کائنات بول رہی ہے
کیرالا کے عیسائی مشن نے ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کا نام ہے:
Nature and Science Speak about God
اخباری سائز کی اس 28 صفحے کی کتاب میں کائنات کے متعلق سائنسی دریافتوں کے حوالے سے یہ واضح کیا گیا ہےکہ خدا کا وجود ایک حقیقت ہے اور اسے کسی طرح جھٹلایا نہیں جاسکتا— بچھو،بھڑاور اسی طرح کے بہت سے دوسرے پانی اور خشکی کے جاندار ہیں جو ڈنک مار کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں یا شکار کو قابو میں لاتے ہیں۔ ان کے ڈنک کی نوک پر ایک نہایت چھوٹا سوراخ ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ ایک قسم کا زہر اپنے دشمن کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔ یہ سوراخ اگر ڈنک کے بالکل سرے پر ہوتا تو ڈنک چبھوتے وقت سوراخ بند ہوجاتا۔ اس کے علاوہ خود چبھونے میں ڈنک زیادہ اچھی طرح کام نہ کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈنک کی نوک کا سوراخ ہمیشہ ذرا سا ترچھا ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ڈاکٹر کی سرینج (syringe) میں ہوتا ہے۔‘‘ یہ ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے۔ اسی طرح جس چیز کو دیکھیے اس کے اندر ایک نہایت ذہین نقشہ سازی نظر آئے گی۔ کائنات کوڑا کرکٹ کا ایک بے ترتیب انبار نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر زبردست مقصدیت اور نظم پایا جاتا ہے۔ کیا ایک شعور ی منصوبہ بندی کے بغیر ایسا ہوسکتا ہے۔
دیمک اپنے قدکے مقابلے میں ہزار گنا بڑا مکان بناتے ہیں۔ اگر ہم اپنی جسامت کی نسبت سے اتنا بڑا مکان بنائیں تو ہم کو ایک میل سے بھی زیادہ اونچی تعمیر کرنی پڑے گی۔ دیمک لکڑی میں رہ سکتے ہیں اور اسی کے اندر اپنے مکانات تراشتے ہیں ان کی زندگی کے مطالعہ سے بے شمار حیرت انگیز واقعات سامنے آئے ہیں۔ صرف ایک مثال لیجیے۔ دیمک لکڑی کو کھاتے ہیں۔ پتھر کے بعد لکڑی تمام معلوم چیزوں میں سب سے زیادہ عسیر الہضم (indigestible)ہے، مگر دیمک کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ اس مقصد کے لیے مخصوص جبڑے رکھتے ہیں جو آرے کا کام دینے کے ساتھ ساتھ پیسنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ تاہم لکڑی خواہ کتنی ہی پیس ڈالی جائے، وہ بہر حال لکڑی ہی رہے گی، اور پیٹ میں جاکر غذا کی ضرورت پوری کرنے کے بجائے صرف بدہضمی پیدا کرے گی۔ پھر کیا چیز ہے، جو دیمک کی مدد کرتی ہے۔ اس کام کے لیے دیمک کی آنتوں میں نہایت چھوٹےچھوٹے خوردبینی کیڑے موجود ہیں۔ یہ کیڑے نگلی ہوئی لکڑی پر مخصوص عمل کرکے اس کے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کردیتے ہیں کہ وہ ہضم ہو کر جزو بدن ہوسکے۔ یہ حیرت انگیز انتظام کون کرتاہے۔
مرغی کے انڈے پر غور کیجئے۔ ہر ایک انڈے میں سات ایسی مختلف خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو اتنی اہم ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اگر نہ ہو تو انڈا، انڈا نہ رہے گا — چونے کا خول،خول کے اندر مسامات جو ہوا کو گزرنے کا راستہ دیتے ہیں، پتلی جھلی جو اَستر کی طرح چاروں طرف ہوتی ہے، زردی اور سفیدی جو خول کےاندر بچے کی غذا ہیں، بچے کا جرثومہ، تار جو جرثومے کو صحیح رُخ پر باقی رکھتے ہیں۔ان میں سے کسی ایک چیز کو انڈے سے الگ کردیجیے، اور انڈا کبھی بھی چوزے کی پرورش گاہ نہیں بن سکے گا۔ کیا یہ سات مختلف چیزیں محض اتفاق سے یکجا ہوگئی ہیں، ’’اتفاق‘‘ ان سات مختلف چیزوں کی موجودگی کی تشریح نہیں کرسکتا، جو ٹھیک اور بالکل صحیح حالت میں پائی جارہی ہیں۔ اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اتفاق سے صرف یہی چیزیں کیوں اکھٹا ہوئیں۔ کیوں نہ درخت کی پتّی، کوئی لکڑی، پتھر کا ایک ٹکڑا اور اس طرح کی ہزاروں چیزیں جن کا موجود ہونا ممکن تھا خول کے اندر آگئیں، جن میں سے کوئی ایک چیز بھی اگر وہاں ہوتی تو وہ سارے انڈے کو برباد کردیتی۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جب مرغی کا بچہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ انڈے سے باہر نکلے، اس وقت اس کی چونچ پر ایک چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے۔ سینگ اپنا کام پورا کرکے بچہ کی پیدائش کے چند دن بعد خود بخود جھڑ جاتی ہے۔
خود اپنے وجود پر غور کیجیے۔ انسان کو جو جسم حاصل ہے وہ کس قدر حیرت انگیز ہے۔ دماغ کو دیکھیے۔ ایک ایسا ٹیلی فون اکسچینج جو ہر آن زمین کے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں سے تعلق جوڑے ہوئے ہو، ان سے پیغامات وصول کرتا ہو اور ان کے نام پیغام بھیجتا ہو، اگر آپ ایک ایسے ٹیلی فون اکسچینج (exchange)کا تصور کرسکیں تو آپ دماغ کے ناقابل یقین حد تک پیچیدہ نظام کا صرف ایک ہلکا سا اندازہ کرسکتے ہیں۔
آپ کے دماغ(brain)کے اندر تقریباً ایک ہزار ملین عصبی خانے (nerve cells) ہیں۔ ہر خانے سے بہت باریک تار نکل کر تمام جسم کے اندر پھیلے ہوئے ہیں جن کو عصبی ریشے (nerve fibres) کہتے ہیں۔ ان پتلے ریشوں پر خبر وصول کرنے اور حکم بھیجنے کا ایک نظام تقریباً ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتا رہتا ہے۔
دل کو دیکھیے، اس کا اوسط قد چار انچ لمبا اور ڈھائی انچ چوڑا ہوتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ اونس سے زیادہ نہیں ہوتا مگر انسانی جسم کا یہ چھوٹا سا پمپ رات دن مسلسل چلتا رہتا ہے۔ اس کی حرکت دن میں ایک لاکھ بار ہوتی ہے اور وہ ہر تیرہ سکنڈ میں تقریباً ایک گیلن خون سارے جسم میں بھیج دیتا ہے۔ ایک سال میں دل جتنا خون پمپ کرتا ہے وہ اتنا ہوتا ہے جو ایک ایسی ٹرین کو پوری طرح بھر سکے، جو 65 بڑے بڑے تیل کے ویگن لیے ہوئے ہو۔ دل کی اس حیرت انگیز کارکردگی کو حاصل کرنے کے لیے عجیب وغریب ہنر مندی کے ساتھ اس کو موزوں ترین بنایا گیا ہے۔
کائنات میں اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں جن کی صرف فہرست بنانے کے لیے ایک پوری لائبریری کی ضرورت ہوگی، جب کہ انسان کا علم کائنات کے موجود حقائق کی نسبت سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے وہ چیز جس کو دیکھنا ابھی باقی ہے۔
یہ حیرت انگیز کاریگری، یہ مکمل منصوبہ بندی، یہ اعلی ترین ذہانت کیا محض اتفاق (chance) سے وقوع میں آگئی ہے۔ بے شک بعض اوقات محض اتفاق سے بھی کوئی واقعہ ظاہر ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہوا کا ایک جھونکا کبھی سرخ گلاب کے زیرہ (pollen) کو اڑا کر سفید گلاب پر ڈال دیتا ہے، جس کے نتیجے میں زرد رنگ کا پھول کھلتا ہے۔ مگر اس قسم کا اتفاق محض جزوی اور خفیف تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے۔ وہ صرف اس مخصوص رنگ کے گلاب کی توجیہہ کرتا ہے، نہ کہ وہ گلاب کے پورے وجود کا سبب ہے۔ اتفاق ہر گز اس کی توجیہہ نہیں کرسکتا کہ ایک مخصوص قسم کا نظام اس قدر تسلسل کے ساتھ کیوں جاری ہے۔ وہ ہم کو نہیں بتاتا کہ ہماری دنیا میں باقاعدگی اور تنظیم کیوں پائی جاتی ہے۔’’اتفاق‘‘ کا عمل کبھی بھی یکساں طور پر نہیں ہوسکتا۔ اتفاق کے لیے ممکن نہیں ہے کہ جو کچھ آج ہوا اسی کو کل بھی وجود میں لائے۔ پھر کیوں تمام چیزیں ہمیشہ یکسانیت کے ساتھ ایک ہی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں۔ ان میں نظم اور باقاعدگی کیوں پائی جاتی ہے۔
کچھ دھات کے ٹکڑے ہوا میں اچھالے جائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ڈھلے ہوئے حروف کی شکل میں زمین پر گریں اور گرتے ہی ایک بامعنی عبارت کی شکل میں کاغذ کے صفحہ پر اکھٹاہوجائیں۔ اگر ایسا محض اتفاق سے نہیں ہوسکتا تو یہ کیوں فرض کرلیا گیا ہے کہ اتنی بڑی دنیا اتنی حیرت انگیز خصوصیات کے ساتھ محض اتفاق سے وجود میں آگئی ہے۔ ایک نظریہ جس کو کسی تجربہ گاہ میں ثابت نہیں کیا جاسکتا اس کو علمی طور پر منوانے کی کیا دلیل ہے۔
دوسری توجیہہ جس پر مادہ پرست علماء انحصار کرتے ہیں وہ قانونِ قدرت (nature)ہے۔ ’’مرغی کے انڈوں سے بچے کیوں 21روز میں نکلتے ہیں، اور شتر مرغ کے انڈوں سے 45 روز میں۔‘‘ اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن کا جواب مادی علماء کے نزدیک یہ ہے کہ ’’یہ ایک قانونِ فطرت ہے۔‘‘ بظاہر یہ ایک توجیہہ ہے مگر درحقیقت یہ جواب صرف ایک واقعہ کو بیان کرتا ہے۔ قانونِ فطرت کا لفظ بول کر ہم صرف کائنات کے نظم اور اس کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہ لفظ اس کی توجیہہ نہیں کرتا کہ یہ نظم اور کارکردگی کیوں قائم ہے۔ یہ لفظ صرف یہ بتاتا ہے کہ چیزیں ہمیشہ ایک متعین اصول کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہمیشہ اسی طرح وجود میں آئیں گی۔ اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ کیوں ہورہا ہے۔ وہ واقعہ کا سبب نہیں بتاتا بلکہ صرف واقعہ کی تصویر پیش کرتاہے۔
اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خون سرخ کیوں ہوتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے چھوٹے سرخ اجزاء ہوتے ہیں (ایک انچ کے ساتھ ہزار ویں حصے کے برابر) جن کو سرخ ذرات کہاجاتا ہے۔
’’درست، مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں ؟‘‘
’’ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتاہے جس کا نام ہیموگلوبن (haemoglobin) ہے، یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہے تو سرخ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مگر ہیموگلوبن کے حامل سرخ ذرات آخر کہاں سے آئے۔‘‘
’’وہ آپ کی تِلّی (spleen)میں بن کر تیار ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ نے فرمایا، وہ بہت عجیب ہے، مگر مجھے بتائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون، سرخ ذرّات، تلّی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کُل کے اندر باہم مربوط ہیں، وہ اس قدر صحت کے ساتھ یک جا ہوکر کیسے عمل کرتی ہیں کہ میں سانس لیتا ہوں، میں دوڑتا ہوں، میں بولتا ہوں، میں زندہ ہوں۔‘‘
’’یہ قدرت کا قانون ہے۔‘‘
’’وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قانونِ قدرت کہتے ہیں۔‘‘
’’اس سے میری مراد طبیعی اور کیمیاوی طاقتوں کا اندھا عمل ہے۔‘‘
’’مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں، جو انھیں ایک متعین انجام کی طرف لے جائے۔ کیسے وہ اپنی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اُڑنے کے قابل ہوسکے، ایک مچھلی تیر سکے اور ایک انسان اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ وجود میں آئے۔‘‘
’’میرے دوست، مجھ سے یہ نہ پوچھو، سائنس داں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیا ہے۔ اس کے پاس اس سوال کاجواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔‘‘
یہ سوال وجواب موجودہ سائنس کی حقیقت واضح کررہا ہے۔ بے شک سائنس نے ہم کو بہت سی نئی باتیں بتائی ہیں۔ مگر اس نے جو کچھ بتایا ہے وہ صرف کچھ ہونے والے واقعات ہیں۔ وہ واقعات کیوں کر ہورہے ہیں اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں ہے۔ ایک مکھی کے نازک اعضاء کس طرح کام کرتے ہیں۔ بے شک سائنس نے اس سلسلے میں ہم کو بہت کچھ بتایا ہے، مگر وہ کون ذہن ہے، جس نے سوچا کہ مکھی کو ان نازک اعضاء کی ضرورت ہے، اور اس کو کمال کاریگری کے ساتھ ایسے اعضا فراہم کیے۔ کائنات کے نظم اوراس کی موزونیت کی تشریح کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ مختلف قسم کی بے شمار اندھی طاقتیں ایک مخصوص انجام کی طرف اپنا عمل کیوں کرتی ہیں — ہم کو ان طاقتوں کی موجودگی کے سوا کس چیز کی ضرورت ہے۔ ایک بچھے ہوئے بستر کی تشریح محض اس طرح نہیں ہوسکتی کہ آپ چادر، تکیہ اور پلنگ کے نام لے لیں۔ ایک محل، نام ہے لاکھوں اینٹیں اور دوسری چیزیں اپنے صحیح ترین مقام پر نصب ہونے کا۔ انسانی جسم کے کسی چھوٹے سے چھوٹے عضو کے وجود میں آنے کے لیے ضروری ہے کہ کروروں ایٹم ایک منفرد اور مخصوص ترتیب کے ساتھ یک جا ہوں۔ اندھی طاقتیں ہر گز اس طرح کی مقصدیت کا اظہار نہیں کرسکتیں، وہ واقعات کے اندر معنویت اور ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کا قانون کائنات کا ایک واقعہ ہے، وہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو خود اپنے وجود کے لیے ایک توجیہہ کا طالب ہے۔ اس موقع پر مصنف کے الفاظ نقل کرنے کے قابل ہیں۔ وہ لکھتا ہے— قانونِ قدرت کائنات کی تشریح نہیں کرتا۔ وہ خود اس کا طالب ہے کہ اس کی تشریح کی جائے:
Nature does not explain, she is herself in need of an explanation.
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز میں معنویت کا ہونا، اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ذہن کام کررہا ہے۔زندگی کا جرثومہ جو ایک مرد کے جسم میں پرورش پاتا ہے، وہ جسم کے دوسرے خلیوں (cells)کے بالکل مشابہ ہوتا ہے، مگر اس میں دوسرے خلیوں سے بالکل مختلف خصوصیت ہوتی ہے، اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ عورت کے ایک خلیہ سے ہم آہنگ ہو کر مکمل طورپر ایک نیا انسان وجود میں لاسکے۔ یہ کس طرح ممکن ہوتاہے کہ دو خلیے جن میں سے ہر ایک دو بالکل مختلف جسموں میں پرورش پاتے ہیں، وہ اس قدر حیرت انگیز طورپر باہم مل کر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا ایک تخلیقی ذہن کی کارفرمائی تسلیم کیے بغیر اس کی تشریح کی جاسکتی ہے۔
کائنات میں ایک تخلیقی ذہن کو ماننا محض ایک بے بنیاد روایت کو ماننا نہیں ہے۔ دراصل بہت سے ناگزیر نتائج ہم کواس عقیدہ تک پہنچاتےہیں، بے شمار علمی حقیقتیں ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم کائنات کے پیچھے ایک ذہن کی کارفرمائی تسلیم کریں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ریڈیو کی آواز ہم کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم کچھ لہروں کی موجودگی تسلیم کریں، حالانکہ ہم ان لہروں کو بالکل نہیں دیکھتے۔ گلاس میں شکر ڈالیں تو تھوڑی دیر میں وہ اس طرح گھل مل جائے گی کہ آنکھوں کو دکھائی نہیں دے گی۔ مگر زبان سے چکھ کر آپ پانی میں شکر کی موجودگی کو معلوم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح خدا آنکھوں کو نظر نہیں آتا مگر جب ہم اپنے گردوپیش کی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارا وجدان (intuition)پکار اٹھتا ہے کہ بےشک یہاں ایک خداہے، اس کے بغیر موجودہ کائنات وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ علم کے اضافہ نے انسان کو خدا سے دور نہیں کیا بلکہ اور اس کے قریب کیا ہے۔ خدا کے وجود پر شک کرنا محض اپنی جہالت کا اعلان کرنا ہے۔ پاسچر کا قول کس قدر صحیح ہے جس کو مصنف نے کتاب کے صفحہ اول پر درج کیاہے:
A smattering of science turns people away from God—Much of it brings them back to Him.
معمولی علم آدمی کو خدا سے دور کرتاہے، زیادہ علم اس کو خدا سے قریب کرنے والا ہے۔
موجودہ زمانہ کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ استعمال نہ کرسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے لیے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے۔
جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔