جنگ میں پہل نہیں
قرآن کی سورہ نمبر 9 میں ارشاد ہوا ہے: ألا تقاتلون قوماً نکثُوا أیمانہم وہمُّوا بإخراجِ الرّسولِ وہُم بدَء وکُم أوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبۃ:13) یعنی کیا تم نہ لڑوگے ایسے لوگوں سے جنھوں نے اپنے عہد توڑ دیے اور رسول کو نکالنے کی جسارت کی، اور وہی ہیں جنھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔
اِس آیت کی تشریح میں صاحب التفسیر المظہری نے لکھا ہے: وہم بدء وکم بالقتال أوّل مرّۃ، لأنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بَدَأ بالدَّعوۃِ وإلزام الحجۃ بالکتاب والتحدّی بہ، فعدلوا عن معارضتہ إلی المعاداۃ والمقاتلۃ، حتّیٰ اجتمعوا فی دارالندوۃ وأجمعوا علیٰ قتلہ (جلد 4، صفحہ 144)
یعنی انھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت سے آغاز کیا۔ اور کتاب اللہ کے ذریعہ حجت قائم کرنے سے اور اُس کے ذریعہ تحدّی کرنے سے مگر انھوں نے اُس کے جواب میں انحراف کیا اور دشمنی اور جنگ کا طریقہ اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ دار الندوہ میں اکھٹا ہوکر انھوں نے آپ کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔
قرآن کی اِس آیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک،یہ کہ ’’وہُم بدء وکم‘‘ میں جس ابتدا کا ذکر ہے، اُس سے مشرکین کی طرف سے کیا جانے والا کون سا واقعہ مراد ہے۔ اِس معاملے میں مفسرین کی ایک رائے نہیں۔ مفسرین نے مشرکوں کی طرف سے کیے جانے والے مختلف واقعات کو اِس کا مصداق قرار دیا ہے۔
آیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اُس سے ایک اصولی حکم نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگ کے معاملے میں بَدْء(آغاز) اہلِ اسلام کی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ فریقِ ثانی کی طرف سے ہوگا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے جب تک جارحانہ آغاز نہ کیا جائے، اہلِ اسلام پُرامن طریقِ کار کے مطابق، اپنا دعوتی مشن جاری رکھیں گے۔ البتہ جب فریقِ ثانی کی طرف سے جارحیت کا آغاز کردیا جائے تو اُس کے بعد اہلِ اسلام کے لیے جائز ہوجاتا ہے کہ وہ دفاع کے طورپر فریقِ ثانی سے جنگی مقابلہ کریں۔