آفاقی مشن
قرآن کی سورہ نمبر 25 کا آغاز اِس آیت سے ہوتا ہے: تبارک الذی نزّل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا(الفرقان: 1) یعنی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا، تاکہ وہ سارے عالم کے لیے آگاہ کرنے والا ہو۔
قرآن میں ’عالمین‘ کا لفظ 73 بار آیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کا پیغام ایک عالمی پیغام ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں کے اندر آفاقی نقطۂ نظر (universal outlook) پیدا کرنا چاہتا ہے۔ خدا، ساری کائنات کو ایک نظرسے دیکھتا ہے۔ خدا کو مطلوب ہے کہ اس کے بندوں کے اندر بھی کائناتی ذہن ہو۔ وہ محدودیت کے خول میں نہ جئیں، بلکہ وہ لا محدود وسعتوں میں جینے والے بنیں۔
یہ آفاقی ذہن کس طرح بنتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے ذریعے۔ دعوت الی اللہ کا مطلب ہے— خدا کے پیغامِ ہدایت سے تمام انسانوں کو باخبر کرنا۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میں اسلام کے صرف چند سواحکام ہیں۔ حدیث میں ہزاروں احکام بیان ہوئے ہیں۔ فقہ میں ان احکام کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
غور کیجیے تو یہ تمام احکام بنیادی طورپر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ احکام کی طویل فہرست میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اپنی نوعیت میں عمومی ہے، اور وہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی اللہ کے تمام بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا۔ دعوت کی یہی حیثیت اُس کو ایک آفاقی حکم بنا دیتی ہے۔ بقیہ احکام اگر مسلم رُخی احکام ہیں تو دعوت کی حیثیت انسان رُخی حکم کی ہے۔
مسلمان جب دعوت الی اللہ کا کام کریں گے تو اُس کے نتیجے میں اُن کے اندر فطری طورپر آفاقی ذہن پرورش پائے گا۔ ان کی سوچ اور ان کی پلاننگ د ونوں آفاقیت کی حامل ہوگی۔ ان کے اندر سارے انسانوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ ابھرے گا۔ اپنی علاحدہ شناخت بنانے کے بجائے وہ سارے انسانوں کو لے کر سوچیں گے۔ یہ آفاقی مزاج ان کے سارے معاملات کو آفاقی بنا دے گا۔
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر فقہی طرز فکر غالب آگیا۔ فقہی طرز فکر دراصل احکامی طرز فکر ہے۔ جب مسلمانوں میں یہ مزاج پیدا ہوا تو فطری طورپروہ اپنی کمیونٹی کو لے کر سوچنے لگے۔دورِ دعوت میں اگر اُن کے اندراکرامِ انسان کا ذہن تھا تو دورِ فقہ میں ان کے اندر اکرامِ مسلم کا ذہن پیدا ہوگیا۔ سارے انسانوں کو لے کر سوچنے کے بجائے، وہ صرف اپنی ملت کو لے کر سوچنے لگے۔اسلامی ذہن، انسان اور ینٹیڈ ذہن ہے، نہ کہ کمیونٹی اورینٹیڈ ذہن۔
انسان اورینٹیڈ ذہن کو اپنے اندر پیدا کیے بغیر، دعوت الی اللہ کا آفاقی عمل انجام دینا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ انسان اورینٹیڈ ذہن سے انسانی ہمدردی کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور انسانی ہمدردی کے اِس عمومی مزاج کے بغیر، دعوت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔