خبرنامہ اسلامی مرکز۱۶۱

  ۱۔انڈین ایکسپریس کے نمائندہ مسٹر دیو یانی اونیل(Devyani Onial) نے ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ موضوع تھا، اسلام اور مسلمان۔ اسی کے ساتھ ُانہوں نے اسلامی مرکز کے مشن کے بارے میں دریافت کیا۔ ان موضوعات پر اُنہیں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اصل یہ ہے کہ مسلمان میں نظر ثانی کی ضرورت ہے، نہ کہ اسلام میں۔

  ۲۔انٹرنیشنل کونسل فارورلڈ پیس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے ساؤ  تھ کو ریا کا سفر کیا۔ وہاں کی راجدھانی سول میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس کاانعقاد کیا گیا تھا۔ اس کاموضوع تھا، ورلڈایٹ اے ٹرننگ پوائنٹ(World at a Turning Point)۔ یہ سفر ۹ اگست ۲۰۰۳ کو شروع ہوا اور ۱۶  اگست ۲۰۰۳ کو واپسی ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کانفرنس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اُس کی رودادان شاء اللہ ماہنامہ الرسالہ میں سفر نامے کے تحت شائع کر دی جائے گی۔

  ۳۔امریکن انسٹی ٹیوٹ کے زیر انتظام ۱۹  اگست ۲۰۰۳ کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ایک اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کے نوجوان شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پوراپر وگرام انگریزی میں تھا۔ صدر اسلامی مرکز اس کے واحد مقرر تھے۔

  ۴۔ایران ٹی وی کی ٹیم نے ۲۶  اگست ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترماہِ رمضان کے

 روز ے سے تھا۔ سوال وجواب کے دوران روزہ کا انفرادی اور اجتماعی فائدہ بتایا گیا۔ انفرادی اعتبار سے روزہ کامقصد صبر وشکر اور تقویٰ کی اسپرٹ پیدا کرنا ہے اور اجتماعی اعتبار سے اس کامقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں دینی فضابنائی جائے۔ یہ انٹرویو انگریزی میں تھا۔

  ۵۔سہاراسمے(نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر سریواستو نے۲۶  ۱گست ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدراسلامی مرکز کاانٹرویولیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ایودھیا کے اِشوپر ہرآدمی نے بولنا شروع کر دیا۔ یہ بہت غلط تھا۔ ۹۹ آدمی جب چپ ہو تے ہیں تب ایک کو بولنے کاموقع ملتا ہے۔

  ۶۔نئی دہلی کے انگریزی ماہنامہ فورس (Force) کی نمائندہ غزالہ وہاب نے ۲۹  اگست ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویولیا(Tel:91-120-2433268)۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر یونیفارم سول کوڈ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یونیفارم سول کوڈ کی بات محض ایک وہم ہے۔کیوں کہ ایساکبھی ہونے والا ہی نہیں۔ اگر کوئی یونیفارم سول کو ڈبنا یاجائے اور اس کو اختیار کرنا قانونی طور پر لازم قرار دیاجائے تو وہ دستور ِہند میں دی ہوئی آزادی کے خلاف ہو گا۔ اس لیے وہ سپریم کورٹ میں رد ہوجائے گا۔ اور اگر وہ اختیار ی ہو تو اس کو بنانے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیوں کہ اختیاری نوعیت کا کامن سول کوڈآج بھی موجود ہے اور یہ وہی ہے جس کو سول میریج ایکٹ کہا جاتا ہے۔

  ۷۔تری ویندرم میں قائم شدہ شانتی گری آشرم کے زیرِاہتمام ۳۱ اگست ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے کیرلا ہاؤ  س میں ایک فنکشن ہوا۔ اس کی صدارت سابق راشٹرپتی مسٹر کے آرنارائنن نے کی۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی۔ یہ فنکشن امن اور روحانیت کے موضوع پر تھا۔ صدراسلامی مرکز نے اس موضوع پرقرآن وحدیث کے حوالے سے ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں تھا۔

  ۸۔وگیان پر یشد اور ڈاکٹر کے۔ سی گپتا کی طرف سے میرٹھ میں ۶۔۷ ستمبر ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام کااہتمام کیا گیا۔ اس کے تحت صدراسلامی مرکزنے میرٹھ کا سفر کیا۔ وہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ان کے کئی پروگرام ہوئے۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ ماہنامہ الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔

  ۹۔نئی دہلی کے ست گامتی کالج(Sat Gamati College) میں اس کی آرٹس اینڈ کلچر س سوسائٹی کے تحت ایک اجتماع ہوا۔ یہ اجتماع ۱۲؍ ستمبر ۲۰۰۳ کو کیا گیا۔ اس اجتماع میں صدراسلامی مرکز کو اسلام کے پیغام امن پربولنے کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس میں شرکت کی۔ کالج کے ہال کی تقریباً تمام سیٹیں بھر ی ہوئی تھیں۔اُ نہوں نے ایک گھنٹہ اسلام کے موضوع پر تقریر کی۔ اس کے بعد ایک گھنٹہ تک سوال وجواب ہوا۔ لوگوں نے کافی اطمینان کا اظہارکیا۔ آخر میں طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے صدراسلامی مرکز نے حضرت علی کایہ قول سنایا: قیمۃ المرء مایحسنہ(The value of a man lies in excellence) اُنہوں نے طلباء سے کہا کہ اس قول کی روشنی میں آپ کو میں یہ نصیحت کروں گاکہ:

Always do your best, and ensure success.

  ۱۰۔اِناڈوٹی وی کی ٹیم نے ۱۹ ستمبر ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کاموضوع عالمی امن تھا جو ہر سال ۲۱ ستمبر کو دنیا بھر میں منایاجاتا ہے۔ جوابات کے تحت بتایا گیا کہ امن انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ مگر امن کادن منا کر امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ شعوری اور تعلیمی جدوجہد کے ذریعہ لوگوں کے ذہن کی تربیت کی جائے۔ لوگوں کو ذہنی اعتبار سے امن پسند بنایاجائے۔

  ۱۱۔بی بی سی ورلڈ سروس کے نمائندہ مسٹر سنیل ککسل (Sunil Kuksal) نے ۲۳ ستمبر ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کاانٹرویولیا۔ یہ انٹرویوٹیلیفون پر تھا۔ ان کا سوال یہ تھا کہ انڈیا کے ایک شہر میں ایک نیا دار الا فتاء قائم ہوا ہے جس مسلم خاتون،مفتیہ کاکام کریں گی۔ کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ جو اب میں بتایا گیا کہ عورت کا مفتیہ ہو نا شرعی اعتبار سے جائز ہے۔ اسلام کے دورِاول میں خواتین مفتیہ کا کام کرتی تھیں۔ فتویٰ کے لفظی معنی رائے(opinion) کے ہیں۔ ہر عالم یا عالمہ کو یہ حق ہے کہ وہ کسی شرعی مسئلہ میں اپنے علم کی بنیاد پر رائے دے۔ مفتی یامفتیہ کی رائے نہ عدالتی فیصلہ ہے اور نہ وہ مقدس ہے۔

  ۱۲۔امن کے قیام کے مقصد کے تحت ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کانام یہ ہے:

Interreligious and International Federation for World Peace

  ریورینٹ مون اس ادارہ کے چیر مین ہیں۔ ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ کی شام کو اس ادارہ کے تحت نئی دہلی میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر (انیکسی) میں ایک سیمینار ہوا۔ اس میں دہلی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس سیمینار کاموضوع تھا، پرنسپلس آف پیس (Principles of Peace)۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی۔ اس میں ذریعۂ اظہارِ خیال انگریزی تھا۔ مختلف لوگوں نے تقریریں کیں۔ صدراسلامی مرکز نے قرآن کی آیت (حٰم السجدہ: ۳۴) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو کوئی تم سے بُراسلوک کرے، تم اس سے اچھا سلوک کرو۔ پھر تم دیکھو گے کہ جو تمہارادشمن تھا وہ تمہارادوست بن گیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس قرآنی آیت کے مطابق، ہر دشمن ہماراامکانی دوست(potential friend) ہے۔ حاضرین نے اس کو بہت پسند کیا اور کہا کہ ہم کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن میں ایسی آیت بھی موجود ہے۔ حاضرین میں زیادہ ترہندو اور عیسائی اور سکھ حضرات تھے۔

  ۱۳۔ٹی این این (Todays News Netwroks Limited) کی ٹی وی ٹیم ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۳ کو مسٹر پرویز احمد کی قیادت میں اسلامی مرکز میں آئی۔ اس نے صدراسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر دومسئلوں سے تھا۔ حج کے لیے گورنمنٹ کی سبسڈی اور یکساں سول کوڈ کامسئلہ۔ حج کے معاملے میں بتایا گیا کہ تمام مسلم ملکوں میں حکومتوں کی طرف سے حج کے لیے سبسڈی دی جاتی ہے اور علماء نے کبھی اس کو غلط نہیں قرار دیا۔ یہی حکم ہند ستان میں گورنمنٹ کی طرف سے دی جانے والی حج سبسڈی کا بھی ہے۔ ہندستان کی گورنمنٹ کوئی غیر مسلم گورنمنٹ نہیں، وہ ایک نیشنل گورنمنٹ ہے۔ اس میں مسلمان بھی برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں ا س کا حکم بھی وہی ہے جو مسلم ملکوں کی حکومتوں کاہے۔ یکساں سول کوڈ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ایک خیالی چیز ہے۔ وہ کوئی قابلِ عمل چیز نہیں۔ اور جو چیز عمل میں آنے والی ہی نہ ہو اس پر اندیشہ کرنے کی کیا ضرورت۔

  ۱۴۔آچار یہ شری مہاپر جنا پروس دیو ستھا سمیتی (سورت) اور جین وشو ودھیا لے(دہلی) کے اشتراک سے سورت میں ایک کانفرنس ہوئی جس کے خصوصی مہمان صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبدالکلام تھے۔

  صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اس کے بعد احمد آباد کی ایک تنظیم پراٹ کی دعوت پر انہوں نے احمد آباد کا سفر کیا۔ دونوں مقامات پر ان کے مختلف پروگرام ہوئے۔ یہ سفر ۱۳  اکتوبر ۲۰۰۳ کو شروع ہوااور ۱۹ ۱ کتوبر ۲۰۰۳ کو ختم ہوا۔ اس سفر کی روداد ان شاء اللہ ماہنامہ الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔

  ۱۵۔نئی دہلی میں کناڈاکے ہائی کمشنر کی رہائش گاہ پر ۲۰؍۱ کتوبر ۲۰۰۳ کو ایک خصوصی اجتماع ہوا۔ یہ کناڈا کے ایک ڈیلی گیشن کی آمد پر ہو اتھا۔ اس ڈیلی گیشن میں کناڈا کے سینئر لیڈر شامل تھے۔ یہ لوگ اپنی ہند ستان آمد کے موقع پر اسلام اور مسلمان کے موضوع پر معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے صدر اسلامی مرکز کو مدعو کیا۔ یہ دوگھنٹہ کا پروگرام تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں پہلے موضوع پر ایک تقریر کی اور پھرڈیلی گیشن کے افراد کے سوا لات کا جواب دیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان میں اس وقت مسلمان ۵۷ مسلم ملکوں سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ اس وقت ہند ستان میں مسلمانوں کی تعداد کسی بھی دوسرے مسلم ملک سے زیادہ ہے۔ یہاں کے مسلمان ہر میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں ان کو ہر قسم کی دینی اور دنیوی ترقی کے لیے کھلے مواقع حاصل ہیں۔ بعض ناخوش گوار واقعات ضرور یہاں ہوئے ہیں مگر ان کی حیثیت استثناء کی ہے، نہ کہ عموم کی۔

  ۱۶۔انندتا چکر برتی (Anindita Chakrabarti) دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں(Tel: 044-24425693)۔ وہ انڈیا کی مسلم دینی جماعتوں پر ریسرچ کررہی ہیں۔ اُنہوں نے اس موضوع پر ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کے دوران بتایاگیا کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں جو تحریکیں چل رہی ہیں وہ صرف جزئی طور پر دینی تحریکیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ملت وار تحریک ہے، کوئی سیاست وارتحریک، کوئی مسائل وار تحریک ہے اور کوئی مسجد وارتحریک۔ حقیقی معنوں میں کوئی بھی اسلام کے احیاء کی تحریک نہیں۔

  ۱۷۔اِناڈوٹیلی ویژن کے رپورٹر مسٹر راجیو رنجن سنگھ نے ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا ویڈیوانٹرویور یکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق سماجی تعمیر میں عدالت کے کردار سے تھا۔ ایک سوال یہ تھاکہ عدالت عالیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ دیوالی میں رات کو دس بجے کے بعد پٹاخہ نہ چھوڑا جائے۔ جو اب میں بتایا گیا کہ اس قسم کے معاملات کی اصلاح قانون کے ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔سماج میں شعوری بیداری لائے بغیرسماج میں سدھار لایانہیں جا سکتا۔

  ۱۸۔نئی دہلی کے برٹش ہائی کمیشن میں ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۳ کو ایک خصوصی میٹنگ ہوئی۔ اس میں ہندستان کے دس مذہبوں کے ممتاز نمائندے شریک ہوئے۔ یہ میٹنگ برطانیہ کے پرنس چارلس کی درخواست پر ہوئی جواِن دنوں انڈیا آئے تھے۔ صدراسلامی مرکز کو اس میں اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ اُنہوں نے اپنی تقریرمیں بتایا کہ اسلام کس طرح پر امن تعمیر کاحامی ہے۔ اس تقریر کے بعد پر نس چارلس نے ان سے سوال کیا کہ صوفی اِزم کا اثر مسلم سماج پر کم کیوں ہے اور جہادی اسلام کااثر زیادہ کیوں۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ بات صرف جزئی طور پر صحیح ہے۔ صوفی اسلام کا اثر مسلم سماج میں پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ البتہ حال میں بعض سیاسی اور قومی اسباب سے جہاد کے نام پر کچھ سرگرمیاں ہورہی ہیں۔مگر یہ اسلامی جہاد نہیں ہے۔ یہ صرف قومی لڑائی ہے۔

  ۱۹۔یروشلم میں قائم شدہ الیجا اسکول(The Elijah School for the Study of Wisdom in World Religions UNESCO)کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کو ایک دعوت نامہ ملا۔ اس کے ڈائرکٹر الون گوشین گاٹسٹین(Alon Goshen-Gottstein) ہیں۔ اس میٹنگ کو الیجا اسکول اور فاؤ  نڈیشن فارتھری کلچر س آف دی مڈیٹرینین (Foundation for Three Cultures of the Mediterranean) نے آرگنائز کیا تھا۔ اندلوسیا کی گورنمنٹ کے انویٹیشن سے اسپین کے شہر اشبیلیہ (Secille) میں یہ کانفرنس ۱۴۔۱۷ دسمبر ۲۰۰۳ کو منعقد ہوئی۔ یہ عالمی مذہبی شخصیتوں کا اجتماع (Meeting of World Religious Leaders) تھا جس کاموضوع عالمی امن اور مذہبی ہم آہنگی تھا۔ مگر بعض وجوہ سے صدر اسلامی مرکز اس میں شرکت نہ کر سکے۔ تاہم موضوع سے متعلق کچھ ضروری میٹریل انہیں بذریعہ ای میل بھیج دیا گیا۔

  ۲۰۔بہار سے موصولہ ایک خط یہاں نقل کیا جا تا ہے۔ مرکز  تعمیر انسانیت اور مانوتا نر مان کیندر کے تحت تعمیری، اصلاحی اور دعوتی کام اور سرگرمیاں برابر جاری ہیں۔ کچھ ماہ قبل سے آپ کی انگریزی کتاب کافوٹو کاپی کراکر اور کچھ اُردو کتاب چھپوا کر اور اس کاسٹ تیار کر کے لوگوں کے درمیان برائے مطالعہ مفت تقسیم کررہاہوں۔ کتابوں کا یہ سیٹ بنا کر پولیتھن بیگ میں پیک کر کے اُردو، ہند ی اور انگریزی میں خاص وعام لوگوں کے درمیان مفت میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ گذشتہ ماہ ’’ انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ دوہزار کاپیاں برائے تقسیم یہاں چھپوائی گئی ہیں۔ اُردو، ہندی اور انگریزی میں آپ کی کچھ کتابوں کو ہزار دوہزار کی تعداد میں چھپوا کر اور آپ کے مضامین کو ہینڈ بل اور فولڈر کی صورت میں چھپواکر لوگوں میں مفت تقسیم کرنے کا سلسلہ اب جاری رہے گا۔ اُردو الرسالہ شمارہ ماہِ اکتوبر ۲۰۰۲ میں ’’ امن کلچر ‘‘ میں سے چار صفحہ کا فولڈراگلے ماہ میں پانچ ہزار چھپوا کر تقسیم کرنے کا اراد ہ ہے۔ اس میں امن کیا ہے، قرآن ایک کتاب امن، اسلام ایک مذہب ِامن ہے اور۔ امن اور تشدد میں فرق، تک فولڈر میں رہے گا۔(عظیم الدین ضیفی، گیا)

  ۲۱۔۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ کو سوئڈن کی راجدھانی میں ایک بڑا اجتماع ہوا۔ اس میں صدراسلامی مرکزنے دہلی سے خطاب کیا۔ یہ خطاب ٹیلیفون کے ذریعہ ہوا۔ احادیث اورآثار کی روشنی میں اسٹاک ہام میں مقیم مسلمانوں سے آدھ گھنٹہ خطاب کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، لوگوں نے اس خطاب کو بہت پسند کیا۔

  ۲۲۔دبئی میں قائم شدہ اے آروائی گولڈ (ریڈیوچینل) کے نمائندہ نے دہلی میں ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویوٹیلی فون پر ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ حج کے بارے میں ہندستانی حکومت جو سبسڈی دیتی ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ وہ بالکل جائز ہے۔ تمام مسلم ملکوں میں حاجیوں کو اس قسم کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہندستانی حکومت کی سبسڈی بھی جائز ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

  ۲۳۔سہاراسمے(ٹی وی چینل) کی ٹیم نے ۳۰؍۱ کتوبر ۲۰۰۳ کوصدراسلامی مرکز کاٹی وی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر ضمیر ہاشمی تھے۔ سوالات کا تعلق اسلام کے مختلف موضوعات سے تھا۔ مثلاً روزہ کے سماجی فوائد، اسلام میں جہاد کا حکم، وغیرہ۔ قران وحدیث کی روشنی میں تمام سوالات کے جواب دیے گئے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ اسلام کی تعلیمات کو صرف ثواب وعذاب کی اصطلاح میں بیان کرنا کافی نہیں۔ علماء کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ جدیدذہن کو سمجھیں اور اسلام کی تعلیمات کو ایسے انداز میں بیان کریں جو آج کے انسان کے لیے قابلِ فہم ہو۔ جس کو سن کر آج کا انسان یہ سمجھے کہ اسلام موجودہ زمانے سے بھی اتنا ہی تعلق رکھتا ہے جتنا کہ وہ پچھلے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔

  ۲۴۔جو ہانسبرگ میں چینل اسلام انٹرنیشنل کے پروگرام کے تحت صدراسلامی مرکز نے ۱۵منٹ کی ایک تقریر یکم نومبر ۲۰۰۳ کو انگریزی میں کی۔ تقریر دہلی سے ٹیلی فون پر کی گئی جسے جو ہانسبر گ میں ریڈیو پرنشرکیا گیا۔ اس کا موضوع اسلام اور پیس تھا۔

  ۲۵۔انٹرریلجس اور انٹرنیشنل فیڈریشن فارورلڈ پیس(IIFWP) کے زیر انتظام ایک تین روزہ سیمینار (۷۔۹نومبر ۲۰۰۳) ہوا جس کاموضوع ’’ لیڈر شپ‘‘ تھا۔ یہ سیمینار گڑگاؤ  ں کے رِزورٹ بسٹ وسٹرن کورٹ کنٹری کلب میں منعقد کیا گیا۔ اس کاپورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر مختصر اظہار خیال کیا۔

  ۲۶۔اے آروائی گولڈ(ریڈیوچینل) دبئی کے تحت مسٹر پرویز ہاشمی نے ۲۰ نومبر ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدراسلامی مرکز کا ایک انٹرویو دبئی سے ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر دو موضوع سے تھا۔ رویتِ ہلال اور جہاد۔ رویت ہلال کے بارے میں بتایا گیا کہ قرآن میں فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ  کالفظ آیاہے۔ اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ رصد گاہ کی شہادت شرعی طور پر معتبر ہے۔ اس کو مان لیاجائے تو تمام نزاع اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ جہاد کے بارے میں بتایا گیا کہ جہاد اسلام میں صرف دفاع کے لیے ہے اور اس کا حق صرف باقاعدہ حکومت کو حاصل ہے۔ موجودہ زمانے میں جہاد کے نام سے جو غیر حکومتی سرگرمیاں جاری ہیں ان میں سے کوئی بھی شرعی جہاد نہیں۔

  ۲۷۔واردھا میں قائم شدہ انسٹی ٹیوٹ آف گاندھین اسٹڈیز کے تحت مختلف مذاہب کا ایک سیمینار ہوا۔ یہ پانچ دن(۲۳۔۲۷نومبر ۲۰۰۳) تک جاری رہا۔ اس میں ہر مذہب کے لیے ایک دن خاص کیا گیا تھا۔ ۲۶ دسمبر کا دن اسلام کے لیے مخصوص تھا۔ صدراسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اور ۲۶ دسمبر کے اس پروگرام میں تفصیل کے ساتھ اسلام کا تعارف پیش کیا گیا۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کایہ پروگرام ہوا۔ اس کی رودادان شاء اللہ الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔

  ۲۸۔اہنساٹی وی (نئی دہلی) نے ۵ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کاویڈیو انٹرویور یکارڈ کیا۔سوالات کا تعلق زیادہ تر اہنسا کے نظریہ سے تھا۔ جوابات میں بتایا گیا کہ اہنسایاعدم تشدد فطرت کا ایک اصول ہے۔ اس دنیا میں پرامن طریقِ کار کے ذریعہ کام بنتے ہیں اور متشددانہ طریقِ کار کے ذریعہ کام بگڑ جاتے ہیں۔ اسلام میں تشدد کاا ستعمال صرف ناگزیردفاع کے لیے جائز ہے۔ دفا ع کے سوا کسی اور مقصد کے لیے تشدد ہر گز جائز نہیں۔ اسلام میں اصل اہمیت امن کی ہے۔

  ۲۹۔اہنساٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم ۵؍دسمبر ۲۰۰۳ کو مرکز میں آئی۔ا س نے صدراسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کاموضوع اہنسا (عدم تشدد) تھا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کی تمام تعلیمات عدم تشدد کے اصول پر مبنی ہیں۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت تشدد کو پسند نہیں کرتی۔ا س لیے اسلام میں بھی تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلام میں جارحیت کی صورت میں ناگز یر ضرورت کے طور پر دفاعی جنگ جائز ہے۔ جب پُر امن طریقِ کار کا اصول قابل عمل ہو تو ہر گز تشدد کا طریقہ استعمال نہیں کیاجائے گا۔ چنانچہ اسلام میں گوریلا وار، پراکسی وار، اعلان کے بغیر وار اور جارحانہ وار یہ سب سراسر ناجائز ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom