قولِ بلیغ کیا ہے
قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں ارشاد ہوا ہے : فأعرض عنہم وعظہم وقل لہم فی انفسہم قولاً بلیغا (النساء ۳۶) یعنی تم اُن سے اعراض کرو اور اُن کو نصیحت کرو اور اُن سے ایسی بات کہو جو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی ہو۔
بلیغ کے وہی معنٰی ہیں جو بالغ کے معنٰی ہیں، یعنی پہنچنے والا۔ آیت کی نحوی ترتیب یہ ہے: وقل لہم قولاً بلیغاً فی انفسہم۔ یعنی اُن سے بات کہو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی بات۔ لفظ بدل کر کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُن سے وہ بات کہو جو اُن کے مائنڈ کو ایڈرس کرے، جو اُن کے ذہن کو خطاب کرنے والی ہو۔ جس میں اُن کے فکر واحساس کی پوری رعایت شامل ہو۔
مثلاً مکی دور کی روایات میں آیا ہے کہ ایک بار قریش کے سردار رسول اللہ کے چچا ابو طالب کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس میں آپ نے سردارانِ قریش کے ایک سوال کے جواب میں کہا: کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (حیاۃ الصحابہ ۱؍۵۶) یعنی میں تم کو ایک حکم کی طرف بلاتا ہوں، تم مجھے یہ کلمہ دے دو، تم اس کے ذریعہ عرب کے مالک بن جاؤ گے اور اس سے عجم تمہارے تابع ہوجائیں گے۔
رسول اللہ کا یہ قول مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ عرب و عجم کے اوپر حکومت وسیادت حاصل کریں۔ یہ بات آپ نے سردارانِ قریش کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے فرمائی۔ یہ سردارانِ قریش حاکمانہ نفسیات میں جی رہے تھے، محکومی ان کے لیے خارج از بحث تھی۔اِس لیے اس وقت اِسی قسم کا ایک قول اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا بن سکتا تھا جو کہ آپ نے فرمایا۔
مذکورہ قولِ رسول کو اس مفہوم میں لینے کا ثبوت یہ ہے کہ دوسرے بہت سے مواقع پر آپ سے اسی قسم کا سوال کیاگیا لیکن آپ نے اس سے مختلف انداز میں سائل کا جواب دیا۔ احادیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں لوگوں کے سوال کا جوا ب دیا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق اسی لیے تھا کہ آپ نے ہر ایک سے ایسے اُسلوب میں کلام کیا جو مخاطب کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
دعوت کے عمل میں قولِ بلیغ کا یہ اُصول بے حد اہم ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ لوگوں کے سوچنے کا انداز یکساں نہیں ہوتا۔ ہر ایک الگ الگ انداز سے سوچتا ہے۔ ایسی حالت میں مؤثر دعوتی خطاب وہی ہوسکتا ہے جس میں مخاطب کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بات اُس کو پہنچائی جائے۔
مثلاً ایک شخص تلاشِ حقیقت کے سوال سے دوچار ہے تو اُس سے ایسی بات کہی جائے گی جس میں وہ اپنی تلاش کا جواب پارہا ہو۔ اُس وقت اگر کوئی دوسری بات اُس سے کہی جائے تو وہ اُس کو غیر متعلق نظر آئے گی اور وہ اس کو رد کردے گا۔ اسی طرح کوئی شخص روحانی سکون کا طالب ہو تو اُس سے ایسے اُسلوب میں بات کی جائے گی جس میں وہ اپنے داخلی سوال کا جواب پارہا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خالص علمی اور منطقی انداز میں دین کی صداقت کو سمجھنا چاہتا ہو تو اُس سے اُسی اسلوب میں بات کی جائے گی جو اُس کے منطقی طرزِ فکر کو تسکین دینے والی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بعد از موت کے احوال جاننا چاہتا ہو تو اُس کو اُس کی طلب کے مطابق فکری خوراک پہنچائی جائے گی تاکہ وہ محسوس کرے کہ آپ کے جواب سے اُس کا ذہن ایڈرس ہورہا ہے، وغیرہ۔
قولِ بلیغ کے اس اسلوب کا کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ داعی کے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ وہ مخاطب کے ذہن کو اچھی طرح پڑھے اور پھر اُس کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اُس سے کلام کرے۔ قول بلیغ کے اس اصول کو اپنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ داعی پہلے ہی خطاب میں سب کچھ کہہ دینے کا مزاج نہ رکھتا ہو بلکہ وہ تدریجی اصول پر یقین رکھتے ہوئے پہلے خطاب میں پہلی بات کہے اور دوسری باتوں کو اگلے خطاب کے لیے مؤخر کردے۔
قولِ بلیغ وہ ہے جس میں مخاطب کی پوری رعایت کی گئی ہو۔ مخاطب کی رعایت کے بغیر کوئی قول کبھی قولِ بلیغ نہیں بن سکتا۔