ہمارے ملک نے آزادی حاصل کر لی ہے۔ آج میں آزاد ہوں کہ جو چاہوں کروں اور جس طرح چاہوں چلوں۔ راہ گیر نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہاجناب، آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔

Your freedom ends where my nose begins

قرآن میں ارشاد ہوا ہے:تم ناپ اور تول کو پورا کرو لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ کرو (7:85)۔

اس آیت کے مطابق خدا کی بنائی ہوئی زمین ایک اصلاح یافتہ زمین ہے۔ یہاں ہر چیز درست طریقہ سے قائم ہے۔ ہر چیز عین وہی کر رہی ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ زمین کا یہ نظام انسان کے لیے اپنے معاملات کا معیار اور پیمانہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے عمل کو اسی قدرتی پیمانہ سے ناپے اور اس سے مطابق کرکے اپنے ہر عمل کو درست کرتا رہے۔ اگر انسان ایسا کرے گا تو اس کی سوسائٹی امن اور انصاف کی سوسائٹی ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر وہ زمین میں رکھے ہوئے اس پیمانہ سے مطابقت نہیں کرے گا تو انسان کا سماج بگڑ جائے گا۔ وہ اصلاح کی دنیا میں فساد کی دنیا بنانے کے ہم معنی ہوگا۔

فطرت سے یہ مطابقت ہی ہماری تمام کامیابیوں کا راز ہے۔ موجودہ زمانہ کی ٹیکنکل ترقیوں کو دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ مگر یہ ٹیکنکل ترقیاں کیا ہیں۔ وہ فطرت سے مطابقت کا دوسرا نام ہیں۔ یہی طریقہ ہم کو انسانی سماج کی اصلاح کے لیے بھی اختیار کرنا ہے۔ مادی ترقیاں فطرت سے مطابقت کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسانی سوسائٹی بھی نیچر سے مطابقت ہی کے ذریعہ درست ہوگی۔ خدا کی اس دنیا میں اصلاح و ترقی کا ایک ہی یقینی طریقہ ہے، اور وہ فطرت سے مطابقت ہے۔ مادی دنیا کے لیے بھی اور انسانی دنیا کے لیے بھی۔

ستاروں اور سیاروں کی گردش میں جو نظم ہے وہی نظم کائنات کی تمام چیزوں میں کمال درجہ میں پایا جاتا ہے۔ اس دنیا کے تمام واقعات اتنے منظم طور پر ظہور میں آتے ہیں کہ ان کو پیشگی طور پر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی ناقابل بیان حد تک حیرت انگیز تنظیم اتنی کامل ہے کہ وہ اپنی فطرت میں قابل پیشین گوئی بن گئی ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات انتہائی حد تک مکمل ہے۔ اس میں ابدیت، معنویت اور حسن کمال طور پر پایا جاتا ہے۔ وہ نقص یا کمی سے اتنا زیادہ خالی ہے کہ اس پر اربوں سال گزر گئے اور اس میں کسی نظر ثانی کی ضرورت پیدا نہیں ہوئی۔

موجودہ زمانے میں سائنس نے اس قانون فطرت کو بہت بڑے پیمانے پر انسانی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ مادی دنیا میں قوانین فطرت کا انطباق کیا گیا تو اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ دھات بجلی کی روشنی میں تبدیل ہوگئی۔ جامد مادہ حرکت بن کر دوڑنے لگا، مادہ شاندار تمدن میں ڈھل گیا وغیرہ — مگر اسی اصول کو انسان خود اپنی زندگی میں اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی تضاد انسان کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ انسان جس سائنس(علم فطرت) کو میکینکل دنیا میں کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے اسی سائنس کو وہ انسانی دنیا میں استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 ضرورت ہے کہ یہی آفاقی اصول انسانی زندگی میں بھی رائج ہوں۔ انسان بھی سوسائٹی کے اندر اسی طرح عمل کرے کہ ہر ایک اپنے دائرہ میں رہے، کوئی شخص دوسرے کے دائرہ میں داخل نہ ہو۔ انسان اپنی فطرت میں چھپے ہوئے تعمیری امکانات کو واقعہ بنائے۔ وہ اپنی زندگی کو اس طرح منظم کرے کہ وہ قابل کردار کا مالک بن جائے جس طرح بقیہ کائنات قابل پیشین گوئی کردار کی مالک بنی ہوئی ہے۔

 یہی انسان کا سب سے بڑا مقصود ہے اور یہی اصلاً تمام مذاہب کا خلاصہ ہے۔ پھر یہی اسلام کا خلاصہ بھی ہے جو آسمانی مذہب کا صحیح اور مستنداڈیشن ہے۔ اسلام حقیقۃً اس بات کی دعوت ہے کہ انسان اپنی زندگی کی تعمیر کے لیے کائناتی نظام کو اپنا ماڈل بنائے۔ وہ اسی طرح زندگی گزارے جس طرح بقیہ وسیع کائنات کے تمام اجزاء اپنا اپنا وظیفہ پورا کر رہے ہیں۔

طبیعیاتی مشاہدہ بتاتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا ایک قانون ہے اور وہ انتہائی لزوم کے ساتھ اس پر قائم ہے۔ پروفیسر آئن رکسبرگ(لندن) کے الفاظ میں:

’’کائنات تعجب خیز حد تک یکساں ہے۔ ہم خواہ کسی طور پر بھی اس کو دیکھیں، کائنات کے اجزاء میں وہی ترکیب اسی تناسب سے پائی جاتی ہے۔ زمین پر جو طبیعیاتی قوانین دریافت کیےگئے ہیں وہ تحکمی اعداد پر مشتمل ہیں، جیسے کسی الیکٹران کی مقدار مادہ کا تناسب ایک پروٹان کے مقدار مادہ سے جو کہ تقریباً1840ء کے مقابلہ میں ایک ہوتا ہے۔ یہ تناسب ہر جگہ اور ہر وقت پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا ایک خالق نے تحکمی طور پر انہیں اعداد کا انتخاب کر رکھا ہے۔ کیا کائنات کے وجود کے لیے ان اعداد میں وہی متناسب قدر ضروری ہے جو ہم دیکھتے ہیں‘‘ (سنڈے ٹائمس، لندن،4 دسمبر1977)۔

یہ سائنس کی زبان میں وہی بات ہے جو قرآن کی زبان میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے:خدا نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ پھر ہر چیز کا الگ الگ اندازہ مقرر کیا (25:2)۔ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:کیا وہ خدا کے دین کے سوا اور کوئی دین چاہتے ہیں حالانکہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اسی کی مطیع ہیں، خوشی سے یا ناخوشی سے۔ اور سب کو آخر کار خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے (3:83)۔

جس چیز کو سائنس میں قانون قدرت کہا جاتا ہے اسی کا مذہبی نام دین ہے۔ اللہ کا جو دین عملاً زمین و آسمان کی تمام چیزوں پر قائم ہے وہی دین انسان سے بھی مطلوب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بقیہ کائنات اس دین خدا پر جبر کے ذریعہ قائم ہے اور انسان کو یہ دین خود اپنے اختیار سے اپنے اوپر قائم کرنا ہے۔

 قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:

اور خدا نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا۔ ہر ایک معین وقت پر چلتا ہے۔ اللہ معاملہ کی تدبیر کر رہا ہے اور وہ نشانیوں کو بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملاقات کا یقین کرو(13:2)۔

 اس آیت میں تدبیر امر سے مراد کائنات کا خدائی نظام ہے۔ اور تفصیل آیات سے مراد وہ وحی ہے جو پیغمبروں پر اتری۔ خدا اپنے قانون کو بقیہ دنیا میں براہ راست اپنے نظام کے تحت عملاً قائم کیےہوئے ہے۔ اسی قانون کو وہ پیغمبروں کے ذریعہ انسان کے پاس بھیجتا ہے تاکہ انسان اپنی آزاد مرضی سے اسی قانون الٰہی پر عمل کرے۔ گویا آسمانی کتاب(قرآن) جس حقیقت ربانی کا لفظی بیان ہے، کائنات اسی کا عملی مظاہرہ ہے۔

 یہی بات ہے جو حضرت مسیح کی زبان سے انجیل میں ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے:پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ، تو جو آسمان پر ہے، تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی پوری ہو (متی، 610:) ۔

 اینتون چیخوف (Anton Chechov, 1860-1904) نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ دنیا بے حد حسین ہے۔ اس میں صرف ایک ہی چیز ہے جو حسین نہیں، اور وہ انسان ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں کوئی چیز کسی دوسری چیز کی دشمن نہیں، ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن بنتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں بارش برستی ہے تاکہ زمین پر فصل اگے، وہاں آدمی آگ برساتا ہے تاکہ فصلیں تباہ ہوں۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر طرف اصلاح کا منظر دکھائی دیتا ہے، وہاں انسان فساد اور بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

دو دنیائوں میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ دنیا پوری طرح خالق کے نقشہ کے مطابق چل رہی ہے، وہ ویسے ہی رہنے کے لیے مجبور ہے جیسا کہ خدا چاہتا ہے کہ وہ رہے۔ مگر انسان کو اللہ کی طرف سے آزادی ملی ہوئی ہے۔ وہ اپنے ارادے کے تحت ایک یا دوسرے راستے پر چلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ انسانی دنیا میں بگاڑ کی وجہ تمام تر یہی ہے۔ بقیہ دنیا خدا کے نقشہ کی پابند ہے۔ اس لیے وہ مکمل طور پر درست ہے۔ اس کے برعکس، انسان خدا کے نقشہ سے انحراف کرتا ہے۔ اس لیے اس کے سارے معاملات میں بگاڑ پایا جا رہا ہے۔ ہر برائی جو زمین پر پائی جاتی ہے وہ دراصل انسانی آزادی کا غلط استعمال ہے۔

سائنس کیا ہے؟ سائنس قانون فطرت کا استعمال ہے۔ سائنس مادہ کو تمدن میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی طرح مذہب انسانی زندگی کو معیاری سماج میں تبدیل کرنے کا علم ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذہب(اسلام) زندگی کی سائنس ہے۔ بقیہ چیزوں میں یہ سائنس مادہ کے جبری قانون کے تحت عمل کرتی ہے۔ اور انسان خود اپنے ارادہ سے اپنے آپ کو اس قانون فطرت کا پابند بناتا ہے۔

 سائنس کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع وہ ہے جس کو قدرت کی نقل کہتے ہیں۔ اس کا مقصد قدرت کے نظاموں کو سمجھ کر ان کی میکینکل نقل کرنا ہے۔ اس سائنسی شاخ کا نامBionics ہے۔ مثلاً کشتی مچھلی کی نقل ہے۔ ہوائی جہاز چڑیا کی نقل ہے۔ کمپیوٹر انسانی دماغ کی میکینکل نقل ہے وغیرہ وغیرہ۔ قدرت کے ماڈل کو ہم اپنی میکینکل دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ قدرت کے اسی ماڈل کو انسانی زندگی کے نظام میں بھی منطبق کیا جائے۔ کائنات کا جو علم ہمیں جدید شہروں کی تعمیر کا فن بتاتا ہے وہی علم ہمیں سماجی تعمیر کے اصول بھی دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی تنظیم کے لیے تمام ضروری ماڈل کائنات میں موجود ہیں۔ البتہ چوں کہ انسان کو عمل کی آزادی دی گئی ہے اور وہ اس امتحان کی حالت میں ہے کہ وہ اپنی آزادی کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔ اس لیے یہ تمام ماڈل تمثیلی انداز میں قائم کیےگئے ہیں۔

 یہاں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ تمثیل کو واقعہ کے روپ میں دیکھے۔ انسان کو یہ ثبوت دینا ہے کہ وہ کائنات میں خالق کے خاموش کلام کو سن سکتا ہے۔ وہ قدرت کے اشاروں کو الفاظ کا روپ دے سکتا ہے۔ وہ تمثیلی ماڈل کو سمجھ کر اپنی حقیقی زندگی میں عملاً استعمال کر سکتا ہے۔ انسان کو اپنے آزادانہ ارادہ کے تحت وہی کچھ کرنا ہے جو بقیہ چیزیں مجبورانہ نظام کے تحت کر رہی ہیں۔

1۔ اس سلسلہ میں کائناتی ماڈل کی ایک مثال وہ ہے جس کو ہم نے اوپر نقل کیا ہے۔ یعنی کائنات میں بے شمار اجرام(bodies) ہیں۔ اور سب حرکت کر رہے ہیں۔ مگر سب اپنے اپنے مدار کا پابند ہو کر حرکت کرتے ہیں۔ کوئی اپنے مقرر دائرہ سے باہر نہیں جاتا۔ اسی لیے ان کے درمیان کبھی ٹکرائو نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ فلکیات داں کہتے ہیں کہ بعض اوقات ایک پورا کہکشانی نظام اپنے اربوں ستاروں کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے دوسرے کہکشانی نظام میں داخل ہوتا ہے اور اس سے گزر کر باہر نکل جاتا ہے بغیر اس کے کہ دونوں کے درمیان کوئی ٹکرائو ہو۔

یہ ایک ماڈل ہے جو بتاتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا سفر اس طرح جاری کرنا چاہیے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان مفادات کا ٹکرائو نہ ہو۔ حتیٰ کہ ایک قوم(انسانوں کا مجموعہ) دوسری قوم سے ملے اور گزر جائے۔ مگر دونوں کے درمیان ٹکرائو کی نوبت نہ آئے۔

یہی بات قرآن میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے — وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ، الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (26:151-152)۔ یعنی،حد سے گزر جانے والوں کی بات نہ مانو۔ جو زمین میں خرابی کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ 

2۔اسی طرح ایک ماڈل وہ ہے جو شہد کی مکھیوں کے چھتہ کی شکل میں قائم ہے۔ شہد کی مکھیوں کے چھتہ میں نہایت کامیاب قسم کی ایک منظم اسٹیٹ ہوتی ہے۔ اس اسٹیٹ کا نظام ایک ملکہ مکھی کے تحت عمل کرتا ہے۔ تمام مکھیاں حددرجہ محنت اور نظم کے ساتھ اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگی رہتی ہیں۔ شہد کی مکھی کے چھتہ کے اندر نہایت معیاری قسم کی (result-oriented) سرگرمیاں رات دن جاری رہتی ہیں۔

 یہ ایک نمونہ ہے جو بتاتا ہے کہ انسانی سماج کی تنظیم کو کن اصولوں پر کام کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ تمام انسان ایک واحد نظام کے تابع ہوں۔ ایک خدا کی فرماں برداری میں ہر آدمی اور بحیثیت مجموعی پورا سماج اپنی اپنی ڈیوٹی کو پوری طرح انجام دے   :  وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(3:103)۔یعنی، اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔

3۔اسی طرح ایک ماڈل وہ ہے جو درخت کی صورت میں قائم ہے۔ انسان سانس لیتا ہے وہ ہر سانس میں ہوا سے آکسیجن (oxygen)لیتا ہے اور کار بن (carbon dioxide) خارج کرتا ہے۔اسی طرح درخت بھی سانس لیتے ہیں مگر ان کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ وہ فضا سے کار بن لے کر آکسیجن خارج کرتے رہتے ہیں۔ اگر درخت بھی وہی کریں جو انسان کرتا ہے تو ساری فضا کار بن سے بھر جائے اور انسان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے۔

یہ ماڈل انسانی زندگی میں اس طرح مطلوب ہے کہ انسان کو دوسرے کی طرف سے شکایت پہنچے تو وہ اس کو برداشت کرے، وہ تلخ کلمہ سن کر میٹھے الفاظ میں اس کا جواب دے۔ وہ برے سلوک کا تجربہ کرنے کے بعد اچھے سلوک میں اس کا ردعمل ظاہر کرے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں، جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں، جو مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں۔

 اسی چیز کو پیغمبر اسلام نے دوسرے موقع پر ان لفظوں میں بیان فرمایا:تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ، صفحہ 120)۔یعنی، خدا کی اخلاقیات کو اختیار کرو۔ خدا کی اخلاقیات وہی ہیں۔ جو اس نے اپنی مخلوقات کی دنیا میں عملاً قائم کر رکھا ہے۔ اسی خدائی اخلاقیات کو انسان کو بھی اختیار کرنا ہے۔ جو اخلاقیات بقیہ دنیا میں خدا کے اپنے زور پر قائم ہیں، اسی اخلاقیات کو انسانی دنیا میں خود انسان کے اپنے ارادہ سے قائم کرنا ہے۔ یہی خدا کا اتارا ہوا مذہب ہے اور یہی اسلام ہے اور اسی میں انسانیت کے تمام مسائل کا حل چھپا ہوا ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ حکمت اور معنویت کا جو واقعہ وسیع تر کائنات میں خدا اپنے براہ راست کنٹرول کے تحت ظہور میں لا رہا ہے، وہی واقعہ انسان کو اپنی ذاتی زندگی میں ذاتی کنٹرول کے تحت وجود میں لانا ہے۔ جو واقعہ خدا نے بقیہ دنیا میں مادی سطح پر قائم کر رکھا ہے۔ اسی کو انسانی دنیا میں انسان کی سطح پر قائم کرنا ہے۔

کائناتی سطح پر جو چیز لوہا کی شکل میں پائی جاتی ہے وہ انسانی سطح پر پختہ کرداری کی صورت میں مطلوب ہے۔ کائناتی سطح پر جو چیز پتھریلی زمین سے چشمہ کی صورت میں بہہ نکلتی ہے وہ انسان سے نرم مزاجی کی صورت میں مطلوب ہے۔ کائناتی سطح پر جو چیز قابل پیشین گوئی کردار کی صورت میں پائی جاتی ہے وہ انسانی سطح پر ایفائے عہد(وعدہ پورا کرنا) کی صورت میں مطلوب ہے۔ کائناتی سطح پر جو چیز مہک اور رنگ کی صورت میں پائی جاتی ہے وہ انسانی سطح پر اچھے سلوک اور خوش معاملگی کی صورت میں مطلوب ہے۔ درخت خراب ہوا(کاربن ڈائی آکسائڈ) کو لے لیتا ہے اور اس کے بدلے اچھی ہوا(آکسیجن) ہماری طرف لوٹا دیتا ہے۔ یہی بات انسانی سطح پر اس اصول کی صورت میں مطلوب ہے کہ’’جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرے اس کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو۔‘‘ کائنات میں کوئی چیز کسی دوسرے کی کاٹ میں لگی ہوئی نہیں ہے۔ ہر ایک پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ ادا کرنے میں مصروف ہے۔ یہی چیز انسانی سطح پر اس طرح مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ مثبت جدوجہد کرے، منفی نوعیت کی کارروائیوں سے وہ مکمل طور پر پرہیز کرے۔ کائنات میںrecycleاور decomposition کا اصول کار فرما ہے۔ فضلات دوبارہ استعمال ہونے کے لیے گیس میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ پتی درخت سے گر کر ضائع نہیں ہوتی بلکہ کھاد بن جاتی ہے۔ یہی چیز انسانی زندگی میں اس طرح مطلوب ہے کہ انسان کی خرچ کی ہوئی دولت دوبارہ انسان کے لیے مفید بنے۔ ایک انسان کی چھیڑی ہوئی جدوجہد دوسرے انسانوں کو اچھے پھل کا تحفہ دے۔ کائنات میں عظیم الشان سطح پر بے شمار کام ہو رہے ہیں۔ ہر جزء انتہائی صحت اور پابندی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی میں لگا ہوا ہے۔ مگر کسی کو یہاں کوئی ظاہری بدلہ نہیں ملتا۔ مگر یہی چیز انسان سے اس طرح مطلوب ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں لگا رہے، بغیر اس کے کہ دنیا میں اس کو اس کے عمل کا کوئی معاوضہ ملنے والا ہو۔ اونچا پہاڑ اور تمام کھڑی ہوئی چیزیں اپنا سایہ زمین پر ڈال دیتی ہیں۔ یہی چیز انسانی زندگی میں اس طرح مطلوب ہے کہ ہر آدمی تواضع اختیار کرے۔ کوئی کسی کے اوپر فخر نہ کرے۔ کوئی دوسرے کے مقابلہ میں اپنے کو بڑا نہ سمجھے۔

 اب سوال یہ ہے کہ انسان سے یہ ربانی اخلاقیات کیوں مطلوب ہیں، اور کیوں ایسا ہوا ہے کہ اس کے لیے خدا نے اپنی کتاب(قرآن) بھیجی اور کائنات میں بہت بڑے پیمانے پر اس کے عملی مظاہرہ کا انتظام کیا تاکہ آدمی خدا کی کتاب میں جس چیز کو پڑھے اس کو عملی نمونہ کی صورت میں اپنے باہر دیکھ لے اور اس پر عمل کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔ اس کو سمجھنے کے لیے خدا کی اسکیم کو سمجھنا پڑے گا جس کی خاطر یہ ساری دنیا بنائی گئی ہے۔

خدا نے انسان کے لیے ایک ابدی جنت بنائی جو ہر قسم کی محدودیتوں اور کمیوں سے خالی ہے۔ جہاں انسان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہر قسم کے دکھ اور تکلیف سے آزاد ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی گزارے۔ مذکورہ اخلاقیات دراصل اسی جنت کے باسیوں کی اخلاقیات ہیں، جو لوگ ان اعلیٰ اخلاقیات کا ثبوت دیں گے وہی اس قابل ٹھہریں گے کہ ان کو جنت کے اعلیٰ ماحول میں بسایا جائے۔

 ہر انسان ایک بہتر دنیا کی تلاش میں ہے، ایک ایسی دنیا جہاں وہ اپنی کمیوں کی تلافی کر سکے جہاں وہ ہر قسم کی خوشیوں اور لذتوں کو ابدی طور پر حاصل کر سکے۔ یہ ہر انسان کا مطلوب ہے۔ مگر ہر انسان اپنے مطلوب کو غلط مقام پر تلاش کر رہا ہے۔ جو چیز موت کے بعد کی زندگی میں رکھی گئی ہے اس کو وہ موت سے پہلے کی زندگی میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ایک کسان اگر اپنے لیے کوئی فصل اگانا چاہتا ہے تو وہ کائنات کے انتظام سے مطابقت کرکے ہی ایسا کر سکتا ہے۔ ایک انجینئر اگر ایک کارخانہ بنانا چاہتا ہے تو وہ اپنے منصوبہ میں اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب کہ وہ قوانین فطرت کو جان کر اسے استعمال کرے۔ ایسا ہی معاملہ انسانی زندگی کی تعمیر کا بھی ہے۔ انسان اگر اپنے لیے ایک پرمسرت اور کامیاب زندگی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو وہ خدائی اسکیم سے مطابقت کرکے ہی اپنے لیے پا سکتا ہے۔ خدا کی اسکیم یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں آدمی جنتی کردار کا ثبوت دے تاکہ اس کو مستقل طور پر جنت کی حسین اور لذیذ دنیا میں بسایا جائے۔ جو چیز آج ہے وہ کل نہیں مل سکتی۔ اور جو چیز کل ملنے والی ہے اس کو آج پانے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ انہیں دو لفظوں میں زندگی کا سارا راز چھپا ہوا ہے۔

(نوٹ:  یہ اس انگریزی مقالہ کا اردو ترجمہ ہے جو کریبین اسلامک کانفرنس(باربیڈوز) میں2 اپریل1983ء کو پڑھا گیا(۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom