روحانی شخصیت کی تعمیر

قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک فلاح یاب انسانوں کی جو درجہ بندی ہے، اُس میں بنیادی طورپر تین گروہ شامل ہیں— رسول، اصحابِ رسول، اخوانِ رسول۔ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے وحیِ خداوندی کی سطح پر سچائی کو جانا۔ اصحابِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت (companionship) سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ اخوانِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو بعد کے زمانے میں ارتقا یافتہ شعور کے ذریعے، رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے کو اس طرح دریافت کریں کہ وہ دوبارہ عملاً پیغمبر کی زندہ صحبت (living companionship) کا تجربہ کرسکیں۔

رسول، عام انسانوں میں سے کوئی منتخب انسان ہوتا ہے۔ اُس پر خدا کی طرف سے فرشتے کے ذریعے سچائی کا علم اترتا ہے۔ اسلامی تصور کے مطابق، آدم پہلے پیغمبر تھے۔ آدم سے لے کر مسیح ابنِ مریم تک، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ اِن پیغمبروں نے یکساں درجے میں خدائی سچائی کا اعلان کیا۔ لیکن انھیں اپنے زمانے میں ساتھیوں کی کوئی بڑی جماعت نہ مل سکی۔ چناں چہ یہ پیغمبر مذہبی عقیدے کا حصہ تو بنے، لیکن وہ مذہبی تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔

سلسلۂ نبوت کے آخری فرد محمد بن عبد اللہ تھے۔ وہ 570 ء میں عرب میں پیدا ہوئے۔ 610ء میں ان کو پیغمبری ملی۔ 632 ء میں ان کی وفات ہوئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو استثنائی طورپر یہ موقع ملا کہ آپ کو خود اپنے زمانے میں طاقت ور ساتھیوں کی ایک ٹیم حاصل ہوگئی۔ یہ لوگ تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھے۔ اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ خدائی مذہب کو تاریخِ بشری کا ایک مستند حصہ بنا دیں۔ اور اس طرح بعد کی نسلوں کے لیے ایک ابدی نمونے کا مقام حاصل کرلیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اگر نفسیات کی زبان میں بیان کریں تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آپ ایک اسپریچول جینیس(spiritual genius) تھے۔ رسول کا کام دراصل یہی ہوتا ہے کہ وہ مادّی انسان کو روحانی انسان بنائے۔ رسول اس لیے آتا ہے تاکہ وہ انسان کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرے۔ خدا کا کریشن پلان یہی ہے کہ انسان اپنا تزکیہ کرکے اپنے آپ کو اسپریچول انسان بنائے۔ اور اِس طرح اپنے آپ کو جنت میں داخلے کا مستحق ثابت کرے۔

اسپریچولٹی کے لیے قرآنی لفظ ربّانیت (آلِ عمران: 79 ) ہے۔ حقیقی اسپریچول انسان وہ ہے جو ربّانی انسان ہو۔ اسپریچویلٹی کوئی ایسی چیز نہیں جو مراقبہ(meditation) اور یوگا ورزش کے ذریعے حاصل کی جائے۔ اِس قسم کی تمام چیزیں اسپریچویلٹی کا کم تر فارم(reduced form) ہیں۔ اسپریچویلٹی کا واحد ذریعہ رزقِ خداوندی(آل عمران:37 )ہے۔ یہ دراصل روحانی صحت کے اعتبار سے اپنے آپ کو اعلیٰ درجے کا انسان بنانا ہے۔ یہ ایک عظیم ذہنی عمل ہے جو کسی انسان کے اندر آفاقی عمل کے دوران انجام پاتا ہے۔

اسپریچول انسان بننا، امکانی طورپر ہر عورت اور مرد کے لیے ممکن ہے۔ لیکن اسپریچول انسان بننے کے لیے بے پناہ قربانی دینی ہوتی ہے۔ ہر شخص یہ قربانی نہیں دے سکتا۔اس لیے ہرشخص حقیقی معنوں میں اسپریچول انسان بھی نہیں بن سکتا۔اس لیے خدا نے اِس مقصد کے لیے یہ نظام بنایا کہ وہ بعض افراد کو اپنی خصوصی نصرت کے ذریعے ایسے حالات فراہم کرتا ہے کہ وہ اسپریچول جائنٹ (spiritual giant) بن سکے۔ عام انسانوں کا کام یہ ہے کہ وہ اِس اسپریچول جائنٹ کو پہچانیں اور اپنے آپ کو اُس کی غیر مشروط رہنمائی میں دے کر اعلی اسپریچویلٹی کا درجہ حاصل کریں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعتبار سے گویا اِسی قسم کے ایک اسپریچول جائنٹ تھے۔ آپ کے ہم عصر لوگوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ایسے افراد نکلے جنھوں نے اِس غیر معمولی معرفت کاثبوت دیا کہ انھوں نے پیغمبر کو خالص جوہر(merit) کی سطح پر پہچانا۔ انھوں نے پیغمبر کو اُس کے ابتدائی دورمیں اُس وقت دریافت کیا جب کہ ابھی وہ پُر عظمت تاریخ کا مینار نہیں بنا تھا۔ یہ بلا شبہہ کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ یہ حال کے اندر مستقبل کو دیکھنا ہے۔ پیغمبر کے ہم عصر اہلِ ایمان نے اِس مشکل ترین صفت کا ثبوت دیا، اس لیے وہ اصحابِ رسول کے ابدی مقام پر سرفراز کیے گیے۔

یہ اصحابِ رسول کس طرح اصحابِ رسول بنے۔ اِس پراسس کا نقطۂ آغاز یہ تھا کہ انھوں نے نظریاتی سطح پر خدائی سچائی کو دریافت کیا جس کو ایمان کہا جاتا ہے۔ ایمان کے بعد انھوں نے اپنی عملی زندگی میں اُس نقشے کو اختیار کرلیا جس کی تعلیم انھیں خدا کے رسول کے ذریعے ملی تھی۔ ایسا کرکے وہ گویا اصحابِ رسول کے گروہ میں شامل ہوگیے۔

لیکن اعلیٰ اسپریچول شخصیت کی تعمیر کے لیے صرف اتنا کافی نہیں۔ اعلی اسپریچول شخصیت کی تعمیر اُس عمل کے ذریعے ہوتی ہے جس کو قرآن میں توسُّم (الحجر: 75) کہاگیا ہے، یعنی مادّی حقیقتوں سے ربّانی خوراک حاصل کرنا، روز مرّہ کے مادی واقعات کو روحانی تجربے میں تبدیل کرنا:

Spirituality is the ability to convert daily events into spiritual experiences.

جن معاصر اہلِ ایمان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی، وہ تاریخ کی اعلیٰ ترین اسپریچول شخصیتیں تھیں۔ یہ شخصیتیں کسی پُر اسرار نسبت کے ذریعے نہیں بنیں۔ وہ معلوم فطری قانون کے ذریعے بنیں۔ وہ فطری قانون خاص طورپر یہ تھا کہ پیغمبر نے ایک اسپریچول جائنٹ کی حیثیت سے تزکیہ کے عمل میں اُن کی مسلسل رہنمائی کی۔ یہ رہنمائی خاص طورپر توسم کے ذریعے ہوئی۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ روزمرزہ کے واقعات اور مشاہدات میں ایسے پہلوؤں کی نشان دہی فرماتے تھے کہ یہ واقعات اور مشاہدات اہلِ ایمان کے لیے روحانی خوراک بن جائیں۔ خدا پر زندہ عقیدے کے بعد یہی توسم اصحابِ رسو ل کی روحانی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

قرآن میں اِس عمل کو ذکرِ کثیر (الاحزاب: 41)کہاگیا ہے۔ ذکرکثیر کا لفظی مفہوم ہے— اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصحابِ رسول ہر وقت اللہ، اللہ، اللہ، کہتے رہتے تھے۔ اِس قسم کا مفہوم بلا شبہہ ذکرِ کثیر کی تصغیر ہے۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ روزمرہ کے واقعات اور مشاہدات پر غور کرکے اُن کو روحانی تجربے میں کنورٹ کرنا۔ یہ کنورژن مومن کا رزق ہے۔ اور اِس رزق کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: ورزق ربِّک خیر وأبقیٰ (طٰہٰ: 131)

اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے معاصر اہلِ ایمان کی روحانی تربیت کے لیے آپ کا طریقہ کیا تھا۔ وہ طریقہ توسم پر مبنی ہوتا تھا، یعنی آس پاس کے واقعات اور مشاہدات کو تربیتی غذا میں کنورٹ کرنا۔ اور اِس طرح لوگوں کو اِس قابل بنانا کہ وہ توسم کے ذریعے اپنی مسلسل روحانی تربیت کرتے رہیں۔

اِس تربیتی اسلوب کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ایک آیت کا مطالعہ کیجیے: فإذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الأرض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون (الجمعہ:10 )یعنی اور جب نماز ختم ہوجائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور خدا کا رزق تلاش کرو اور اللہ کوبہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔اِس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین میں پھیل کر ہر جگہ خفی یا جلی انداز میں اللہ، اللہ، کرتے رہو، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم زمین میں پھیل جاؤ اور اس طرح غور وفکر کے ساتھ رہو کہ فطرت کے مشاہدات اور زندگی کے واقعات تمھارے لیے ربّانی تجربہ یا قرآنی الفاظ میں رزقِ رب بنتے رہیں— احادیث کا بیش تر ذخیرہ گویا اِسی قسم کے توسم کی مثال ہے۔

جیسا کہ عرض کیاگیا، اسپریچول تربیت کے لیے ایک اسپریچول جائنٹ کی صحبت ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے معاصر اہلِ ایمان کو یہ صحبت تو فطری طور پر مل گئی تھی۔ اب بعد کے لوگوں کے لیے اِس تربیتی کورس کے حصول کا ذریعہ کیا ہوگا۔ یہ بلا شبہہ ایک اہم سوال ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا یکساں طور پر سارے انسانوں کا رب ہے۔ وہ ایک زمانے کے انسان اور دوسرے زمانے کے انسان کے درمیان یہ فرق نہیں کرسکتا کہ وہ ایک زمانے کے لوگوں کو اعلیٰ روحانی تربیت کے مواقع دے، لیکن دوسرے زمانے کے لوگوں کو اِس سے محروم کردے۔

بلکہ اس کے برعکس، حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے خداایسے اسباب پیدا کرے گا کہ اگروہ چاہیں تو اِس معاملے میں اور بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بات اُس حدیث سے ثابت ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: عبادٌ لیسوا بأنبیاء ولا شہداء یغبطہم النبیون والشہداء لمقعدہم وقربہم من اللہ یوم القیامۃ (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 341) یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے کچھ بندے ہیں جو نہ تو پیغمبر ہیں اور نہ شہید ہیں، اُن کے اوپر پیغمبر اور شہید بھی رشک کریں گے، اُن کے اُس درجے اور قربت کی وجہ سے جو انھیں خدا کے یہاں حاصل ہوگا۔ اِس حدیث سے واضح طورپر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے بھی اعلیٰ درجۂ روحانیت کے مواقع حاصل ہیں، جس طرح پہلے زمانے کے لوگوں کو حاصل تھے۔

جیسا کہ معلوم ہے، احادیث رسول کا تقریباً پورا ذخیرہ کتابوں کی صورت میں آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ احادیثِ رسول، یا اقوالِ رسول وہی ہیں جن کو آپ کے معاصر اہلِ ایمان نے سُنا اور اُن سے ان کو وہ اعلیٰ روحانی غذا ملی جس نے انھیں اصحابِ رسول کا درجہ دے دیا۔ اب جو چیز غیرموجود ہے، وہ کلام نہیں ہے بلکہ صرف متکلم ہے۔ اس کمی کی تلافی خدا کی اِس دنیا میں ناممکن نہیں بلکہ وہ پوری طرح ممکن ہے، بشرطیکہ اِس معاملے کو کامل سنجیدگی کے ساتھ پوری طرح سمجھا جائے۔

ایک محدّث نے بجا طور پر کہا ہے کہ: مَنْ کان فی بیتہ مجموعۃ من الأحادیث، فکأنما فی بیتہ النبیّ یتکلم (جس آدمی کے گھر میں احادیث کا ایک مجموعہ ہو، اُس کے گھر میں گویا کہ خود پیغمبر کلام کرتا ہوا موجود ہے) یہ بات کسی استعارے کے بغیر درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احیائِ شخصیت بھی اُسی طرح ممکن ہے جس طرح احیاء سنت کو ممکن سمجھا جاتا ہے۔ اِس احیائِ شخصیت کے لیے تین ضروری شرطیں ہیں:

1۔ اِس کی پہلی شرط سنجیدگی ہے۔ لوگوں کو اِس معاملے میں اتنا زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے کہ وہ سچے متلاشی (seeker)بن جائیں۔ وہ ہر قسم کے تعصّبات سے اوپر اٹھ کر چیزوں کو لے سکیں۔ ہمارے اور پیغمبر کے دوران جو دوری ہے، وہ حقیقتاً فاصلے کی دوری نہیں ہے بلکہ مزاج کی دوری ہے۔ اگر آج کے لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں رسول اور اصحاب رسول والا مزاج پیدا ہوجائے تو یہ دوری عملاً غائب ہوجائے گی۔ مزاجی مناسبت ماضی اور حال کے درمیان کا فاصلہ ختم کردے گی۔ آج کا انسان بھی اُسی طرح خدا کے رسول سے جُڑ جائے گا جس طرح معاصر اہلِ ایمان اُن سے جُڑے ہوئے تھے۔

نفسیاتی طورپر یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قربت کا تعلق حقیقتاً بعد ِمکانی یا قربِ مکانی سے نہیں ہے بلکہ خود اپنے مزاج سے ہے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں جو لوگ تھے اُن میں سے بھی صرف انھیں لوگوں کو آپ کی حقیقی قربت ملی جو مزاجی اعتبار سے آپ سے قریب تھے۔ جو لوگ اپنے مزاجی اعتبار سے دور تھے، انھیں پیغمبر کا ہم عصر ہونے کے باوجود قربت کی سعادت حاصل نہیں ہوئی۔

2 - اِس سلسلے میں دوسری چیز یہ ہے کہ خدا کے منصوبے کو سمجھا جائے۔ خدا اپنے منصوبے کے تحت، ہر دور میں ایک اسپریچول جائنٹ پیدا کرنا ہے۔ پچھلے زمانوں میں اسپریچول جائنٹ کا یہ درجہ پیغمبروں کو حاصل ہوتا تھا۔ بعد کے زمانے میں خدا ایسا مجدد پیدا کرتا ہے جو اپنی معرفت کے اعتبار سے اسپریچول جائنٹ کا مقام رکھتا ہے۔ ایسا انسان دوسروں کے لیے گویا پیغمبر کی غیر موجودگی کی تلافی ہوتا ہے۔ البتہ یہ تلافی صرف اُن لوگوں کے حصے میں آئے گی جو اُس کو پہچانیں اور پہچان کر اس سے استفادہ کریں۔

3 - بعد کے زمانے میں اِس مقصد کے لیے جو کام کرنا ہے، وہ خاص طورپر یہ ہے کہ اقوالِ رسول کا مطالعہ دوبارہ صحبتِ رسول کے حوالے سے کیا جائے۔ یہ گویا پیغمبر کی تاریخ کو ری پراسس (re-process) کرنا ہے۔ یہ گویا کہ صحبتِ رسول کا احیا کرنا ہے۔ یہ گویا کہ دوبارہ اپنے آپ کو صحبتِ رسول میں لے جانا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اِس کو صحبتِ رسول کی توسیع کہہ سکتے ہیں۔ اِس سے کم تر درجے کا کوئی کام اعلیٰ اسپریچول شخصیت پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

اِس معاملے میں یہ کرنا ہوگا کہ حدیث کے مطالعے کے سلسلے میں بھی وہی طریقہ اختیار کریں جو قرآن کے مطالعے کے سلسلے میں کیاجاتا ہے۔ قرآن کے مطالعے کا طریقہ، عام طور پر، یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں کو اُس کے شانِ نزول یا اسبابِ نزول کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔ اِسی طرح احادیثِ رسول کا بھی شانِ نزول ہے۔ یہ شانِ نزول کبھی قولِ رسول کے ساتھ اشارۃً یا تفصیلاً موجود رہتا ہے اور کبھی موجود نہیں رہتا۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ گہرے مطالعے کے ذریعے حدیثوں کے ساتھ اُس کے شانِ نزول کو شامل کریں۔ اِس طرح ہم اُس صورتِ حال کو جان لیں گے جس صورتِ حال میں پیغمبر اسلام نے کوئی بات کہی۔ حدیثوں کا اِس طرح مطالعہ گویا کہ حدیثِ رسول کے ساتھ صحبتِ رسول کااضافہ کرنا ہے۔ یہ ایک اعتبار سے اعادۂ تاریخ ہے۔ حدیث کے مطالعے کا یہ اسلوب ایک انقلابی اسلوب ہے جو مطالعہ حدیث کو صحبتِ رسول کے ہم معنیٰ بنا دینے والا ہے۔ اِس معاملے کو چند مثالوں کے ذریعے سمجھیں۔

پیغمبر اسلام کے صحابی ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ: ولقد ترکنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومایتقلّب طائرجناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علماً (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 162) یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس حال میں چھوڑا کہ ایک چڑیا بھی اگر آسمان میں اپنا پَر پھڑپھڑاتی تو آپ اُس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے۔

اِس مثال میں قولِ رسول کے ساتھ اِس کا پس منظر بھی موجود ہے۔ اِس پر غور کرکے ہم بآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانے میں اِس طرح کے واقعات پیش آئے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ چل رہے تھے۔ اِس دوران آپ نے دیکھا کہ ایک چڑیا فضا میں اڑتی ہوئی جارہی ہے۔ آپ نے اپنے اصحاب کو فطرت کے اِس ظاہرے کی طرف متوجہ فرمایا۔ غالباً آپ نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہوگا کہ اِس کو دیکھو اور قرآن کی اِس آیت پر غور کرو:أولم یروا إلی الطیر فوقہم صٰفّٰتٍ ویقبضن، ما یمسکہنّ إلا الرحمن، إنہ بکل شیئٍ بصیر (الملک: 19) یعنی کیا وہ پرندوں کو اپنے اوپر نہیں دیکھتے، پَر پھیلائے ہوئے، اور وہ ان کو سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو اُن کو تھامے ہوئے ہو۔ بے شک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ چڑیا فطرت کا ایک انوکھا ظاہرہ ہے۔ اُس پر غور کرتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چڑیاں کی ساخت کو مخصوص طورپر اِس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ فضا میں اُڑ سکے۔اِسی چڑیا کی نقل کرکے موجودہ زمانے میں ہوائی جہاز بنائے گیے ہیں۔ مچھلی کا جسم پانی کے اعتبار سے بنایا گیا ہے اور چڑیا کی ساخت فضا کے اعتبار سے اور چوپائے کی ساخت سطحِ زمین کے اعتبار سے، وغیرہ۔یہ مختلف ڈزائین اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات اتفاقی طور پر وجود میں نہیں آئی بلکہ وہ ایک ذہین منصوبہ بندی (intelligent planning) کا نتیجہ ہے۔

کچھ اور حدیثیں ہیں جن میں قول تو موجود ہوتا ہے لیکن اس کا پس منظر موجود نہیں ہوتا۔ اِس قسم کے اقوال یہ بتاتے ہیں کہ آپ نے ایک منظر کو دیکھا اور پھر آپ نے اُس کو سبق میں کنورٹ کرکے ایک نصیحت کی بات کہی۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ اس قول کوری کنورٹ کرکے دوبارہ ابتدائی مشاہدے سے جوڑ کر دیکھیں۔ جب ہم ایسا کریں گے تو گویا ہم نے اُس لمحے کو زندہ کیا جب کہ پیغمبر بنفسہٖ موجود تھے، اور اپنے ساتھیوں کو بتارہے تھے کہ کس طرح وہ فطرت کے مشاہدات کو روحانی تجربات میں کنورٹ کرکے اپنے تزکیے کا سامان کرسکتے ہیں۔

مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ: مثل المؤمن کمثل خامۃ الزرع۔ یہاں ہم کامن سنس سے یہ اضافہ کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ چل رہے تھے کہ راستے میں ایک نرم پودا دکھائی دیا۔ وہ ہوا کے جھونکے کے مقابلے میں اکڑتا نہیں تھا بلکہ جھک جاتا تھا۔ اس کو دیکھ کر آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ مومن بھی اسی طرح ایک نرم مزاج والا انسان ہوتا ہے۔ اُس کے اندر ٹکراؤ کا مزاج نہیں ہوتا بلکہ ایڈجسٹمنٹ کا مزاج ہوتا ہے۔

اِس مزاج کا فائدہ مومن کو یہ ملتا ہے کہ غیر متعلق چیزوں میں الجھ کر وہ اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کو بلا روک جاری رکھتا ہے۔ اس کے وقت اور اس کی طاقت کا کوئی بھی لمحہ کسی غیر متعلق کام میں ضائع نہیں ہوتا— اِس طرح اقوالِ رسول میں اپنے کامن سنس سے اُس کے ماحول کا تصور کرکے ہم اپنے آپ کو گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں پہنچا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ ہوگا کہ جو چیز اصحابِ رسول کو واقعاتی طورپر حاصل تھی، وہ ہم کو تصوراتی طورپر حاصل ہوجائے گی۔ اِس پہلو سے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ: مَنْ کان فی بیتہ مجموعۃ من الاحادیث کأنما ہو فی صحبۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (جس کے گھر میں احادیث رسول کا کوئی مجموعہ موجود ہو، وہ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جی رہا ہے)۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom