خدا کا وجود
خدا کی معرفت اول دن سے میری تلاش کا مرکز رہاہے۔ میرا دن اور میری راتیں اسی تلاش میں گزری ہیں یہاں تک کہ شاید میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے خدا کو پالیا ہے۔
1960 کے آس پاس کی بات ہے۔ میں اپنے بڑے بھائی کے گھر 9 بدرقہ روڈ اعظم گڑھ میں تھا۔ وہاں میری ملاقات شاہ نصیر احمد صاحب سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران اچانک انھوں نے کہا: کیا انسان خداکو دیکھ سکتا ہے۔ میری زبان سے نکلا۔ کیا آپ نے ابھی تک خدا کو نہیں دیکھا۔ اس طرح کے تجربات میری زندگی میں بہت زیادہ ہیں۔ تاہم خداکو دیکھنا مجازی معنی میں ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں۔ کیونکہ حقیقی معنی میں اللہ رب العالمین کو دیکھنا اس دنیامیں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔
میں نے ایک مرتبہ کسی مضمون میں لکھا تھا —خدا کو ماننا عجیب ہے لیکن خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ جب میں خدا کو مانتا ہوں تو میں زیادہ عجیب کے مقابلہ میں کم عجیب کو ترجیح دیتاہوں :
To believe in God is strange, but not believing in God is stranger. When I say that I believe in God I prefer the less strange than the more strange.
البرٹ آئن سٹائن کے ایک جرمن دوست نے اس سے پوچھا کیا آپ اتھیسٹ (atheist) ہیں۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ تم مجھ کو زیادہ صحیح طورپر اگناسٹک (agnostic) کہہ سکتےہو۔ اگناسٹک کا مطلب متشکک ہے۔ یعنی کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ میں نہ یہ کہہ سکتاہوں کہ خدا نہیں ہے، اور نہ یہ کہہ سکتا کہ خدا ہے۔ اس جملہ کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ خدا کے انکار کے حق میں میرے پاس کوئی دلیل نہیں۔ البتہ سائنٹفک دلائل (scientific evidence) اس معاملہ میں اتنے زیادہ ہیں کہ میں یہ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ خدا نہیں ہے۔
آئن اسٹائن کا یہ جملہ ففٹی ففٹی کا جملہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے :
I can say that probably there is a God but I cannot say in certain terms, 'Yes there is certainly a God.
کوانٹم فزکس (quantum physics) کی اصطلاح میں میں کہوں گا کہ آئن سٹائن کا یہ کہنا خدا کے اقرار کے ہم معنى ہے۔ کیوں کہ سب ایٹمک پارٹیکل (subatomic particle) کی دریافت کے بعدکوانٹم فزکس میں پرابیبلٹی (probability) کو یقین کے قریب کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اب یہ کہا جاتا ہے :
Probability is less than certainty but certainty is more than perhaps.
انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے، جو غیب پر ایمان لائے (البقرۃ، 2:3)۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نا معلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ انھیں رازوں کو قوانین فطرت (laws of nature) کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ موجودہ زمانہ میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں (developed countries) کو تمام ترقیاں ان کی انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔
اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔