حق کی تلاش
حق کی تلاش ایک فطری تلاش ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو وہ سب سے پہلے یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیا ہے، وہ کیسے وجود میں آیا، دنیا میں اس کی معنویت کیا ہے۔ اسی کا نام حق کی تلاش ہے۔ یہ ہمیشہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کی مشترک تلاش رہی ہے۔ شاید کوئی بھی انسان اس اسپرٹ سے خالی نہیں۔ کسی نے اس تلاش کو فلسفیانہ تلاش کا درجہ دیا، کوئی اس کو صوفیانہ تلاش سمجھا، کسی نے اس کو مراقبہ (meditation) کے ذریعے دریافت کرنا چاہا، کسی نے یہ سمجھا کہ روحانی ریاضت کے ذریعے وہ اس کو پاسکتا ہے، کسی نے کسی اور طریقے سے اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کی۔
جہاں تک راقم الحروف کا اندازہ ہے، اٹلی کے سائنسداں گلیلیو (1564-1642ء) کے زمانے سے اس تلاش نےایک نیا انداز اختیار کیا۔ اب یہ ہوا کہ اس تلاش کا کمیاتی پہلو (quantitative aspect)، اور اس کا کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا۔ یہی دور اب تک جاری ہے۔
خورد بین اور دوربین کی دریافت نے اس تلاش میں ایک نئے دور کا اضافہ کیا ہے۔ اب انسان نے یہ جانا کہ اس سوال کا کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) عملاً قابلِ دریافت نہیں ہے، لیکن اس کا کمیاتی پہلو (quantitative aspect) بڑی حد تک قابل دریافت ہے۔ اب یہ ہوا کہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ کیفیاتی پہلو کچھ مخصوص لوگوں کی دریافت کے موضوع کی حیثیت سے باقی رہا۔ لیکن جہاں تک کمیاتی پہلو کا سوال ہے، سائنس دانوں کی پوری جماعت اس کی دریافت میں مشغول ہوگئی۔ اسی کو آج ہم سائنس کہتے ہیں۔
پھر اس قابلِ مشاہدہ پہلو کے دو حصے ہوگئے۔ ایک وہ جس کو نظری سائنس کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کو تطبیقی سائنس (applied science) کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے بھی۔