خدا کا کر یشن پلان

  خدا نے ایک دنیا بنائی، بے حد خوب صورت،ہرقسم کے کھلے مواقع، اور راحت کے ہر اعلیٰ سامان سے بھری ہوئی، خود خدا کے واحد استثناء کے بعد تمام موجودات میں سب سے بہتر چیز۔ قرآن کے مطابق، اس جنتی دنیا میں دو چیزیں وافر مقدار میں رکھ دی گئیں۔ ایک نعمت اور دوسرے آزادی (الدہر: ۲۰) اس دنیا میں ایک طرف ہرقسم کی نعمتیں تھیں اور دوسری طرف کامل آزادی کاماحول۔ خدا نے اس حسین دنیا کانام جنت رکھا۔

  اب خدا نے چاہا کہ وہ ایک مخلوق پیدا کرے جس کو اس حسین دنیا میں بسایا جا سکے، جو اس دنیا سے بھر پور طور پر متمتع ہو، جس سے خدا خوش ہوا ور جو خداسے خوش۔(البینۃ:۸)

  اس کے بعد خدا نے اپنے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو پیدا کیا۔ یہ انسان جوڑ ے کی صورت میں تھا جس کوآدم اور حوا کہا جاتا ہے۔ خدا نے اپنے اس منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنا نے والا ہوں(البقرہ: ۳۰) خلیفہ کے معنی عربی زبان میں، جانشین یا قائم مقام کے ہیں۔یعنی بعد کو آنے والایا کسی کی جگہ لینے والا۔ اسی لیے صاحب جلالین نے قرآن کی آیت:انی جاعل فی الارض خلیفۃ کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے: خلیفۃ یخلفنی فی الارض (ایک خلیفہ جوز میں میں میری جگہ لے گا) اسی خلافت کو قرآن میں دوسرے مقام پر الامانۃ (الا حزاب: ۷۲) کہا گیا ہے۔ یہاں امانت سے مراداختیارانہ اطاعت ہے۔

  اصل یہ ہے کہ خدا ساری کائنات کا واحد بادشاہ ہے۔ زمین وآسمان میں بلا شرکت صرف اسی کا اقتدار قائم ہے۔ ستارے اور سیارے، سورج اور چاند، سمندر اور پہاڑ، حیوانات اور نباتات، غرض پورا عالم موجود ات براہ راست طور پر خدا کی سلطنت کے تابع ہیں۔ ہر چیز ادنی انحراف کے بغیر خدا کے زیر حکم ہے۔

  اس عموم میں خدا نے صرف ایک جزئی استثناء رکھا اور وہ انسان کا استثناء تھا۔ خدا نے اپنی وسیع سلطنت کاایک بہت چھوٹا حصہ(زمین) کو انسان کے نام گویا الاٹ کردیا۔ اور پھر خدا نے انسانی جوڑ ے سے کہا کہ تم میری اس دنیا میں آزادانہ طور پرر ہو اور اس کی نعمتوں سے جس طرح چاہو فائدہ اٹھاؤ ۔ تاہم خدا نے ایک درخت کے بارے میں یہ ہدایت کی کہ تم اس درخت سے دور رہنا۔

  یہ درخت ایک علامتی درخت تھا۔ وہ اس بات کا ایک نشان تھا کہ انسان اگر چہ آزاد ہے مگر اس کی آزادی لامحدود آزادی نہیں ہے بلکہ وہ خدا کے بالا تر اقتدار کے ماتحت ہے۔ یہ آزادی خدا کے بالا تراقتدار کے تحت ایک قسم کی محدود آزادی تھی۔ مگر انسان(آدم وحوا) اس ابتدائی امتحان میں پورے نہ اتر ے۔ دونوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا(الاعراف: ۲۲) اس کے بعد خدا نے انسان کو جنت کی دنیا سے نکال کر موجودہ زمین میں بسا دیا اور کہا کہ تم لوگ اس زمین پر قیام کر و اور یہاں اپنی نسل کو بڑھاؤ  ۔ یہاں تم خدا کی نگرانی میں رہو گے۔پھر ایک وقت آئے گا جب کہ خدا تمہارے اوپر عدالت قائم کرے گا اور تم میں سے صالح لوگوں کو انعام دے گا اور برے لوگوں کو سزادے گا۔

  اس خدائی نقشہ کے مطابق، وہ وقت آنے والا ہے جب کہ انسان کو جنت میں دوبارہ داخلہ(re-entry) ملے۔ تخلیق کے پہلے نقشہ میں انسان کو پیدائشی طور پر(bybirth) جنت میں داخلہ مل گیا تھامگر انسان اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت نہ کرسکا۔اس لیے خدا نے تخلیق کے دوسرے مرحلے میں یہ اصول مقرر کیا کہ جنت میں داخلہ انتخابی بنیاد(selective basis)پر ہو۔ موجودہ دنیا میں انسان اپنے امتحانی مرحلہ میں ہے۔ جو لوگ یہاں اس امتحان کو کوالیفائی(qualify) کریں انہی کو جنت میں داخلہ ملے گا اور جو لوگ اس امتحان میں پورے نہ اتریں ان کو رد کرکے انہیں کائنات کے کوڑے خانہ (dustbin) میں ڈال دیاجائے گا۔

  موجودہ زمین پر انسان کو جو ٹسٹ دینا ہے اس کے دوبنیادی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دنیا کی نعمتوں کا استفادہ اس طرح کرے کہ وہ نعمت کے استعمال کے ساتھ بھر پور طور پر منعم کا اعتراف کررہا ہو۔ زمین پر رہتے ہوئے منعم کا کامل اعتراف کرنا یہی وہ صفت ہے جو کسی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کو جنت کی ابدی نعمتوں میں جینے کا حق دیاجائے۔ اس کا دوسراپہلو یہ ہے کہ دنیا میں ملی ہوئی آزادی کو وہ اس طرح استعمال کرے کہ پورااختیار رکھتے ہوئے بھی وہ اس احساس میں جی رہا ہو کہ اصل اقتدار خدا کاہے۔ خدا حاکم ہے اور میں محکوم۔ یہ خدا کی عنایت ہے کہ اس نے اپنی حاکمانہ حیثیت کے باوجود مجھے آزادانہ زندگی گزارنے کاموقع دے دیا۔ دنیا کے دارالامتحان میں یہی دو بنیادی پر چے ہیں۔ انہی دونوں پر چوں میں پاس ہونے یا فیل ہونے۔ پر آدمی کی اخروی زندگی کافیصلہ ہونا ہے۔ یعنی آزادانہ طورپر خود اپنے اختیار سے اپنے آپ کو خدا کامحکوم بنالینا۔

  قرآن کے مطابق، جنت ان افراد کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو نفس مزکیّٰ (طہ:  ۷۶) ثابت کریں۔ یعنی پاک روح(purified soul)۔موجودہ دنیا کا پورا ماحول اسی مقصد کے تحت بنا گیا ہے۔ اس لیے یہاں آدمی کو کبد میں پیدا کیا گیاہے(البلد: ۴) اس مقصد کے لیے دنیا میں یہ ماحول قائم کیا گیا ہے کہ یہاں لوگوں کے درمیان انٹرسٹ کاٹکراؤ  (clash of interest) پیش آئے،حتیٰ کہ باہمی عداوت کی نوبت آجائے(طہ: ۱۲۳) اس لیے دنیا خدا کی آیات(signs) سے بھری ہوئی ہے تا کہ آدمی ان سے نصیحت لے سکے۔

  فطرت کے اندر بے شمار خدائی راز چھپادیے گئے ہیں تا کہ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے ان رازوں کو دریافت کرے۔ اسی لیے دنیا میں حق کے داعی کو عام انسان کے روپ میں پیداکیا گیا تا کہ لوگ تعصبات سے اوپر اٹھ کر اس کو پہنچانے اور اس کی اطاعت کریں۔یہی وجہ ہے کہ تمام ربانی حقائق کو یہاں غیب کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے تا کہ انسان غور وفکر کے ذریعہ انہیں دریافت کرے۔طرح طرح کے مادی انٹرسٹ رکھ دیے گیے ہیں تا کہ انسان وقتی انٹرسٹ سے بلند ہو کر اعلیٰ سطح پر جینے کا ثبوت دے سکے۔ اس لیے انسان کے اندرانا ( (egoکا جذبہ رکھا گیا ہے تا کہ خدا یہ دیکھے کہ کون اپنی انا کا شکار ہو جاتا ہے اور کون انا کے خول سے باہر آکر بلند ترحقیقتوں کااعتراف کرتا ہے۔ اس مقصد کے تحت انسان کے اندر طرح طرح کی خواہش (desires) رکھی گئی ہیں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون خواہشوں کے جال میں پھنس جاتا ہے اور کون اس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

  اسی کے ساتھ خدا نے دنیا کی چیزوں کو اس طرح بنایا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر(element of doubt) لگاہوا ہے۔ مثلاً حق کاداعی ہے تو وہ بھی انسان کے روپ میں ہے، نہ کہ فرشتہ کے روپ میں۔ دنیا میں نعمتیں ہیں تو اسی کے ساتھ مصیبیتں(sufferings) بھی ہیں۔ خدا اپنی تخلیقات میں نمایاں بھی ہے مگر اسی کے ساتھ اس کی ذات کامل طور پر مخفی بھی ہے۔ یہ بھی انسان کے امتحانی پر چے کاایک جزء ہے کہ وہ شبہات کے پردے کو پھاڑ کر سچائی کو دیکھے۔ وہ ہر قسم کے ناخوشگوار پہلوؤ  ں سے بخیر خوبی گزرتے ہوئے اپنا روحانی اور فکری سفر جاری رکھے۔

  اس قسم کی تمام چیزیں انسان کے لیے شخصی ارتقاء(personality development) کے کورس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور یہی وہ ارتقاء یافتہ شخصیت ہے جو اس قابل ہو گی کہ اس کو جنت کی لطیف ونفیس دنیا میں بسا یاجائے۔

  خدا کا یہی تخلیقی نقشہ ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

     لَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ فِيٓ أَحۡسَنِ ‌تَقۡوِيمٖ ٤ ثُمَّ رَدَدۡنَٰهُ أَسۡفَلَ سَٰفِلِينَ ٥ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَلَهُمۡ أَجۡرٌ غَيۡرُ مَمۡنُون  (التین: ۴۔۶)

  ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کے لیے کبھی ختم نہ ہو نے والاا جر ہے۔

  قرآن کی ان آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک اعلیٰ مخلوق ہے۔ وہ ان تمام صفتوںکاحامل ہے جو اس کو جنت میں آباد کاری کے مستحق بنائیں۔ مگر جنت میں داخلہ سے پہلے انسان کو موجودہ زمین میں عارضی طور پر بسایا گیا۔یہاں ہر قسم کے امتحانی اسباب رکھے گئے۔ یہ اسباب اس کو قدم قدم پر جنت سے دور کر نے والے ہیں۔ا ن اسباب کو پہنچاننا اور ان اسباب کا شکار ہوئے بغیراپنی زندگی کا سفر کامیابی کے ساتھ جاری رکھنا، یہی وہ شرط ہے جو انسان کو اس کی مطلوب دنیا (جنت) میں اس کو پہنچانے والی ہے۔ یہی جنتی دنیا احسن تقویم کا اصل جائے مقام ہے۔جولوگ زمینی زندگی میں اس کا استحقاق ثابت نہ کر سکیں وہ پیدائشی طور پر احسنِ تقویم ہوتے ہوئے اسفل السافلین میں جاگرے۔

  اس معاملہ کی مزید وضاحت قرآن کی کچھ آیات سے ہوتی ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم ضرورتم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کوخوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کوکوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں:ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔(البقرہ: ۱۵۵۔۱۵۷)

  قرآن کے اس بیان میں زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ خدا نے اس دنیا کو انسان کے لیے آرام گاہ کے طور پرنہیں بنایاہے بلکہ اس کو امتحان گا ہ کے طور پر بنایا ہے۔ اس تخلیقی نقشہ کی بناپراس دنیا کو اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں بار بار انسان کے ساتھ جانچنے والے حالات پیش آئیں۔ یہاں بار بار ایسے ناموافق تجربات گزریں جو انسان کے ذہن کو شاک دینے والے ہوں۔ انسان کے ذہن میں مختلف قسم کے شبہات ڈال کریہ دیکھا جائے کہ وہ شبہہ کا شکار ہو گیا یا اس سے اپنے آپ کو بچانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی امتحانی مصلحت کی بنا پر زمین پر زلزلے آتے ہیں۔ تاکہ انسان کے یقین کو جانچیں۔ یہاں طرح طرح کی مصیبتیں(sufferings) پیش آتی ہیں تا کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان ان کی توجیہہ کرنے میں اپنے عقل کو صحیح طور پر استعمال کر سکا یا وہ اس میں ناکام رہا۔ اسی امتحانی مصلحت کی بنا پر یہاں ایسے ناخوشگوار حالات پیش آتے ہیں جو آدمی کے سینہ میں منفی جذبات کا طوفان برپا کریں۔ اس طرح خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون منفی جذبات کے سیلاب میں بہہ گیا اور کون اپنے آپ کو اس سے بچانے میں کامیاب رہا۔

  اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے سب سے اہم شرط صبر ہے۔ یہاں صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ساتھ جوبھی خوشگوار یا نا خوشگوار تجربات گذریں ان کو وہ خدا کے تخلیقی نقشہ کا نتیجہ قراردے۔ ہر تجربہ کااستقبال وہ اس طرح کرے کہ یہ صرف میری جانچ کے لیے ہے۔ میری ساری کوشش یہ ہو نا چاہیے کہ میں اس جانچ میں پورا اتروں۔ زندگی کے تجربہ کو وہ خدائی امتحان کا پرچہ سمجھ کرلے اور اسی اعتبار سے وہ  اس میں پورااتر نے کی کوشش کرے۔

  قرآن کے مطابق، دنیا کی مادی ترقی کسی کوملتی ہے تو وہ اس کو نعمت کے طور پر نہیں ملتی بلکہ وہ صرف اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی کو جانچا جائے(الکہف:۷  ) اسی طرح جب کسی کو سیاسی اقتدار ملے تو وہ بھی اس کو انعام کے طور پرنہیں ملتا بلکہ وہ اس کے لیے صرف اس بات کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اقتدار پا کرسرکش بنتا ہے یاوہ خدا کی وفاداری پر قائم رہتا ہے (النمل:۴۰) اسی طرح دنیا کی ہر چیز خواہ وہ خوش گوار ہو یا ناخوشگوار، ہر حال میں وہ امتحان کا ایک پر چہ ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر تجربہ جوانسان پر گذرتا ہے وہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی کے جنتی یا غیر جنتی ہونے کا فیصلہ کرے۔

  موجودہ دنیا کی فلسفیا نہ تو جیہہ کابنیادی نکتہ یہی ہے۔ موجودہ دنیا کو خدا کے تخلیقی نقشہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا ہر جزء اپنی فکری توجیہہ پالیتا ہے۔ اور اگر اس تخلیقی نقشہ کو سامنے رکھے بغیر دنیا کی توجیہہ کرنے کی کوشش کی جائے تو یقینی طور پر ایسی کوشش ناکام رہے گی۔ خدا کے تخلیقی نقشہ کی روشنی میں دنیا کو سمجھنا آدمی کو یقین کی طرف لے جاتا ہے۔جو لوگ اس تخلیقی نقشہ کو رہنما بنائے بغیر دنیا کی توجیہہ کرنا چاہیں وہ صرف ذہنی انتشار(Confusions) کا شکار رہیں گے، وہ اپنی تلاش کا اطمینان بخش جو اب کبھی نہ پاسکیں گے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom