خبر نامہ اسلامی مرکز— 179
1 - پٹنہ بُک فیئر کا شمار ہندستان کے بڑے بک فیئر میں ہوتا ہے۔ یہ بُک فیئر پٹنہ کے مشہور گراؤنڈ گاندھی میدان میں لگتا ہے۔ اس بار پٹنہ میں یہ بُک فیئر یکم نومبر 2006 تا 12دسمبر 2006 تک تھا۔ اِس میں پہلی بار گڈورڈبکس (Goodword Books) نے حصہ لیا۔کافی تعداد میں لوگ گڈ ورڈ بکس کے اسٹال پر آئے۔ قرآن کے ہندی اور انگریزی ترجمے جو کافی تعداد میں تھے، وہ بک فیئر کے اختتام سے پہلے ہی ختم ہوگیے۔ صدر اسلامی مرکز کے ہندی ترجمۂ قرآن کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ پٹنہ ہائی کورٹ کے جج مسٹر دتّہ، صدر اسلامی مرکز کے حوالے سے خاص طورپر اسٹال پر آئے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’اسلام ری ڈسکورڈ‘(Islam Rediscovered) کو اہتمام اور شوق کے ساتھ خریدا۔ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا دونوں نے گڈورڈ بکس کے اسٹال کو نمایاں طورپر کور کیا۔ پٹنہ میں الرسالہ مشن اور سی پی ایس انٹرنیشنل سے متعلق احباب بطور خاص مسٹر ایم ٹی خان، مسٹر امام غزالی اور مسٹر اے ایم ایچ دانیال اہتمام کے ساتھ اسٹال پر موجود رہتے تھے۔ یہ لوگ اسلام سے متعلق معلومات حاصل کرنے والے لوگوں کو مثبت انداز میں اسلام کا تعارف پیش کرتے تھے اور صدر اسلامی مرکز کے دعوتی کتابچے(Dawah Booklets)اور سی پی ایس کے دعوتی بروشر(Dawah Brochure) اُن کے درمیان مفت تقسیم کرتے تھے۔(محمد مصطفی عمری)
2 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 6 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق، بابری مسجد سانحے سے تھا جس کو اب چودہ سال ہوچکے ہیں۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ کچھ خود ساختہ لیڈروں کا مسئلہ ہے جو اس مسئلے پرعوام کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ اس سے کوئی مثبت فائدہ نکلنے والا نہیں۔
3 - ماہ نامہ ’افکارِ ملّی‘ (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر اسلم مقبول نے 9 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویور کارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا— مسلم تنظیمیں، جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلم تنظیموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مثبت طرز فکر کو اپنائیں۔ مثبت طرزِ فکر ہی تمام ترقیوں کا ذریعہ ہے۔
4 - نئی دہلی کے اُردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر اسجدنواز نے 13 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر حکومت کے تجویز کردہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ تجویز اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہی ہے جو تمام مسلم ملکوں میں بالفعل قائم ہے۔ البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ہمارے مدارس کے علماء صرف علماء سند ہیں، وہ حقیقی معنوں میں علماء دین نہیں۔ اس لیے اِس تجویز کا عملاً مفید ہونا بظاہر مشکوک نظر آتا ہے۔ کیوں کہ عملی طورپر اس بورڈ کو چلانے والے یہی علماء ہوں گے۔ تاہم حکومت کی اس تجویز نے ہمارے مدارس کو ایک بہت اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے، مرکزی مدرسہ بورڈ کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس کا پورا بجٹ حکومتِ ہند دے گی، جب کہ اس کا نظام عملاً مسلم علماء کے ہاتھ میں ہوگا۔ ایسی ایک تجویز پر منفی روش کا اظہار کرنا صرف بے دانشی کی بات ہے۔ ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ 1857میں علماء نے فتویٰ دیا تھا کہ ہندستان دار الحرب ہوچکا ہے۔ اس کے بعد تقسیم ہند کی تحریک چلی۔ اس تاریخی پس منظر نے مسلمانوں میں ایسا ذہن پیدا کردیا ہے کہ وہ ہندستانی حکومت کو غیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس مزاج کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ کیوں کہ اس مزاج کی بنا پر مسلمانوں میں منافقانہ کلچر تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ یعنی ایک سیاسی نظام کو غیر دینی نظام سمجھنا اور اسی کے ساتھ اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا۔
5 - دوردرشن (نئی دہلی) کی ٹیم نے 28 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر شمیم تھے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ عید الاضحی کا مطلب ہے— قربانی کی عید۔ قربانی سے مراد یہ ہے کہ آدمی سچائی کو قربانی کی حد تک اختیار کرے۔ وہ کسی بھی حال میں سچائی کے راستے سے نہ ہٹے۔
6 - این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 30 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو کارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر اوما شنکر تھے۔ سوالات کا تعلق، صدر صدام حسین کی پھانسی سے تھا جو آج ہی عراق میں پیش آئی ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ جو کچھ ہوا اُس کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ صدام حسین نے تقریباً 30 سال تک عراق پر ڈکٹیٹرانہ حکومت کی، لیکن آخرمیں انھو ں نے عراقیوں کے نام اپنے ایک پیغام میں عراقیوں کو مثبت طرزِ فکر کا پیغام دیا۔ انگریزی رپورٹنگ میں ان کے یہ الفاظ نقل کیے گیے ہیں:
I call on you not to hate Americans, because hate closes all doors of thinking.
یہ بلاشبہہ ایک صحیح پیغام ہے۔ اور نہ صرف عراقیوں کو بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو اِس پر عمل کرنا چاہیے۔
7 - دینک ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر احمد نے 25 جنوری 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، سچر کمیٹی کی رپورٹ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ترقی ذاتی محنت سے ملتی ہے، رعایت سے ترقی ممکن نہیں۔
8 - مسٹر باوا جین (مقیم امریکا) اور مسٹر رمیش بھنڈاری (سابق گورنر، یوپی) کی قیادت میں ایک تنظیم ’ہندو۔جوئش سمٹ‘ بنی ہے۔ اُس کے تحت 7 فروری 2007 کو ایک ڈائلاگ ہوا۔ یہ پروگرام نئی دہلی کے ہوٹل ’آبرائے کانٹی ننٹل‘ میں منعقد کیا گیا۔ اس میں اسرائیل اور دوسرے مقامات کے یہودی مذہب کے بڑے بڑے پیشوا شریک ہوئے تھے۔اس کا موضوع یہ تھا کہ— اسرائیل اور فلسطین میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے مسئلے کا حل بتایا۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور وہ ہر حال میں امن کو قائم کرنا چاہتا ہے۔
9 - صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط مورخہ 22 دسمبر 2006 موصول ہوا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترمی و مکرمی جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الرسالہ جنوری 2007 کا شمارہ بعض حقائق کے انکشاف کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ میں ہمیشہ اس احساس سے رنجیدہ رہاہوں کہ آپ ایک مظلوم ترین انسان ہیں۔ گزشتہ تقریباً چالیس سال سے آپ مسلمانوں کو جو مشورے دیتے آئے ہیں اور جن کے صلے میں آپ کو کیا کیا نہ ذہنی اذیتیں برداشت کرنی پڑی ہیں، آج ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کسی اعتراف اور احساس ندامت کے بغیر ان پر عمل کررہے ہیں۔ مالے گاؤں ہی کی مثال لے لیجئے۔ ستمبر 2006 کو یہاں بم دھماکے ہوئے، 30 افراد ہلاک اور 300 افراد زخمی ہوئے۔ مسلمانوں کے اس صبر کی تمام طبقوں کی جانب سے خوب خوب تعریفیں ہوئیں اور ابھی بھی ہورہی ہیں۔ پولیس افسران، سیاست دان، وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ شیوراج پاٹل اور سونیا گاندھی نے بھی مسلمانوں کے اس صبر و ضبط کی سراہنا کی۔ حالاں کہ یہ صبر مسلمانوں نے ’بعد از خرابی ٔ بسیار‘ کیا ہے۔ 2001کے فسادات میں مالے گاؤں کے اطراف و جوانب کے لگ بھگ 35دیہاتوں کی مساجد گرادی گئی تھیں اور وہاں کے مسلمانوں کے گھروں کا بھی یہی حال ہوا تھا۔
اس سب کے باوجود کسی شخص میں یہ اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ یہ اعتراف کرے کہ آپ طویل عرصے سے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیتے آئے ہیں۔ آج جب مختلف طبقات کی جانب سے علما کی رہنمائی کی تعریفیں ہورہی ہیں تو یہ حضرات بڑے آرام سے کسی احساس اور اعتراف کے بغیر اس کریڈٹ کو اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
تازہ الرسالہ میں دی گئی خط و کتابت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اور بھی کئی طریقوں سے آپ کی حق تلفی اور آپ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ دین کو عصری اسلوب میں آپ پیش کررہے ہیں تاہم کچھ لوگ ہیں جو بے بنیاد طور پراس کا سہرا اپنی اپنی محبوب شخصیتوں کے سرباندھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اِس سے غلط ذہن بنتا ہے۔ دار الدعوہ کا تصوربھی سب سے پہلے آپ نے پیش کیا، لیکن کوئی بھی اس کااعتراف نہیں کررہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ لوگ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا بھی کریڈٹ خود لے رہے ہیں۔ دیانت داری کا تقاضا اور ضمیر کی آواز وغیرہ ایسے لوگوں کے نزدیک سب سے معنیٰ ہیں۔ افسوس، صدافسوس، یہ اُن لوگوں کا حال ہے جو شب وروز اخلاقیات کا درس دیتے ہیں۔ (رمضان شکور، مالے گاؤں )
10 - شہر بہرائچ (یوپی) میں برادرم رفیع احمد انصاری (بھٹے والے Tel. 941 544 2201) اور بر ادرم عبد اللہ انصاری کے مخلصانہ تعاون سے الرسالہ مشن کے دعوتی لٹریچر کی اشاعت اور توسیع کے لیے ایک اسٹڈی فورم قائم کیاگیا ہے۔ اس کے تحت، تعلیم یافتہ حضرات کی ایک ٹیم نے الرسالہ کی مطبوعات کا اجتماعی طورپر مطالعہ شروع کردیا ہے۔
11 - لکھنؤ میں برادرم محمد سلمان نوری (ناظم مدرسہ سیدنا عمر فاروق، رستم نگر، چوک لکھنؤ Tel. 983 980 1027))کے تعاون سے دعوتی مقصد کے تحت، ایک دارالمطالعہ قائم ہوگیا ہے۔ اِس سلسلے میں اسلامی مرکز (نئی دہلی) کی طرف سے دعوہ بک لٹس (Dawah Booklets)، اور الرسالہ کی تمام مطبوعات کا ایک مکمل سیٹ اُن کو روانہ کردیا گیا ہے۔