ایک خط

برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب    السلام علیکم ورحمۃ اللہ

  ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ قرآن فہمی کے اصول وشرائط کے بارے میں ہزاروں کتابیں اور مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے اصولوں کو قرآن فہمی کی لازمی شرط بتایا گیا ہے۔ مگر مطبوعہ ریکارڈ کے مطابق، ایک اہم ترین شرط اس میں شامل نہیں ہو سکی ہے۔ اور وہ خود قرآن کے بیان کے مطابق، تقویٰ ہے۔

  قرآن کے آغاز ہی میں یہ آیت موجود ہے کہ قرآن اہل تقویٰ کے لیے ہدایت ہے (ہدی للمتقین)۔ اس کے بعد دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، اللہ تم کو علم کی تو فیق دے گا(اتقو اللّٰہ و یعلمکم اللّٰہ

  میرے مطالعہ کے مطابق،تقویٰ کی دو قسمیں ہیں۔ فطری تقویٰ اور شرعی تقویٰ۔ شرعی تقویٰ کا تعلق اہل ایمان سے ہے اور فطری تقویٰ کاتعلق اہل ایمان اور غیر اہل ایمان دونوں سے ہے۔ شرعی تقویٰ وہ ہے جو خدا کی شعوری معرفت کے بعد پیداہوتا ہے۔ اور فطری تقویٰ سے مراد وہ چیز ہے جس کو عام طور پر سنجیدگی (Sincerity) کہا جاتا ہے۔ سنجید گی بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی متاع ہے۔ سنجید گی سے دیانت دارانہ فکر(intellectual honesty) پیدا ہوتی ہے۔ سنجیدہ انسان اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ آبجیکٹیو(objective) طور پر دیکھ سکے۔ سنجیدہ انسان اس کا تحمل نہیں کر سکتا کہ حقیقت سامنے آنے کے بعد وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ سنجیدہ انسان کے اندر تو اضع(modesty) کا مل طور پر موجود رہتی ہے۔ وہ کبر کی نفسیات سے پوری طرح خالی ہوتا ہے۔ سنجیدہ انسان کے اندر یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ کہہ سکے کہ میں غلطی پر تھا۔ حق شناسی کی لازمی شرط سنجید گی ہے۔ جو شخص حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہو وہ حق کو پانے میں کبھی ناکام نہیں رہتا۔

  اس سلسلہ میں مجھے بار بار ذاتی تجربات پیش آئے ہیں۔ ایک دلچسپ تجربہ وہ ہے جو ۲۲؍ فروری ۲۰۰۴ کو دہلی میں ہوا۔ اس تاریخ کو کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک سیمینار تھا۔ اس میں مجھے تقریر کے لیے بلایا گیا تھا۔ وہاں دوسرے مقررین کے ساتھ مسٹر بلراج مدھوک بھی موجود تھے۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ دوقومی نظریہ(two nation theory) ڈاکٹر محمد اقبال اور مسٹرمحمد علی جناح کے ذہن کی پیداوار ہے۔ اس نظریہ کاکوئی تعلق قرآن یا اسلام سے نہیں۔ اس سلسلہ میں میں نے کہا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے پیغمبروں نے اور خود پیغمبر اسلام نے اپنے جن معاصرین کو خطاب کیا، وہ بت پر ست(idol-worshippers) تھے۔ دونوں کا مذہب اگرچہ الگ الگ تھامگر دونوں کی قومیت ایک مانی گئی کیوں کہ دونوں کا وطن ایک تھا۔

  قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یَاقومِ(اے میری قوم) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدائی دین کے مطابق، قومیت کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ وطن سے ہوتا ہے۔ یعنی جن لوگوں کاوطن(homeland) ایک ہووہ سب ایک قوم شمار کیے جائیں گے، خواہ ان کامذہب الگ الگ ہو۔ میرے بعد مسٹر بلراج مدھوک کی تقریرتھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ دوقومی نظریہ خود قرآن میں موجود ہے۔ جن لوگوں نے یہ نظریہ بنایا ہے انہوں نے قرآن ہی سے اس کو بنا یا ہے۔ قرآن انسانوں کے درمیان تفریق سکھاتا ہے۔ مولانا صاحب قرآن کے اس چہرہ پر وہائٹ واش(whitewash) کررہے ہیں۔ مسٹر بلراج مدھوک نے یہ بات کہی مگر انہوں نے اپنی تائید میں قرآن کاکوئی حوالہ نہیں دیا۔ مسٹر بلراج مدھوک کی تقریر آخری تقریر تھی جس کے بعد اسٹیج سے کسی اور تقریر کاموقع نہ تھا۔

  سیمینار کے بعد حاضرین میں سے کچھ نوجوانوں نے مسٹر بلراج مدھوک سے ملنا چاہا مگر وہ نہیں ملے کیوں کہ پروگرام کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔ بعد کو ان نوجوانوں نے سیمینار کے منتظمین سے ٹیلی فون پررابطہ قائم کیا اور مسٹر بلراج مدھوک کاپتہ اور ٹیلی فون نمبر معلوم کرنا چاہا لیکن منتظمین نے اس معاملہ میں کچھ بتانے سے معذوری ظاہر کی۔ آخر کار ایک اور ذریعہ سے معلوم ہوا کہ مسٹر بلراج مدھوک دہلی میں ہیں مگر وہ لوگوں سے ملاقات پسند نہیں کرتے۔

  مذکورہ نوجوان مسٹر بلراج مدھوک سے مل کر صرف ایک سوال کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہ کہ مولانا صاحب نے اپنی تقریر میں ایک واضح حوالہ دے کر کہا تھا کہ قرآن کے مطابق، قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہب سے۔ یعنی جن لوگوں کا وطن ایک ہوان کی قومیت بھی ایک ہو گی۔ خواہ مذہبی اعتبار سے وہ الگ الگ عقیدہ رکھتے ہوں۔ آپ نے اس کو غلط بتایا۔ لیکن آپ نے اپنے دعویٰ کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی۔ مولانا صاحب دلیل کی زبان میں بول رہے تھے اور آپ الزام کی زبان میں۔ آپ جس بھارتیتا کے علمبردار ہیں، کیا وہ یہی ہے کہ دلیل کاجواب الزام کی زبان میں دیاجائے۔ مگر کوشش کے باوجود یہ نوجوان مسٹر بلراج مدھوک سے ملاقات نہ کر سکے۔

  دلیل کا اعتراف نہ کرنے کا یہ مزاج خود مسلمانوں میں بھی بہت بڑے پیمانہ پر موجود ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق، حق کو پانے میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دلیل کا اعتراف کرنے کا مزاج کسی آدمی میں جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ حق کو پانے میں کامیاب ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ فطری تقویٰ کی زمین میں ہر شرعی تقویٰ کا ہر ابھر اباغ اُگتا ہے۔ جہاں فطری تقویٰ نہ ہووہاں یقینی طور پر شرعی تقویٰ بھی موجود نہ ہوگا۔

نئی دہلی   ۲۸؍فروری  ۲۰۰۴         دعاگو            وحید الدین

 

ایک خط

برادرم مسٹر زبیراحمد اکبانی  السلام علیکم ورحمۃ اللہ

  ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کے چھوٹے بچہ کا انتقال ہوگیا۔ یہ آپ کے لیے یقینا ایک سخت حادثہ ہے۔ مجھے خود بھی اس قسم کا ایک تجربہ تقریباً ساٹھ سال پہلے پیش آچکا ہے۔ اس لیے میں اس معاملہ میں آپ کے احساس کو سمجھ سکتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر کی توفیق دے اور آپ کے لیے حسن تلافی کی صورت پیدافرمائے۔

  حدیث میں آیا ہے کہ جب کسی مومن کا چھوٹا بچہ وفات پاجائے تو وہ ا س کے لیے آخرت میں فرط اور ذخربنے گا۔ فرط کے معنی عربی زبان میں مقدم کے ہوتے ہیں، یعنی پیشگی بھیجا جانے والا۔ مثلاًعربی زبان میں کہا جاتا ہے فَرَّط الیہ رسولًا(کسی کو قاصد بنا کر پیشگی طور پر آگے بھیجنا) اور ذخر کے معنی ذخیرہ کے ہوتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کو وقت ِضرورت کے لیے محفوظ رکھنا۔ مثلاً کہاجاتا ہے: اعمال المومنین ذخائر عنداللّٰہ(مومنین کے اعمال،اللہ کے یہاں ذخیرہ ہیں)۔

  چھوٹے بچہ کی وفات کے بارے میں یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اس حدیث کے مطابق، وفات پانے والا بچہ اپنے والدین کے لیے ایک محفوظ سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے جو گویا پیشگی طور پر آخرت کی دنیا میں بھیجا گیا ہے تا کہ وہ ضرورت کے وقت وہاں والدین کے کام آئے، وہ خدا کے یہاں اپنے والدین کے لیے ایک معصوم سفارشی بن جائے۔

  مگر یہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب کسی کاکوئی چھوٹابچہ وفات پاجائے تو وہ اپنے آپ عالم آخرت میں والدین کے لیے فرط اور ذخربن جائے گا۔ یہ خوش قسمتی صرف ان والدین کے ساتھ پیش آئے گی جو اسی اسپرٹ کے ساتھ ہونے والے واقعہ کا استقبال کریں۔ ہونے والا واقعہ ان کے دل ودماغ میں اسی حیثیت سے ڈھل جائے۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ اگرچہ بظاہر وفات پانے والے بچہ کی نسبت سے ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ والدین کی نسبت سے ہے۔ یعنی والدین کو چاہیے کہ وہ اس حادثہ کو اسی اسپرٹ کے ساتھ لیں، وہ اس کو کھوئی ہوئی چیز کے طور پر لینے کے بجائے ایک محفوظ سرمایہ کی حیثیت سے قبول کریں۔ وہ اس کے مطابق، خدا سے اپنے لیے دعا کریں۔

  اسلام کا یہ عقیدہ ایک بندۂ خدا کے لیے عظیم نعمت ہے۔ یہ گو یا ایک کھوئے ہوئے سرمایہ کو دوبارہ کیش کرنا ہے۔ یہ عارضی دنیا میں ہونے والے ایک نقصان کو مزید اضافہ کے ساتھ ابدی دنیا میں دوبارہ پالینا ہے۔

  موجودہ دنیا کا نظام امتحان کی مصلحت کے تحت بنا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا میں بار بار یہ صورت پیش آتی ہے کہ آدمی کو مصیبت کاتجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ عام حالات میں ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔مگر اسلام کے عقیدہ نے اس ناقابل برداشت کو قابل برداشت بنا دیا ہے۔

  یہ عقیدہ آدمی کو یہ بلند فکری دیتا ہے کہ وہ وقتی مسائل سے اُوپر اُٹھ کر سوچ سکے۔ وہ اس کو یہ ہمت دیتا ہے کہ وہ کسی نقصان کو صرف وقتی نقصان سمجھے اور اپنی نگاہ ہمیشہ آگے کہ طرف لگائے رہے۔

  جس آدمی کایہ عقیدہ نہ ہو، وہ صرف اپنے حال میں جیے گا۔ مگر جوآدمی اس عقیدہ کو پاچکا ہووہ مستقبل میں اپنے لیے جینے کا سامان پالے گا۔

نئی دہلی،۱۸؍مارچ ۲۰۰۴       دعاگو    وحیدالدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom