جنت میں داخلے کی شرط
آدم پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں رکھا، اور کہا کہ تم دونوں یہاں رہو اور آزادانہ طورپر یہاں کے سامانِ راحت سے فائدہ اٹھاؤ۔ لیکن تم اِس شجرِ ممنوعہ کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالم ہوجاؤگے (البقرۃ:35)
مگر شیطان کے وسوسے سے متاثر ہو کر انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد آدم اور حوا دونوں جنت سے نکال کر موجودہ زمین میں ڈال دیے گیے۔اور آدم سے اور ان کی پوری نسل سے یہ کہہ دیاگیا کہ جو عمل کا ثبوت دے گا، وہی ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
زندگی کے آغاز کی یہ مثال بتاتی ہے کہ جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ جنت کسی کو پُر اسرار طورپر نہیں ملے گی اور نہ کسی کی سفارش کسی کو جنت کا مستحق بنائے گی۔ جنت کسی کو پیدائشی حق کے طور پر ملنے والی نہیں، یہاں تک کہ پیغمبر کو بھی نہیں:
Paradise is not a birth right, even for the Prophets.
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے ذریعے سارے انسانوں کے لیے یہ مثال قائم کردی اور بتا دیا کہ جنت کسی خود ساختہ عقیدے کے تحت کسی کو ملنے والی نہیں۔ یہ اصول اتنا عام ہے کہ اِس میں پیغمبروں تک کا کوئی استثنا نہیں ہے۔
حضرت آدم کے واقعے میں ایک اور بے حد اہم بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ جنت کے حصول کا مدار سب سے پہلے جس چیز پر ہے، وہ ہے اپنی خواہشوں پر کنٹرول اور اپنی عقل کو اتنا زیادہ ترقی دینا کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے بچ سکے۔ انسان کے اندر ابدی کامیابی کی خواہش بے پناہ طورپر موجود ہے۔ اِسی خواہش کے راستے سے شیطان نے آدم کے اوپر حملہ کیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ اِسی طرح انسان کے اندر بہت سی خواہشیں ہیں۔ ہر خواہش انسان کے اندر شیطان کے داخلے کا دروازہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے ہر دروازے پر چوکی دار بنا رہے، تاکہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر اُس کو خدا کی رحمت سے دور نہ کرسکے۔