ایک تاریخی جائزہ
قرآن میں ایک تاریخی واقعے کو اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولاہدی ولا کتاب منیر (الحج: 8) اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وسیع تر انطباق کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ زندگی کے بارے میں بغیر ہدایت، خدائی اسکیم سے لڑتے ہیں:
Some people defy the divine scheme without having a guidance.
اِس آیت کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ پوری انسانی تاریخ پر ایک تبصرہ ہے۔ ساری تاریخ میں مسلسل یہ ہوتا رہا ہے کہ بڑے بڑے دماغ کسی رہنمائی کے بغیر محض اپنی ذاتی اُپج سے زندگی اور کائنات کی تشریح کرتے رہے۔ اِس طرح انھوں نے انسانیت کے بڑے حصے کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
فلسفے کی مثال
تمام علوم میں فلسفہ شاید سب سے قدیم علم ہے۔ بڑی تعداد میں اعلیٰ دماغ، فلسفیانہ غور میں مشغول رہے ہیں لیکن فلسفہ انسانی علم میں کوئی مثبت اضافہ نہ کرسکا۔ مثال کے طور پر تقریباً تمام فلسفیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے کائنات کے مختلف مظاہر کو وحدت کی اصطلاح میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ اِس طرح انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے خالق اور تخلیق دونوں کو ایک قرار دے دیا۔ ان کے نزدیک ایک ہی حقیقت تھی جو مختلف اشیا کی صورت میں اپنا ظہور کررہی تھی۔ اسی فلسفیانہ تفکیر کے نتیجے میں تخلیق کے بارے میں وہ نظریہ پیدا ہوا جس کو وحدتِ وجود(monism) کہاجاتا ہے، سنسکرت میں اسی کو اَدُوئت واد کہتے ہیں۔
یہ نظریہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک بڑے کا تصور نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ انسان اپنے داخلی تقاضے کے تحت، ایک ایسی ہستی کو پانا چاہتا ہے جو اُس سے برتر ہو، جو اس کے لیے اعتماد کا سرچشمہ بن سکے۔ مگر وحدتِ وجود کے نظریے میں اِنسان کی اس تلاش کا جواب نہیں۔ کیوں کہ یہ نظریہ بتاتا ہے کہ انسان خود ہی خدا ہے۔ انسان کے باہر کوئی اور ہستی موجود نہیں جس کو وہ اپنا مرکز ومحور بناسکے۔ اِس طرح وحدتِ وجود کے نظریے نے انسان کی سب سے بڑی طلب کو اس کا مطلوب فراہم کیے بغیر حیرانی اورسرگشتی کی حالت میں چھوڑ دیا۔
دوسری طرف یہ ہوا کہ پوری تاریخ میں پیغمبر اٹھتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ زندگی کی تشریح کا زیادہ صحیح تصور ’وحدتِ وجود‘ نہیں ہے بلکہ توحید (monotheism) ہے۔ اِس پیغمبرانہ تصورکے مطابق، یہاں ایک قسم کی ثنویت (dualism) پائی جاتی ہے۔ یعنی خالق اور تخلیق دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ایک خدا ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو پیدا کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق الگ ہے، اور تخلیق اُس سے الگ۔
اِس پیغمبرانہ تصورکے مطابق، یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف انسان اور کائنات کی قابلِ فہم تشریح مل جاتی ہے، بلکہ انسان کو وہ مطلوب بھی حاصل ہوجاتا ہے جس کا تقاضا اس کا پورا وجود کررہا تھا۔
فلسفیانہ توجیہ کے نادرست ہونے کے بہت سے پہلو ہیں، مگر اس کی نادرستگی کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ فطرتِ انسانی کے لیے ایک متبائن(incompatible)تصور کی حیثیت رکھتا ہے، اور جو چیز فطرتِ انسانی کے لیے متبائن تصور کی حیثیت رکھتی ہو، وہ اپنے آپ میں قابلِ رد ہے۔ اس کے بعد اس کو رد کرنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
پیغمبرانہ ہدایت آدمی کو فکری عمل کے لیے رہنما اصول (guideline)دیتی ہے۔ اِن اصولوں سے رہنمائی لینے والا آدمی فکری بھٹکاؤ سے بچ جاتا ہے۔ وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ صحیح سمت کا اتباع کرتے ہوئے درست شاہ راہ پر اپنا سفر جاری رکھے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
سائنس کی مثال
فلسفیکے بعد دوسرا سب سے بڑا علم وہ ہے جس کو سائنس یا علومِ قطعیّہ (exact sciences) کہاجاتا ہے۔ سائنس اُس علم کا نام ہے جس میں مظاہرِ فطرت کی تحقیق کرکے فطرت کے اصول اخذ کیے جائیں اور ان کی روشنی میں مادّی دنیا کی تعمیر کی جائے۔ یہ علم ابتدائی صورت میں بہت پہلے سے موجود تھا، لیکن وہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچا ہے۔
سائنس نے انسان کو بہت سی چیزیں دی ہیں۔ یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوگیا کہ مادّی قوانین کا اتباع کرکے اپنے لیے ایک پُرکشش دنیا بنائی جاسکے۔ انسان ہمیشہ سے راحت اور آسائش کی زندگی کا طالب رہا ہے۔ سائنس نے پہلی بار ایسا کیا کہ بظاہر اس نے اِس بات کو ممکن بنادیا کہ انسان اپنی خواہشوں کو واقعے کی صورت دے سکے۔
لیکن جہاں تک فکری پہلو کا تعلق ہے، سائنس نے انسان کو ایک بہت بڑی بے راہ روی میں ڈال دیا، ایک ایسی بے راہ روی جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے کامل تباہی کے ہم معنٰی ہے۔
وہ فکری گمراہی یہ ہے کہ دنیا میں مختلف قسم کے جو سامانِ حیات موجود ہیں، ان کو سائنس نے صرف یہ حیثیت دی کہ وہ لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کے طورپر ہیں۔ حالاں کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، ان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم (test support system) کے طورپر ہیں۔
سامان حیات کے سائنسی تصور کی روشنی میں انسان اور اس سامانِ حیات کے درمیان جو تعلق بنتا ہے، وہ وہی ہے جو حیوانات کا اِن چیزوں کے ساتھ بنا ہوا ہے۔ حیوان اِن چیزوں کو صرف ذریعۂ انتفاع کے طورپر دیکھتا ہے، جس سے کوئی ذمّے داری وابستہ نہ ہو۔ سائنسی خاکے میں یہی حال انسان کا بھی ہوجاتا ہے۔ سائنسی تصور کے مطابق، انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دنیوی سازوسامان سے انتفاع اس کے لیے صرف رائٹ(right) کا ایک مسئلہ ہے، وہ ڈیوٹی (duty) کا مسئلہ نہیں۔ یہ تصور انسان کو اُس سطح پر لے جاتا ہے، جس کو حیوانی سطح کہاجاتا ہے۔
اس کے برعکس، سامانِ حیات کے بارے میں پیغمبرانہ تصور یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں امتحانی پرچہ (test papers) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے ساتھ براہِ راست طورپر ذمے داری کا تصور جُڑا ہوا ہے۔ اِس طرح پیغمبرانہ تصور آدمی کو مکمل طورپر ڈیوٹی کانشش (duty concious) بنا دیتا ہے۔ سائنسی تصور کے مطابق، یہ حال ہوتا ہے کہ ہر آدمی زندگی کو اِس نظر سے دیکھنے لگتا ہے کہ وہ اِس لیے دنیا میں ہے کہ وہ بقدر امکان آرام اور آسائش کی چیزیں حاصل کرے اور پھر مرجائے۔ جب کہ پیغمبرانہ تصور کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے، وہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انسان اس کے اندر اپنا امتحان دے، اور پھر موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس کے مطابق، انعام یا سزا کی صورت میں اس کا نتیجہ پائے۔
پیغمبرانہ تصور کے مطابق، خالق نے ہماری زندگی کو دو دَوروں میں تقسیم کیا ہے— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ موت سے پہلے کا مرحلہ عمل کرنے کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلہ اپنے عمل کا انجام پانے کا مرحلہ۔ سائنسی تصور کے مطابق، زندگی کی معنویت کو سمجھنے کا معیار یہ ہے کہ آدمی اس عارضی مرحلۂ حیات کو کتنا زیادہ پُر آسائش بنا سکا۔ جب کہ پیغمبرانہ تصور کے مطابق، سارا معاملہ جنت سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبرانہ تصور کے مطابق، انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دنیا میں ملی ہوئی ہر چیز کو امتحان کا ایک پرچہ سمجھے۔ وہ چیزوں کے درمیان اِس احساس کے ساتھ رہے کہ اُسے دنیا میں اُس روش کو اختیار کرنا ہے جو موت کے بعد کے طویل تر مرحلۂ حیات میں اس کو کامیاب بنا سکے۔