کشمیر: ایک جائزہ

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر(وفات: 1530)نے جب کشمیر کو دیکھا تو اُس نے کشمیر کو ’’جنت نظیر‘‘ کا نام دیا۔ اس نے کہا:

اگر فردوس بر روئے زمین است      ہمین است وہمین است و ہمین است

یہ قبل از جہاد کے دور کا کشمیر تھا۔ بابر اگر بعد از جہاد کے کشمیر کو دیکھتا تو شاید وہ کہتا کہ پہلے میں نے کشمیر کو جنت نظیر کہا تھا، لیکن اب میں اپنے قول کو واپس لیتا ہوں۔ کیوں کہ اب کشمیر کی پہچان بدل چکی ہے۔

کشمیر اپنے قدرتی اوصاف کی بنا پر عرصے سے فطرت اور روحانیت کا خوب صورت امتزاج بنا ہوا تھا۔ یہاں کے روحانی ماحول کی وجہ سے مسلم صوفیوں کو یہاں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں مذہب اور روحانیت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ نام نہاد جہاد سے پہلے کشمیر کو جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ اِس بیان کی مکمل تصدیق کریں گے۔

یہ کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ پچھلے چند سو سالوں میں یہاں باہر سے جو مسلم صوفی آئے، یا مقامی طورپر جو صوفی پیداہوئے، وہ سب کے سب امن اور محبت کا پیغام دینے والے تھے۔ اِس کے نتیجے میں کشمیر میں زبردست اِنقلاب آیا۔ کشمیر میں اسلام کو غیر معمولی طورپر فروغ حاصل ہوا۔ اگر چہ اب یہ پراسس تقریباً رک گیا ہے۔

شیخ نور الدین نورانی کشمیر کے صوفیوں میں سے ایک صوفی تھے۔ کشمیر کے لوگوں میں عام طورپر وہ ’’علَم دارِ کشمیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہندو لوگ انھیں پیار سے ’’نند رِشی‘‘ کہتے تھے۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طورپر مقبول تھے۔ قصہ چَرار شریف (کشمیر) میں ان کی درگاہ تھی جو کہ سری نگر سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ درگاہ 11 مئی 1995 کو ایک بھیانک آگ سے جل کر راکھ ہوگئی۔

شیخ نور الدین نورنی فیروز شاہ تغلق کے ہم عصر تھے۔ وہ 1377 ء میں کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اور 1439 ء میں چرار کے مقام پر ان کی وفات ہوئی۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں کشمیر کے حاکم زین العابدین نے شیخ نورانی کی قبر کی جگہ پر ایک بڑا مقبرہ تعمیر کیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں پٹھانوں کی حکومت کے زمانے میں اس درگاہ کی مزید توسیع ہوئی اور اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی۔

چرار شریف کی اِس درگاہ میں شیخ نورالدین نورانی کی قبر کے ساتھ گیارہ اور صوفیوں کی قبریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی مقدس تاریخی یادگاریں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔ مثلاً حضرت فاطمہ کے تبرکات، وغیرہ جو آگ کی نذر ہوگیے۔

افغانی گورنر عطا محمد خاں شیخ نورانی سے بہت متاثر تھا۔ اس نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طورپر انیسویں صدی کے آغاز (1808-1810) میں شیخ نورالدین نورانی کے نام کا سکہ جاری کیا۔ اس افغانی گورنر نے درگاہ کی مزیدتوسیع کرکے اس میں مسجد کا اضافہ کیا۔

کشمیر کے مشہور بزرگ سید امیر کبیر علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے کشمیر میں ایک روحانی بیداری آگئی تھی۔ اس زمانے میں مقامی صوفیوں اور بزرگوں کا ایک پورا گروہ پیدا ہوگیا۔ ان لوگوں کو عام طورپر بابا یا رِشی کہا جاتا تھا۔

یہ مسلمان رشی نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ ہندو اور مسلمان دونوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان مسلمان رشیوں میں سب سے زیادہ شہرت شیخ نورالدین نورانی نے پائی۔ ہندوؤں میں بھی وہ اتنا ہی مقبول و محبوب تھے جتنا کہ مسلمانوں میں (آبِ کوثر، از شیخ محمداکرام، صفحہ 381)

شیخ نور الدین نورانی کی ابتدائی زندگی مصیبتوں میں گزری۔ وہ دنیا والوں کی حالت دیکھ کر غمگین رہتے تھے، آخر کار انھوں نے بستی کو چھوڑ دیا۔ اور وہ پہاڑ میں جاکر تنہا ایک غار میں رہنے لگے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ 12 سال تک اسی غار میں مراقبہ کرتے رہے۔ یہ غار اب تک وہاں موجود ہے۔ اور دس فٹ گہرا ہے۔ آخر عمر میں ان کا حال یہ تھا کہ وہ روزانہ صرف ایک پیالہ دودھ پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں وہ بہت کمزور اور لاغر ہوگیے۔ اور صرف 63 سال کی عمر میں انتقال کرگیے۔ یہ سلطان زین العابدین کا زمانہ تھا۔

ایک کتاب ہے جس کا نام ’نورنامہ‘ ہے۔ اِس کتاب میں شیخ نور الدین نورانی کے صوفیانہ اقوال جمع کیے گیے تھے۔ اِس کتاب کو بابا نصیب الدین غازی نے فارسی زبان میں مرتب کیا تھا۔ یہ کتاب شیخ نورانی کے انتقال کے دو سو سال بعد تیار کی گئی۔

چرار شریف میں شیخ نور الدین نورانی کی درگاہ کا طرزِ تعمیر بالکل بُدھوں کے پگوڈا جیسا تھا۔ یہ عمارتی اسٹائل گویا اس بات کی علامت تھا کہ شیخ نورالدین نورانی کٹر پن سے بہت دور تھے۔ وہ صلحِ کُل (peace with all)کی پالیسی کو پسند کرتے تھے۔

شہنشاہ جہاں گیر ان کا معتقد تھا۔ اس نے شیخ نورالدین نورانی اور ان کے پیروؤں کے بارے میں کہا تھا کہ—یہ رشی نہ کسی کو بُرا کہتے ہیں اور نہ کسی سے کوئی چیز مانگتے ہیں۔ یہ دو لفظ میں شیخ نورالدین نورانی اور ان کے ماننے والوں کی صحیح اور جامع تصویر ہے۔

شیخ نور الدین نورانی سچی کشمیریت کی علامت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ— اگر تو دانش مند ہے تو ہندو اور مسلمان کو الگ الگ انسان نہ سمجھ، یہی خدا سے ملنے کا راستہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ چناں چہ ان کا کلام کشمیر کے ایک شاعر نے ’رِشی نامہ‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ نورالدین نورانی کے نزدیک انسان کی ایک ہی پہچان تھی،وہ یہ کہ انسان انسان سے پیار کرے۔ ان کے نزدیک انسان سے پیار ہی خدا کی پہچان کا راستہ ہے۔

شیخ نور الدین نورانی ایک صوفی بزرگ تھے۔ وہ روحانیت اور انسانیت اور پیار کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ کسی کا دل دکھانا یا کسی کو نقصان پہنچانا، ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ تھا۔ وہ انسان کی زندگی میں فطرت کا حسن دیکھنا چاہتے تھے۔

شیخ نور الدین نورانی کے قیمتی اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اُس سے درانتی بنالی۔ یہ قول شیخ نورانی کے فکر کا خلاصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے لوہا بنایا جس میں خصوصی طاقت ہے، مگر لوہا اس لیے نہیں ہے آپ اس کو تشدد کے لیے استعمال کریں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ لوہے کو تعمیر انسانیت کے لیے استعمال کریں۔ آپ لوہے سے تلوار کے بجائے درانتی بنائیں جو زراعت کے کام آتی ہے۔

اِسی طرح انھوں نے کہا کہ—جنگل ہوں گے تو اناج ہوگا۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جنگل سے بارش ہوگی اور بارش سے کھیتوں میں فصل اُگے گی۔ اِسی کے ساتھ اس قول کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں ایک کو دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرنا ہے۔ باہمی تعاون کے بغیر اس دنیا میں کوئی تعمیری نتیجہ بر آمد نہیں ہوسکتا۔

شیخ نورا لدین نورانی کے اقوال کشمیری زبان میں ہیں۔ یہ اقوال، انسانیت اور روحانیت کی اسپرٹ سے بھر پور ہیں۔ کچھ مزید اقوال کا ترجمہ یہ ہے:

کام، کرودھ، لوبھ، موہ اور اہنکار یہ سب انسان کو دوزخ میں بھیجنے کے لیے کافی ہیں۔

اپنے جسم کا سنگار کرنے سے من کا میل نہیں ہٹتا۔

ایک ہی ماں باپ کے بیٹے ہیں، ان کو خدا کا دامن تھامنا چاہیے۔ کیا مسلمان اور کیا ہندو، اللہ کی رحمت دونوں کے لیے برابر ہے۔

شیخ نور الدین نورانی کا زمانہ چودھویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور پندرھویں صدی کا نصف اوّل ہے۔ وہ ایک صوفی آدمی تھے۔ انھوں نے اپنے طریقِ کار کو اِن لفظوں میں بیان کیا تھا کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اس سے درانتی بنالی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں نے تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن اور محبت کا طریقہ اختیار کرلیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر نہ صرف ایک پُر امن علاقہ بن گیا، بلکہ وہاں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ کشمیر کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئی۔

لیکن اکتوبر 1989 سے کشمیر میں ایسے لوگ اُبھرے جو برعکس اصول پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے برعکس طور پر یہ کیا کہ اپنی ’’درانتی‘‘ کو توڑ کر اُس سے ’’تلوار‘‘ بنالی۔ انھوں نے جہاد کے نام پر پوری ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلادیا۔ جس کا نتیجہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔

اِس خود ساختہ جہاد کانتیجہ ناقابلِ بیان نقصانات کی صورت میں نکلا۔ کشمیر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خوش گوار تعلقات ختم ہوگیے۔ سیاحت کی انڈسٹری پر تباہ کن اثر پڑا۔ اقتصادی ترقی رک گئی۔ دعوت کا عمل ختم ہوگیا۔ لوگوں کے اندرمایوسی اور منافقت پیدا ہوگئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، وغیرہ۔

کشمیر میں مسلّح تحریک شروع ہونے سے ایک مہینے پہلے میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں کے ’ٹیگور ہال‘ میں میری تقریر ہوئی۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہاں مسلح تحریک شروع ہونے والی ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں پیشگی طورپر یہ کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بدو مدینہ آیا اور اُس نے مسجدنبوی میں پیشاب کر دیا۔ رسول اللہ نے اُس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جہاں اس نے گندہ کیا ہے اُس پر پانی بہا دو، وہ صاف ہوجائے گا۔ اِس حسنِ اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بدو اور اس کا پورا قبیلہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ میں نے کہا کہ پیغمبراسلام نے جو نتیجہ پانی بہا کر حاصل کیا تھا، اُس کو آپ خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اور ایساہونا کبھی ممکن نہیں۔

اب اِس تقریر پر تقریبا بیس سال گذر چکے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے جو کچھ میں نے اُس وقت کہا تھا، وہ اب لفظ بہ لفظ واقعہ بن چکا ہے۔ لوگ اندر سے اپنی غلطی کو محسوس کررہے ہیں، لیکن اب بھی وہ کھلے طورپر اس کا اعتراف نہیں کرتے۔

پاکستان کے مشہور روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے سنڈے میگزین (13 مئی 2007) کے صفحہ دو پر ایک مضمون چھپا ہے، اس کے لکھنے والے مسٹر طاق اسمٰعیل ساگر ہیں۔ اِس مضمون کا عنوان یہ ہے:

ہارٹ ٹوہارٹ کانفرنس اور مجاہد ِاوّل

اِس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کشمیری جہاد کے لیڈر سردار عبد القیوم خان اور انڈیا میں کشمیری جہاد کے لیڈر میر واعظ عمر فاروق، دونوں مسلح جہاد سے تائب ہو کر اب امن کی باتیں کررہے ہیں۔اب وہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو چھوڑچکے ہیں۔ مضمون میں سردار عبد القیوم خان کی طرف سے یہ الفاظ نقل کیے گیے ہیں: ’’موجودہ دَور میں کشمیرکی آزادی کی بات کرنا، احمقانہ سوچ ہے‘‘۔

کشمیری جہاد کے لیڈروں میں یہ تبدیلی بلا شبہہ خوش آئند ہے، لیکن اِن حضرات کو اس کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اِس لیے کہ وہ آج امن کی بولی تو بول رہے ہیں، لیکن انھوں نے کھلے لفظوں میں یہ اعلان نہیں کیا کہ اِس سے پہلے انھوں نے جو کچھ کیا، وہ بالکل غلط تھا۔ انھوں نے کشمیری قوم کی غلط رہنمائی کی۔ ان حضرات کے لیے کسی نیے رول کا آغاز اعتراف سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کھلے طور پر اعتراف نہ کریں تو کسی نیے رول کا آغاز بھی اُن کے لیے مقدر نہیں۔

جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں پہلے دن سے نام نہاد کشمیری تحریک کو بے اصل سمجھتا رہا ہوں۔ میرا کہنا یہ رہا ہے کہ اِس طرح کے واقعات تاریخ کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں، نہ کہ موجودہ قسم کی تحریک کے ذریعے۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ انڈیا کی آزادی کے وقت ہی ہوچکا ہے۔ اب نہ اُس کو باقاعدہ جنگ کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے اور نہ گوریلا وار کے ذریعے۔ اِس قسم کی ہر کوشش مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ اُس کو مزید دہرانا، صرف اپنے نقصان میں اضافے کے ہم معنیٰ ہے۔

تجربہ بتاتا ہے کہ انڈیا ہر اعتبار سے پاکستان سے بہت زیادہ ترقی کررہا ہے۔ ایسی حالت میں کشمیر کے لیے بہترین چوائس انڈیا ہے، نہ کہ پاکستان۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ جُڑنا، ایک ترقی یافتہ ملک کے ساتھ جڑنا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ جڑنا، ایک ایسے ملک کے ساتھ جڑنا ہے جو ابھی تک ترقی کی طرف اپنا سفر بھی شروع نہ کرسکا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom