سوال وجواب
سوال
۱۹۹۵ میں قاہرہ کی ایک ایسی مجلس میں، جس میں کچھ لوگوں کوپہلے فیصل ایوارڈمل چکا تھا، بولنے کاموقع دیا گیا تھا، ان میں سے ایک علی عزت بیگوچ، بوسنیا کے صدر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے مقالے میں۔ جو چھاپانہیں گیا۔ آخر میں ایک بات کہی تھی کہ میرے ذہن میں چار سوال ہیں، اور میں چاہتاہوں کہ جوان سوالوں کا تسلی بخش جواب دے، اس کو ’’خدمت اسلام‘‘ کا’’ فیصل ایوارڈ‘‘ ملے۔ پہلاسوال یہ ہے کہ ہماری اُمت جس کو اللہ نے مخاطب کیا تو اس کا پہلا لفظ تھا اقرأ۔ آج ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کے بعد اس کی پچاس فیصد سے زیادہ تعداد پڑھنے سے قاصر کیوں ہے۔ ہم دنیا میں سب سے جاہل کیوں ہیں جب کہ ہم سے پہلی وحی میں کہا گیا تھا کہ ’’ پڑھ‘‘۔ دوسری بات یہ کہ اسلام میں وقت کی پابندی پر بڑازور ہے۔نماز کا وقت مقرر، حج کی تاریخ مقرر، روزے کامہینہ مقرر، زکوٰۃ سال گزرجانے پر، ہر چیز کا وقت مقرر ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ کم، وقت کی پابندی ہم کرتے ہیں۔ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ مسلمانوں کا کوئی جلسہ وقت پر شروع ہوا ہو۔ تیسری بات انہوں نے یہ کہی کہ طہارت، اس دین میں بہت اہم ہے۔ اس کی نماز، اس کاروزہ، اس کی ہر عبادت میں پاکیز گی اور صفائی ستھرائی پرزور ہے، مگر دنیا کے کسی بھی مسلم محلے میں جائیے، ایشیا کے کسی ملک میں، افریقہ میں،مغربی ممالک میں مسلمان آبادیوں میں کہیں بھی چلے جائیے۔ سب سے گندے، مسلمانوں کے محلے ہیں۔کاغذکہیں بھی پھینک دیں گے، چھلکاکہیں بھی ڈال دیں گے۔ ‘‘ اور آخری چیز انہوں نے یہ کہی کہ ’’ وہ امت جو کلمہ تو حید پر قائم ہے اور ایک خدا کے تصور کو، ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرونے والی چیز سمجھتی ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ یہ امت دن بہ دن مزید گروہوں میں بٹتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں بھی چلے جائیے، وقت گزرنے کے ساتھ گروہ بڑھتے جارہے ہیں۔ حلقے بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک جماعت سے دوجماعت، دوسے چار جماعتیں، ایک حلقے سے دو حلقے بنتے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ چار سوال مجھے بہت پریشان کرتے ہیں۔ یہ ناخواند گی، یہ وقت کی عدم پابندی، یہ عدم صفائی، یہ انتشار، یہ کہاں سے اس قوم میں آگئے (ماہنامہ زندگی نو، جون ۲۰۰۳، صفحہ ۳۰)۔ ماہنامہ الرسالہ کے ایک قاری نے یہ اقتباس بھیج کر گذار ش کی ہے کہ اس کاجواب الرسالہ کے صفحات میں دیاجائے۔
جواب
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کی مسلم نسلوں کا کیس وہ ہے جس کو قرآن میں طولِ امد کے بعد قساوت کاآجانا(الحدید:۱۶) کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے زوال(de-generation) کی آخری حد پر ہیں، اور مذکورہ چاروں خرابیاں اسی زوال کے مظاہرہیں۔ اقبال اپنے ابتدائی زمانےمیں اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ اس لیے انہوں نے موجودہ مسلمانوں کے بارے میں یہ شعر کہا:
ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
مگر بعد کو اقبال نے دیکھا کہ اس مٹی کو نہ صرف نم کیا گیا بلکہ اس کو پانی سے جل تھل کر دیا گیا۔اس سیرابی کے عمل میں اقبال سمیت بہت سے علماء ا ور مفکرین شامل ہیں۔ مگر ساری کوششوں کے باوجود امت کے اندر مطلوب بیداری نہ آسکی۔ چنانچہ بعد کے دور میں اقبال کو یہ کہنا پڑا:
تیرے محیط میں کہیں جو ہرِ زندگی نہیں ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عزت بیگوچ نے بوسنیا میں آزاد مسلم اسٹیٹ قائم کرنے کااقدام کیا جو بوسنیا کے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہ دے سکا۔ اقبال نے پاکستان کے نام سے علاحدہ اسلامی ملک بنانا چاہا مگر یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام رہا۔ اسی طرح بیسویں صدی میں تقریبا ًہر مسلم رہنما نے کسی نہ کسی خوش نما اقدام سے اپنے عمل کا آغاز کیا اور ہر ایک کااقدام بے نتیجہ ثابت ہوا۔
قرآن کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آجائے تو اس کے اندر اسلامی عمل کاآغازتزکیہ اور تربیت سے ہوگا، نہ کہ اقدام سے (الحدید: ۱۷)۔ پہلے خاموش اور پرامن فکری عمل کے ذریعہ قوم بنائی جائے گی اور اس کے بعد عملی اقدام کیاجائے گا، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی زمین بنجر ہو تو کسان اپنے زرعی عمل کاآغازمٹی کی درستگی سے کرتا ہے، نہ کہ فصل اُگانے سے۔موجودہ زمانے کے مسلم مصلحین (بشمول عزت بیگوچ) کاحال یہ ہے کہ انہوں نے برعکس طور پریہ کیا کہ قوم بنانے سے پہلے عملی اقدام شروع کر دیا جو قانونِ فطرت کے مطابق، سراسر بے نتیجہ رہا۔
یہ معکوس نتیجہ سامنے آنے کے بعد ان حضرات کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کااعتراف کریں، نہ کہ وہ دوسروں سے اس کے بارے میں سوال کریں۔ اگر یہ مسلم رہنما اپنی غلطی کا اعلان کریں تواس کاکم ازکم یہ فائدہ ہو گا کہ ان کے بعد کے لوگ اس سے سبق لیں گے اور وہ دوبارہ اس غلطی کو نہ دہرائیں گے۔ اس کے برعکس اگر یہ حضرات اپنی غلطی کا اعلان نہ کریں تو یہ غلطی (شعوری تعمیر سے پہلے سیاسی اور عملی اقدام) آئندہ بھی بدستور جاری رہے گی اور اُمت کبھی اس تباہ کن طریقِ کا رکو چھوڑکر دوسراصحیح طریقِ کا رنہ اپنا سکے گی۔
سوال
۳۰ مئی ۲۰۰۳کی شام کو میں آپ کی مجلس میں تھا۔ دونوجوان جو کسی دفتر میں سروس کر تے ہیں ان کو مشورہ دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ آپ لوگ سمجھو تہ کر کے اور ایڈجسٹ کر کے اپنے آفس میں رہیں۔ ان کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے اس مشہور مقولہ کودہرایا:
Boss is always right
مگر اسی کے ساتھ آپ نے اپنے بارے میں کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی سمجھو تہ نہیں کیا۔ میں نے ہمیشہ غیر مصالحتی انداز(uncompromising attitude) اختیار کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دوعملی نہیں۔ آپ خود تو سمجھوتہ نہیں کرتے مگردوسروں کو سمجھوتہ کرنے کامشورہ دیتے ہیں۔کیا یہ اس آیت کا مصداق نہیں کہ لِمَ تقولون مالا تفعلون۔(امام بٹ، نئی دہلی)
جواب
آپ کا یہ سوال ایک غلط فہمی پرمبنی ہے۔اور اس غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ آپ تمّیز(differentiation) کے اصول کو سمجھ نہ سکے۔ یعنی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا۔ یہ تمیّز وتفریق معاملہ فہمی کی شرط لازم ہے۔
اصل یہ ہے کہ قرآن کی مذکورہ آیت منافقانہ پالیسی کے بارے میں ہے۔مثلا ایک آدمی جہاد کی باتیں کرکے دوسروں کو لڑنے پر اکسائے مگر وہ اپنے آ پ کو لڑائی سے دور رکھے۔ اسی روش کانام دو عملی(duplicity) کی پالیسی ہے۔مگر جوبات میں نے کہی اس کا تعلق انسانی خیر خواہی سے ہے۔
یہی طریقہ اسلام کی روح کے مطابق ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی عام پالیسی یہ تھی کہ آپ خودتو ہمیشہ عزیمت کا طریقہ اختیارفرماتے تھے مگر دوسروں کو یُسر(آسانی) کے طریقہ کی تلقین کرتے تھے۔ مثلاً آپ رمضان کے مہینہ کے علاوہ کثرت سے روزے رکھتے تھے مگر دوسروں کو آپ نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ تم اس کاتحمل نہیں کر سکتے۔ خود عزیمت پرقائم ہونااور دوسروں کورخصت کامشورہ دینا منافقت نہیں بلکہ یہ خیر خواہی ہے۔ اور یہی تمام صالحین کا طریقہ رہا ہے۔
سوال
میں آپ کا الرسالہ ۲۵ سال کی عمر سے پڑھتا رہاہوں۔ اندر ہی اندرآپ کاعقیدت مند ہوں۔ا ٓپ کامطالعہ کرتا ہوں تو ذہنی تشنگی دور ہوتی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کے شب وروزکی تکالیف اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت ملتی ہے، ایک سکون ملتا ہے۔ اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہنے کی تگ ودوملتی ہے۔ براہ کرم مجھے اپنے مزید مشوروں سے نوازے(شبیر بیگ، کرناٹک)
جواب
یاد رکھیے کہ زندگی ایک آرٹ ہے۔ زندگی میں کامیابی کاراز یہ ہے کہ آدمی کانٹوں سے بچتے ہوئے پھولوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ کانٹوں سے اُلجھنے والا آدمی خود اپنا نقصان کرتاہے۔ اس کو اپنی اس روش کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ وہ پھول کوپانے سے محروم رہ جائے۔
سوال
گذشتہ چند ماہ سے ہم حلقۂ احباب میں آپ کی تصنیف تذکیرالقرآن کااجتماعی مطالعہ کر رہے ہیں۔ الحمد اللہ اس کے بڑے اچھے اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ چند حضرات جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں وہ ہمارے اس عمل کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔ بلکہ ہمیں مطالعۂ قرآن سے روکنے کے لیے وہ غیر اخلاقی حرکتیں بھی کررہے ہیں۔ ان حضرات کا اصرار ہے کہ صرف اور صرف ’’ فضائلِ اعمال ‘‘ کا ہی اجتماعی مطالعہ ہونا چاہیے۔ یہی کتاب فی زمانہ ہدایت کابہترین ذریعہ ہے۔ رہا قرآن تو یہ بہت بلند کتاب ہے اور یہ عام مسلمان کے لیے نہیں ہے۔ اسے وہ علماء ہی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں جو کئی علوم سے واقف ہوں۔ براہ کرم اس الجھن کو دور فرمائیں۔(حبیب اشرف)
جواب
پچھلے سو برس کے اندر مسلمانوں میں دو چیزیں بہت مقبول ہوئی ہیں۔ ایک، اقبال کا شاعرانہ کلام۔ اور دوسرے،تبلیغی جماعت کی فضائل اعمال۔ دونوں بظاہر مختلف ہیں۔ مگر ان کی مقبولیت کا سبب ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ زوال یا فتہ قوم کو اس قسم کی چیزیں بہت اپیل کرتی ہیں۔ زوال یافتہ قوم کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ حقیقی عمل کے بجائے خیالی پروازوں کو پسند کرنے لگتی ہے۔ مثلاًاقبال کے کلام میں مسلمان یہ پڑھ کر جھوم اُٹھتے ہیں کہ:
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
اسی طرح مسلمان جب فضائل کی کہانیوں میں پڑھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے ظاہری اعمال پر جنت الفردوس مل رہی ہے تو اپنے زوال یافتہ مزاج کی بنا پر وہ تیزی سے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ سب بن کیے پر کریڈٹ لینا ہے اور زوال یافتہ قوموں کی یہی خاص نفسیات ہوتی ہے،اس میں کوئی استثنا نہیں۔
سوال
ایک حافظ صاحب میرے شہر میں یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ مولانا وحیدالدین خان ہر ایک جماعت سے نکالے جا چکے ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی کو چھوڑ کر وہ پیام ِانسانیت لکھنو گئے، اس کو چھوڑ کر تبلیغی جماعت میں گئے، تبلیغی جماعت کو چھوڑ کر جمعیۃ العلماء ہند میں گئے اور پھر اس کوچھوڑکر الرسالہ پر قبضہ کرلیا۔ جب کہ حدیث میں ہے کہ گلّے سے نکلی ہوئی بکری کو بھیڑیا کھاجاتاہے۔ براہِ کرم اس کی وضاحت کریں کہ آپ کیوں ایک جگہ سے دوسری جگہ گئے۔(شاہ عمران حسن، مونگیر، بہار)
جواب
آپ نے جوسوال تحریر فرمایا ہے، سب سے پہلے یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ یہ سوال درست ہے۔یعنی یہ کہ مجھ کو فلاں جماعت یاادارےسے نکالا گیا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ آپ ان تمام جماعت یا اداروں کو خط لکھیں اور ان سے پوچھیں کہ کیا واقعتا مجھ کو ان جماعتوں یا اداروں سے نکالا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ان جماعت کے ذمہ داروں کاتحریری جواب حاصل کرکے بھیجیں، اس کے بعد میں آپ کے سوال کی وضاحت کروں گا۔ ابھی تو خود یہ سوال غیر ثابت شدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے کبھی کسی جماعت سے نکالا نہیں گیا۔
میرا کہنا یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹی بات ہے کہ مجھے کسی جماعت سے نکالا گیا۔ آپ یامذکورہ حافظ اس سلسلے میں متعلقہ جماعتوں کا تحریری جواب حاصل کریں تو اس کے بعد میں ضرور اس کی وضاحت کروں گا۔ مذکورہ حافظ صاحب اس معاملہ میں پارٹی نہیں ہیں۔ اس معاملہ میں پارٹی یاتو میں ہوں یا مذکورہ جماعتیں۔ جہاں تک میراتعلق ہے، میرا کہنا یہ ہے کہ نکالے جانے کا افسانہ ایک جھوٹا افسانہ ہے۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں مذکورہ پارٹیوں کا تحریری بیان آپ کے پاس یاحافظ صاحب کے پاس ہو۔ ایسے بیان کی غیر موجود گی میں میرے خلاف مذکورہ پروپیگنڈہ ایک جھوٹا پروپیگنڈ ہ ہے جس کی کوئی اصل حقیقت موجود نہیں۔
سوال
ایک مفتی صاحب سے میں نے بینک کے سود کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ سودنہیں ہے کیوں کہ ہم بینک والوں سے مطالبہ نہیں کرتے ہیں کہ آپ ہمارے روپیے پراتنا منافع دو۔ وہ ہماری مرضی پر نہیں بلکہ اپنی مرضی اور قانون کے حساب سے منافع دیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامی نہیں۔برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں سود کی حلت وحرمت کے بارے میں ہمیں آگا ہ کریں۔(محمد عباس)
جواب
آپ کے مذکورہ سوال کا جواب علماء اسلام بار بار دے چکے ہیں۔ اب آپ کے لیے یہ کوئی صحیح شکل نہیں ہے کہ اس سوال کو دوسرے علماء سے آپ بار بار پوچھیں۔ اس قسم کے سوال وجواب سے حدیث میں سختی کے ساتھ منع کیا گیاہے۔
اب آپ کے لیے دو میں سے ایک صورت ہے۔ یا تو آپ علماء کی طرف سے دیے ہوئے جوابات کو لے کر ان پر عمل کریں اور اگر آپ ان پر مطمئن نہیں تو آپ کے لیے دوسراطریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھ کر خود اپنے دل سے پوچھیں کہ کون سی روش میرے لیے درست ہو سکتی ہے اور جو مجھے خدا کی پکڑ سے بچانے والی ہے۔ اس طرح کے احساس کے ساتھ خداکو حاضر وناظر سمجھتے ہوئے جو جواب آپ کوسمجھ میں آئے اس پر عمل فرمائیں اورا س کے بعد پھر کسی سے نہ پوچھیں۔ صرف خدا سے یہ دعا کرتے رہیں کہ وہ آخرت میں آپ کو اپنی غلطی کے لیے معاف کرے۔
سوال
میں الرسالہ کا ایک مستقل قاری ہوں۔ الرسالہ مشن کے علا وہ تصوف، یعنی اسلامی تصوف سے متعلق کتب کامطالعہ بھی جاری ہے۔آپ نے مئی ۲۰۰۳ کے رسالے میں صفحہ ۵ پر تصوف کو یوگا سے مشابہت دی ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مہربانی کر کے وضاحت فرمادیں۔ واضح رہے کہ میں آپ کو بڑا اچھا صوفی سمجھتا ہوں۔ الجھن دور فرمادیں(جاوید حسین وانی، اننت ناگ، کشمیر)
جواب
میں ایک پیدائشی صوفی ہوں۔مگر میراصوفی ازم مروّجہ تصوف سے الگ ہے۔ میں قرآن کے الفاظ میں الرباّنیہ پریقین رکھتاہوں۔ یعنی آدمی کے فکر اورجذبات کارُخ مکمل طورپر خدا کی طرف ہو جانا۔ خدا کے ساتھ حُبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق پیدا ہوجانا۔ خداکے ساتھ روحانی طور پر کامل وابستگی ہو جانا۔ حدیث کے الفاظ میں تعبداللّٰہ کا نک تراہ کے درجہ کو پالینا۔
جہاں تک رواجی تصوف کاتعلق ہے وہ قرآن کے الفاظ میں،مضاہات ہے۔ حقیقی تصوف داخلی اسپرٹ پر قائم ہوتا ہے۔جب کہ رواجی تصوف سارا کاساراظاہری فارم پر مبنی ہے۔ اس میں خارجی عضویاتی مشقوں کو داخلی روحانی ارتقاء کاذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ میرے نزدیک بالکل بے بنیادہے۔ میرے نزدیک متصوفانہ اعمال واشغال کا حقیقی روحانی ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال
میری ازدواجی زندگی میں شریک حیات کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔ اس سلسلے میں میرے دماغ میں مختلف سوالات گونج رہے ہیں۔میری شریک ِحیات صحت خراب ہونے کی وجہ سے میری اجازت کے بغیر اپنے گھر چلی گئی۔ ایک دن بعد پتہ چلا کہ خدا نے ہمیں اولاد عطا کیا ہے۔ چار ماہ بعد اس نے مجھے کویہ جواب دیا کہ میں الگ سکونت اختیار کرلوں گی کیونکہ آپ کے گھروالوں سے میری بنتی نہیں۔ وہ الگ سکونت اختیار کرنے کی ضد پرقائم ہے جب کہ میری رائے اس سے مختلف ہے۔ اس سلسلے میں مجھے کیا کرنا چاہیے(ایک قاری الرسالہ، کشمیر)
جواب
جومسئلہ آپ نے تحریر فرمایا ہے وہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض ہیں۔
۱۔ ساس اور بہو کا جھگڑا کبھی دو طرفہ بنیادپر حل نہیں ہوتاوہ ہمیشہ یک طرفہ بنیاد پر حل ہوتا ہے۔یعنی یا توساس یک طرفہ طور پر سمجھوتہ کرے یا بہویک طرفہ طورپر سمجھوتہ کرے۔ مگر عملًا یہ ہوتا ہے کہ بہو کو اس کے نادان ماں باپ یک طرفہ سمجھوتہ کرنے نہیں دیتے۔ اسی طرح ساس کو اس کا نادان بیٹا یک طرفہ سمجھوتہ پر راضی نہیں کر پاتا۔ اس بنا پر وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا۔
۲۔ اس مسئلہ کا پائدارحل صرف یہ ہے کہ آدمی اس وقت شادی کرے جب کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ مکان میں رہنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ جب تک یہ استطاعت نہ ہو وہ انتظار کرے۔
۳۔ موجودہ حالات میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کو اس کے میکے میں رہنے دیں۔آپ خود وہاں کبھی کبھی جائیں مگر بیوی کو اپنے گھرلانے کی کوشش نہ کریں۔ فی الحال آپ یہی کریں اور مزید کے لیے مستقبل کاانتظار کریں۔
سوال
میرے دو بچے ہیں، دوسرابچہ بڑا ضدی ہے۔بار بار اس کا حیران وپریشان کرنا میرے لیے ایک مسئلہ ہے۔ میں اس مسئلہ سے کیسے نجات پاؤ ں۔ (ابراراحمد رفعت، سورت)
جواب
آپ نے لکھا ہے کہ آپ کا دوسرابچہ بڑاضدّی ہے۔ اس کا حیران وپریشان کرنا آپ کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق، اکثر باپ اس مسئلہ سے دوچار رہتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ حقیقتاً لاڈ پیار کی قیمت ہے جس کووالدین عام طورپرضد کانام دے دیتے ہیں۔ اس طرح وہ نہ اس مسئلہ کی جڑ کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کو حل کرپاتے ہیں۔
میرے نزدیک لاڈپیار(pampering) سب سے بُراتحفہ ہے جو اکثرماں باپ اپنے بچوں کو دیا کرتے ہیں۔ بطور خود وہ اس کو محبت سمجھتے ہیں حالاں کہ نتیجے کے اعتبار سے وہ ایک دشمنی ہے۔ کیوں کہ ایسی روش بچہ کوہمیشہ کے لیے غیرحقیقت پسند بنادیتی ہے۔
سوال
ایک روز آکاش وانی پٹنہ دربھنگہ(پٹنہ ریڈیو) سن رہا تھا۔ اس میں ایک مقرر نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ۱۶۰ گھرپڑوسی میں آتے ہیں۔ یعنی ۴۰ گھردائیں، ۴۰ گھر بائیں، ۴۰ گھر پیچھے، ۴۰ گھرآگے۔ ایک آدمی کے چاروں طرف ۴۰۔۴۰ گھر پڑوسی کا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کا آدمی اس حدیث پر کس طرح عمل کرے گا جب کہ ۲۴ گھنٹہ کے اندر بھی ۱۶۰ لوگوں کے گھر جا کرملاقات کرناممکن نہیں ہے اور اس آدمی کو ڈیوٹی بھی کرنا پڑے گا، اپنے بچوں میں کچھ وقت دینا ہوگا اور اُنہی اوقات میں وہ نماز بھی پڑھے گا۔ تو کس طرح ممکن ہے کہ حدیث پر عمل بھی کیا جائے اور انسان ہر کام بھی کرلے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر، بہار)
جواب
۶۰ ۱والاقول جوآپ نے نقل کیا ہے یہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ یہ ایک من گڑھت بات ہے۔پہلے زمانے میں کچھ لوگ ہوتے تھے جن کو قصہ گو یا قُصّاص(Story tellers) کہاجاتا تھا۔ اس قسم کے لوگ ہر زبان میں ہوتے تھے اور اسی طرح عربی زبان میں بھی عرب قصاص کی باتوں کو لوگوں نے کتابوں میں جمع کرلیا اور اس کو حدیث سمجھ کر دہرانے لگے۔ موجودہ زمانے میں بعض جماعتیں اسی قسم کی بے بنیاد قصہ کہا نیوں پر کھڑی ہوئی ہیں۔ عوام چونکہ طلسماتی کہانیوں سے دلچسپی لیتے ہیں اس لیے ان جماعتوں کے گرد بہت جلد عوام کی بھیڑاکٹھا ہوجاتی ہے۔ عوام کی یہ بھیڑ انکے لیے بظاہر ایک سند بن گئی۔ اس قسم کہانیاں جو لاکھوں کی تعداد میں عوام کے درمیان پھیلی ہوئی ہیں وہ سب باطل ہیں۔ وہ دین حق پر پردہ ڈالنے کے ہم معنی ہیں۔ پڑوسی کا حق بلا شبہ نہایت اہم ہے۔ اسلام میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ مگر پڑوسی کے حق کاتعین گنتی اور میٹرسے ناپ کرطے نہیں کیا جائے گا۔پڑوسی کے حق کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو پڑوسی تمہارے رابطہ(contact) میں آئے، خواہ وہ مقامی ہو یا غیرمقامی، اس کا حق ادا کر و۔ یاکم از کم یہ کرو کہ اس کے لئے حدیث کی زبان میں کوئی بائقہ (شر) پیدانہ کرو۔
یاد رکھیے، وہی بات اسلام کی بات ہے جو قرآن سے ثابت ہو یااُصول حدیث کے مطابق، صحیح روایات سے ثابت ہو۔ ان دو کے سوا کوئی بھی تیسرا مستند ذریعہ نہیں۔ مثلاً مفروضہ اکابر کے اقوال، فضائل کی کہانیاں،خواب اور مکاشفہ، کراماتی داستانیں، یہ سب بے اصل ہیں۔ ان چیزوں میں مشغول ہونا ایک گناہ ہے، نہ کہ کوئی ثواب کاکام۔
سوال
میرے ایک ہم پیشہ کا قول ہے’’ نومسلم سید کی برابری کب کر سکتاہے‘‘۔ یہ صاحب خود سید ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس جملے میں تو ہین رسالت شامل ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ کے والدین مسلمان نہ تھے۔ آپ کے خیال میں کیا سیدی کایہ انداز عام لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کر سکتاہے۔
جواب
بہت سے سوالات کا سادہ جواب یہ ہوتا ہے کہ ان کو سوال ہی نہ بنایاجائے۔ ہر سوال کاجواب دریافت کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ اپنے آپ ہر سوال کا جواب پالے۔
سوال
گذشتہ ۳۱ اگست ۲۰۰۳ کو ہمارے دربھنگہ پارلیمانی حلقہ کے نمائندہ جنا ب کیرتی جھا آزادصاحب (معززایم پی، بی جے پی) علاقہ کے دورہ پر تھے۔ وہ اس موقع پر ہماری بستی اسراہا میں بھی تشریف لائے۔ یہاں پر ابولکلام آزاد لائبریری کے احاطے میں ان کا استقبال کیا گیا۔ اس موقع کوغنیمت جان کر میں نے ہندی قرآن مجید اور آپ کی کچھ ہندی کتابوں کے ساتھ الرسالہ ہندی کے کچھ شمارے بھی اس درخواست کے ساتھ دیے کہ وہ ان کتابوں کا فرصت کے لمحات میں مطالعہ کریں۔ انہوں نے مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا۔ ہمارے اس اقدام پر علاقہ کے کچھ لوگوں نے اس طرح کے اعتراضات کیے کہ بی جے پی کے آدمی کو جو غیر مسلم بھی ہے، قرآن مجید دینا ٹھیک نہیں۔ اس موقع پر دوسرا اور کچھ کیاجاتا مگر قرآن مجید نہ دیا جاتا وغیرہ۔ براہ کرم آپ اس کا جواب دیں۔(نثار اختر، دربھنگہ، بہار)
جواب
کسی غیر مسلم کو قرآن کاترجمہ دینا بالکل درست ہے اور وہ عین ثواب کاکام ہے۔ دور اول سے لے کر اب تک بے شمار غیر مسلموں نے قرآن کو پڑھا اور اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ موجودہ زمانے میں سعودی حکومت لاکھوں کی تعداد میں قرآن چھاپ کر دنیا کے غیر مسلموں میں مفت تقسیم کرتی ہے۔ قرآن کو غیر مسلموں تک پہنچانا بلا شبہ دعوت کاکام ہے۔ اس میں اعتراض کی کوئی بھی بات نہیں۔
سوال
اپریل ۲۰۰۳ کے الرسالہ کے شمارہ میں ایک سوال کے جواب میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ اس طرح دیا ہوا ہے:
’’ اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ‘‘ اسی جواب میں ایک حدیث کے ذریعہ سے یہ نقل کیا گیا ہے:
’’ یعنی اے علی! جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے خواہ وہ بیماری ہو یا عقوبت ہو یا کوئی دنیوی مصیبت ہو تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کانتیجہ ہوتی ہے(صفحہ۲۲)
۱۔ حضرت عمر فاروق ؓ پر نماز پڑھتے وقت خنجر کے وار اور اس سے ان کا قتل۔
۲۔ حضرت عثمان غنیؓ کی محمد بن ابی بکر نے داڑھی پکڑ کر بے عزتی کی۔ قرآن پڑھتے وقت ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ قتل کرنے کے بعدانہیں ٹھوکریں ماریں۔ تین دن تک ان کی لاش بے گور وکفن پڑی رہی۔
۳۔جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کاجنگ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے آنا۔
۴۔ حضرت علیؓ پر مسجد میں نماز کے لیے آتے وقت قاتلانہ حملہ اور ان کی شہادت۔
۵۔ حضرت امام حسن ؓ کو ان کی بیوی جعدہ بنت الاشعث کا زہردے کرمارنا
۶۔ حضرت امام حسینؓ کربلا میں قتل کیا جانا اور ان کا سرجسم سے الگ کرنا۔
یہ سب لوگ پیغمبر کے خاص عزیز اور صحابی تھے۔ ان سے کوئی غلطی کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن ان پر جومصیبت آئی وہ ان کے کون سے کاموں کا نتیجہ تھا۔ براہِ کرم اس معاملہ کی وضاحت فرمائیں۔(امین الدین، دھو لپور، راجستھان)
جواب
اس معاملہ میں یا اور کسی معاملہ میں اصل مسئلہ جواب کانہیں ہے بلکہ سائل کے مزاج کاہے۔ آپ کا سوال صحیح مزاج کی نمائند گی نہیں کرتا۔ ایک واضح آیت سامنے آنے کے بعد صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو بلا شرط مان لیاجائے اور اسی رخ پر سوچنا شروع کیا جائے جورخ آیت میں دیا گیا ہے۔ اگر سائل کایہ حال ہو کہ آیت سامنے آنے کے بعد بھی وہ اپنے مزاجی سانچہ کو اس کے مطابق نہ بنائے تو کوئی بھی جواب اس کومطمئن کرنے والا نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ایک معاملہ کے دو پہلو ہو تے ہیں۔ اس لیے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جو بات کہی گئی ہے وہ کس پہلو سے کہی گئی ہے۔ مثلاًمذکورہ آیت میں اگر یہ ہے کہ ہر مصیبت کا سبب خود اپنی کو تاہی ہوتی ہے تو دوسرے مقام پر اسی قرآن میں کہا گیا ہے کہ کئی بار کوئی تکلیف آزمائش (ابتلأ) کی بنا پر پیش آتی ہے۔ اسی طرح قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ موت ہر انسان کے لیے مقدر ہے۔ البتہ کسی کی موت ایک صورت سے پیش آتی ہے اور کسی کی دوسری صورت سے۔
الرسالہ میں جوبات کہی گئی ہے وہ اصلاًاس مزاج کی تردید کے لیے ہے کہ اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار کسی مفروضہ دشمن کو قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کیا جائے۔ صحیح قرآنی مزاج یہ ہے کہ ہر مصیبت کے موقع پر احتساب خویش کاذہن ابھر نا چاہیے۔ نہ کہ احتساب غیر کاذہن۔
سوال
۱۵ دن قبل آنجناب کا ایک پروگرام ٹیلی ویژن پر نشر ہو رہا تھا جسے اخیر کے چند لمحے دیکھنے اور سننے کاموقع ملا۔ اس نشریے میں آنجناب حجرِ اسود سے متعلق معلومات فراہم کررہے تھے کہ ’’ حجرِاسود جنت سے آیا ہوا پتھر نہیں، نہ ہی یہ کسی زمانے میں سفید رہا ہے بلکہ یہ محض قصہ آرائی ہے جو دیگر کہانیوں کی طرح زمانۂ قدیم سے رواج پاگئی ہے اور نسل درنسل منتقل ہو رہی ہے۔‘‘
جب کہ معروف حدیث میں بالکل واضح ہے کہ حجرِ اسود جنت سے اتراتھا۔ اس وقت وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ اس طرح آنجناب کے بیان کی تردید ہوتی ہے۔ براہِ کرام س کی وضاحت فرما کر شک وشبہات کو دور کرنے کی زحمت گوارافرمائیں۔ (مزمل حسن، دربھنگہ،بہار)
جواب
حجراسود کے بارے میں جو روایتیں آپ نے نقل کی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قوی اور ثابت شدہ نہیں۔ آپ اس کی تفصیل ابن حجر کی کتاب فتح الباری میں دیکھ سکتے ہیں۔ملاحظہ ہو کتاب الحج، باب ماذ کر فی الحجر الا سود، جلد ۳، صفحہ ۵۴۰۔ ۵۴۱۔
سوال
حدیث میں آیا ہے کہ ختم نبوت کے بعد اللہ ہر صدی کے سرے پر ایک مجددبھیجتا رہے گا۔ کتابوں میں بھی اب تک کے مجدد کی فہرست دیکھی جا سکتی ہے۔ ان تمام ناموں کے گرد لوگ الگ الگ گروہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بعد عیسٰی علیہ السلام کی پیروی لازمی قرار پائی اور ان کے بعد نبی آخر الزماں حضور پاکؐ کی پیروی لازم قرار پائی۔ اسی طرح تمام مسلمانوں پر ان کے صدی کے مجدّد کی رہنمائی لازمی ہو گئی یا پہلے کے کسی مجدّد کی باتوں سے رہنمائی لینی ہو گی۔ ایسا دیکھا جاتا ہے کہ صدیاں گزر نے کے بعد بھی جو گروہ جس سے عقیدت رکھتا ہے وہ اسی کی بات آخری سند کے طور پر مانتا ہے جب کہ حالات کی تبدیلی پرانی باتوں کو غیر متعلق بناد یتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہر صدی کے سرے پر تمام ملکوں میں الگ الگ مجدّد ہوں گے یا تمام دنیا ئے اسلام کے لیے ایک ہی مجدّد ہوں گے۔ (وسیم اختر، کشن گنج)
جواب
مجدّد ایک خدمت ہے، وہ کوئی عہد ہ نہیں۔ نیز یہ کہ مجدد نبوت سے بالکل مختلف چیز ہے۔ نبی اپنے کام کا آغاز دعویٰ سے کرتا ہے۔ مگر مجدّد کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ دعویٰ سے اپنے کام کا آغاز کرے۔حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ درست نہیں کہ وہ کسی متعین شخص کے بارے میں یہ یقین کرلیں کہ وہ متعلقہ حدیث کے مطابق خدا کی طرف سے مبعوث ایک مجدّد ہے۔ مجدّد کے اس تصور کے مطابق، گروہ بندی اپنے آپ ختم ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ گروہ بندی کسی شخصیت کو یقینی معنوں میں مجدّد کا درجہ دینے سے بنتی ہے۔ اور جب کوئی شخص یقینی طور پرمجدد ہی نہ ہو تو اس کے نام پر جماعت کیسے بنے گی۔
اس معاملہ کا ایک واقعاتی ثبوت یہ ہے کہ بعد کے علماء متفقہ طور پر، عمر بن عبدالعزیز کواسلام کی تاریخ کا پہلا مجدّد مانتے ہیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، خود عمر بن عبدالعزیز نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں مجدّد ہوں اور نہ عمر بن عبدالعزیز کے ہم عصر علماء نے یہ اعلان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز اس صدی کے مجدّد تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ تجدید دین ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ یہ اصلاًایک مجتہد کا کام ہے، نہ کہ کسی مقلد کا۔ صحیح البخاری کی روایت کے مطابق، اجتہاد صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اس لیے اگر کوئی شخص تجدیدی کام کرے تو اس کے کام میں صواب اور خطادونوں کا احتمال رہے گا۔ یہ فیصلہ صرف خدا کرے گا کہ کوئی شخص سچا مجدّدتھا یا نہیں۔ ایسی حالت میں دعویٰ اور اعلان دونوں بے معنی ہوجاتے ہیں۔
سوال
میں الرسالہ کا مستقل قاری ہوں۔ لیکن میں مسلم ملت کے مسائل سے متعلق آپ کے خیالات سے متفق نہیں ہوں۔ ہندستان میں ہندو۔ مسلم کے ساتھ الگ الگ سلوک کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔ لیکن افسوس کہ آپ ہمیشہ مسلم قوم کو ہری ہری دکھاتے رہے ہیں۔ آپ سمجھتے کچھ ہیں اور مسلم قوم کو سمجھاتے کچھ ہیں۔ غیر ارادی طور پر آپ الرسالہ میں مسلم قوم کو جو مسائل درپیش ہیں ان کااعتراف بھی کرتے رہے ہیں۔ آخر جو حقیقت ہو تی ہے وہ ظاہر ہوہی جاتی ہے چاہے جتنا اس پر کوئی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔
اس کی تازہ مثال مارچ ۲۰۰۳ کا الرسالہ ہے۔ اس شمارہ کے صفحہ ۳۰ پر آپ نے انگریزی ماہنامہ مسلم انڈیا کے آخری ایڈیٹوریل کے ایک جملہ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے اس سے ان تمام لکھنے اور بولنے والوں کی تصدیق ہوتی ہے جو کہ آپ کے الفاظ میں منفی ذہن اور احتجاجی مزاج رکھتے ہیں۔ میں مسلم انڈیا کے جملے اور اس پر آپ کے تبصرہ کو یہاں نقل کر تا ہوں۔
The Muslim India, thus became the record of the comunity's struggle for dignity, equality and justice, shirking fanaticism and engaging chauvinism, at the same times.(P. 530)
’’ ان مطبوعہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم انڈیا کامقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو عظمت اور مساوات اور انصاف ملے۔ اسی کے ساتھ وہ ہندو کٹّرواد کے خطرے سے بچ سکیں۔ مگر جیسا کہ ہرآدمی جانتا ہے، یہ مقاصد کسی بھی درجہ میں پورے نہیں ہوئے۔ اس اعتبار سے بیس سال پہلے مسلمانوں کی جو حالت تھی وہی آج بھی برقرار ہے۔ ایسی حالت میں مسلم انڈیا کے بانی اور ایڈیٹر کویہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس لیے اب ہم اس میدان سے ہٹ رہے ہیں۔ اس کے برعکس انہوں نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ہمارامقصد پورا ہو چکا ہے اس لیے اب ہم اپنا آخری ایڈیٹوریل لکھ رہے ہیں۔‘‘
آپ کے مذکورہ تبصرہ میں صاف طور پر مسلمانوں کی اصل حیثیت یعنی ان کو ہندستان میں عظمت، مساوات اور انصاف کے نہ ملنے کا اعتراف ہے۔ ساتھ ہی وہ ہندو کٹرواد کا سامنا کررہے ہیں اورا ن کو گذشتہ بیس برسوں سے ان حالات کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو آپ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں کسی طرح کاکوئی خطرہ نہیں اور ان کو اس ملک میں پورا پورا انصاف مل رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس ملک میں ان کو پورے مواقع ملے ہوئے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپ کی کون سی بات حقیقت پرمبنی ہے۔ آپ کے اس مذکورہ تبصرہ کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دوسروں کی طرح آپ بھی منافقانہ روش پر چل رہے ہیں جس کاالزام آپ دوسروں کو دیتے رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ جو آپ کے دل میں ہے اس کو آپ چھپا رہے ہیں اور جو کہتے اور عوام کے سامنے لاتے ہیں وہ آپ کے اندر کی بات نہیں ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس خط کا مفصل اور تسلی بخش جواب دیں اور گستاخی معاف کریں۔(مشتاق احمد ندوی، ابوالفضل انکلیو، نئی دیلی)
جواب
میرے اندازہ کے مطابق، آپ نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ الرسالہ کے نقطہ ٔنظر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ورنہ آپ ایسا نہ لکھتے۔ میں مسئلہ کے وجود کامنکرنہیں ہوں۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے شکایت اور احتجاج کا طریقہ غیر مفید ہے اور تجربہ سے عملًا غیر مفید ثابت ہوا ہے۔
سوال
الرسالہ کی جادو بیانی کاتجربہ میں نے اخلاقی تعلیم کے دور میں کیا۔ الرسالہ کا سحر طلبہ وطالبات کو بے قابو کر دیتاتھا۔ ان میں فکر وکردار کی بلندی اور قوم و ملّت کے لیے کچھ کر گزر نے کا جوش مجھے حیران کر دیتا تھا۔ ان کی یہ حساسیت مجھے گہرے مطالعہ، بلند کردار اور وقف ہونے کے جذبے کو پروان چڑھاتی تھیں۔ استادِ محترم میری عمر تیس سال، (HINDI)B.ED,B.Aکرنے کے بعد ہائی اسکول میں معلّم کے فرائض انجام دے رہاہوں۔ معلمی کے ساتھ ہی میں نے اکسٹرنل طالب علم کی حیثیت سے اردو ادب میںB.A، اردو اور ہندی ادب میںM.Aکیا اور اس وقت پالیٹکس میں M.A. جاری ہے چھوٹا بھائی عمران بھی الرسالہ کا مستقل قاری اور آپ کا گرویدہ ہے۔ الرسالہ مشن کو مقامی سطح پر اخبار کے ذریعے عام کرنے کے لیے آپ کی اجازت کاخواہشمند ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم ہماری رہنمائی اور سرپرستی فرمائیں۔ (ناصر مبینی، نندربار، مہاراشٹر)
جواب
کام بقد رِشوق نہیں کیا جا تا بلکہ بقدرامکان کیا جاتا ہے۔ آپ کے موجودہ حالات کے لحاظ سے بروقت جو کچھ آپ کے لیے ممکن ہو وہاں سے اپنے کام کاآغاز کردیجیے۔ بقیہ چیز یں دھیرے دھیرے اپنے آپ ہوتی چلی جائیں گے۔
سوال
مولاناصاحب میرے حق میں اللہ پاک سے خاص طور پر دُعاکیجیے۔اللہ پاک نے لوگوں سے بہت بڑے بڑے کام لیے ہیں جن میں آ پ کا بھی شمار ہے۔میں پہلے بھی عرض کرچکاہوں اوراب بھی کررہاہوں کہ میرے لیے خاص طور سے دُعاکیجیے۔(کے رحمن)
جواب
دعا کی جاتی ہے، دعا کروائی نہیں جاتی۔ دوسری بات یہ کہ آپ حقیقت پسند بنیں۔ حالات کے مطابق جینا سیکھیں۔ یہ زندگی کاکوئی صحیح طریقہ نہیں کہ آدمی ایسا کام کرنا چاہے جو اُس کے حالات کے اعتبار سے ممکن نہ ہو۔ اپنے ممکن سے آغاز کیجیے۔ اپنے ناممکن سے آغاز کرنے کاخیال چھوڑ دیجیے۔
اسلامک ریپبلک نیوز ایجنسی کے سوالنا مے کا جواب
۱۔فلسطین کی تحریکِ آزادی کے سلسلے میں یوم القدس کی اہمیت کیا ہے۔ میرے نزدیک کسی تحریک کو مسلسل متحرک رکھنے کے لیے ایک علامت کی ضرورت ہوتی ہے اور قدس بلا شبہ اسی قسم کی ایک زندہ علامت ہے۔ قدس کی اہمیت اس مسئلہ کی نسبت سے اتنی زیادہ ہے کہ غالباً اس کا کوئی بدل ممکن نہیں۔
۲۔میرے نزدیک یوم ِقدس کی مذہبی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تحریک ِآزادیٔ فلسطین سے قدس کاجڑا ہوا ہو نا اس بات کی ضمانت ہے کہ تحریک آزادی ٔفلسطین کا اسلامی پہلو کبھی اس سے جدانہ ہو۔
۳۔میرے نزدیک یوم ِقدس کے موقع پر مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ تحریکِ آزادیٔ فلسطین کاری اسسمنٹ کرے، نشانے کے اعتبار سے نہیں بلکہ میتھڈ کے اعتبار سے۔ پیغمبر اسلام کی سنت سے ثابت ہے کہ کوئی مقصد جب ایک میتھڈ کے ذریعہ حاصل نہ ہو رہا ہو تو اس کے حصول کے لیے دوسرے میتھڈ کاتجربہ کیا جائے، جیسا کہ پیغمبر اسلام نے حدیبیہ پیس ایگریمنٹ کے موقع پر کیا۔ اس معاملے میں میری رائے یہ ہے کہ اس تحریک کے لیڈر اب تک وائلنٹ میتھڈ کے ذریعہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کو شش کرتے رہے مگر جیسا کہ معلوم ہے، اس کے مثبت نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ اس تجربے کے بعد اس تحریک کے لیڈروں کو چاہیے کہ وہ پیس فل میتھڈ کا تجربہ کریں۔ (۲۵ نومبر۲۰۰۲)