تاریخِ دعوت: آدم سے دابّہ تک

تاریخ کیا ہے۔ تاریخ علم کی ایک شاخ ہے جس میں ماضی کامنظم مطالعہ کیا جاتا ہے:

History—a systematic study of past events

قدیم زمانے سے تاریخ کے مطالعے کا یہ طریقہ رہا ہے کہ سیاسی واقعات(plitical events) کو یونٹ بنا کر حالات کو قلم بند کیا جائے۔ مثلاً انڈیا کے حوالے سے اُس کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے راجاؤں کے عہد کا ذکر کیا جائے اُس کے بعد مغلوں کا دَور، اُس کے بعد انگریزوں کا دَور،اُس کے بعد کانگریس کا دَور، وغیرہ۔ مَوجودہ زمانے میں آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975) نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ اُس نے تہذیب (civilization) کو یونٹ بنا کر اپنی مشہور کتاب ’اسٹڈی آف ہسٹری (A Study of History)تیار کی۔

تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو اُس میں یہی ترتیب نظر آئے گی، مگر اِس طریقِ مطالعہ میں تاریخ کا ایک اہم پہلو چھوٹ گیا ہے، اور وہ ہے خدا کے پیغمبروں کی تاریخ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معروف تاریخ کے ساتھ تاریخ کا ایک اور دھاراہر زمانے میں چلتا رہا ہے۔ یہ پیغمبروں کی تاریخ کا دھارا ہے۔ مگر تاریخ کا یہ دھارا مدوّن تاریخ میں بہت کم رکارڈ ہوسکا۔

پیغمبروں کی تاریخ کا ماخذ نسبتاً بہت محدود ہے۔ بنیادی طورپر اُس کے تین ماخذ ہیں— بائبل، قرآن اور حدیث اور اَثریات(archaeology)۔ ببلکل لٹریچر (Biblical literature)میں اِس سلسلے میں کافی معلومات پائی جاتی ہیں، لیکن وہ بہت کم مستند ہیں۔

قرآن اور حدیث کی حیثیت تاریخ انبیاء کے ایک مستند ماخذ کی ہے، لیکن اہل علم کے نقطۂ نظر کے مطابق، اُس کی حیثیت زیادہ تر اعتقادی ہے۔ آرکیالوجی، یعنی کھدائی کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات اہلِ علم کے نزدیک مستند ہیں، لیکن اُن کا بڑا حصہ استنباطی معلومات کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم موجودمعلومات کی روشنی میں ہم تاریخ انبیاء کا ایک مختصرخاکہ مرتب کرنے کی کوشش کریں گے۔

مذہبی عقیدے کے مطابق، آدم پہلے انسان تھے اور ساتھ ہی پہلے پیغمبر بھی۔ آدم مکمل معنوں میں ایک انسان تھے۔ آدم کے بعد طویل تاریخ میں برابر خدا کے پیغمبر آتے رہے، ہر زمانے میں اور ہر مقام پر۔ یہ سلسلہ مسیح ابنِ مریم تک جاری رہا۔ اُس کے بعد 570ء میں خدا نے محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب کو پیدا کیا۔ وہ سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اُن کے بعد اب اور کوئی نبی آنے والا نہیں۔

محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم)سے پہلے آنے والے پیغمبروں پر خدا کا جو کلام اُترا، وہ اپنی اصل صورت میں محفوظ نہ رہ سکا۔ اِن پیغمبروں کی زندگی کا بھی مستند رکارڈ موجود نہیں۔

پچھلے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتاب کیوں صحیح صورت میں محفوظ نہ رہی۔ اس کا سبب بنیادی طورپر یہ ہے کہ کسی پیغمبر کی کتاب یا اس کا کلام صرف اُس وقت صحیح صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے جب کہ اُس کے معاصر پیروؤں کی تعداد کافی زیادہ ہو۔ تاکہ خود پیغمبر کی نگرانی کے تحت اُس کے زمانے میں حفاظت کا کام ممکن ہوسکے۔ لیکن پچھلے پیغمبروں کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا۔ بعد کی نسلوں نے اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو مرتب کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کیوں کہ اُس وقت تک پیغمبر کی چھوڑی ہوئی تعلیمات میں کافی بگاڑ آچکا تھا۔

مثال کے طور پر حضرت مسیح کو لیجیے۔ حضرت مسیح کے معاصر پَیرو بہت کم تھے۔ اُن کے حالات اتنے سقیم تھے کہ حضرت مسیح کے کلام کو محفوظ کرنا اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ بعد کی نسلوں میں حافظے کی مدد سے حضرت مسیح کے احوال یا ان کا کلام مرتب کیا گیا، لیکن نسل در نسل تبدیلی ہونے کی بنا پر بعد کے ناقلین کو حضرت مسیح کے بارے میں جو کچھ ملا، وہ کافی بدل چکا تھا۔ اب بائبل کی صورت میں جو چیز موجود ہے، وہ حضرت مسیح کے بارے میں بعد کے زمانے کا رکارڈ ہے، جب کہ وہ بدلتے بدلتے اپنی اصل حیثیت کو ختم کرچکا تھا۔

پیغمبر اسلام کے ساتھ خدا کا یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کی لائی ہوئی خدائی کتاب (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی۔اِس بنا پر اب نیے پیغمبر کی ضرورت نہیں۔ آپ کی لا ئی ہوئی کتاب اب پوری طرح مستند صورت میں موجود ہے۔ آپ کے متّبعین نسل بعد نسل دنیا میں پائے جارہے ہیں۔ یہ چیزیں پیغمبر کا بدل ہیں۔ پیغمبر نے جو کام ذاتی طور پر کیا تھا، اب وہی کام پیغمبر کے متبعین کے ذریعے نسل در نسل ہوتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ دوسرے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتاب زمانۂ تبدیلی میں مرتب کی گئی، جب کہ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی کتاب دورِ اوّل ہی میں محفوظ کر لی گئی، اِس سے پہلے کہ اُس کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہو۔

پیغمبرانہ مشن کی اِس تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اُس کے چند دور قرار پاتے ہیں۔ یہ اَدوار تاریخی ترتیب کو نہیں بتاتے، بلکہ عمل کی مختلف نوعیت کو بتاتے ہیں۔ اِن اَدوار کو حسب ذیل تقسیمات کی صورت میں بیان کیا جاسکتاہے:

1 - آدم سے لے کر مسیح تک کا زمانہ۔

2 - ہاجرہ اور اسماعیل کے ذریعے ایک نئی نسل کی تیاری۔

3 - اصحاب رسول کی صورت میں ایک منتخب ٹیم کی تشکیل۔

4 - سیاسی جبر کا خاتمہ اور آزادی کے دَور کا آغاز۔

5 - توہماتی طرزِ فکر کا خاتمہ، فطری حقائق کے انکشاف کے بعد سائنسی دلائل کے ذریعے دعوتی کام کا آغاز۔

6 - سائنسی انقلاب کا ظہور میں آنا۔

7 - دابّہ (النمل: 82) کا ظہور اور عالمی دورِ دعوت کا آغاز۔

8 - اخوانِ رسول کا رول۔

مذکورہ درجہ بندی میں پہلا زمانہ وہ ہے جو حضرت آدم اور پیغمبر اسلام کے درمیانی زمانے میں آنے والے پیغمبروں سے تعلق رکھتا ہے۔ اِن تمام پیغمبروں کے زمانے میں بظاہر کوئی بڑا انقلابی واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن اُن میں سے ہر ایک نے نہایت اہم کام انجام دیا۔

یہ تمام پیغمبر مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں آئے۔ ہر ایک نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ایک عملی طریقہ، قرآن کے لفظوں میں ’منہاج‘ اختیار کیا۔ اِس اعتبار سے اُن میں سے ہر ایک کو خداپرستانہ زندگی کے لیے ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔ اِن میں سے تقریباً دو درجن پیغمبروں کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اور اُن کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (الأنعام:90) یعنی اُن میں سے ہر ایک، خدا کے دین کا ماڈل ہے۔ اُن میں سے ہر ایک یہ بتاتا ہے کہ مختلف حالات میں خدا پرستانہ زندگی کی عملی صورت کیا ہونا چاہیے۔

اِس معاملے میں دوسرا رول ہاجرہ اور آلِ ابراہیم کا ہے۔ انھوں نے غیر معمولی قربانی کے ذریعے ایک انقلابی کام انجام دیا۔ اِس کے بعد کام کے دوسرے مراحل پیش آتے رہے۔ ان کی تفصیل میں نے اپنی کتابوں میں پیش کی ہے۔ مثلاً ’اسلام دورِ جدید کا خالق‘ اور ’ظہور اسلام‘ وغیرہ۔

دابّہ کے لفظی معنی ہوتے ہیں رینگنے والا(creeper)۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اس سے مراد کوئی عجیب الخلقت حیوان نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں ملٹی میڈیا (multi media) کہا جاتا ہے۔ ملٹی میڈیا سرعتِ رفتار کے ساتھ حق کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق، دابّہ کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے۔ دابّہ خود نہیں بولے گا، بلکہ وہ دورِجدید کے داعی کی آواز کو لے کر ساری دنیا میں اس کو پہنچادے گا۔ یہاں تک کہ کوئی چھوٹا یا بڑا گھر اُس سے خالی نہ رہے گا۔ دابّہ، داعی کا ہتھیار ہوگا، وہ خود انسان کے مانند کلام نہیں کرے گا۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔

دابّہ کو اگر اس معنیٰ میں لیا جائے کہ وہ ایک عجیب الخلقت حیوان ہوگا اور حیوان ہونے کے باوجود وہ معجزاتی طورپر خود انسانی زبان میں کلام کرے گا۔ ایسا اگر مانا جائے تو یہ حالتِ امتحان کے خاتمے کے ہم معنیٰ ہوگا۔ اور قیامت کے ظہور سے پہلے حالتِ امتحان ختم ہونے والی نہیں۔

روایات کے مطابق، دابّہ کا ظہور قیامت سے پہلے ہوگا۔ اِس بنا پر دابّہ کے ظہور کو ایک ایسا خرقِ عادت واقعہ نہیں مانا جاسکتا جو حالتِ امتحان کو ختم کردینے والا ہو۔دابّہ کے بارے میں تفسیر کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں بتایا گیا ہے کہ: تکلّمہم بلسان ذلق، فتقول بصوت یسمعہ مَنْ قرُب وبَعد (القرطبی، جلد 13، صفحہ 238) یعنی دابّہ لوگوں سے تیز زبان میں بولے گا، وہ ایسی آواز میں بولے گا جس کو قریب والے بھی سنیں گے اور دور والے بھی سنیں گے۔

اِس کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ دابّہ کی خود اپنی آواز ساری دنیا میں براہِ راست طورپر سنائی دے گی تو یہ ایک ناقابلِ فہم بات ہے۔ کیوں کہ اگر دابّہ اتنی زیادہ بلند آواز میں بولے کہ ساری دنیا کے لوگ اُس کو براہِ راست طورپر سنیں تو لوگ اُس کو سننے سے پہلے صرف اس کے صوتی دھماکے ہی سے مرچکے ہوں گے۔ اِس قسم کی بلند آواز انسانوں سمیت تمام چیزوں کو دفعۃً تباہ کردے گی۔ اُس کے بعد کوئی سننے والا ہی نہیں ہوگا جس کو کوئی سنانے والا سنائے۔

اِس طرح کی اور بھی کئی باتیں روایات میں آئی ہیں۔ اِس لیے دابّہ کے سلسلے میں جو روایات آئی ہیں، ان کو درست مانتے ہوئے اُن کی تاویل کی جائے گی، نہ یہ کہ ان کو لفظی طورپر درست مان لیا جائے۔میرے مطالعے کے مطابق، دابّہ کمیونی کیشن کے زمانے کا ایک مشینی ہتھیار ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو آج کل ملٹی میڈیا کہاجاتا ہے۔

حدیث میں بعد کے زمانے کے ایک گروہ کا ذکر کیاگیا ہے، اِس گروہ کو ’اخوانِ رسول‘ کا نام دیا گیا۔میری سمجھ کے مطابق، جولوگ دابّہ کے اِس جدید دعوتی امکان کو استعمال کرکے ساری دنیا میں دینِ حق کا پیغام پہنچائیں، وہی اخوانِ رسول کہے جائیں گے۔ اخوانِ رسول بعد کے زمانے میں وہی عظیم رول ادا کریں گے جو ساتویں صدی عیسوی میں اصحاب رسول نے ادا کیا تھا۔

اصحاب رسول ’خیر امت‘ کا پہلا حصہ تھے۔ ’ اخوانِ رسول‘ خیر امت کا دوسرا حصہ ہوں گے۔ یہ تاریخِ دعوت کا آخری اظہار ہوگا۔ اِس کے بعد نہ موجودہ دنیا باقی رہے گی اور نہ دعوتی عمل کی ضرورت۔ ہٰذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom