اسلام کی اِشاعت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کی توسیع اور اشاعت نہایت تیزی کے ساتھ ہوئی۔ مؤرخین نے اعتراف کیا ہے کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ اسلام دنیامیں پھیلا، اُس تیز رفتاری کے ساتھ کوئی اور مذہب نہیں پھیلا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا یہ پھیلاؤ تلوار کے ذریعے ہوا۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ مذہب ایک فکری اعتراف کا معاملہ ہے، مذہب کو کبھی تلوار کے ذریعے پھیلایا نہیں جاسکتا، اور نہ مذہب اسلام کو تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا۔
اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں جو لڑائیاں ہوئیں، وہ بادشاہوں کی فوج کے ساتھ ہوئیں۔ عوام سے اِن لڑائیوں کا کوئی تعلق نہ تھا۔ قدیم طریقے کے مطابق، یہ لڑائیاں زیادہ تر بستیوں سے دور کسی غیر آباد مقام پر ہوئیں اور چند روز کے ٹکراؤ کے بعد وہیں اُن کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ زمانہ میڈیا سے قبل کا زمانہ تھا۔ چنانچہ عام لوگوں کو اس طرح کے واقعات کی خبر بھی بہت دیر سے ہوتی تھی۔ جنگ کے باوجود عوام کی زندگی بدستور اپنے معمول پر چلتی رہتی تھی۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں جنگ کی حیثیت ایک استثناء (exception)کی تھی۔ روز مرّہ کے حالات میں جو ہوتا تھا، وہ یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے، اُن کے درمیان پُر امن مذہبی ڈائلاگ ہوتا، لوگ قرآن کو پڑھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اِس طرح عملاً گویا دو دھارے بن گیے تھے۔ ایک طرف حکمرانوں کی فوجی کارروائی کا دھارا، جو بڑی حد تک عوامی زندگی سے الگ چلتا تھا، اور دوسری طرف اسلام کی پُر امن فکری اشاعت کا دھارا۔ یہ فکری دھارا خاموش انداز میں عوام کے اندر ہمیشہ جاری رہتا۔ اس کے نتیجے میں لوگ اسلام سے متأثر ہوتے اور کسی جبر کے بغیر خود اپنے فیصلے سے وہ اسلام قبول کرلیتے۔
اِس معاملے کی ایک مثال ہندستان میں نظر آتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان میں اسلام کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہوئی، مگر اِس اشاعت کا کوئی تعلق، مسلم حکم رانوں سے نہ تھا۔ یہ زیادہ تر مسلم صوفیوں کے ذریعے ہوا۔ صوفیوں کا اصول، اُن کہ الفاظ میں صلحِ کُل (peace with all) تھا۔ یہی ’صلحِ کل‘ کی پالیسی تھی جو عملاً ہندستان میں اسلام کی عمومی اشاعت کا ذریعہ بنی۔