رمضان: تقویٰ اور شکر کا مہینہ

اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت تقویٰ کی ہے اور رمضان کے مہینے کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت کے لیے مقرر کیاگیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان لانے والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے اگلوں پر فرض کیاگیا تھا، تاکہ تم تقویٰ والے بنو (البقرۃ: 182)

تقوی ٰکیا ہے۔ اس کی بہترین تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے:

إنّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سأل ابیّ بن کعب عن التقویٰ، فقال لہ: أما سلکتَ طریقاً ذا شوک۔ قال بلیٰ، قال فما عملتَ۔ قال: شمّرتُ واجتہدتُ۔ قال فذلک التقویٰ (تفسیر ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 40)

عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں پوچھا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ کیا آپ کسی کانٹے دار راستے سے گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ انھوں نے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچ کر اس سے گزر گیا۔ ابی بن کعب نے جواب دیا کہ یہی تقویٰ ہے۔

موجودہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اسی لیے یہاں بہت سی غیر مطلوب چیزیں بھی موجود ہیں۔ مومن کو ان چیزوں سے بچتے ہوئے اپنا سفرِ حیات طے کرنا ہے۔ اِسی پرہیز گارانہ رویّے کا نام تقویٰ ہے، اور رمضان کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت ہے۔

روزے میں کیا ہوتا ہے۔ روزے میں آدمی اپنا کھانا اور پانی ایک مقررہ مدت کے لیے چھوڑتا ہے۔ اپنی عادتوں کو ترک کرتا ہے۔ اپنی خواہشوں پرروک لگاتا ہے۔ اِسی طرح وہ اِس بات کی تربیت حاصل کرتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ وہ کچھ چیزوں سے بچ کر زندگی گزارے۔ روزہ اِسی پرہیزگاری کی انتہائی تربیت ہے۔ روزہ رکھ کر آدمی یہ عہد کرتا ہے کہ ناجائز چیزیں تو درکنار، اگر اللہ کی مرضی ہو تو وہ جائز چیزوں کو بھی اللہ کی خاطر چھوڑ دینے کے لیے تیار ہے۔

روزے میں کھا نا اور پینا چھوڑنا، ایک علامتی ترک ہے۔ اصل میں جوچیز ترک کرنا ہے، وہ تو خداکی ممنوعہ چیزیں ہیں۔ ممنوعات کا وقتی ترک،ممنوعات کے اُسی مستقل ترک کی مشق ہے۔ کیوں کہ جو آدمی اللہ کے لیے غیر ممنوعات کوچھوڑنے پر راضی ہو، وہ ممنوعات کو بدرجۂ اولی چھوڑنے پر راضی ہوجائے گا۔

موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان جس بات میں ہے، وہ یہی ہے کہ وہ حرام اور حلال میں فرق کرے۔ وہ حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا بنے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارے۔ اِسی ذمّے دارانہ زندگی کی تربیت کے لیے روزے کا طریقہ اہلِ ایمان کے اوپر فرض کیا گیا ہے۔

روزہ محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی حقیقی اسپرٹ کے اعتبار سے مطلوب ہے۔ اِسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے (صحیح البخاری)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوں نے روزہ رکھا اور اسی کے ساتھ انھوں نے غیبت کا فعل کیا جو اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ انھوں نے خدا کی جائز کی ہوئی چیز سے روزہ رکھا اور اس کی ناجائز کی ہوئی چیز سے انھوں نے افطار کرلیا۔

متقیانہ زندگی کو دوسرے لفظوں میں، محتاط زندگی کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان وہ ہے جو احتیاط کے تصورسے خالی ہو، وہ بلاقید جو چاہے بولے اور جوچاہے کرے۔ دوسرا نسان وہ ہے جو احتیاط کے طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہو— وہ ایک محکم اصول کے تحت، کسی روش کو اختیار کرے اور کسی روش کو اختیا رنہ کرے، یہی معاملہ متقی انسان کا ہے۔ متقی انسان مکمل طورپر ایک محتاط انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے قول اور عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے۔

روزہ آدمی کے اندر تقویٰ اور احتیاط کا یہی مزاج پیدا کرتاہے۔ رمضان کی ماہانہ تربیت آدمی کو اِس قابل بنادیتی ہے کہ وہ پورے سال تک اِس طرح زندگی گزارے کہ وہ مباحات کے لیے مُفطر ہو اور ممنوعات کے لیے وہ صائم بنا رہے۔

رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں کہاگیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اِس لیے دیا تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو اِس پر کہ اُس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اُس کے شکر گزار بنو (ولتکبّروا اللہ علی ما ہداکم و لعلکم تشکرون، البقرۃ: 185)

رمضان کے مہینے کاروزہ دو پہلوؤں سے شکر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ایک، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے قرآن کی صورت میں ایک کامل ہدایت نامہ انسان کو عطا کیا۔ دوسرے، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو وہ تمام سامانِ حیات دئے جن کی ضرورت انسان کو تھی۔

انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو اِس حال میں پاتا ہے کہ ذاتی طورپر اس کے لیے سچّائی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا بورڈ بھی لگا ہوا نہیں ہے جس میں زندگی کا مقصد اور اس کی فلاح کا طریقہ بتایا گیا ہو۔ ایسی حالت میں ایک حقیقی انسان جب قرآن کو پاتاہے تو اس کا دل احساسِ نعمت سے سرشار ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اِس احسان پر وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔

مزید یہ کہ قرآن واحد خدا ئی کتاب ہے جو محفوظ حالت میں آج تک موجود ہے۔ ایک آدمی جب سچائی کی تلاش کرتا ہے اور مختلف مذاہب کی کتابوں کو پڑھتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ یہ تمام کتابیں بعد کے زمانے میں تحریف کا شکار ہوگئیں۔ اِس طرح ان تمام کتابوں نے اپنی تاریخی اعتباریت یک سر کھودی ہے۔

اِس عمومی تجربے کے بعد آدمی جب قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مکمل طورپر اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ تاریخی حیثیت سے وہ پوری طرح ایک قابلِ اعتبار کتاب ہے۔ قرآن کی یہ خصوصیت آدمی کو مزید احسان مندی میں مبتلا کرتی ہے۔ وہ ہمہ تن اللہ کے شکر وسپاس کے جذبے میں غرق ہوجاتا ہے۔

رمضان کا روزہ اِسی اظہارِ شکر کی ایک خصوصی صورت ہے۔ روزہ رکھ کر قرآن کو پڑھنا، اِس بات کی علامت ہے کہ بندہ وفورِ شکر میں اپنا کھانا اور پینا تک بھول گیا ہے،وہ اپنی ضروریاتِ زندگی تک سے بے پروا ہو کر خدا کے کلام کو اپنے سینے سے لگا لینا چاہتاہے۔

شکر کو دوسرا پہلو سامانِ حیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار چیزیں عطا کی ہیں جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا— اُنھیں میں سے ایک ضروری چیز کھانا اور پانی ہے۔

انسان کا مزاج یہ ہے کہ عام حالات میں اُس کو کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا۔ چیزوں کی قدر وقیمت کو وہ صرف اُس وقت جانتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں سے محروم ہوگیا ہو۔ آدمی کو اگر کھانا اور پانی برابر وقت پر ملتا رہے تو وہ حقیقی طورپر محسوس نہیں کر پاتا کہ کھانا اور پانی کیسی عجیب نعمتیں ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے بآسانی اِس زمین پر وافر مقدار میں فراہم کردیا ہے۔

روزہ آدمی کے اندر اسی احساسِ نعمت کو پیدا کرنے کی ایک خصوصی تدبیر ہے۔ عام حالات میں صرف کسی انتہائی غریب آدمی ہی کو کھانے اور پانی کی قدر معلوم ہوسکتی ہے، مگر روزہ اِس کو ممکن بنا دیتا ہے کہ ہر آدمی اِس نعمت کی قدر و قیمت کو محسوس کرے، ہر آدمی کے سینے میں اس جذبے کی پرورش ہو کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے رازق کا شکر ادا کرنے والا بن جائے۔

روزے کے زمانے میں آدمی دن بھر بھوک میں مبتلا رہنے کے بعد شام کو جب کھانے کے بعد اپنی بھوک کو مٹاتا ہے، جب وہ دن بھر پیاس کا تجربہ کرنے کے بعد شام کو پانی پی کر اپنی رگوں کو ترکرتا ہے تو اُس کی زبان پر شکرِ خداوندی کا وہ کلمہ جاری ہوجاتا ہے جوحدیث میں اس طرح آیا ہے: ذہبَ الظّماء وابتلّت العروق وثبتَ الأجر إن شاء اللہ تعالیٰ۔

شکر بہت بڑا عمل ہے۔ شکر خلاصۂ عبادت ہے۔ روزہ اسی عظیم عمل اور اسی اعلیٰ عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتا ہے۔ روزے داری دراصل اِسی شکر گزاری کی تربیت ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom