خدا کا وجوداور سائنس
آئن اسٹائن کے بارے میں لوگوں کے درمیان کنفیوژن (confusion)پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آئن اسٹائن کا کیس منکرِخدا (atheist) کا کیس تھا۔ کچھ دوسرے لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ مگر آئن اسٹائن کے مختلف بیانات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آئن اسٹائن منکرِ خدا نہیں تھا، بلکہ وہ خدا کے وجود کے بارے میں شک کی کیفیت میں مبتلا تھا۔
1945 میں امریکی بحریہ کے ایک جونیر افسر گائے رینر(Guy Raner) نے خط کے ذریعہ آئن اسٹائن سے سوال کیا تھا — کیا آپ ڈکشنری کے مفہوم کے اعتبار سے، منکرِ خدا ہیں، یعنی وہ آدمی جو خدا کے وجود میں عقیدہ نہیں رکھتا۔ اِس کے جواب میں آئن اسٹائن نے لکھا کہ آپ مجھ کو لاادریہ کہہ سکتے ہیں، مگر میں پروفیشنل قسم کے منکر خدا سے اتفاق نہیں رکھتا:
In 1997, Skeptic, a hard unbelief science magazine, published for the first time a series of letters Einstein exchanged in 1945 with a junior officer in the US navy named Guy Raner on the same topic. Raner wanted to know if it was true that Einstein converted from atheism to theism when he was confronted by a Jesuit priest with the argument that a design demands a designer and since the universe is a design there must be a designer. Einstein wrote back that he had never talked to a Jesuit priest in his life but that from the viewpoint of such a person, he was and would always be an atheist. He added it was misleading to use anthropomorphical concepts in dealing with things outside the human sphere and that we had to admire in humility the beautiful harmony of the structure of this world as far as we could grasp it. But Raner persisted.''Are you from the viewpoint of the dictionary,'' he wrote back, ''an atheist, one who disbelieves in the existence of a God, or a Supreme Being.'' To this Einstein replied: ''You may call me an agnostic, but I do not share the crusading spirit of the professional atheist whose fervour is mostly due to a painful act of liberation from the fetters of religious indoctrination received in youth.'' (The Times of India, New Delhi, May 18, 2012)
عقیدۂ خدا کے بارے میں آئن اسٹائن کا جو موقف ہے، وہی موقف تقریباً تمام سائنس دانوں کا ہے۔ خدا سائنسی مطالعہ (scientific study) کا موضوع نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سائنس داں خدا کا انکار نہیں کرتے، وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ لا ادریہ (agnostic) بتاتے ہیں، یعنی ایک ایسا موقف جب کہ انسان نہ انکار کرنے کی پوزیشن میں ہو اور نہ اقرار کرنے کی پوزیشن میں۔
یہ صحیح ہے کہ سائنس کے مطالعے کا موضوع مادی دنیا (material world) ہے، مگر مادی دنیا کیا ہے، وہ خالق کی تخلیق (creation) ہے، اِس لیے سائنس کا مطالعہ بالواسطہ طورپر خالق کی تخلیق کا مطالعہ بن جاتا ہے۔ ایک سائنس داں خالق کے عقیدے کا انکار کرسکتاہے، لیکن تخلیقات میں خالق کی جو نشانیاں (signs) موجود ہیں، اُن کا انکار ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ سائنس نے جس مادّی دنیا (physical world) کو دریافت کیا ہے، اس میں حیرت انگیز طورپر ایسی حقیقتیں پائی جاتی ہیں جو اپنی نوعیت میں غیر مادی ہیں۔ مثلاً معنویت، ڈزائن، ذہانت اور بامقصد پلاننگ، وغیرہ۔ مادی دنیا کی نوعیت کے بارے میں یہ دریافت گویا خالق کے وجود کی بالواسطہ شہادت ہے۔خدا کے وجود کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے ایک سائنسی طریقہ یہاں قابلِ انطباق (applicable) ہے، وہ یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ سائنس کی دریافت کردہ دنیا کس نظریے کی تصدیق کررہی ہے، انکارِ خدا کے نظریے کی تصدیق یا اقرارِ خدا کے نظریے کی تصدیق۔اِس اصولِ استدلال کو سائنس میں ویری فکیشن ازم (verificationism) کہا جاتا ہے۔
سائنس میں استدلال کا ایک اصول ہے، جس کو اصولِ مطابقت(principle of compatibility) کہا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نظریہ جو بذاتِ خود قابلِ مشاہدہ نہ ہو، لیکن وہ مشاہدہ کے ذریعے دریافت کردہ معلومات سے مطابقت رکھتا ہو، تو اِس بالواسطہ شہادت کی بنا پر اِس نظریے کو حقیقت کا درجہ دے دیا جائے گا۔ جس نظریے کے حق میں اِس قسم کی مطابقت موجود ہو، اس کو بالواسطہ تصدیق کی بنا پر بطور حقیقت تسلیم کرلیا جائے گا۔ سائنس کے اِس اصول استدلال کو اگر عقیدۂ خدا کے معاملے میں منطبق کیا جائے تو اصولی طورپر خدا کا عقیدہ ایک ثابت شدہ عقیدہ بن جاتا ہے۔جو سائنس داں اپنے کیس کو لا ادریہ (agnosticism)کا کیس بتاتے ہیں، وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر فرار کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ خود اپنے علم کے مطابق، خدا کا انکار نہیں کرسکتے، وہ کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کیس لا ادریہ (agnostic) کا کیس ہے۔
عقیدۂ خدا اور سائنس
خالص سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔ سائنس نے اپنے طریقِ مطالعہ کے ذریعے جس چیز کو دریافت کیا ہے، وہ ہے— الیکٹران (electron) اور نیوٹران (neutron) اور پروٹون(proton)۔ مگر اِسی کے ساتھ یہ واقعہ ہےکہ اب تک کسی سائنس داں نے الیکٹرانس اور نیوٹرانس اور پروٹانس کو نہیں دیکھا ہے، نہ آنکھ سے اور نہ خورد بین سے، پھر سائنس داں اُن کے وجود پر یقین کیوں رکھتے ہیں۔ سائنس داں کے پاس اِس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ہم اُن کو براہِ راست نہیں دیکھتے، لیکن ہم اُن کے اثرات (effects) کو دیکھ رہے ہیں :
Though we cannot see them, we can see their effects.
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف کاز اینڈ افیکٹ (cause and effect) کا مسئلہ نہیں ہے۔ اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات میں اعلی درجے کی ذہانت (intelligence)ہے۔ کائنات میں اعلی درجے کی ہم آہنگی (harmony) ہے۔ کائنات میں اعلی درجے کی منصوبہ بندی (planning) ہے۔ اس بات کو ٹاپ کے سائنس دانوں نے تسلیم کیا ہے۔ مثلاً جیمس جینز، آرتھر ایڈنگٹن، البرٹ آئن اسٹائن، ڈیوڈ فوسٹر (David Foster) اور فریڈ ہائل(Fred Hoyle)، وغیرہ۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ، ایک سائنس داں کے الفاظ میں، کائنات کی جنس،ذہن (mind-stuff) ہے:
Molecular biology has conclusively proved that the “matter of organic life, our very flesh, really is mind-stuff.”
عقیدۂ خدا اور سائنس کے معاملے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ مذہب میں جس خدا کو بطور عقیدہ پیش کیاگیا تھا، وہ اگر چہ سائنس کا براہِ راست موضوع نہیں، لیکن سائنس کی دریافتیں بالواسطہ طورپر عقیدہ خدا کی علمی تصدیق (affirmation) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سائنس نے خدا کے عقیدے کو ثابت نہیں کیا ہے، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ سائنس نے عقیدہ خدا کے ثبوت کا ڈیٹا فراہم کردیا ہے۔
سائنس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں ایک چیز مسنگ لنک (missing link) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ماڈل فعل (action) کو بتاتا تھا، مگر وہ فاعل (actor) کو نہیں بتاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں، قرآن کائنات کا جوماڈل دے رہاہے، اس میں فعل اور فاعل دونوں موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن میں سبب (cause) کے ساتھ مسبّب (causative factor) کو بھی بتایا گیاہے۔ سائنس جب فعل (ذہانت) کی تصدیق کررہی ہے تو منطقی طورپر اِس کا جواز نہیں کہ وہ فاعل (ذہن) کی تصدیق نہ کرے۔