عظیم ترین گواہی

حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم میں ایک تفصیلی روایت آئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ محمدی کا ایک فرد اٹھے گا جو اُس زمانے کے فتنۂ کبریٰ کو ختم کرے گا۔ یہ خاتمہ حجت اور دلائل کے ذریعہ ہوگا۔ یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اتنا بڑا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں فرمایا: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین (کتاب الفتن) یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک، تاریخ کی سب سے بڑی گواہی ہوگی۔

حالات بتاتے ہیں کہ وہ وقت پوری طرح آچکا ہے، جب کہ کچھ لوگ اٹھیں اور اِس رول کو انجام دیں۔ اِس معاملے میں اب مزید تاخیر کا وقت باقی نہیں رہا۔ یہ حدیث اور اِس طرح کے دوسرے نصوص، دراصل ایک امکان کو بتارہے ہیں، نہ کہ کسی فرد یا افراد کے کارنامے کو۔ یہ قیامت سے پہلے کا ایک رول ہے جس کی طرف دوڑنے والوں کو دوڑنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس معاملے میں ’’آنے والے‘‘  کاانتظار اور خود اپنے کو ’’آنے والا‘‘ بتانا، دونوں ہی یکساں طورپر غلط ہیں:

Waiting for a ‘‘coming person’’ or claiming ‘‘I am that person’’, both are equally wrong.

عظیم شہادت کا تعلق، عظیم امکانات سے ہے، نہ کہ صرف ایک فرد کے کارنامے سے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دورِ آخر میں ایسے عظیم مواقع ظہور میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے عظیم دعوتی واقعہ انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔

مشہور برٹش سائنس داں سرآئزاک نیوٹن کا ایک خط (1704ء) حال میں یروشلم کے ایک میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا۔ اِس خط میں نیوٹن نے لکھا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ اِس واقعہ کی رپورٹ دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (18 جون 2007) میں اُس کے صفحۂ اول پر چھپی ہے۔ اِس خبر کاعنوان یہ ہے:

Newton saw end of world in 2060

سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ء)نے اپنی یہ تحریر کلاسکل لاز آف گریوٹی اینڈ موشن (Classical Laws of Gravity and Motion) کی روشنی میں میتھ میٹکل کیلکولیشن کے ذریعہ ظاہر کی تھی۔ یہ اندازہ اتنا عجیب تھا کہ لوگوں نے اس کو نیوٹن کی زندگی کا توہماتی پہلو (superstitious side) قرار دیا۔ یہ خط پہلی بار 1969 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اب اس کو یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں ایک مخصوص نمائش (Newton's Secrets) میں رکھا گیا ہے۔

موجودہ دنیا کے خاتمے کے بارے میں نیوٹن نے جو بات حسابی اندازے کے تحت کہی تھی، وہ اب مشاہداتی سائنس کے تحت ایک معلوم واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جو کلائمیٹ چینج کا واقعہ پیش آرہا ہے، اُس کی روشنی میں مغربی سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ 2010 تک موجودہ دنیا کا لائف سپورٹ سسٹم بہت زیادہ بگڑ جائے گا، اور2050 تک شاید زمین پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔

قرآن اور حدیث میں واضح طورپر اِس واقعہ کی پیشین گوئی موجود ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا نے یہ دنیا محدود مدت کے لیے بنائی تھی، اور اب وہ نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ محدودمدت اپنے آخری خاتمے کے قریب ہے۔قرآن اور حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے یہاں ایک آخری دعوتی اعلان کیا جائے گا، تاکہ انسانی نسلیں آخری طورپر جان لیں کہ اب وہ وقت آچکا ہے جب کہ انھیں خالقِ کائنات کے سامنے آخری پیشی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اور اُس کے بعد ہر ایک کے لیے یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم۔

قیامت سے پہلے یہ آخری اعلان معجزاتی طورپر نہیں ہوگا، بلکہ اسباب و علل کے ذریعے ہوگا۔ حالات بتاتے ہیں کہ وہ اسباب اب پوری طرح موجود ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اٹھنے والے اٹھیں اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے آخری طورپر خدا کے دین کا اعلانِ عام کردیں۔ غالباً اسرافیل اپنا صور لیے ہوئے اِسی آخری اعلانِ حق کا انتظار کررہے ہیں۔حدیث میں جس چیز کو عظیم ترین شہادت یا عظیم ترین دعوت کہاگیا ہے، اُس کے امکانات کامل طور پر ظہور میں آچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ اِن امکانات کو استعمال کرکے اِس کارِ عظیم کو عملاً انجام دے دیا جائے۔

گلوبل وارمنگ یا موجودہ دنیا کے خاتمے کی بات کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر خدا کے قانون سے جُڑی ہوئی ہے۔ موجودہ دنیا جو انسان کو ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right) کے طور پر ملی ہے اور نہ انعام(reward) کے طورپر، اور نہ ایسا کہ وہ اتفاقی طورپر انسان کو مل گئی ہو بلکہ انسان یہاں امتحان کے طورپر رکھا گیا ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد انسان اِس دنیا میں رہنے کا جواز کھودیتا ہے۔یہ معاملہ بالکل امتحان ہال جیسا ہے۔ طالبِ علم کو امتحانی پرچہ کرنے کے لیے ایک محدود مدت تک امتحان ہال کے اندر رکھا جاتا ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی طالبِ علم کو امتحان ہال سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر موجودہ دنیا کا ہے۔

جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، انسانوں کے درمیان برابر خداکے پیغمبر آتے رہے۔ انھوں نے انسان کو خدا کی طرف سے پیغام دیا۔ جب پیغمبر کی مخاطَب قوم نے پیغمبر کی بات نہ سُنی تو اِتمامِ حجت کے بعد اُس قوم کو تباہ کردیا گیا۔ یہ واقعہ ماضی میں بار بار ہوتا رہا۔

قدیم مثالوں میں اتمامِ حجت کا واقعہ مقامی طورپر ہوتا تھا، اِس لیے اتمامِ حجت کے بعد صرف محدود آبادی کو تباہ کیا جاتا تھا۔ اب جدید ترقیوں کی بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ عالمی سطح پر اتمامِ حجت کا واقعہ انجام پارہا ہے، اس لیے اب اتمامِ حجت کے بعد جو تباہی آنے والی ہے، وہ عالمی تباہی ہوگی۔ اِسی کا نام قیامت ہے۔ قیامت اُسی اصول کا عالمی انطباق ہے جس کا انطباق پہلے صرف مقامی طورپر ہوا کرتا تھا۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوجائے گا (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدرٍ ولا وبَرٍ إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام) کلمۂ اسلام کا یہ عمومی داخلہ یقینی طورپر اسباب کے تحت پیش آئے گا۔ قدیم زمانے میں اس کے اسباب موجود نہ ـتھے۔ اب موجودہ زمانے میں ماڈرن کمیونکیشن کی صورت میں یہ اسباب پوری طرح انسان کی دست رس میں آچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیاہے کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور ملٹی میڈیا کو استعمال کرکے کلمۂ اسلام کو ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom