سچائی کا سفر
سچائی کا سفر ایک فطری سفر ہے۔ وہ اتنا آسان ہے کہ ہر آدمی عین اپنے پاس سے اس کو شروع کرسکتا ہے۔ مثلاً بیان کیا جاتا ہےکہ ایک عرب بدو سے سوال کیا گیا: مَا الدَّلِیلُ عَلَى وُجُودِ الرَّبِّ تَعَالَى؟ فَقَالَ:یَا سُبْحَانَ اللَّہِ إِنَّ البعر لیدل عَلَى الْبَعِیرِ، وَإِنَّ أَثَرَ الْأَقْدَامِ لَتَدُلُّ عَلَى الْمَسِیرِ، فَسَمَاءٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ، وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجٍ، وَبِحَارٌ ذَاتُ أَمْوَاجٍ أَلَا یَدُلُّ ذَلِکَ عَلَى وجود اللطیف الخبیر؟(تفسیر ابن کثیر، جلد1، صفحہ106)۔ یعنی رب العالمین کے وجود کی دلیل کیا ہے؟ اس نے کہا:سبحان اللہ، مینگنی اونٹنی پر دلالت کرتی ہے، قدم کے نشان چلنے والے پر دلالت کرتے ہیں، تو برجوں والا آسمان، اور کشادہ راستوں والی زمین، اور موجوں والے سمندر،کیااس ذات پر دلالت نہیں کریں گے، جو بڑا باریک بیں اور بڑا باخبر ہے؟یہ واقعہ ایک عام انسان کا واقعہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خالق کی پہچان کا معاملہ اتنا زیادہ آسان ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے طور پر وہ اپنی قریب ترین مثال سے سمجھ سکتا ہے۔ خالق کی دریافت کے لیے کسی لائبریری میں جانے کی یا کسی دور کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ شرط یہ ہے کہ آدمی متلاشی (seeker)ہو۔
مثلاً ایک آدمی نے سوال کیا کہ ہم خدا کو کیسے پہچانیں۔ میں نے کہا آپ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کو دیکھیے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ہاتھ کی انگلیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی، اور پاؤں کی انگلیاں بڑی بڑی ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوجاتی۔ اتنی گہری پلاننگ صرف خلاق اور رزاق ہی کرسکتا ہے۔اگر آپ ایک ایسے خدا کو نہ مانیں، جو خلاق اور رزاق ہے، تو آپ ہر معلوم چیز کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔خدا کو پہچاننا اتنا ہی آسان ہے، جتنا کہ خود اپنے آپ کو پہچاننا۔اس قسم کی دریافت کو کامن سنس کی سطح پر خالق کی دریافت کہاجاتا ہے۔ لیکن دریافت کی ایک اور سطح ہے، جو جدید دور میں انسان نے ڈسکور کی ہے، اور وہ ہے سائنسی دلائل کے ذریعے خالق کی دریافت۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے (فصلت، 41:53)۔ آج انسان ان دلائل کے ذریعے آسانی کے ساتھ خدا کو دریافت کر سکتا ہے۔