قیادت کا مسئلہ
قائد خدا پیداکرتاہے۔ مگر قائد کو قائد ماننا انسان کا کام ہے۔ خدا کے تخلیقی نظام کے مطابق، کسی گروہ کے لیے کوئی ایسا وقت نہیں آسکتا جب کہ اس کے درمیان قائدانہ اوصاف والی شخصیت موجود نہ ہو۔ مگر کوئی حقیقی قائد اپنا قائدانہ رول صرف اس وقت ادا کرسکتا ہے جب کہ اس کی قوم اس کو اپنا قائد مانے اور اس کی اطاعت کرے۔
اس معاملہ میں سب سے زیادہ نازک (crucial) با ت یہ ہے کہ حقیقی قائد کو اکثر کوئی غیر مقبول فیصلہ (unpopular decision) لینا پڑتا ہے۔ یعنی ایک ایسا فیصلہ جو عوامی مزاج کے مطابق نہ ہو۔ مگر صورت حال کے مطابق اس فیصلہ سے قوم کا نیا مستقبل بننے والا ہو۔ یہ صورت حال مذہبی قائد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور غیر مذہبی قائد کے ساتھ بھی۔
مذہبی اعتبار سے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی سے یَک طرفہ صلح کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ آپ کے ساتھیوں کے لیے سخت ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ عمر فاروق نے اس کو دنیئہ (ذلیل) معاہدہ قرار دیا۔ لوگ اس معاہدہ کی تاریخی اہمیت صرف اس وقت سمجھ سکے جب کہ دو سال بعد اس کا شان دار نتیجہ سامنے آیا۔ اسی طرح غیر مذہبی دائرہ میں اسی کی ایک مثال فرانس کے ایک سابق صدر جنرل ڈیگال کی ہے۔ افریقہ کے فرانسیسی مقبوضات کو آزاد کرنے کے بعد وہ فرانس کے عوام میں بے حد غیر مقبول ہوگئے۔ مگر آج تمام لوگ اس کے فیصلہ کو ایک ایسا فیصلہ قرار دیتے ہیں جو گہری دانش مندی پر مبنی تھا۔
یہی معاملہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا کو ئی قائد نہیں۔ مگر یہ بات خدا کے تخلیقی نقشہ کو رد کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا آج بھی مسلمانوں میں قائدانہ اوصاف والے افراد پیدا کررہا ہے مگر موجودہ مسلمان اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ قائد بلاشبہہ موجود ہیں مگر مسلمانوں کی عدم قبولیت کی بنا پر وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جس حالت میں ہیں اس میں سب سے پہلا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کی تعمیرِ نَو کا نُقطۂ آغاز (starting point) کیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر منفی سوچ (negative thinking) کو مکمل طورپر ختم کیا جائے، اور اس کے بجائے ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے۔ کسی قوم کی حقیقی تعمیر صرف مثبت انداز فکر کے ذریعہ ہوتی ہے، منفی انداز فکر کے ذریعہ کبھی کسی قوم کی تعمیر نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ، مثلاً انڈیا میں، ہندوؤں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم کے خانوں میں بانٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر ان کا حال یہ ہے کہ وہ، مثلاً امریکا کو اسلام دشمن اور چین کو اسلام دوست سمجھتے ہیں۔ انسانوں کو اس طرح دو قسموں میں بانٹنا ایک ایسی مہلک غلطی ہے جس کے بعد حقیقی معنوں میں ملی تعمیر کا کوئی امکان ہی نہیں۔
اس طرح طریق عمل کے بارے میں ساری دنیا کے مسلمان جہادی طریق کار کو اپنے مسئلہ کا واحد حل سمجھنے لگے ہیں۔ایسی حالت میں جو شخص دعوتی طریقِ کار کی طرف مسلمانوں کو بلائے تو وہ ان کو اپیل نہیں کرتا۔ حالانکہ موجودہ حالات میں جہادی طریق کار صرف بے فائدہ لڑائی کے ہم معنٰی ہے۔ جب کہ دعوتی طریق کار ابدی طورپر ایک نتیجہ خیز (result oriented) جدوجہد کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں جو بھی حقیقی قائد ہوگا وہ مسلمانوں کو یہ پیغام دے گا کہ تم لوگ ساری دنیا کو یکساں طور پر انسان کی نظر سے دیکھو نہ کہ دوست اور دشمن کی نظر سے۔ اس طرح وہ کہے گا کہ تم جہاد کے نام پر کی جانے والی مسلح جدو جہد کو چھوڑو اور پر امن دعوتی جدوجہد کو اختیار کرو۔ مگر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر یہ باتیں مسلمانوں کو اپیل نہیں کریں گی۔ قائد موجود ہوگا مگر قائد اپنا قیادتی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے گا۔
ایسی حالت میں مسلمانوں کے اندر کسی حقیقی آغاز کی صورت صرف یہ ہے کہ خدا کے کچھ بندے وہ قربانی دیں جو اس دنیا میں بلا شبہہ سب سے بڑی قربانی ہے۔ یعنی وہ غیر مقبول بننے کی قیمت پر مسلمانوں کو وہ رہنمائی دیں جو حقیقت کے اعتبار سے سچی رہنمائی ہو۔ اس قسم کی رہنمائی ابتدائی طورپر انہیں غیر مقبول بنادے گی۔ مگر یہ بھی یقینی ہے کہ مسلمانوں کی اگلی نسلیں اس کو سمجھیں گی اور دل سے اُس کا اعتراف کریں گی۔
اصل یہ ہے کہ قیادت کا مسئلہ پچاس فیصد قائد سے تعلق رکھتا ہے اور پچاس فیصد زیرِقیادت قوم سے۔ قائداگر اعلیٰ صلاحیت کا حامل ہو تب بھی قوم کے اندر صحیح مزاج ہونا چاہیے۔ اگر قوم کے اندر صحیح مزاج نہ ہو تو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود قوم اپنے قائد کو رد کردے گی۔ قائد اپنے منصوبہ کو مکمل کرنے میں ناکام رہے گا۔
موجودہ زمانہ کی مسلم دنیا میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ افغانستان میں امان اللہ خاں، پاکستان میں محمد ایوب خاں اور ہندستان میں ابوالکلام آزاد اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہ تینوں افراد مسلّمہ طور پر اعلیٰ قیادتی اوصاف کے حامل تھے۔ مگر اُن کی قوم نے ان کو قبول نہیں کیا۔ چنانچہ یہ تینوں قائد اپنی قیادتی خدمت انجام دیے بغیر اِس دنیا سے چلے گئے۔
اس معاملہ میں اصل مسئلہ قائد کی تعمیر کا نہیں ہے بلکہ قوم کے مزاج کی تعمیر کا ہے۔ قائد تو خود فطری قانون کے تحت ہمیشہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ قوم کے مزاج پر منحصر ہو تا ہے کہ قائد کو عمل کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اس لیے صالح قیادت کی تشکیل کا آغاز قوم کے اندر صالح مزاج کی تشکیل سے ہونا چاہیے، نہ کہ اس شکایت سے کہ قوم کے اندر صالح قائد موجود نہیں۔ جس معاشرہ میں صالح مزاج موجود ہو وہاں لازماً صالح قائد بھی موجود ہوگا۔ اور جس معاشرہ میں صالح قائد موجود نہ ہو تو مزید تحقیق کے بغیر یہ مان لیجئے کہ قوم کے اندر صالح مزاج موجود نہیں ہے۔