مطالعۂ حدیث
حدیث کا مطالعہ، بالواسطہ طور پر، قرآن کامطالعہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو۔ ایک حدیث کے بارے میں جب اصولی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے تو شرعی اعتبار سے اس کا استناد ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ خود قرآن کااستناد۔
جہاں تک مضامین کا تعلق ہے، قرآن میں دین کی اساسی تعلیما ت کابیان ہے اور حدیث میں دین کی تفصیلی تعلیمات کابیان۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی اصولی تعلیمات حدیث کے متن ہی سے تفصیلی طور پر سمجھ میں آتی ہیں۔ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن کا سمجھنا ممکن ہی نہیں۔
حدیث کاذخیرہ، وسیع ترتقسیم کے اعتبار سے، دوقسم کے مضامین پر مشتمل ہے۔ ایک، روح اسلام اور دوسرے وہ چیز جس کو شرائع کہا جاتا ہے۔ زیر نظر مجموعہ میں زیادہ ترپہلی قسم کی احادیث کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
عربی زبان میں کثرت سے حدیث کی شرحیں لکھی گئی ہیں۔ یہ شرحیں زیادہ ترفنی پہلوؤ ں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ مثلا نحوی مسائل، اسناد کی بحث، حدیثوں میں تعارض کامسئلہ، مختلف فقہی مسالک سے احادیث کی مطابقت، وغیرہ۔
زیر نظر مجموعہ میں حدیث کی تشریح کایہ فنی انداز اختیارنہیں کیا گیا ہے۔ ہم نے صرف یہ کوشش کی ہے کہ حدیث میں نصیحت اور سبق کاجو پہلو ہے اس کونما یا ں کیا جائے۔
احادیث کو سمجھنے کے سلسلے میں چند اصول کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ان اصولوں کو اگر سامنے رکھ کر حدیث کامطالعہ کیا جائے تو وہ اشکالات پیدانہیں ہوں گے جو کچھ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حدیث کی اہمیت ہی کے بارے میں مشتبہ ہوجاتے ہیں۔
۱۔ اس سلسلے میں ایک چیز یہ ہے کہ حدیث میں بعض اوقات کسی حکم کو عمومی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ا س کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کومطلق مفہوم میں لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ کوئی بات اگر بظاہر مطلق انداز میں بیان کی جائے تب بھی وہ مطلق طور پر مطلوب نہیں ہوتی۔ اکثرحالات میں اس کا مقصد صرف تاکید ہوتا ہے۔ مثلا حدیث میں آیا ہے کہ: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ (مسلم وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں)۔(مسند احمد،6515)
اس حدیث میں بیک وقت دوقسم کاحصر موجود ہے۔ ایک یہ کہ حدیث کے الفاظ کے مطابق، اس میں مسلم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے جس میں ایمان وعبادات، وغیرہ کاکوئی ذکرنہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اس میں المسلمون ہے، نہ کہ الناس۔ مگر یہ دونوں باتیں اضافی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور عبادات کاتذکرہ نہ ہونے کے باوجودوہ یہاں معہودذہنی کے طور پر موجود ہے۔ اسی طرح المسلمون کے باوجود الناس بھی اس میں تبعاًشریک ہیں۔
۲۔ احادیث میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو حقیقۃً تمثیل کی زبان میں ہیں۔ مگر لوگ اس کو لفظی طور پر لے لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اشکال کاشکار ہوجاتے ہیں۔ مثلا حدیث میں آیا ہے کہ: فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ (گرمی جہنم کی پھونک سے ہے)(صحیح البخاری،538)۔ یہ جہنم کی گرمی کی شدت کو بتانے کے لیے ایک تمثیل ہے۔ اس کو لفظی مفہوم میں لینا صحیح نہ ہوگا۔ اسی طرح عذاب قبر کے بارے میں جوحدیثیں آئی ہیں وہ بھی تمثیل کی زبان میں ہیں، نہ کہ حقیقت کی زبان میں
۳۔ اسی طرح حدیث کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کسی ایک حدیث کو لے کررائے قائم نہ کی جائے بلکہ مختلف حدیثوں کامجموعی مطالعہ کرنے کے بعدرائے بنائی جائے۔ مثلا ًحدیث میں آیا ہے کہ إِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔(مسند احمد: 11143) اگر کوئی شخص اس حدیث کولے کریہ کرے کہ جہاں کہیں اس کوکوئی بات حق اور عدل کے خلاف دکھائی دے وہاں وہ فوراً اس کے رد میں تقریر کرنے کے لیے کھڑاہو جائے تو یہ حدیث کی تعمیل نہ ہو گی۔ کیوں کہ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ: من صمت نجا۔ دونوں حدیثوں کو ملا کر غور کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کہیں بولنا مطلوب ہوتا ہے تو کہیں یہ مطلوب ہوتا ہے کہ آدمی خاموشی اختیار کرلے۔
۴۔ کبھی کسی حدیث میں ایک بات حکم جیسے الفاظ میں آتی ہے۔ حالاں کہ اس سے صرف زجر و توبیخ مقصود ہوتی ہے۔مثلاًحدیث میں آیا ہے کہ جولوگ جماعت کی نماز ترک کرتے ہیں، میراجی چاہتا ہے کہ میں ان کے گھروں میں آگ لگادوں۔ یہ الفاظ ز جروتوبیخ کے لیے ہیں ان کولفظی معنوں میں لینا درست نہیں۔
۵۔ احادیث کے مطالعہ کے دوران یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ بہت سے مسائل میں احادیث کے درمیان اختلاف ہے۔مثلاًنماز کے طریقوں کے بارے میں۔ ان اختلافی احادیث کی بنیاد پر کافی بحثیں جاری رہی ہیں۔ کوئی ایک روایت کو افضل قرار دیتا ہے اور دوسری کو غیر افضل، کوئی ایک روایت کو راجح قرار دیتا ہے اور دوسری روایت کومرجوح۔ راقم الحروف کے نزدیک اس مسئلہ کازیادہ بہترحل وہ ہے جس کو ابن عبدالبر نے اپنی کتاب بیان فضائل العلم واہلہ میں بیان کیاہے۔
اس کے مطابق، ان اختلافات کافکری حل یہ ہے کہ ان کو تنوع اور توسع پر محمول کیاجائے۔ یعنی ایک اور دوسرے کے درمیان ترجیح تلاش کرنے کے بجائے دونوں ہی کو یکساں طور پر درست مان لیا جائے۔ یعنی یہ کروتب بھی ٹھیک ہے اور وہ کروتب بھی ٹھیک۔ ان اختلاف کوتنوع کامظہر قرار دینے کی صورت میں سب سے بڑافائدہ یہ ہوتا ہے کہ اختلاف،بحث وگفتگو کاموضوع نہیں رہتا۔ اور ذہن زیادہ اہم مفاہیم پر مرتکز ہوجاتا ہے۔
۶۔ حدیث کے مطالعہ میں عام طورپر علماء کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ سند کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے مگر کسی بھی چیز میں غلونقصان کاباعث ہوتا ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کسی حدیث کی بنیاد پر کوئی حکم یاحجت قائم کرنا ہو تو اس وقت سختی کے ساتھ سند کو اہمیت دینا چاہیے۔ لیکن جب کوئی ایسی حدیث سامنے آئے جواپنے مفہوم کے اعتبار سے قرآن سے متعارض نہ ہو اور اس سے نصیحت اور تذکیر حاصل ہوتی ہو تو ایسی حدیث کو قبول کرنے میں میرے نزدیک کوئی حرج نہیں۔
۷۔ تاہم فضائل کی روایات کے بارے میں میرانقطہ ٔ نظر کسی قدر مختلف ہے۔فضائل کی روایتیں زیادہ تر یاتو ضعیف ہیں یاموضوع۔ ان روایتوں کی ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ظواہر اعمال کے فضائل پر ہوتی ہیں۔ مثلاً فضائل کی روایتوں میں فضائلِ تلاوت تو ملے گی مگر فضائلِ تدبر نہیں ملے گا۔ اسی طرح ان میں فضائلِ عبادت تو ہو گا مگر فضائلِ خشوع نہیں ہوگا۔ ان میں فضائلِ قربانی تو ہو گا مگر فضائلِ تقویٰ نہیں ہو گا۔ اس بنا پر فضائل کی روایتوں سے یہ ذہن بنتا ہے کہ ظواہرِ اعمال ہی کا نام عبادت ہے۔ حالاں کہ اصل عبادت وہ ہے جو داخلی اسپرٹ سے تعلق رکھتی ہے، جس کو قرآن میں خشوع، خضوع، اخبات، تقویٰ، وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۸۔ کوئی حدیث بظاہر ایک مخصوص معنی میں ہوتی ہے۔ اگراس حدیث کو لفظی طور پر لیا جائے تو وہ ایک خاص حکم تک محدود ہو کررہ جائے گی۔ حالانکہ پیغمبر ِاسلام کی نبوت جب عالمی ہے تو آپ کے کلام میں بھی عالمی پہلو ہونا چاہیے۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ کسی حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کو وسیع ترسیاق (broader context) میں رکھ کر دیکھا جائے۔
مثال کے طور پر روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ۔(صحيح البخاري: 1385)(ہر پیداہونے والا فطرت ِصحیح پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنا دیتے ہیں اور اس کو نصرانی بنا دیتے ہیں اور اس کو مجوسی بنادیتے ہیں)۔
اس حدیث میں بظاہر تین مذہبی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مگر وسیع تر پہلو سے دیکھا جائے تو یہ حدیث ایک نہایت اہم حقیقت کو بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے اندر خودصحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی ؟)صلاحیت نہیں ہوتی۔ بچپن اور نوجوانی کی پوری عمر وہ اسی ناپختہ ذہن کے ساتھ کسی ماحول میں گزارتا ہے۔ یہ ماحول مسلسل طور پر اس کے ذہن کی کنڈیشننگ(conditioning) کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر ایک کنڈیشنڈانسان بن جاتا ہے۔ ذہن کی کنڈیشننگ کایہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتاہے، کسی بھی مرد یا عورت کا اس میں کوئی استثناء نہیں۔
ایسی حالت میں ہر انسان کی یہ ایک لازمی ضرورت ہے کہ پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد وہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرے۔ وہ اپنے ذہن کے اوپر چڑھی ہوئی مصنوعی تہوں کو ہٹائے تا کہ وہ حقیقتوں کو اس فطری ذہن کے ساتھ دیکھے اور سمجھے جو خالقِ حقیقی کی طرف سے اس کو پیدائشی طور پر دیا گیا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کا یہ عمل ہر ایک کو کرنا ہے۔ اس عمل کے بغیر کوئی بھی شخص صحیح الفکر(right thinker) نہیں بن سکتا۔
ڈی کنڈیشننگ کایہ عمل بے حد سنجیدہ عمل ہے۔ اس میں ہر مرد اور عورت کو خود اپنے ذہن کی سرجری کرنی پڑتی ہے۔ ڈھونڈ ھ ڈھونڈ ھ کر ان خیالات کونکالنا پڑتا ہے جو ماحول کے اثر سے اس کے اندرداخل ہو گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ناپختہ عمر میں ہونے والی یہ کنڈیشننگ ہر آدمی کے ذہن کو افکار کا ایک جنگل بناد یتی ہے۔ اس فکری جنگل کو صاف کرنے کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔ یہ تطہیر صرف اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ آدمی بے رحمانہ طور پر اپنے ذہن کا فکری آپریشن کرنے کے لیے تیار ہو۔
۹۔ حدیثوں کے مطالعہ میں ایک مزاج یہ بن گیا ہے کہ ان سے بس جزئی مسائل اخذکیے جاتے ہیں۔ کلی مسائل پر ان کو چسپاں نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ اس قسم کاذہن حدیث کی معنویت کو گھٹانے کے ہم معنی ہے۔ اس ذہن کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگوں نے جزئی مسائل میں توحدیث سے رہنمائی حاصل کی مگر وہ زیادہ اہم مسائل میں حدیث سے رہنمائی حاصل نہ کر سکے۔
مثلا ًایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (سنن ابن ماجه: 3976) (آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ایسے کام کو چھوڑ دے جس میں کوئی فائدہ نہیں)۔ اس حدیث سے عام طور پر صرف کچھ چھوٹے چھوٹے مسئلے نکالے جا تے ہیں۔مثلا ًکسی دینی مجلس میں بیٹھ کر ایک آدمی کسی تنکے سے کھیلے تو کہاجائے گا کہ یہ ایک بے فائدہ کام ہے، اس کو نہ کرو۔ مگر اس قسم کی تشریح اصل حدیث کی تصغیر کے ہم معنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث سے زندگی کے تمام معاملات کے لیے ایک نہایت اہم رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اس حدیث سے یہ جامع اصول ملتا ہے کہ ہمارا اقدام ہمیشہ نتیجہ رخی (result oriented) ہوناچاہیے۔ کوئی ملی منصوبہ بنا یاجائے تو سب سے پہلے یہ غور کیاجائے کہ یہ منصوبہ نتیجے کے اعتبار سے مفید ہو گایا نہیں۔ کسی سے شکایت ہوجائے اور اس کے خلاف لڑائی چھیڑنا ہو تو یہ اندازہ کیا جائے کہ لڑائی کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گایا نہیں۔ کسی مقام پر کوئی سیاسی پروگرام بنایاجائے تو پیشگی طور پر اچھی طرح جائزہ لیاجائے کہ یہ پروگرام برعکس نتیجہ کا سبب تونہیں بن جائے گا، وغیرہ۔
اس سے معلوم ہواکہ کسی اقدام کا بے نتیجہ ثابت ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کی زدآدمی کے ایمان واسلام تک جاتی ہے۔ سچاایمان آدمی کے اندر گہری سنجید گی پیدا کرتا ہے۔ سچا اسلام آدمی کو آخری حدتک محتاط بنا دیتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ کہ ایمان واسلام والا آدمی ایسا اقدام کرے جو نتیجے کے اعتبار سے الٹا(counter productive) ثابت ہونے والا ہو۔
۱۰۔ جیسا کہ معلوم ہے حدیث کی تدوین عباسی خلافت کے دور میں ہوئی۔ اسی زمانے میں فقہ کی تدوین بھی ہورہی تھی۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ حدیث کامطالعہ فقہ کی روشنی میں کیا جانے لگا۔ یہ سلسلہ کئی سوسال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ حدیث کے مطالعہ کا ایک معلوم فریم ورک بن گیا اور وہ فقہی فریم ورک تھا۔مزید یہ کہ مختلف اسباب سے خود فقہ کا مطالعہ زیادہ تر جزئی مسائل یاجزئیات ِشریعت تک محدود ہو گیا۔
اس کا اثر حدیث کے مطالعہ پر بھی پڑا۔اس کی مثالیں حدیث کی شرحوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ بعد کے زمانے میں جتنی بھی شرحیں لکھی گئیں تقریباً ہر ایک میں شرح کاوہ انداز غالب آگیا جس میں صرف دوچیزیں شارح کی توجہ کامرکزی بنی رہیں۔ حدیث کی فنی حیثیت پر بحث، یا اس کے فقہی پہلوؤ ں کی وضاحت جن کا تعلق زیادہ تر شریعت کے وقتی یاجزئی پہلوؤ ں سے تھا۔ حدیث کے اس رواجی طرزِ مطالعہ کانتیجہ یہ ہوا کہ حدیث کی آفاقی معنویت گم ہو گئی۔ حدیث میں ابدی رہنمائی کاجو پہلو تھا وہ امت کی نگاہوں سے اوجھل ہو کررہ گیا۔ اس معاملہ کی مثالیں بعد کے زمانے میں لکھی جانے والی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔ یہاں میں اس کی وضاحت کے لیے ایک تازہ مثال درج کرتاہوں۔سویڈن شمالی یورپ کا ایک ملک ہے۔ یہاں کاموسم ہمیشہ غیر معتدل رہتا ہے۔ کبھی رات بہت چھوٹی اور دن بہت لمبا اورکبھی دن بہت چھوٹا اور رات بہت لمبی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دن اور رات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ سویڈن میں کافی مسلمان آکر آباد ہو گئے ہیں۔ ان کے سامنے یہ سوال ہے کہ یہاں کے علاقہ میں پانچ وقت کی نماز کس طرح پڑھی جائے۔ تقلیدی علماء کااصر ار ہے کہ یہاں بھی اسی طرح سورج کے اعتبار سے نماز ادا کی جائے گی جس طرح دنیا کے دوسرے علاقوں میں کی جاتی ہے۔مگر سویڈن میں مقیم مسلمانوں کے لیے یہ بے حد دشوار گذار ہے، بلکہ تقریبا ًناقابلِ عمل ہے۔سویڈن کی راجدھانی اسٹاک ہام میں عربوں کے تعاون سے ایک بہت بڑا اسلاملک سنٹر اورمسجد کی تعمیر کی گئی ہے۔ جون۲۰۰۳ میں یہاں مسلمانوں کا ایک بڑا جلسہ ہوا۔ اس میں عرب کے ایک عالم دکتور یوسف القرضاوی مہمان خصوصی کے طورپر بلائے گئے۔
عرب عالم کے سامنے نماز کے اوقات کامسئلہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس کاحل یہ بتایا کہ آپ لوگ ایسا کریں کہ معتدل علاقوں کااعتبار کرتے ہوئے گھڑی کے لحاظ سے نماز کے اوقات مقررکرلیں۔ یعنی سورج کا اعتبار نہ کرکے گھڑی کا اعتبار کرنا۔ اپنے اس فتویٰ کی تائید میں انہوں نے ایک حدیث پیش کی۔
صحیح البخاری میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ یہ تھا کہ جب بھی آپ کو دومیں سے ایک کاانتخاب کرنا ہو تا تو آپ ہمیشہ مشکل انتخاب (harder option) کو چھوڑ دیتے اور آسان انتخاب (easier option) کولے لیتے۔مَا خُيِّر النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا(صحيح البخاري: 6404)۔ انہوں نے کہا کہ سویڈن کے حالات میں سورج کا اعتبار کرکے نماز کے اوقات مقرر کرنا مشکل ہے۔ اس کے برعکس گھڑی کا اعتبار کرکے اوقات کومقرر کرنا آسان ہے اس لیے حدیث کے مطابق آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ گھڑی کااعتبار کرکے نماز کے اوقات مقررکریں۔ اس اصول کو انہوں نے تیسیرالفتویٰ کانام دیا۔ یعنی فتویٰ میں آسانی کا طریقہ اختیار کرنا۔
عرب عالم کایہ فتویٰ بلا شبہہ درست ہے۔ مگر عجیب با ت ہے کہ دکتور یوسف القرضاوی (اور دوسرے علماء) اس شرعی اصول کو فلسطین اور دوسرے مقامات پر ہونے والے متشدِّدانہ جہاد پر منطبق نہ کر سکے۔ اس دوسرے معاملہ میں ان علماء نے تقریباً متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا کہ موجودہ مسلح جہاد عین اسلامی جہاد ہے۔ اور اس میں مرنے والے لوگ شہید کادرجہ پارہے ہیں۔ حتی کہ خود کش بمباری(suicide bombing) کو بھی انہوں نے اسلامی جہاد بتایا، حالاں کہ صحیح البخاری کی مذکورہ روایت کی روشنی میں تیسیرا لفتویٰ کاجواصول انہوں نے وضع کیا ہے اس کی روشنی میں اگر وہ ان جہادی سرگرمیوں کو دیکھتے تو ان کافتویٰ بالکل مختلف ہوتا۔اب وہ کہتے کہ ان مجاہدین کے لیے دو میں سے ایک کے انتخاب(choice) کامعاملہ ہے۔ یعنی پرامن طریقِ کار(peaceful method) اور متشدِّدانہ طریقِ کار(violent method)۔ا ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ عمومی پالیسی کے مطابق موجودہ مسلمانوں کویہ کرنا چاہیے کہ وہ آسان طریقِ کار کو اختیار کریں۔ یعنی متشدِّدانہ طریقِ کا رکو چھوڑ دینا اور پرامن طریقِ کار پر کاربند ہوجانا۔مگر رواجی فقہی فریم ورک کی بنا پر وہ ایسا نہ کر سکے۔
حدیث اور سنت میں موجودہ زمانے کے لیے نہایت کامیاب رہنمائی موجو دتھی۔ مگر ہمارے علماء کا ذہن رواجی فقہی فریم ورک میں اٹکارہا۔ اس کایہ ناقابلِ تلافی نقصان ہوا کہ وہ حدیث کی آفاقی معنویت کودریافت نہ کرسکے، وہ امت کو جدید حالات کے لحاظ سے صحیح شرعی رہنمائی دینے میں ناکام رہے۔
مذکورہ محدود ذہنی نقشہ کی بنا پر ایسا ہوا کہ ان علماء نے نماز کے طریقہ کومتعین کرنے کے بارے میں تیسیر الفتویٰ کے اصول کو اختیار کیا، مگر جہاد کے طریقہ کو متعین کرنے کے بارے میں، برعکس طور پر، تعسیر الفتویٰ کااصول۔ اس فرق کے نتیجے میں امت ِمسلمہ کو موجودہ زمانے میں جو نقصانات پہنچے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کاشمار ممکن نہیں۔