کلمۂ معرفت

صحیح البخاری میں روایات کی کُل تعداد (مکرَّرات سمیت) ۷۵۶۳ ہے۔ اس مجموعہ کی آخری حدیث یہ ہے: کلمتان حبیبتان إلی الرحمن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان: سُبحان اللہ وبحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم۔ (دو کلمے رحمن کو بہت محبوب ہیں، وہ زبان پر ہلکے ہیں مگر وہ میزان میں بھاری ہیں۔ وہ دو کلمے یہ ہیں : سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔

اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُر اسرار خواص چھپے ہوئے ہیں اور ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی طلسماتی طورپر ان کے یہ خواص ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُراسرار طورپر وزن چھپا ہوا ہے اور قیامت کے تراز و میں رکھتے ہی وہ پلڑے کو جھکا دیں گے۔ ترازو کی تَول میں ان الفاظ کا بھاری ہونا در اصل تمثیل کی زبان میں ہے، نہ کہ حقیقت کی زبان میں۔ اس سے مراد اس کلمہ کا معنوی وزن ہے، نہ کہ مادی وزن۔

اصل یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال میں سب سے بڑا عمل خدا کی معرفت ہے۔ یعنی خداوندِعالّم کو شعوری طورپر دریافت کرنااور اس دریافت کا انسان کی پوری شخصیت میں اُتر جانا۔ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم در اصل معرفتِ خداوندی کے کلمے ہیں۔ جب ایک انسان خدا کی ذات کو اِس حیثیت سے دریافت کرتا ہے کہ وہ ہمہ تن پاک ہے، وہی ہر قسم کی تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔ وہ تمام عظمتوں کا تنہا مالک ہے۔ یہ دریافت جب شدتِ یقین کے ساتھ کسی انسان کی زبان پر ایک شعوری اظہارکے طورپر جاری ہو جائے تو وہ کائنات کا سب سے بڑا عمل ہوتا ہے۔ وہ اتنا عظیم ہوتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے مقابلہ میں چھوٹی قرار پائے۔

معرفت سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ شعورکی سطح پر خدا کو پالینا ہے۔ معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی آدمی کی داخلی شخصیت کے اندر وجود میں آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ جب کسی انسان کے اندر وجود میں آتا ہے تو وہ اس کے اندر ایک روحانی طوفان برپا کردیتا ہے۔ اس طوفانی تجربہ کے وقت اس کی زبان سے وہ روحانی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں جن کا ذِکر اوپر کی حدیث میں کیاگیا ہے۔

مذکورہ کلمہ کے بارہ میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ زبان سے کہنے میں ہلکے ہیں مگر وہ اجر کے اعتبار سے بھاری ہیں۔ میرے علم کے مطابق، شارحین اس بیان کی زیادہ بامعنٰی تشریح نہ کرسکے۔ اصل یہ ہے کہ اس کلمہ کا بھاری ہونا اس لیے نہیں ہے کہ خود یہ کلمہ بھاری ہے۔ اس کا تعلق کلمہ سے نہیں ہے بلکہ معرفت سے ہے۔

اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں کوئی پُراسرار صفت ہے۔ اس لیے وہ میزان میں بھاری ہوجاتے ہیں۔ اس کا تعلق کلمہ کی داخلی حقیقت سے ہے، نہ کہ کلمہ کے ظاہری الفاظ سے۔ یہ کلمہ معرفتِ الٰہی کا کلمہ ہے۔ معرفتِ الٰہی اور اس کا اظہار بِلا شبہہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ جن کلمات میں یہ معرفت شامل ہو جائے ان کلمات کو وہ ناقابلِ بیان حدتک عظیم بنادیتی ہے۔

مزید یہ کہ ان کلمات کو محض زبان سے ادا کرنا کسی کو مذکورہ عظیم اجر کا مستحق نہیں بناتا۔ اس عظیم اجر کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے مطلوب عارفانہ کیفیت کے ساتھ اُس کو ادا کیا ہو۔ ان کلمات کی ادائیگی کا معاملہ بھی وہی ہے جو دوسرے دینی اعمال کامعاملہ ہے۔ کوئی بھی دینی عمل اپنی کیفیت کے اعتبار سے عظیم یا غیر عظیم بنتا ہے۔ اسی طرح یہ کلمات بھی اُسی وقت عظیم ہیں جب کہ وہ داخلی کیفیت کے ایک فطری اظہار کے طورپر زبان سے نکلے ہوں۔ عارفانہ کیفیت کے بغیر صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کوئی دینی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom