اسلام اور عصر حاضر
حصہ اول
موجودہ زمانہ کے تمام انسانی مسائل، براہ راست یا بالواسطہ طور پر صرف ایک چیزکا نتیجہ ہیں— خدا اور انسان کے درمیان جدائی۔ دور جدید نے انسان کو مادی سازو سامان تو بہت دیے مگر اس کے خدا کو اس سے چھین لیا۔ اس طرح اس نے جدید انسان کے جسم کے لیے خوراک کا انتظام کیا اور روح کو فاقہ کی حالت میں چھوڑ دیا۔ روح کو اگر جسم سے کامل طور پر جدا کر دیں تو جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسا کریں کہ روح کی جو غذا ہے وہ اسے دینا بند کر دیں تو روح فاقہ کی حالت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ روح کے فاقہ سے روح پر وہ سب کچھ گزرنے لگتا ہے جو جسم کے فاقہ سے جسم پر گزرتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں بیان ہوئی ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی، سنو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔یہی بات حضرت مسیح نے اپنے مخصوص انداز میں اس طرح بیان فرمائی: آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے)متی، 4 (4:۔
اسلام کے پاس آج کے انسان کو دینے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے وہ یہی خدا کا عقیدہ ہے اگرچہ تمام مذاہب اصلاً خدا ہی کے مبلغ تھے۔ مگر بعد کے زمانہ میں وہ خدا کے تصور کو اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رکھ سکے۔ کسی نے خدا کو اپنا قومی خدا بنا لیا۔ کسی نے اس میں شرک کی ملاوٹ کر دی۔ کسی نے خدا کو مجرد فلسفیانہ تخیل بنا کر رکھ دیا۔ اس طرح یہ مذاہب اس قابل نہ رہے کہ خدا کو اس کی واقعی حیثیت میں لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں(یونس، 10:19)۔ اب صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس کے یہاں خدا کا تصور اپنی صحیح اور کامل صورت میں محفوظ ہے۔ اس لیے جدید انسان کو اس کا مطلوب خدا صرف اسلام کے یہاں مل سکتا ہے(آل عمران، 3:85)۔
روحانی فاقہ
جدید تہذیب نے انسان کو خدا سے محروم کرکے اس کو روحانی فاقہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی روحانی فاقہ کا نتیجہ ہے کہ موجودہ جاپان کے نوجوان، صنعتی ترقی کی انتہا پر پہنچ کر یہ کہنے لگے ہیں کہ’’ہمارا کلچر ایک مرچنٹ کلچر ہے اور صرف مرچنٹ کلچر انسان کے لیے کافی نہیں‘‘ ۔ مغربی سوسائٹی کا وہ مظہر جس کو ہپی ازم کہتے ہیں وہ بھی اسی فاقہ زدگی کی ایک مثال ہے۔
ایک ہپی نوجوان دہلی کی سڑک پر پیدل چل رہا تھا۔ اس کے جسم پر نہایت معمولی ہندستانی لباس تھا اور گلے کے ساتھ لٹکتی ہوئی ایک چھوٹی سی ڈھول، نوجوان سے اس کا وطن پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ کناڈا کا رہنے والا ہے۔ مزید سوالات کے دوران اس نے کہا: کناڈا میں میرے پاس ذاتی مکان اور ذاتی کار تھی۔ ایک اچھی بیوی تھی۔ معقول روزگار تھا۔ یہاں میرے پاس کوئی مکان نہیں جہاں بھی مجھے نیند آتی ہے میں سو جاتا ہوں، خواہ وہ ایک فٹ پاتھ ہو۔ میرے پاس اپنی سواری نہیں، روزگار نہیں۔ میری بیوی نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔
’’یہاں آپ کو جب اتنی تکلیف ہے تو پھر آپ نے کناڈا کو چھوڑ کر انڈیا آنا کیوں پسند کیا‘‘ ۔ اس کے جواب میں مغربی نوجوان نے نہایت سنجیدگی سے رک رک کر یہ الفاظ کہے: وہاںمیں جسمانی طور پر مطمئن تھا، یہاں میں روحانی طور پر مطمئن ہوں:
There I was comfortable physically, here I am comfortable spiritually.
جدید تہذیب نے انسان کو بے شمار مادی چیزیں دیں۔ مگر یہ چیزیں اس کے وجود کے صرف ’’نصف حصہ‘‘ کو تسکین دے سکتی تھیں۔ بقیہ نصف کے لیے ان میں کوئی تسکین موجود نہیں تھی۔ جدید مشینی تہذیب کا یہی وہ تضاد ہے جس نے وہ تمام مظاہر پیدا کیےجن کو موجودہ زمانہ میں ہپی ازم، بورڈم، ان رسٹ (unrest) وغیرہ کہا جاتا ہے، اور جس کو پیس آف مائنڈ کو کھونا کہتے ہیں۔ یہاں مشہور ماہر نفسیات کارل ینگ(1875-1961) کا تجربہ قابل نقل ہے۔ انہوں نے کہا:
’’پچھلے تیس برسوں میں روئے زمین کے تمام متمدن ممالک کے لوگوں نے مجھ سے(اپنے نفسیاتی امراض کے سلسلہ میں) مشورہ حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا ہے۔ میرے مریضوں میں زندگی کے نصف آخر میں پہنچنے والے تمام لوگ جوکہ 35 سال کے بعد کہی جا سکتی ہے، کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس کا مسئلہ اپنے آخری تجزیہ میں زندگی کا مذہبی نقطۂ نظر پانے کے سوا کچھ اور ہو۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان میں سے ہر شخص کی بیماری یہ تھی کہ اس نے وہ چیز کھو دی تھی جو کہ موجودہ مذہب ہر دور میں اپنے پیروئوں کو دیتے رہے ہیں۔ اور ان مریضوں میں سے کوئی بھی حقیقۃً اس وقت تک شفایاب نہ ہو سکا جب تک اس نے اپنا مذہبی تصور دوبارہ نہیں پالیا۔‘‘
Quoted by C.A. Coulson, Science & Christian Belief, p. 110
علیحدگی کا عمل
قدیم زمانہ میں انسانی ذہن پر فلسفہ کا غلبہ تھا۔ فلسفہ چیزوں کو مکمل طور پر سمجھنے پر زور دیتا تھا۔ وہ اشیا کے ظاہر سے گزر کر اس کے باطن تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔ تاہم پانچ ہزار سالہ کوشش کے باوجود فلسفہ کو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
سولھویں صدی عیسوی میں جب یورپ میں سائنسی مطالہ کا آغاز ہوا تو سائنس دانوں نے اس کو اپنے لیے مفید سمجھا کہ وہ چیزوںکی حقیقت کو اس کی خاصیت سے جدا کر دیں۔ انہوں نے علم کی دو قسمیں قرار دیں:
1۔چیزوں کا علم(Knowledge of Things)
2۔حقیقتوں کا علم(Knowledge of Truths)
انہوں نے اپنے مطالعہ کے دوران محسوس کیا کہ حقیقت کے بارہ میں قطعی علم تک پہنچنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ کیوں کہ حقیقت ہمیشہ اتنی لطیف ہوتی ہے جس کو انسانی پیمانوں سے ناپا اور تولا نہیں جا سکتا(الاسراء، 17:85) چنانچہ انہوں نے عملی موقف اختیار کرتے ہوئے حقیقت کو اپنی تحقیق کے دائرہ سے باہر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف’’کیا‘‘ کے سوال کو لیں گے، ہم’’کیوں‘‘ کے سوال پر غور نہیں کریں گے۔ اس طرح انہوں نے اپنی تحقیق کو صرف چیزوں کے علم تک محدودرکھا جس کا قطعی علم حاصل کیا جا سکتا تھا۔
یہ طرز فکر تاریخ میں کام کرتا رہا۔ اولاً گلیلیو(1596-1650) کے زمانے میں پھول کی خوشبو کو پھول کی کیمسٹری سے جدا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ڈیکارٹ(1596-1650) نے ثنویت(dualism) کے اس اصول کی توسیع کی اور اس کو انسان کے مطالعہ میں استعمال کیا۔ اس نے روح کو الگ کرکے جسم کا مطالعہ شروع کیا۔ انسان کے روحانی حصہ کو اس کے وجود کے مادی حصہ سے الگ کر دیا گیا۔
مذکورہ ثنویت سے مادی سائنس کے میدان میں بظاہر کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ مقناطیس کے گرد مقناطیسی میدان(magnetic field) کی حقیقت کو سمجھے بغیر بھی یہ ممکن تھا کہ عملی طور پر مقناطیس کو بجلی پیدا کرنے اور موٹر چلانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ مگر جب اس ثنویت کو انسان کے اوپر استعمال کیا گیا تو اس کے زبردست نقصانات ہوئے۔ کیوں کہ بے جان مادہ کی دنیا میں ثنویت چل سکتی ہے۔ مگر انسان ثنویت کو قبول نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی آدمی کا پتھر کا اسٹیچو ہو اور اس کو آپ ایک تاریک کوٹھری میں بند کر دیں تو اسٹیچو کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ مگر انسان ایک نفسیاتی وجود ہے۔ اس لیے اگر زندہ انسان کو اس قسم کی کوٹھری میں بند کیا جائے تو یہ اس آدمی کو ہلاک کرنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اسٹیچو کو آپ آزادی سے محروم کر سکتے ہیں اور وہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرے گا۔ لیکن اگر انسان کو اس کی آزادی سے جدا کر دیں تو اس کی پوری شخصیت تہس نہس ہو جائے گی۔
مادہ کو اس کی معنویت سے اور جسم کو اس کی روح سے علیحدہ کرنے کا یہ معاملہ جو مغرب میں پیش آیا اس نے وہ ذہنی زمین فراہم کر دی جس میں خدا اور انسان کی وہ علیحدگی ممکن ہو سکے جو بعد کو مغرب میں پیش آئی۔
مسیحیت اور اسلام کا فرق
سائنسی تحقیق کا کام جب مسلم اسپین سے نکل کر اٹلی اور فرانس اور برطانیہ میں پہنچا اور وہاں اس کے لیے کام ہونے لگا تو جلد ہی ایک تیسرا فریق اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا جو اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ یہ مسیحی چرچ تھا۔ مسیحیت جب فلسطین اور شام سے نکل کر یورپ میں داخل ہوئی تو اس کا سابقہ ارسطو کے افکار سے پیش آیا۔ چرچ نے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے خود اپنے علم کلام کو ارسطو کے منطقی نظام پر ڈھال لیا۔ حتیٰ کہ چند سو سال گزرنے کے بعد وہ ان کے یہاں مقدس بن گیا۔ بعد کو جب سائنسی تحقیقات نے بتایا کہ ارسطو کے افکار محض قیاسی اور بے بنیاد تھے، ان کا حقیقت واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، تو چرچ نے محسوس کیا کہ اگر یہ نظریہ رائج ہوا تو اس کا عقائد کا نظام مشتبہ ہو جائے گا۔ اس نے اپنی غلطی کو ماننے کے بجائے طاقت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانہ میں مسیحی چرچ کو یورپ میں زبردست اقتدار حاصل تھا۔ چنانچہ اس نے بزور جدید سائنس کو دبانا شروع کیا۔ تاہم بھیانک مظالم کے باوجود چرچ کو اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔
پندرھویں صدی عیسوی سے پہلے کے زمانہ میں سائنس کا ارتقا مسلم دنیا میں ہوا۔ اس وقت اسپین اور دوسرے مسلم علاقے سائنسی تحقیقات کا مرکز تھے۔ اس زمانہ میں سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی ٹکرائو پیش نہیں آیا۔کیونکہ سچے مذہب اور سچے علم میں کوئی ٹکرائو نہیں ہے۔ جس خدا نے دین کی وحی کی ہے، اسی نے اس کائنات کو بنایا ہے جس کی تحقیق سائنس کرتی ہے۔ پھر وحی اور علم میں ٹکرائو کیوں کرہو سکتا ہے۔ مگر بعد کے مرحلہ میں سائنس کا ارتقا یورپ میں ہوا۔ یہاں مذہب کی نمائندگی کرنے کے لیے مسیحیت تھی جو تحریفات اور الحاقات کی بنا پر اپنی اصل ابتدائی شکل کھو چکی تھی۔ اسلام اور سائنس کے درمیان ٹکرائو نہ ہونا اور مسیحیت اور سائنس کے درمیان زبردست ٹکرائو ہو جانا، دونوں دینوں کے درمیان اسی فرق کا براہ راست نتیجہ ہے۔
اس معاملہ میں اسلام اور عیسائیت کے فرق کو سمجھنے کے لیے ایک تقابلی مثال لیجیے۔
زمین اورسورج کی گردش کے بارہ میں قدیم یونان میں دو نظریے پیش کیےگئے تھے۔ ایک ارسطو کا نظریہ، جس کا مطلب یہ تھا کہ زمین قائم ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ دوسرا ارسٹارکس کا نظریہ، جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھوم رہی تھی۔
ارسطو کا مرکزیت زمین کا نظریہ(geocentric theory)عیسائیوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس نظریہ میں زمین کو بنیادی اہمیت حاصل ہو رہی تھی۔ اور چوں کہ انہوں نے حضرت مسیح کو خدائی کا مقام دے رکھا تھا اس لیے انہیں یہ بات زیادہ صحیح نظر آئی کہ وہی کرہ نظام شمسی کا مرکز بنے جہاں خدا وند مسیح پیدا ہوئے ہوں۔ کوپرنیکس(1473-1543) نے جب مرکزیت آفتاب(heliocentric theory) کا اصول پیش کیا تو یورپ میں عیسائی پیشوائوں کو اقتدار حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے عقیدہ کے تحفظ کے لیے کوپرنیکس کی زبان بند کر دی۔ خدا وند کی جنم بھومی کو تابع(satellite)قرار دینا ایک ایسا جرم تھا جس کو مسیحیت کبھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
مگر یہ مسئلہ بگڑی ہوئی مسیحیت کا تھا نہ کہ حقیقی معنوں میں خدائی مذہب کا۔ چنانچہ مسلمان جو اس اعتقادی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے کہ پیغمبر کو خدا سمجھنے لگیں، انہوں نے مرکزیت آفتاب کے نظریہ کو زیادہ معقول پا کر اس کو قبول کر لیا۔ ان کے یہاں یہ سوال نہیں اٹھا کہ شمسی مرکزیت کا نظریہ مذہبی تعلیمات سے ٹکراتا ہے۔ پروفیسر برنس نے لکھا ہے:
The Saracens were brilliant astronomers, mathmeticians, physicists, chemists, and physicians.... despite their reverance for Aristotle, they did not hesitate to criticize his notion of a universe of concentric spheres with the earth at the centre, and they admitted the possibility that the earth rotates on its axis and revolves around the sun. (Edward Mc Nall Burns, Western Civilizations, W. W. Narton & Company Inc. N Y, p. 264)
مسلمان فلکیات۔ ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور طب میں نہایت باکمال عالم تھے۔ ارسطو کے احترام کے باوجود انہوں نے اس میں تامل نہیں کیا کہ وہ اس کے اس نظریہ پر تنقید کریں کہ زمین مرکز ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ انہوں نے اس امکان کو تسلیم کیا کہ زمین اپنے محور پر گھومتی ہوئی سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔
مسیحیت میں تبدیلی
مسیحیت جب شام اور فلسطین سے نکل کر یورپ میں داخل ہوئی تو وہاں یونانی نظریات کا غلبہ تھا۔ مسیحی علما نے یہاں تبلیغی مصلحت کی خاطر وہ عمل کیا جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبہ،9:30) کہا گیا ہے۔ انہوں نے مسیحیت کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر اس کو مروجہ افکار کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔ اس زمانہ میں زیوس(Zeus) یونانیوں کا سب سے بڑا دیوتا تھا جس کو خدا کا اکلوتا بیٹا سمجھتے تھے۔ اس کی نقل کرتے ہوئے وہ بھی حضرت مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا کہنے لگے۔ اسی طرح اس زمانہ کے جغرافی اور طبیعی نظریات کو بھی انہوں نے کتاب مقدس کی تفسیر کے طور پر لے لیا اور اس کو اپنی مذہبی کتابوں میں اس طرح درج کر لیا جیسے کہ وہ بھی آسمان سے اترے ہوں۔
مسیحیوں کی خوش قسمتی سے اسی زمانہ میں رومی بادشاہ قسطنطین نے مسیحیت قبول کرلی۔ وہ306ء سے لے کر337ء تک عظیم رومی سلطنت کا شہنشاہ رہا۔ اس نے اپنے شاہی اثرات کے تحت تمام یورپ میں مسیحیت پھیلا دی۔ یہ لوگ جنہوں نے مسیحیت قبول کی انہوں نے کسی ذہنی اور فکری انقلاب کے ذریعہ مسیحیت نہیں قبول کی تھی بلکہ صرف حکومت کے زور پر قبول کی تھی۔ ان کا حقیقی ذہن اب بھی وہی رہا جو پہلے تھا۔ چنانچہ انہوں نے مسیحیت کو اپنے سابقہ خیالات کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔ اس طرح بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسیحیت کے نام سے ایک ایسا مذہب وجود میں آگیا جس کا حضرت مسیح کی انجیل سے بہت کم تعلق تھا۔ یہ گویا رومی اور یونانی مذہب تھا جس کو مسیحیت کا نام دے کر اختیار کر لیا گیا۔ اڈولف ہارمک نے صحیح لکھا ہے کہ چوتھی صدی تک انجیل یونانی فلسفہ کے رنگ میں رنگ چکی تھی:
By the fourth century the living gospel had masked in Greek Philosophy
مذہب میں جب کوئی چیز عرصہ تک جاری رہے تو وہ مقدس بن جاتی ہے۔ چنانچہ یہ بدلی ہوئی مسیحیت چند سو سال کے بعد مقدس بن گئی۔ جو چیز ابتداء ً مصلحت کے تحت اختیار کی گئی تھی وہ مسیحیت کا حقیقی حصہ سمجھی جانے لگی۔ حتیٰ کہ یونانیوں کے بے اصل علوم مسیحی علوم کہے جانے لگے۔ مثلاً مسیحی جغرافیہ(Topography Christian) وغیرہ۔
Adalf Harmack, Outline of the History of Dogma.
مذہب اور زندگی کی علیحدگی
مسلمانوں کے زوال کے بعد جب یورپ میں جدید تحقیق کا کام شروع ہوا تو ’’مسیحی علوم ‘‘ کی غلطی واضح ہونے لگی۔ جدید علما نے جب فلکیات اور جغرافیہ اور طبیعیات سے متعلق اپنی تحقیقات شائع کیں تو مذہبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ مسیحی چرچ نے اولاً ان علما کی بےدینی کے فتوے دیے۔ جب اس سے لوگوں کی زبانیں بند نہیں ہوئیں تو پوپ کے حکم خاص سے احتساب کی عدالت(Inquisition) قائم ہوئی۔ اندازہ ہے کہ تقریباً تین لاکھ آدمیوں کو مسیحی احتساب کی عدالت میں کھڑا ہونا پڑا۔ ان کو سخت سزائیں دی گئیں۔ تقریباً30 ہزار آدمیوں کو زندہ جلا دیاگیا۔ ان سزا یافتگان میں گلیلیو اور برونو (Brunoe) جیسے لوگ بھی شامل تھے۔
اس کے نتیجہ میں چرچ اور سائنس کے درمیان جنگ شروع ہوئی جو بالآخر علم اور مذہب کی جنگ بن گئی۔ مفروضہ مقدس عقائد پر بے جا اصرار کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں یہ خیال عام ہوگیا کہ علم اور مذہب دونوں ایک دوسرے کے ضد ہیں۔ ایک کی ترقی دوسرے کے لیے موت کا حکم رکھتی ہے۔ قرآن کے مطابق علم اللہ سے قریب کرنے والی چیز ہے(فاطر، 35:28)۔ مگر مسیحی تحریفات کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم لوگوں کو اللہ سے دورکرنے والا بن گیا۔
علم اور مذہب کا یہ تصادم تقریباً دو سو برس تک جاری رہا۔ یہاں تک 1859 میں چارلس ڈارون نے اپنی کتاب(Origin of Species) شائع کی۔ چرچ نے اس کی زبردست مخالفت کی۔ مگر اب چرچ کا زورگھٹ چکا تھا۔ بالآخر دونوں کے درمیان (secularism) کی صورت میں سمجھوتہ ہوگیا۔ مذہب اور علم کے دائرے ایک دوسرے سے الگ کر دیے گئے۔ مذہب کو شخصی دائرہ کی چیز قرار دے کر بقیہ تمام شعبوں میں انسان کے لیے آزادی کا حق تسلیم کر لیا گیا کہ وہ جو چاہے کرے اور جس طرح چاہے اپنی تحقیق چلائے۔
مذہب ایک رسمی ضمیمہ
تاہم یہ علیحدگی علم اور مذہب کی علیحدگی نہ تھی بلکہ یہ زندگی اور مذہب کی علیحدگی تھی۔ چرچ نے یہ نہیں کیا کہ جن غیر آسمانی افکار و خیالات کو اس نے اپنے مذہب میں شامل کیا تھا ان کو وہ اپنے مذہب سے خارج کر دے۔ ان کی ساری نامعقولیت کے باوجود وہ ان کو اپنے مذہب کا جزء بنائے رہا۔ ایسی حالت میں مذہب کو شخصی دائرہ میں جگہ ملنا بھی ناممکن تھا۔ کیوں کہ آدمی ایک سوچنے سمجھنے والی مخلوق ہے۔ جس چیز کی معنویت آدمی کے اوپر واضح نہ ہو اس کو وہ شخصی طور پر بھی اپنی زندگی کا جزء نہیں بنا سکتا۔ اس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ مذہب زندگی کا صرف ایک رسمی ضمیمہ بن جائے، وہ کسی کی زندگی میں حقیقی طور پر شامل نہ ہو سکے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے (33:4)۔ یعنی یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے کہ دو غیر ہم آہنگ فکر یکساں قوت کے ساتھ آدمی کے ذہن میں جمع ہوں۔ جو چیز علمی اور فکری معیار پر پوری نہ اترے وہ کسی شخص کی زندگی کا ایک غیر موثر ضمیمہ تو بن سکتی ہے مگر وہ ایک زندہ عنصر کی حیثیت سے کبھی اس کی زندگی میں جگہ نہیں پا سکتی۔ مذہب کو شخصی طور پر باقی رکھنے کے لیے بھی اس کا مطابق عقل ہونا ضروری ہے۔ جو مذہب عقل کے مطابق نہ ہو وہ شخصی سطح پر بھی اپنے وجود کو باقی رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ ایسا مذہب کسی آدمی کے ہاتھ میں بس’’چھنگلیا‘‘ بن کر رہ جائے گا۔ وہ اس کے ہاتھ کا’’انگوٹھا‘‘ نہیں بن سکتا۔
فطرت انسانی کا تقاضا
جسم اور روح کی علیحدگی اور اس کے بعد خدا کو انسانی زندگی سے جدا کرنے کے نتیجہ میں تاریخ میں پہلی بار انسان کے سامنے یہ مسئلہ آیا ہے کہ سامان حیات کی افراط کے درمیان انسان احساس محرومی سے دو چار ہے۔ آج انسان کی صورت میں ہمارے سامنے ایک ایسا وجود ہے جس کو سب کچھ فراہم کرنے کے بعد بھی اس کے چہرے پر حقیقی خوشی دیکھنا ہمارے لیے مقدر نہیں۔ برٹرینڈرسل (1872-1970) اپنی کتاب(The Conquest of Happiness) کا آغاز ان الفاظ میں کرتا ہے کہ جانور اس وقت تک خوش رہتے ہیں جب تک وہ صحت مند ہوں اور انہیں خوراک حاصل ہو۔ انسان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مگر جدید دنیا میں انسان خوش نہیں، کم ازکم اکثریت کا حال یہی ہے:
Animals are happy so long as they have health and enough to eat Human beings, one feels, ought to be, but in the modern world they are not, at least in a great majority of cases.
اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید تہذیب نے اپنی عظیم کامیابیوں کے باوجود انسان کی طلب کا صرف نصف حصہ فراہم کیا ہے اس نے ’’جسم‘‘ کے تقاضے فراہم کئے۔ مگر وہ’’روح‘‘ کے تقاضے فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
انسان معنویت چاہتا ہے اور جدید تہذیب اس کو صرف پتھر کا ایک ٹکڑا دیتی ہے۔ انسان زندگی چاہتا ہے اور جدید تہذیب اس کو انسان کی صورت میں ایک اسٹیچو فراہم کرتی ہے۔ انسان قلب و دماغ کی تسکین چاہتا ہے اور جدید تہذیب اس کو مشین کی بے روح گاڑی میں بٹھا کر چھوڑ دیتی ہے۔ انسان خالق کائنات سے ملنا چاہتا ہے اور سائنس اس کو مخلوق تک پہنچا کر اپنی سواری سے اتار دیتی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اپنے محسن کو سجدہ کرے۔ مگر سائنس نے جو دنیا بنائی ہے اس میں اس کو کہیں اپنا محسن نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ وہ حقیقی خدا کو نہ پا کر مفروضہ خدائوں کے آگے جھکنے لگتا ہے۔ مگر یہ ویسا ہی ہے جیسے کسی ماں کے یہاں اولاد نہ ہو تو وہ پلاسٹک کی گڑیا لے کر اپنی گود میں دبا لے۔ دوسرے تمام معبود قرآن کے الفاظ میں اسماء (یوسف، 12:40) ہیں، نہ کہ حقیقتیں۔
انسان کے لیے ایک برتر خدا کی ضرورت اتنی مسلم ہے کہ وہ مفکرین بھی اس کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں جو اپنے ذوق کے مطابق خدا اور مذہب کو ماننا پسند نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر برٹرینڈرسل نے لکھا ہے کہ اگر زندگی کو پورے معنوں میں انسانی زندگی بننا ہے تو اس کا کوئی مقصد ہونا چاہیے جو خود انسانی زندگی سے باہر ہو۔ ایسا مقصد جو غیر شخصی ہو اور انسانیت سے بلند تر ہو۔ مثلاً خدا، صداقت یاحسن:
If life is to be fully human it must serve some end which seems in some sense, outside human life, some end which is impersonal and above mankind, such as God or truth or beauty.
Bertrand Russell, Principles of Social Reconstruction,
London, George Allen & Unwin Ltd. 1923, p. 215
یہ ایک منکر خدا کی زبان سے خدا کی فطری ضرورت کا اقرار ہے۔ دور جدید کے انسان کی محرومی یہ ہے کہ اس نے اپنے خدا کو کھو دیا ہے۔ اب اس کی نجات صرف اس میں ہے کہ دوبارہ وہ اپنے خدا کو پا لے۔
علم الانسان کے ماہرین نے مختلف انسانی معاشروں کا مطالعہ کیا ہے۔ کئی ہزار سال کے تاریخی ریکارڈ کو سامنے رکھ کر انہوں نے انسان کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا متفقہ بیان ہے کہ انسان کی فطرت میں خدا کا تصور پیوست(interwoven) ہے جس طرح بکری سے گھاس اور بلی سے گوشت کھانے کی جبلت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح خدا کو انسانی فطرت سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ زمانہ میں اس کی ایک مثال کمیونسٹ سوسائٹی ہے۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب 1917ء میں آیا۔ اس کے بعد روسی معاشرے سے خدا کو نکال دیا گیا۔ تعلیم و تربیت کے تمام شعبے انکار خدا کی بنیاد پر قائم کیےگئے۔ مگر روس کی جدید نسل جو مکمل طور پر بے خدا نظام میں پیدا ہوئی ہے اور بے خدا تعلیم و تربیت کے تحت پلی اور بڑھی ہے، اس کے اندر بھی خدا کا شعور نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔
1973ء کا واقعہ ہے۔ ایک روسی جہاز(Ilyushin jet) ہندوستان کی مشرقی سرحد پر اڑ رہا تھا کہ اس کا انجن خراب ہوگیا اور وہ بنگال میں گر پڑا۔ بعد کو جب جہاز کی دم سے Black Box نکالا گیا اور اس کوreplay کیا گیا تو معلوم ہوا کہ آخری لمحات میں نوجوان روسی پائلٹ کی زبان سے جو لفظ نکلا وہ یہ تھا کہ پیٹر ہم کو بچا:
Peter save us.
عجز کی تلافی
انسان کی زندگی کچھ اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ وہ مستقل طور پر عجز (helplessness) کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ اس سے کوئی بھی شخص مستثنیٰ نہیں خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا۔
آدمی جسمانی اعتبار سے اتنا کمزور ہے کہ ایک معمولی حادثہ بھی اس کو زخمی کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس کو زندہ رہنے کے لیے ایک بے حد متوازن جغرافیہ درکار ہے۔ جغرافی توازن میں بگاڑ کو وہ برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ جس کائنات میں ہے وہ اتنی زیادہ بڑی اور وسیع ہے کہ اس کے مقابلہ میں انسان اپنے آپ کو حددرجہ حقیر پاتا ہے۔ کوئی شخص علمی میدان میں تحقیق کر رہا ہو تو اس پر کھلتا ہے کہ حقائق اس سے زیادہ وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ اس کی محدود عقل ان کا احاطہ کر سکے۔ ایک آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کو تجربہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات لامعلوم اسباب(unknown factors) حائل ہو کر اس کے کام کو بگاڑ دیتے ہیں۔ اور اگر بالفرض کوئی خوش قسمت آدمی ان تلخ تجربات سے بچ جائے تو موت سے وہ اپنے آپ کو نہیں بچا پاتا۔ موت کا حملہ بالکل یک طرفہ ہوتا ہے۔ موت آدمی کے گھروندہ کو اس طرح تہس نہس کر دیتی ہے جیسے ایک سخت زلزلہ کسی پررونق شہر کو اچانک ملبہ کا ڈھیر بنا دے۔
یہ احساس عجز ہر آدمی کا پیچھا کر رہا ہے۔ یہ چیز اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک ایسا سہارا پکڑے جو اس سے زیادہ طاقت ور ہو۔ جو اس کے لیے اس کے عجز کی تلافی بن جائے۔ یہی احساس بے چارگی آدمی کو خدا کی طرف لے جاتا ہے۔ آدمی کو ایک ایسا خدا چاہیے جس کے سامنے وہ اپنے جذبات شکر کو انڈیل سکے۔ جس کے اوپر وہ اپنے معاملات میں بھروسہ کرے۔ جس کا عقیدہ اس کے لیے اس وقت بھی سہارا بنا رہے جب کہ بظاہر کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ جس سے وہ یہ امید کر سکے کہ وہ اس کی ہربربادی کے بعد اس کو آباد کرے گا۔ اور ہر مشکل کو اس سے رفع فرمائے گا۔ اسلام کا خدا ایسی ہی ایک ہستی ہے جو پورے معنوں میں حقیقی ہے اور اسی کے ساتھ کامل بھی۔
خدا کا تصور مختلف مذاہب میں
آدمی کا یہ احساس عجز اس وقت تک تسکین نہیں پاتا جب تک اس کو’’خدا‘‘ فراہم نہ کر دیا جائے۔ بظاہر ہر مذہب انسان کو یہی خدا فراہم کر رہا ہے۔ مگر اسلام کے سوا جو مذاہب ہیں وہ سب تحریف اور الحاق اور ضیاع کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ خدا کا تصور ان کے یہاں اپنی صحیح شکل میں باقی نہیں رہا ہے۔ اس لیے وہ خدا تو پیش کرتے ہیں مگر ایسا خدا پیش کرتے ہیں جو واقعہ کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو پوری تسکین نہ دے سکے۔
کیٹ اسٹیونس(Cat Stevens, b. 1948) بین الاقوامی شہرت رکھنے والے پوپ موسیقی کے ماہر تھے۔ انہوں نے 1976ء میں مسیحی مذہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا۔ ان کا موجودہ نام یوسف اسلام ہے۔ انہوں نے اپنے قبول اسلام کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ مسیحی چرچ ہم کو خدا پر عقیدہ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر خدا سے مربوط ہونے کا مسیحی طریقہ صرف حضرت عیسیٰ کی معرفت ممکن ہے۔ کوئی آدمی خدا سے براہ راست ربط قائم نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی اہمیت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ایسے خدا سے متعارف کرتا ہے جو براہ راست اپنے بندوں سے باتیں کرتا ہے اور اس کی روح سے اتصال قائم کرتا ہے۔ اسلام میں ہر آدمی براہ راست اپنا ربط خدا سے قائم کر سکتا ہے۔
Monthly Arabia, London, July 1983
انسان کی فطرت ایک ایسا خدا چاہتی ہے جس سے وہ براہ راست مربوط ہو سکے۔ مگر موجودہ مذاہب اس کو ایسا خدا دیتے ہیں جس سے وہ صرف بالواسطہ طور پرمربوط ہو سکتا ہے۔ تمام مذاہب میں صرف اسلام ہے جو انسان کو براہ راست خدا سے ملاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آج بھی اپنی اصل الہامی شکل میں باقی ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب انسانی ملاوٹ کی وجہ سے اپنی اصل الہامی صورت کو کھو چکے ہیں۔
تمام مذاہب اصلاً ایک تھے۔ مگر اب ان میں انسانی آمیزش کی وجہ سے فرق ہوگیا ہے(یونس، 10:19)۔ کوئی مذہب ایسا ہے جو کئی خدا پیش کر رہا ہے۔ مگر یہ انسانی طلب کے سراسر غیر مطابق ہے۔ کیوں کہ خدا کی طلب ایک ایسی ہستی کی طلب ہے جس کو آدمی اپنا مرکز توجہ بنا سکے۔ اور مرکز توجہ ہمیشہ کوئی ایک چیز بنتی ہے، نہ کہ کئی چیز۔ کوئی مذہب کسی انسان کو خدا کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ مگر انسان کو جس خدا کی تلاش ہے وہ وہی خدا ہو سکتا ہے جو اس کی اپنی ذات سے برتر ہو، ایسا خدا انسان کا معبود نہیں بن سکتا جو خود اس کے اپنے جیسا ہو۔ کوئی مذہب خدا کو محض ایک روح مجرد(vague spirit) کی صورت میں پیش کر رہا ہے۔ مگر انسان ایک دیکھنے اور سننے اور بولنے والے خدا کو چاہتا ہے۔ ایتھر یاقوت کشش جیسی کوئی مجرد چیز اس کی مانگ کو پورا نہیں کر سکتی۔
مشہور مفکر آرتھر کوئسلر (Arthur Koestler, b. 1905)کو عزت اور مرتبہ حاصل تھا۔ اس کے پاس تقریباً چار لاکھ پونڈ نقد موجود تھے۔ مگر تین شادیوں کے باوجود وہ بے اولاد تھا۔ نیز رعشہ اور خون کے کینسر نے اس کو سخت پریشان کر رکھا تھا۔ چنانچہ اس نے مایوسی کے عالم میں مارچ1983ء میں اپنے لندن کے مکان میں خودکشی کرلی۔ اس وقت اس کی عمر77 سال تھی۔
اس طرح ہر روز دنیابھر میں سینکڑوں آدمی خودکشی کرتے رہتے ہیں۔ خودکشی کے ان واقعات کی وجہ ہوتی ہے— موجودہ دنیا میں اپنی آرزئوں کی تکمیل سے مایوسی۔ مگر تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا پر سچا عقیدہ رکھنے والوں نے کبھی خودکشی کی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کا عقیدہ آدمی کو موجودہ دنیا کے بعد آنے والی دوسری دنیا میں امید عطا کرتا ہے۔ کیوں کہ خدا کی اسکیم میں زندگی صرف موجودہ دنیا کی زندگی نہیں ہے۔ وہ موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ خدا پر یقین رکھنے والے کو اگر دنیا میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ آئندہ زندگی کے ساتھ لولگا لیتا ہے۔ وہ انسانوں کی دنیا سے مایوس ہو کر خدا کی دنیا کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیتا ہے۔ اس طرح سچے خدا پرست کی تمام پریشانیاں ایک صحت مند رجائیت (healthy optimism) میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
خدا کا بگڑا ہوا تصور
دوسرے مذاہب میں خدا کا جو بگڑا ہوا تصور پایا جاتا ہے وہ انسان کی طلب کا مکمل جواب نہیں بنتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی نفسیات ایک کامل خدا کی طالب ہے اور یہ مذاہب اس کو ناقص خدا کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ اس بناء پر اگرچہ ایسا ہوتا ہے کہ اندرونی طلب سے مجبور ہو کر بہت سے لوگ اس کی طرف لپک پڑتے ہیں۔ مگر ان کی حقیقی روحانی تسکین اسی خدا سے ہو سکتی ہے جس کا تصور اسلام میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک شخص اپنی سواری کے لیے موٹر کار کا طالب ہو تو آپ اس کو کھلونا گاڑی(toy car) دے کر مطمئن نہیں کر سکتے۔ اس کا اطمینان تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اس کو ایک واقعی کار مل جائے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔یعنی، سنو خدا کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔
خدا اگرچہ ہمارے سامنے نہیں ہے مگر اس کی تخلیق، ایک عظیم کائنات کی صورت میں ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں اور اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کا ذہن کسی ایسے خدا پر ہی مطمئن ہو سکتا ہے جو موجودہ کائنات کے شایان شان ہو۔ جو آدمی کو واقعی اس عظیم کائنات کا خالق دکھائی دے۔ اس سے کم تر درجہ کا خدا انسان کے ذہن کو اپیل نہیں کر سکتا۔
ایک امریکی سائنس داں والٹر آسکرلنڈ برگ نے اس کی ایک دلچسپ مثال دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ایک سائنس داں دوسروں کے مقابلہ میں ایک خصوصی موقع(special advantage) اس بات کا رکھتا ہے کہ وہ خدا کی سچائی کو سمجھ سکے۔ وہ اساسی اصول جس پر اس کے کام کی بنیاد ہے وہ دراصل خدا کے وجود کا ایک اظہار (An expression of God's existence) ہے‘‘۔ اس کے باوجود سائنس کی تعلیم کے بعد کیوں لوگ خدا کے منکر ہو جاتے ہیں۔ امریکی پروفیسر کے نزدیک، دو میں سے ایک خاص سبب اس کا یہ ہے کہ منظم مسیحیت میں نوجوانوں کے اندر گہرائی کے ساتھ ایک ایسے خدا کا عقیدہ پیوست ہے جو انسانی صورت میں پیدا ہوا، نہ کہ ایسا انسان جو خدا کی صورت میں پیدا ہوا۔ اس طرح کے ذہن بعد کو جب سائنس کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو خدا کا یہ الٹا اور محدود تصور دھیرے دھیرے غیر عقلی اور غیر علمی معلوم ہونے لگتا ہے۔ بالآخر جب مطابقت پیدا کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد خدا کا تصور مکمل طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے:
In organised Christianity there is instilld deeply in young people a concept of God created in the image of man, rather than of man created in the image of God. When such minds are later trained in science, this reversed and limited anthropomorphic concept gradually becomes more and more incompatible with the rational, inductive attitude of Science. Ultimately when all attempts at reconciliation fail, the concept of God may be abandoned entirely.
The Evidence of God in an Expanding Universe, p.56
اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے۔ اصلاً اور ابتداء ً دوسرے مذاہب اور اسلام ایک ہی تھے۔ مگر دوسرے مذاہب میں تبدیلیوں کی وجہ سے صحیح تصور خدا محفوظ نہ رہ سکا۔ جب کہ اسلام میں خدا کا تصور اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کو صحیح ترین روپ میں پیش کرتا ہے۔ اسلام کا خدا ایک خدا ہے۔ وہ ہر قسم کی طاقتوں کا مالک ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے تنہا پوری کائنات کو پیدا کیا اور وہی تنہا پوری کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور بولتا ہے۔ وہ آدمی کی پکار پر ہر وقت اس کا ساتھ دینے کے لیے موجود رہتا ہے۔ اس سے ہر وقت اور ہر مقام پر انسان کا ربط قائم ہو سکتا ہے۔ ہر چیز اس کے قبضہ اختیار میں ہے۔ وہ موت سے پہلے کے مرحلہ میں بھی آدمی کا مدد گار ہے اور موت کے بعد کے مرحلہ میں بھی— قرآن اسی خدا کا ایک تعارف ہے۔ جس کو خدا کا کامل تعارف حاصل کرنا ہو اس کو قرآن پڑھنا چاہیے۔
حصہ دوم
موجودہ زمانہ میں تمام قومیں اجتماعی مسائل سے دو چار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا غیر ترقی یافتہ ممالک، ہر جگہ انسانی معاشرہ ظلم و فساد کا شکار ہے۔ ہر جگہ یہ سوال درپیش ہے کہ معاشرہ کی تنظیم کس طرح کی جائے کہ وہ بہتر انسانی معاشرہ بن سکے۔
انسانی مسائل پر غور کرتے ہوئے سب سے اہم بات جو سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہانسان ایک ایسی دنیا میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے سوال سے دو چار ہے جہاں بقیہ تمام چیزوں کے مسائل اول روز سے حل شدہ ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان نے کائنات کی شاہراہ چھوڑ رکھی ہے۔ اگر وہ خود بھی اسی شاہرہ پر آ جائے جس پر بقیہ تمام چیزیں چل رہی ہیں تو اس کے مسائل بھی اسی طرح حل ہو جائیں گے جس طرح بقیہ چیزوں کے مسائل حل ہو چکے ہیں۔
کائنات کی تمام چیزیں ایک ہی آفاقی قانون میں جکڑی ہوئی ہیں۔ مگر انسان کا یہ حال ہے کہ ہر ایک اپنے لیے الگ الگ راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز دوسروں کے لیے نفع بخش بن کر زندہ ہے۔ مگر انسان دوسروں کے استغلال پر اپنا مستقبل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ کائنات میں اگر کوئی چیز بلند ہے تو وہ اپنا سایہ زمین پر ڈال کر تواضع کا اعتراف کرتی ہے۔ مگر انسان کو اگر کوئی بڑائی مل جائے تو وہ گھمنڈ کا اظہار کرتا ہے۔ کائنات میں ہر چیز صرف اپنے کام میں لگی ہوئی ہے، وہ کسی دوسرے سے نہیں ٹکراتی۔ مگر انسان دوسروں سے ٹکراتا ہے۔ وہ دوسرے کی تخریب پر اپنی تعمیر کا منصوبہ بناتا ہے۔ کائنات میں ایسے ’’سیلاب‘‘ آتے ہیں جن کو آزادانہ موقع دیا جائے تو وہ سخت تباہی پھیلائیں۔ مگر کائناتی نظام یہ کرتا ہے کہ ان کا رخ ندیوں اور سمندروں کی گہرائی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اس کے برعکس، انسانوں کے یہاں جب منفی جذبات کا طوفان اٹھتا ہے تو وہ اس کے رخ کو نہیں پھیرتے۔ یہاں ہر آدمی صرف یہ جانتا ہے کہ اپنی آفت کو دوسرے کے اوپر ڈال دے۔
معاشرہ کی اصلاح کے سلسلے میں اصل ضرورت یہ ہے کہ اس تضاد کو ختم کیا جائے۔ انسانی معاشرہ کو بھی اسی آفاقی نظام کا پابند بنایا جائے جس میں بقیہ تمام کائنات جکڑی ہوئی ہے۔ جس دن ایسا ہوگا اسی دن انسانی زندگی کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ جس قانون کو اختیار کرنے کے نتیجے میں بقیہ کائنات کے مسائل حل شدہ ہیں۔ اسی قانون کو اختیار کرنے سے انسانی زندگی کے مسائل کیوں کر حل نہ ہوں گے۔
اجتماعی مسائل
اجتماع کیا ہے۔ اجتماع دراصل افراد ہی کے مجموعہ کا دوسرا نام ہے۔ سوسائٹی کا سلوک دراصل فرد فرد کے سلوک ہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ افراد صحیح ہوں تو سوسائٹی صحیح ہوگی۔ افراد غلط ہوں تو سوسائٹی بھی غلط ہو جائے گی۔
خدا کا عقیدہ سوسائٹی کے ہر فرد کو صحیح ترین نقطۂ نظر دیتا ہے۔ وہ فرد فرد میں سنجیدگی پیدا کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہر فرد کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ وہی کرے جو بحیثیت مجموعی پوری انسانیت کے لیے مفید ہے۔ اور وہ نہ کرے جو مجموعی انسانیت کے لیے مفید نہیں۔
خدا کا عقیدہ عظیم ترین دریافت ہے۔ وہ آدمی کی پوری شخصیت کو ہلا دیتا ہے۔ اس کی مثال کیرم بورڈ سے دی جا سکتی ہے۔ کیرم کے کھیل میں بورڈ کے درمیان19 گوٹیں ہوتی ہیں۔ کھلاڑی اگر اسٹرائکر کو اس طرح مارے جس سے تمام گوٹوں پر زد پڑ جائے تو ایسی مارکو شاہ ضرب (master stroke) کہتے ہیں۔ خدا پر عقیدہ بھی اسی قسم کا ایک ماسٹر اسٹروک ہے۔
خدا پر عقیدہ انسان کی پوری ہستی پر ضرب لگاتا ہے۔ وہ آدمی کی تمام قوتوں کو متحرک بنا دیتا ہے۔ خدا پر عقیدہ بظاہر ایک چیز ہے مگر وہ انسان کو ہر پہلو سے ایک اصلاح یافتہ انسان بنا دیتا ہے۔ اس کے بعد آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کی ہستی کا جو پہلو بھی دنیا میں ظاہر ہو وہ درست شکل میں ظاہر ہو، فطرت کے سیدھے راستہ سے وہ کسی حال میں انحراف نہ کرے۔ انسان کا پورا وجود خدا کی پکڑ میں ہے اس لیے خدا کا عقیدہ انسان کے پورے وجود کو متاثر کرنے والا بن جاتا ہے۔
1۔ روح کو چھوڑ کر صرف جسم پر توجہ دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر متکامل شخصیت(integrated personality) نہیں پیدا ہوتی۔ اپنے اندر کمی کا احساس اس کو مستقل طور پر غیر مطمئن رکھتا ہے۔ وہ اس احساس میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کو جو کچھ پانا چاہیے تھا وہ ابھی تک اس کو نہ پا سکا۔
یہ احساس محرومی اکثر حالات میں سماجی برائیوں کا سبب ہے۔ سماج کے اندر ظلم و فساد کی حقیقت دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بے چینی کو دوسرے کے اوپر انڈیل دینا چاہتا ہے۔ ایک آدمی اپنی محروم خواہشوں کی تکمیل کے لیے دوسرے کے استغلال کا منصوبہ بناتا ہے مگر جب خدا کا عقیدہ اس کے ذہن میں اتر جائے تو اس کے بعد اس کے اندر متکامل شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد روح (complex-free soul) بن جاتا ہے جس کو قرآن میں نفس مطمئنہ کہا گیا ہے۔ اس کے بعد اگر اس کے پاس کم ہو تو اس کے اندر احساس کمتری کی برائیاں پیدا نہیں ہوتیں۔ اس کے پاس زیادہ ہو تو وہ احساس برتری کے مرض میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں ایک معتدل انسان بنا رہتا ہے۔ اور یقینی طور پر یہی وہ چیز ہے جو کسی شخص کو بہتر سماجی فرد بناتی ہے۔
2۔ دوسری چیز احساس ذمہ داری ہے۔ احساس ذمہ داری ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ آدمی یہ محسوس کرے کہ اس کے اوپر بھی کوئی طاقت ہے جو اس کو اپنی پکڑ میں لے سکتی ہے۔ خدا کو چھوڑنے کے بعد آدمی کے سامنے ایسی کوئی بلند تر طاقت باقی نہیں رہتی جس سے آدمی اندیشہ کرے اور جس کے سامنے جواب دہی کا احساس اس کو مجبور کرے کہ وہ سچائی پر قائم رہے۔
اس کے برعکس، جب آدمی قادر مطلق خدا کو مانتا ہے تو اس کے فوراً بعد اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مجھے اس کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ جواب دہی کا خیال اس کو اپنے قول و عمل میں بے حد حساس بنا دیتا ہے۔ یہ جذبہ اس کی پوری زندگی کو منظم کرتا ہے۔ وہ اس کے اوپر نگراں بن جاتا ہے۔ وہ اس کو ظلم اور استحصال(exploitation) کے راستوں سے بچاتا ہے اور ہمیشہ انصاف اور بھلائی کو اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مشہور انگریز جج سرمیتھیو ہیل(1609-1676) نے بجا طور پر لکھا ہے کہ’’یہ کہنا کہ مذہب ایک فریب ہے، ان تمام ذمہ داریوں اور پابندیوں کو منسوخ کرنا ہے جن سے سماجی نظم کو برقرار رکھا جاتا ہے۔‘‘
Religion without Revelation, by Julian Huxley, p.155
کسی سوسائٹی کے بیشتر افراد جب اسلام کے تصور کے مطابق خدا کو اپنے عقیدے میں شامل کر لیں تو اس کے بعد اجتماعی معاملات میں زبردست تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ آدمی کا یہ احساس کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے اس کے اندر سے یہ مزاج ختم کر دیتا ہے کہ وہ اندر کچھ ہو اور باہر کچھ۔ ایسے لوگ دوسروں کا استغلال نہیں کرتے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا انہیں حساب دینا پڑے گا۔ ان کی زندگی خود رخی زندگی(self-oriented life) کے بجائے خدا رخی زندگی(God-oriented life) بن جاتی ہے۔
خدا پر ایمان لانا ایک ایسی ہستی پر ایمان لانا ہے جو تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ جو انسان کے دلوں تک کا حال جانتا ہے جو انسان سے اس کے تمام کھلے اور چھپے کا حساب لے گا۔ اس طرح خدا پر ایمان لانا آدمی سے اس کی خودی اور سرکشی کو چھین لیتا ہے۔ ایسا آدمی انتہائی سنجیدہ(sincere) اور کامل طور پر حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ یہی چیز ہر قسم کی اصلاح کا راز ہے۔ آدمی اگر سنجیدہ اور حقیقت پسند ہے تو وہ ہر کام کو صحیح طور پر انجام دے گا اور اگر وہ سنجیدہ اور حقیقت پسند نہ ہو تو جو کام بھی اس سے متعلق ہوگا اس کو وہ بگاڑ ڈالے گا— اسلام کے مطابق خدا کا عقیدہ آدمی کے اندر یہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے۔
ہماری دنیا میں جو انسان ہیں وہ سب برابر نہیں ہیں۔ یہاں کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور، یہی فرق ہر قسم کے ظلم و فساد پیدا کرتا ہے۔ جو شخص اپنے کو طاقت ور پاتا ہے وہ اس کے اوپر چڑھ دوڑتا ہے جس کو وہ بظاہر کمزور دیکھ رہا ہے۔
خدا پر ایمان برائی کی اس جڑ کو کاٹ دیتا ہے۔ خدا پر ایمان بتاتا ہے کہ اصل معاملہ انسان اور انسان کے درمیان نہیں بلکہ اصل معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہے۔ یہاں ایک طرف خدا ہے جس کے پاس ہر قسم کی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف انسان ہے جس کو خدا کے مقابلہ میں کوئی طاقت حاصل نہیں۔ گویا یہاں زیادہ طاقت اور کم طاقت کی تقسیم نہیں بلکہ طاقت اور بے طاقتی کی تقسیم ہے(فاطر، 35:15)۔
خدا پر ایمان آدمی کے ذہن کو یکسر بدل دیتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے معاملہ کو دوسرے انسانوں کی نسبت سے دیکھنے کے بجائے خدا کی نسبت سے دیکھنے لگتا ہے۔ کیونکہ بالآخر جس سے معاملہ پیش آنے والا ہے وہ خدا ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی سے وہ تمام ظالمانہ خواہشیں حذف ہو جاتی ہیں جو اپنے معاملہ کو دوسرے انسانوں کی نسبت سے دیکھنے کی وجہ سے مصنوعی طور پر اس کے اندر پیدا ہوگئی تھیں۔ وہ اپنی حقیقی سطح پر آ جاتا ہے۔ وہ انسانِ اصلی (man cut to size) بن جاتا ہے۔
دو شخص یا دو قوم کے درمیان جب بھی نزاع پیدا ہو تو بیشتر حالات میں غلطی دونوں طرف ہوتی ہے۔ اب ایسے حالات میں اگر ایک فریق اپنے حصہ کی غلطی مان لے تو دوسرا فریق بھی بآسانی اپنی غلطی کو ماننے پر راضی ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر ایک فریق اپنے حصہ کی غلطی نہ مانے تو دوسرا فریق بھی اپنے حصہ کی غلطی ماننے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس طرح جھگڑا بڑھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
ایسے تمام معاملات میں اصل مشکل یہ ہوتی ہے کہ جھگڑا پیدا ہوتے ہی دونوں فریق اس کو اپنی عزت(prestige) کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہر فریق بخوبی جانتا ہے کہ غلطی کا ایک جزء اس کی طرف بھی ہے۔ مگر یہ خیال اس کو اعتراف سے روکے رہتا ہے کہ اگر میں نے اپنی غلطی مان لی تو میری بے عزتی ہو جائے گی۔ اس اندیشہ کی بنا پر دونوں میں سے کوئی فریق اپنی غلطی کے اعتراف کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
لیکن اگر دونوں میں سے کوئی ایک ایسا کرے کہ وہ پہل کرکے اپنے حصہ کی غلطی مان لے تو صورت حال فوراً بدل جائے گی۔ جو معاملہ پہلے عزت کا معاملہ تھا وہ اب توازن کا معاملہ بن جائے گا۔ اس کے بعد دوسرے فریق کے لیے اعتراف کرنا اپنے کو نیچا کرنے کے ہم معنی نہیں رہتا بلکہ وہی چیز کرنا بن جاتا ہے جو دوسرا فریق عملاً کر چکا ہے۔ گویا ایک فریق کا اعتراف دوسرے فریق کے اعتراف کو پیشگی طور پر متوازن کر دیتا ہے۔
یہی حقیقت پسندی زندگی کی اصلاح کا سب سے بڑا راز ہے۔ اور یہ حقیقت پسندی صرف خدا پرستی سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا پر ایمان دراصل خدا کو کبیر مان کر اپنے آپ کو صغیر کے مقام پر رکھنا ہے۔ یہ ایمان اس حال میں وقوع میں آتا ہے ہے کہ خدا اپنی کبریائی کو منوانے کے لیے ہمارے سامنے موجود نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی حقیقت پسندی ہے۔ اب جو شخص اس پر راضی ہو جائے کہ ساری بڑائی خدا کی طرف ہے اور ساری چھوٹائی میری طرف، وہ گویا اپنی’’کوتاہی‘‘ کو آخری حد تک تسلیم کر چکا ہے۔ اور جو شخص اپنی کوتاہی کو آخری حد تک تسلیم کر لے وہ کیسے کسی بات کو عزت کا مسئلہ بنائے گا۔ ایسے آدمی کے لیے ہر دوسرا اعتراف اسی چیز کو چھوٹی سطح پر ماننا ہے جس کو وہ زیادہ بڑی اور آخری سطح پر پہلے ہی مان چکا ہے۔
قدرت کا نظام توازن کے اصول پر قائم ہے۔ توازن کو قائم رکھنے میں قدرت جن تدبیروں سے کام لیتی ہے ان میں سے ایک تحویل(diversion) ہے۔ یعنی قوت کی فاضل مقدار کو دوسری طرف موڑ دینا۔ بارش کے موسم میں جو پانی برستا ہے اس کی ساری مقدار اگر کھیتوں اور آبادیوں میں رہ جائے تو زبردست نقصان ہو۔ ایسے موقع پر قدرت یہ کرتی ہے کہ پانی کی ضروری مقدار کھیتوں اور آبادیوں کو دے کر بقیہ تمام پانی دریائوں کی طرف محول(divert) کر دیتی ہے۔
اسی اصول تحویل کو انسان نے مصنوعی طور پر بند(dam) کی صورت میں اختیار کیا ہے۔ بند کا مقصد یہ ہے کہ دریا کے پانی کے بے روک ٹوک بہائو پر کنٹرول قائم کیا جائے۔ جب بھی ایسا ہو کہ پانی حد سے بڑھتا ہوا نظر آئے تو اس کے رخ کو موڑ کر دوسری طرف کر دیا جائے تاکہ وہ دریا میں داخل ہو کر طغیانی نہ لا سکے، بلکہ علیحدہ سے بنے ہوئے عظیم گڑھے میں جا کر گر جائے جس کو عام طور پر ذخیرہ آب(reservoir) کہا جاتا ہے۔ یہی اصول مشینوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاًا سٹیم انجن میں اسٹیم کی مقدار متعینہ حد سے زیادہ ہو جاتی ہے تو اسٹیم کے رخ کو پھیر کر اسے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ انسان کی اجتماعی زندگی کا بھی ہے۔ مختلف انسان جب مل جل کر رہتے ہیں تو ان کے درمیان بار بار شکایت کی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف دلوں میں تلخیاں ابھرتی ہیں۔ اگر اس شکایت اور تلخی کو بڑھنے دیا جائے تو اختلاف اور عناد اور مقابلہ کی نوبت آ جاتی ہے۔ انسانی جماعت یا انسانی معاشرہ کا درست طور پر کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ان حالات میں انسان کے لیے بھی ایک ایسی چیز کی ضرورت ہے جس کی طرف اس کے جذبات کے مضر اضافہ کو موڑا جا سکے۔ خدا اور آخرت کا عقیدہ زندگی میں یہی کام کرتا ہے۔ وہ اجتماعیت کو نقصان پہنچانے والے جذبات کو انسان کی جانب سے موڑ کر خدا کی طرف کر دیتا ہے۔
حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے آپ کو باپ سے جدا کر دیا۔ اس کے بعد آپ کے دوسرے سگے بھائی بن یامین کے ساتھ بھی اسی قسم کا حادیہ پیش آیا۔ ان ناخوشگوار واقعات کے بعد قدرتی طور پر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے اندر شدید جذبات پیدا ہوئے۔ آپ اگر اپنے ان جذبات کا نشانہ حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں کو بناتے تو زبردست انتشار اور اختلاف پیدا ہوتا۔ مگر آپ نے اپنے جذبات کے ہجوم کو خدا کی طرف موڑ دیا۔ آپ نے فرمایا:
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (12:86)۔ یعنی، میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔
اسی طرح عمر فاروقؓرضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسلامی جنرل خالد بن الولید کو معزول کر دیا۔ یہ خالد بن الولید جیسے شخص کے لیے زبردست جھٹکا تھا۔ مگر انہوں نے اپنے تمام جذبات کو یہ کہہ کر خدا کی طرف موڑ دیا: إ ِنِّي لَا أُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ عُمَرَ، وَلَكِنْ أُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ رَبِّ عُمَرَ (میں عمر کے راستہ میں نہیں لڑتا بلکہ خدا کے راستہ میں لڑتا ہوں)۔
یہ کسی انسانی معاشرہ کے لیے عقیدہ آخرت کی بہت بڑی دین ہے۔ اس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی شکایات کی تلافی کے لیے خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس نے جو کچھ انسان سے نہیں پایا، اس کو وہ خدا سے پانے کی امید کرلیتا ہے۔ اس طرح خدا پرست آدمی کے منفی جذبات اپنے ہم جنسوں کی طرف رخ کرنے کے بجائے خدا کی طرف محول (divert) ہوتے رہتے ہیں۔ جو پانی سیلاب بن کر انسانی آبادی کو نقصان پہنچاتا وہdiversion poolمیں جا کر گر جاتا ہے۔
خاتمہ
اس بحث کو میں جارج برنارڈشا (1856-1950) کے ایک قول پر ختم کر دوں گا۔ برنارڈشا نے ایک بار کہا کہ اگر محمد جیسا کوئی آدمی موجودہ دنیا کا ڈکٹیٹر ہو جائے تو وہ اس کے مسائل کو اس طرح حل کر دے گا کہ دنیا میں وہ امن اور خوشی قائم ہو جائے جس کی ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے۔
If a man like Muhmmad were to assume the dictatorship of the modern world, he would solve its problems in a way that would bring it much needed peace and happiness.
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جس چیز نے محمد بنایا وہ خدا پر کامل ایمان تھا۔ آپ کی زندگی مومن کامل کا نمونہ تھی۔ اس اعتبار سے اگربرنارڈشا کے الفاظ کو بدل کر یہ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا کہ— آج دنیا میں اگر صحیح طور پر خدا کو ماننے والے پیدا ہو جائیں تو یقیناً دنیا میں امن قائم ہو جائے گا جس کی آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
(جمعیۃ علما ملیشیاکے تحت کوالالمپور میں ایک اسلامی کانفرنس ہوئی۔ یہاں25 نومبر 1983ء کے پروگرام میں میرا ایک مقالہ’’اسلام اور عصر حاضر‘‘ رکھا گیا تھا۔ زیر نظر تحریراس مقالہ کا اردو ترجمہ ہے جو اس موقع پر پیش کرنے کے انگریزی میں تیار کیا گیا)۔