سوال وجواب

سوال

آپ کہتے ہیں کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے اور زیادہ علم خدا سے قریب کر دیتا ہے، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جاہل لوگ ہی ہر معاملہ میں اسلامی کام کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو وہ اچھے سے پکڑتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ جب کہ عالم ایسا نہیں کرتے۔ جاہل لوگ فوراً مسجد، مدرسہ اور فقیر کو چندہ دے دیتے ہیں۔ مگر عالم لوگ ایسا بہت کم کرتے ہیں۔ عالم حضرات اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو اس کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ تو ایسی حالت میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر،بہار)

جواب

علم اور بے علمی کے بارے میں جو بات میں نے لکھی ہے وہ کوئی میری بات نہیں۔ یہ بات خود قرآن میں موجود ہے۔ مثلاً قرآن میں فرمایا کہ اللہ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں (فاطر ۲۸) اسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہدایت سے محروم وہ لوگ رہتے ہیں جو علم نہیں رکھتے۔ (البقرہ ۷۵)

اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ استعمال کیا جائے تو اس میں اپنے آپ وہ چیز شامل ہوتی ہے۔ کوئی بھی لفظ بالکل مجرد معنوں میں صرف ڈکشنری میں استعمال ہوسکتا ہے۔ کسی بامعنٰی کلام میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

زیادہ علم انسان کو خدا سے قریب کردیتا ہے‘‘ اس جملہ میں یہ بات اپنے آپ شامل ہے کہ وہ علم جس کے ساتھ سنجیدگی بھی شامل ہو۔ سنجیدگی (sincerity) کے بغیر کوئی علم علم نہیں۔یہ بات ہر انسان کے بارے میں صحیح ہے۔ مثلاً سوال کرنے والا اگر سنجیدہ نہ ہو تو وہ علم کے باوجود غیر متعلق سوال کرے گا۔ غیر سنجیدہ آدمی ایک عبارت کو پڑھے گا اور علم کے باوجود اس سے الٹا مطلب نکالے گا۔ ایک غیر علم والے کے سامنے کوئی دلیل لائی جائے گی جو نہایت واضح ہوگی لیکن سننے والا اگر سنجیدہ نہیں ہے تو وہ دلیل کو نہیں مانے گا اور ایک عجیب و غریب شوشہ نکال کر اس کو رد کردے گا۔

علم بلاشبہہ تمام انسانی خوبیوں کی جڑ ہے۔ مگر اس سے مراد صرف وہ علم ہے جس کے ساتھ سنجیدگی موجود ہو۔ سنجیدہ عالم کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک قابل پیشین گوئی رد عمل (predictable reaction) کا ثبوت دے گا۔ مگر جس شخص کے پاس علم تو ہو لیکن اس کے پاس سنجیدگی نہ ہو تو اس کے بارے میں کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سنجیدگی علم کو بامعنٰی بناتی ہے۔ اور جہاں سنجیدگی نہ ہو وہاں علم کے باوجود معنویت پائی نہیں جائے گی۔

سوال

اگر کسی مسلمان نے اپنی بیوی کو غصّے میں ٹیلیفون پر بول دیا کہ میں نے تجھے تین طلاق یعنی طلاق، طلاق اور طلاق دے دیا۔ اور بیوی نے اس کو قبول نہیں کیا اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر بعد میں مرد کو غلطی کا احساس ہوا، اس نے توبہ کی۔ تو کیا پھر یہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔ جواب سے مطلع فرمائیں۔(ایک قاری، الرسالہ)

جواب

مذکورہ مسلمان نے جو فعل کیا وہ میرے نزدیک طلاق نہیں تھا بلکہ سرکشی تھی۔ اس قسم کے واقعات پر طلاق کا واقع کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ البتہ ایسا شخص شریعت کی بے حرمتی کرنے اور شریعت کو کھلواڑ بنانے کا مجرم ہے۔ ایسا آدمی در اصل سزا کا مستحق ہے۔ اس کو میرے نزدیک ایک سو کوڑے مارے جانے چاہئیں مگر کوڑا مارنے کا کام کوئی فرد یا جماعت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ کام ایک اسٹیٹ کے تحت قائم شدہ عدالت کے ذریعہ ہونا چاہیے۔

سوال

الرسالہ دسمبر ۱۹۹۵ میں آپ کا ایک سفر نامہ (بڑودہ کا سفر) پڑھا۔ اس کے صفحہ نمبر ۳۵ کے پیراگراف تین میں آپ نے ایک بات لکھی ’’ختم نبوت کے بعد مسلمان مقامِ نبوت پر ہیں ‘‘ اس سے صاف طور پریہی معنٰی اخذ کیا جاسکتاہے کہ مِن حیثُ القوم مسلمان نبی ہیں اور ان کے اندر روحانی صلاحیت، یہاں تک کہ وحی کا نازل ہونا بھی ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ آپ اس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں۔ (نوشاد علی، گورکھپور)

جواب

امت محمدی مقام نبوت پر ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی ذمہ داری کے اعتبار سے مقام نبوت پر ہے۔ اس جملہ میں امت محمدی کی داعیانہ ذمہ داری کو بتایا گیا ہے نہ یہ کہ امت محمدی خود پیغمبرانہ صفات رکھتی ہے۔ یعنی امت محمدی خود پیغمبر نہیں مگر ختم نبوت کے بعد اس کو دنیا میں پیغمبر والا دعوتی کام انجام دینا ہے۔

اس بات کو قرآن وحدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ مثلاً حَجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ نے فرمایا: ان اللہ بعثنی للناس کافۃ فادوا عنی۔ یعنی اللہ نے مجھ کو تمام دنیا کے لوگو ں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دو۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ المسلمون شہداء اللہ فی الأرض(مسلمان زمین میں اللہ کے گواہ ہیں )۔

امت محمدی کی یہ حیثیت اس لیے ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی مگر کارِ نبوت بدستور باقی ہے۔ اس لیے امت محمدی پر بیک وقت دو ذمہ داری ہے، ایک یہ کہ وہ اپنے آپ کو پیغمبر کی تعلیم کے مطابق بنائے۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر کے بعد وہ پیغمبر کی تعلیمات کو نسل در نسل دوسروں تک پہنچاتی رہے۔ یہی دوگُنا ذمہ داری ہے جس کی بنا پر امت محمدی کا ثواب زیادہ رکھا گیا ہے۔ مگر یہ ثواب محض پیغمبر سے انتساب کی بنا پر نہیں ہے۔ اس ثواب کے مستحق صرف وہ لوگ قرار پائیں گے جو فی الواقع مذکورہ دونوں قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔

سوال

۱۔ تبلیغی والے کہتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے کہا کہ میں نے قلمی بیعت مولانا سے کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیعت نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنے مُرَبّی کے ساتھ مہینے میں ایک بار ملاقات ضروری ہے۔ اس لیے یہ بیعت کیسے ہوسکتی ہے۔ کیا بیعت کرنا ضروری ہے۔ اگر ضروری ہے تو اس کا شرعی اصول کیا ہے۔

۲۔ آپ کی معرفت اسلام کے بارے میں بات کرنا لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہے۔ خاص کر کشمیر میں جب بھی جماعت اسلامی کے کسی فرد سے بات کی جاتی ہے تو وہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے جو صرف بے بنیادالزام ہوتا ہے۔ مجھے حال میں ایک کتاب پڑھنے کو ملی ’’وحید الدین خان کی گمراہیاں ‘‘۔ مطالعہ کے بعد ایسا لگا کہ اس کا نام ہونا چاہیے تھا ’’وحید الدین خان پر بے بنیاد الزامات‘‘۔ اس میں جو نکتے اٹھائے گئے ہیں ان کا مجھ جیسا کم علم بھی جواب دے سکتا ہے۔ آخر لوگ آپ کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار کیوں ہیں۔

۳۔ کیا چمڑے کے موزے پر ہی مسح جائز ہے۔ جیسا کہ تبلیغی جماعت کہتی ہے۔ مجھے یہ تنگ ذہنیت لگتی ہے۔ نیز کیا گھر میں یا مسجد میں فضائل اعمال کا مطالعہ کرنا چاہیے یا قرآن کریم کا۔

۴۔ آپ کے ہم خیال بہت سارے لوگ یہاں موجود ہیں لیکن غیر منظم ہیں۔ اس کی تنظیم کی کیا صورت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ہماری رہنمائی کیجئے۔ (محمد یوسف شاہ)

جواب

۱۔ تبلیغی جماعت یا دوسرے حلقوں میں بیعت کا جو طریقہ رائج ہے اس کی کوئی سند کتاب اور سنت میں موجود نہیں۔ یہ طریقہ ظہور اسلام کے کئی سو سال بعد مسلم صوفیاء نے رائج کیا۔ اگر اس کو بدعت نہ کہا جائے تب بھی یقینی طورپر وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کوئی اجتہادصرف ان افراد کے لیے لازم ہوسکتا ہے جنہوں نے یہ اجتہادکیا ہو یا جو اس کی صحت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ نہ حجت ہے اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس سے مذکورہ قسم کا مطالبہ کرے۔

بعدکے زمانہ میں بیعت کا جو طریقہ رائج ہوا، محتاط طورپر اس کو عملی ضرورت کہا جاسکتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس کو عملی ضرورت کے طورپر اختیار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جو لوگ اس کو اعتقادی یا شرعی مسئلہ بنائیں انہیں کتاب و سنت سے اس کی واضح دلیل دینا ہوگا۔ اگر وہ قرآن و سنت سے اس کی تائید میں ناقابل انکار دلیل نہ دے سکیں تو وہ خود قصوار وار ٹھہریں گے۔

۲۔ میرے خلاف جو لوگ بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں اور بے اصل باتیں پھیلاتے ہیں، وہ صرف ہمارے اجر میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب صرف یہ ہے کہ انہیں کوئی جواب نہ دیا جائے اور ان کے حق میں دعا کی جائے۔

۳۔ موزہ پر مسح کے بارے میں علماء عرب کا فتویٰ آچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح چمڑے کے موزہ پر مسح کرناجائز ہے ٹھیک اسی طرح جدید طرز کے صنعتی موزوں پر مسح کرنا بھی جائز ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔فضائل اعمال کے نام سے جو کتاب آج کل رائج ہے وہ دینی تعلیم کے لیے صرف ایک ناقص کتاب ہے۔ دینی تعلیم کے صحیح اور مفید ذریعے صرف تین ہیں — قرآن، سنت رسول اور سنت صحابہ۔ اس کے بعد کوئی بھی چوتھا ذریعہ مستقل حیثیت سے معتبر نہیں۔ ہر چوتھے ذریعہ کو قرآن و سنت پر جانچا جائے گا۔ اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق ہے تو وہ قابل اعتبار ہے اور اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق نہیں تو یقینی طورپر وہ قابل رد ہے۔ بطور خود اگر کچھ لوگ کسی چوتھے ذریعہ کو مقدس مان لیں تو ان کے ماننے سے وہ ذریعہ مقدس نہیں بنے گا۔ اس بارے میں علمائے راسخین کا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔

۴۔ آپ نے تنظیم کی بابت جو سوال کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ دو چیز سے اپنے کام کا آغاز کریں، ہفتہ وار اجتماع اور الرسالہ کی ایجنسی۔ لوگوں کو منظم کرنے اور مقصد کی اشاعت کا صحیح آغاز یہی ہے۔ اگر آپ یہ دو کام شروع کردیں تو انشاء اللہ دھیرے دھیرے بقیہ تمام مقاصد حاصل ہوجائیں گے۔

سوال

الرسالہ کا شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ پڑھا۔ صفحہ ۳۲ پر آپ رقم طراز ہیں کہ ایک باریش بزرگ سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ وہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے ہندستان میں رہ کر الرسالہ پڑھا ہے۔ اب چونکہ وطن سے دور عرب امارات میں ان کی آپ سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا الرسالہ ابھی نکل رہا ہے۔ آپ کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا۔ مگر آپ نے صرف جواباً کہا ’’کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا آپ کے فرزند ابھی تک زندہ ہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا‘‘۔

دراصل آپ کا یہ جواب غصہ کی علامت ہے۔ اگر آپ جواباً فرماتے کہ الحمد للہ ابھی تک جاری وساری ہے تو شاید بزرگ دوسری بات یہ کہتے کہ جناب میں الرسالہ کہاں سے منگواؤں۔ مگر قارئین جب آپ کا جواب پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ جواب مولانا وحید الدین خان صاحب کا نہیں ہوسکتا کیوں کہ الرسالہ سرے سے نصیحتوں کا رسالہ ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کم ازکم اس معاملہ میں آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ آپ جیسے داعی کا اس انداز میں بات کرنا شریعت اسلامی اور خود الرسالہ مشن کے تقاضوں کے برخلاف لگتا ہے۔ یہ جواب سن کر اُس بزرگ کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ اس کی ٹھیس میں یہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کررہا ہوں۔ کیا آپ اس بزرگ کو معذرت کے ساتھ اس بارے میں تحریر فرمائیں گے۔ کیوں کہ غصہ کرنا مسلمان پر حرام ہے۔ یہ میں نے الرسالہ میں پڑھا ہے۔ (عبدالرشید بٹ، سوپور، کشمیر)

جواب

یہ بات صحیح نہیں کہ اسلام میں غصہ کرنا حرام ہے۔ غصہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے، وہ حرام کیسے ہوسکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تھا۔چنانچہ آپ کے بارہ میں حدیثوں میں اس طرح کے الفاظ آتے ہیں کہ: اشتد غضبہ (آپ سخت غضب ناک ہوگئے) نامعقول بات پر غصہ آنا ایک فطری امر ہے۔ البتہ غصہ کو انتقام تک نہیں جانا چاہیے۔

مذکورہ صاحب کو میں نے جوجواب دیا وہ ان کی معروف نفسیات کے مطابق، معاملہ کو واضح کرنا تھا۔ اصل یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جو گہرا تعلق ہوتا ہے وہی ایک صاحب مشن کو اپنے مشن سے ہوتا ہے۔ جس طرح یہ ایک نامعقول روش ہے کہ کسی باپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے فرزند زندہ ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک سخت نامعقول روش ہے کہ کسی صاحب مشن سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ کا مشن ابھی تک چل رہا ہے۔ الرسالہ صاحبِ مشن کے لیے ایک مشن ہے، وہ عام معنوں میں محض ایک پرچہ نہیں۔ ایسی حالت میں مذکورہ سوال کا صحیح ترین جواب وہی ہوسکتا تھا جو اُنہیں دیا گیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom