سوال اورجواب

سوال

دسمبر 2006 کا الرسالہ راقم نے پورا پڑھا۔ اس میں ایک جگہ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصد صرف ایک تھا، اور وہ تھا—قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اس مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ قرآن کی حفاظت جب تک سیاسی اقتدار پر منحصر تھی اس وقت تک مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل رہا اور جب اس حفاظت کی ذمے داری پرنٹنگ پریس نے لے لی تو اب سیاسی اقتدار نے اپنی اہمیت کھو دی، چناں چہ خدا نے اس سے اپنی مدد واپس لے لی۔ یہی اصل سبب ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی قدیم شکل میں باقی نہ رہا‘‘۔(الرسالہ، دسمبر 2006، صفحہ 5)

یہ بات راقم کی سمجھ میں نہیں آئی کہ اس سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اگر اِس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام میں اقتدار کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے تو یہ محض آپ کا اپنا استنباط ہے جس کی آپ نے کوئی نقلی دلیل نہیں دی۔ جو عقلی دلیل آپ دے رہے ہیں تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اقتدار اسلامی کے مقاصد قرآن صر احت سے یہ بیان کرتا ہے:

الّذین إن مکناہم فی الأرض أقاموا الصلاۃ وأتوا الزکوۃ وأمروا بالمعروف ونھوا عن المنکر وللّٰہ عاقبۃ الأمور۔(اللہ کے دین کے مددگار) وہ لوگ ہیں جنھیں ہم اگر زمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے، برائی سے روکیں گے۔اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھوں میں ہے) الحج: 14۔

یہ آیت اِس سلسلے میں نص ہے کہ حقیقی اسلامی اقتدار کے فرائض منصبی کیا کیا ہیں۔ ان فرائض منصبی کی ادائیگی واقامت کے طریقے زمانے کے لحاظ سے الگ الگ ہوسکتے ہیں۔

اِس آیت میں یا اجتماعی احکام سے متعلق احادیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ قرآن کی حفاظت بھی اسلامی اقتدار کے مقاصد میں شامل ہے یا وہی اس کا اصل مقصد ہے۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرآن کی ترتیب و تدوین کا بنیادی کام عہد نبوی میں مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر کے دور سے عہد عثمان رضی اللہ عنہ تک اس کا اتمام ہوا۔ اس کی کاپیاں تیار کرکے پوری مملک میں پھیلادی گئیں۔ اعراب کا مسئلہ حجاج بن یوسف (عہد نبی امیہ کے آغازمیں) مکمل ہوگیا۔ یہ ظاہری پہلو سے قرآن کی حفاظت تھی۔

معنوی طورپر عہد نبوی سے ہی اُس کے حفظ کا محیر العقول انتظام کیاگیا جوآج تک چلا آتا ہے۔ جو عربوں کے حافظے کی مخصوص صلاحیت کے پیش نظر آج کے کمپیوٹر کی طرح کا نظم تھا۔ اس کے بعد قرآن کی جو بھی خدمت ہوتی ہے، حفاظت و اشاعت سے لے کر اس کی تعبیر و تشریح اور اس کے علوم کی ترتیب وتدوین سب کچھ انفرادی طورپر علماء ہی کرتے رہے۔ اس کے لیے انھوں نے استنساخ (ایک نسخے کی نقل تیار کرنا) اور ورّاقی وکتابت جیسے علوم باقاعدہ develope کیے۔ اس پورے عمل میں تاریخ کسی اسلامی حکومت کا باضابطہ شریک ہونا (involvement) ثابت نہیں کرتی۔ البتہ بعض حکمرانوں کے بارے میں یہ ضرور ملتاہے کہ وہ قرآن کی کتابت کرتے تھے اور اسے اجر و ثواب کا باعث خیال کرتے تھے۔

اس لحاظ سے یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ—مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصد صرف ایک تھا اور وہ تھا قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اس میں مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ مدون اسلامی تاریخ ہمارے سامنے اِس کا بالکل برعکس پیش کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ ’’اسلامی اقتدار سے بہت سے مقاصد حاصل ہوئے ان میں ضمنی طورپر قرآن کی حفاظت بھی تھی‘‘۔

آپ کی پوری تحریر کا خلاصہ ایک سطر میں یوں کیا جاسکتا ہے کہ ’’اسلام میں سیاسی اقتدار کی کوئی اہمیت ہی نہیں ‘‘ اگر یہ خلاصہ درست ہے تو یہ ایک ایسا استنباط ہے جو محتاج دلیل ہے۔ آپ یہ کہیں کہ دورِجدید کے بعض مسلمان علماء نے سیاست و اقتدار کو حد سے زیادہ اہمیت دے دی اور وہ دین کی سیاسی تعبیر کر بیٹھے تو یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کی تردید میں سیاسی اقتدار کی اہمیت ہی ختم کردینا تو ایک دوسری انتہا ہے۔امید ہے کہ اس اشکال پر غور فرمائیں گے اور اس کنفیوژن کو دور کریں گے۔ (ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی، نئی دہلی)

جواب

ماہ نامہ ’الرسالہ‘ دسمبر 2006 میں جو بات میں نے لکھی تھی، اُس کا مطلب مختصر طورپریہ تھا کہ جب تک قرآن دورِ طباعت تک نہیں پہنچا تھا، اس کی حفاظت کے لیے اقتدار ایک لازمی ضرورت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِسی زمانی مصلحت کے اعتبار سے حدیث میں آیا ہے کہ: القرآن والسلطان توأمان۔یعنی قرآن اور اقتدار دونوں توأم (twin) بھائی ہیں۔

لیکن جب طباعت کا زمانہ آگیا اور قرآن کی تاریخ اُس دور میں پہنچ گئی، جب کہ اُس کی حفاظت کے لیے اقتدار کی حیثیت لازمی شرط کی نہ رہی، اب خود غیر سیاسی تدبیر ہی قرآن کی حفاظت کی کامل ضمانت بن گئی۔ اِس لیے اب اقتدار کا معاملہ براہِ راست خدا کا معاملہ نہ رہا، بلکہ وہ مسلمانوں کا اپنا معاملہ بن گیا۔

اس دوسرے دَور میں سیاسی اقتدار کا حصول براہِ راست طورپر مقصود نہ رہا، بلکہ اب یہ ہوگیا کہ اگر مسلمانوں کو حالتِ تمکین حاصل ہوجائے، اگر مسلم معاشرہ اِس درجے تک پہنچ جائے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ بھی اُس کے دائرہ استطاعت میں شامل ہوجائے تو اُس وقت سیاسی اقتدار مطلوب بن جائے گا، لیکن اس کی یہ مطلوبیت، حفاظتِ قرآن کی نسبت سے نہ ہوگی، بلکہ مسلمانوں کی اپنی معاشرتی ذمے داری کی نسبت سے ہوگی۔

آپ نے قرآن کی جو آیت (الحج: 41) پیش کی ہے، وہ مسلمانوں کا یہ فریضہ نہیں بتاتی کہ تم اسلامی حکومت قائم کرو، بلکہ وہ صرف یہ بتاتی ہے کہ اگر حالات کے ارتقا کے تحت، تم کو اقتدار حاصل ہوجائے تو اُس وقت تمھاری سیاسی ذمّے داری کیا ہوگی۔

سوال

مولانا صاحب میری ایک مخصوص سوچ ہے کہ دنیا میں جس نے بھی اسلام کے لیے کام کیے اُس کی نہ ہی تمام باتیں اِس لائق ہیں کہ ان کو اپنایا جائے اور نہ ہی سب باتیں ایسی ہیں جن کو رد کیا جائے۔ ہمیں کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ کسی کی بات سے ہمیں اختلاف ہوسکتا ہے اور یہ ہمارا حق ہے۔ (سہیل بشیر کار، کشمیر)

جواب

1’’ - کسی کی ہر بات درست نہیں ہوسکتی‘‘ یہ کوئی مطلق بات نہیں۔ اِس طرح کے مفروضے کی بنیاد پر کسی کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کو اُس وقت تک درست مانیں جب تک اس کی کسی بات کو آپ قرآن اور سنت کی واضح دلیل سے رد نہ کرسکیں۔

اسلام میں اِس قسم کے مفروضے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اِس قسم کے بے دلیل مفروضے کا نقصان یہ ہے کہ کہنے والے کے اندر یقین پیدا نہیں ہوتا۔جب کہ یقین ہر ایک کی ایک ایمانی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ: خیر ما وُقر فی القلوب الیقین، والإرتیابُ من الکفر(البیہقی، وابن عساکر)

اس مزاج کے لوگ ہمیشہ انفرادی زندگی گذاریں گے، وہ کبھی کسی اجتماعی مشن کا حصہ نہ بن سکیں گے۔ وہ یقین کے ساتھ کسی سے جُڑ نہیں سکیں گے۔ وہ شک کے ساتھ جئیں گے اور شک کے ساتھ اِس دنیا سے چلے جائیں گے۔ اِس طرح کے لوگوں کو اپنے اِس مزاج کی دو بھاری قیمت دینی پڑتی ہے— ایک، حق کے معاملے میں بے یقینی اور دوسرے،اجتماعی زندگی سے محرومی۔

اس طرح کی سوچ کے لوگ اکثر امام مالک کے اس مشہور قول کا حوالہ دیتے ہیں: کل یوخذ منہ و یُردّ۔ مگر مذکورہ قسم کے موقف کی تائید کے لیے یہ حوالہ غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص قرآن اور حدیث کے حوالے سے ایک بات پیش کرے تو اُس کو لینا آپ کے اوپر فرض ہوجائے گا۔ یہ فرضیت صرف اُس وقت ختم ہوگی جب کہ آپ خود قرآن اور حدیث کے دلائل سے اُس کا نادرست ہونا ثابت کردیں۔ اگر آپ کے پاس جوابی دلیل موجود نہیں ہے تو امام مالک کے قول کا حوالہ دے کر مذکورہ قسم کی بات کرنا، میرے نزدیک ایک گناہ کا فعل ہے، وہ کوئی صحیح علمی موقف نہیں۔

سوال

جناب عالی کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ میں ایک ذاتی معاملے میں کافی دباؤ اور پریشانی کی حالت میں رہتا ہوں۔ لاکھ کوشش کے باوجود حالت جوں کی توں رہتی ہے۔ اس لیے اپنی خاص دعاؤں میں ناچیز کو یاد کرکے اس معاملے کی درستی میں ہمارے مسیحا بنیں۔(محمد طاہر، شوپیان، کشمیر)

جواب

دعا کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی متعین طورپر اصل بات لکھے، تاکہ سائل کے لیے دعا کے ساتھ ضروری مشورہ بھی دیا جاسکے۔ اصل واقعہ معلوم کیے بغیر نہ دعا کی جاسکتی ہے اور نہ صحیح مشورہ دیا جاسکتا ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگ کسی ذاتی نادانی کی بنا پر اپنے آپ کو ایک مصیبت میں پھنسا لیتے ہیں، اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے دعا کیجئے۔ اِس طرح کے معاملے میں سب سے پہلے ضروری ہے کہ واقعے کی اصل نوعیت بتائی جائے، تاکہ صحیح مشورہ دیا جاسکے۔

دوسری بات یہ کہ دعا کوئی لامحدود چیز نہیں۔ دعا کے معاملے میں آدھا کام خود سائل کو کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعدبقیہ آدھے کام کے لیے خدا سے دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بغیردعا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

سوال

میں مختلف قسم کے فکری سوالات میں الجھا رہتا ہوں۔ میرے پاس مطالعے کا وقت نہیں کہ اپنے سوالات کا جواب پاسکوں۔ ایسی حالت میں میں کیا کروں۔ مزید یہ بتائیے کہ مطالعے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (محمد تاج رضا)

جواب

اگر آپ کے پاس مطالعے کے لیے وقت نہیں ہے تو آپ کو سوال اور جواب میں بھی اپنے ذہن کو الجھانا نہیں چاہیے۔ جتنا آپ کا علم ہے، اس کے مطابق نیک نیتی کے ساتھ عمل کرتے رہیے۔

مطالعے کا کوئی فریم ورک نہیں۔ آپ کو جو کتاب ملے اس کو پڑھیے۔ اگر وہ کتاب آپ کو مفید معلوم ہوتو مطالعہ جاری رکھیے، ورنہ اس کا مطالعہ چھوڑ دیجیے۔ پیشگی طورپر مطالعے کا کوئی فریم ورک مقرر نہیں کیاجاسکتا۔

صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی طاقت کے بقدر کام کرے۔ طاقت یا وسعت سے زیادہ کرنے کا کوئی آدمی مکلف نہیں ہے۔ دین میں اصل اہمیت نیک نیتی اور اخلاص کی ہے۔ بقیہ چیزیں اضافی حیثیت رکھتی ہیں۔

سوال

آج تک میں نے جو بھی کتابیں پڑھیں مجھ پر اُن کاوہ اثر نہ ہوا جو آپ کی تحریروں نے کیا۔ آج عالم یہ ہے کہ جب میں کسی الجھن میں ہوتا ہوں توآپ کی کوئی تحریر پڑھ لیتا ہوں۔ اور مجھے سکون مل جاتا ہے۔ جب میرے ہاتھ میں آپ کی کوئی کتاب ہوتی ہے تومجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میرا رہبر میرے ساتھ ہے۔

میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میرے اوپر عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ کسی بات کا اثر فوری طورپر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں اس میں نڈھال ہوجاتا ہوں۔ اور میری حالت عجیب ہوجاتی ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ اثر بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ مستحکم ہو کر کوئی فیصلہ نہیں لے پاتا ہوں۔

نہیں چاہتا کہ فضول باتیں میرے ذہن کو منتشر کریں۔ لاکھ کوششوں کے باوجود عجیب عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ مثلاً کرکٹ اسٹار سوربھ گانگولی کو ٹیم سے کیوں نکال دیاگیا تھا۔ دھونی کو ٹیم سے باہر رکھنا چاہیے۔ دنیا ان لوگوں کے پیچھے اتنا بھاگتی کیوں ہے۔ سونیا گاندھی پی ایم کیوں نہیں بنیں، من موہن سنگھ کو پی ایم کیوں بنایا گیا۔ امیتابھ بچن کو اب فلموں میں کام کرنا نہیں چاہیے۔ اشوریہ سے ابھشیک کی شادی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس دور کے بڑے لوگ کس طرح اپنی زندگی گذارتے ہیں ان کے رہنے سہنے کا تصور ذہن کو بھٹکاتا رہتا ہے۔ کیا میرا بھی نام اس دنیا میں ان لوگوں کی طرح کبھی روشن ہوسکے گا، وغیرہ۔

میں نے یہ سب باتیں آج تک نہ کسی کو بتایا نہ لکھا لیکن میرا دل و دماغ آپ کو یہ باتیں بتانے پر مجھے مجبور کررہا ہے اس لیے آپ کو لکھ رہا ہوں۔ آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوتا ہے۔ دنیا اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے پھر میں کیوں کر ان کا تصور اپنے ذہن میں لیے پھرتا ہوں، ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اگر میرے اس مسئلے کا حل آپ کے پاس نہ ہوگا تو کسی دوسرے کے پاس ہر گز نہ ہوگا۔ (محمدنثار احمد، ہزاری باغ، جھارکھنڈ)

جواب

زندگی کے کچھ حتمی اصول ہیں۔ ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِن اصولوں کی پیروی کرے۔ اِن اصولوں کی خلاف ورزی کرنا، اپنی زندگی کو تباہ کرلینے کے ہم معنی ہے۔

زندگی کے انھیں اصولوں میں سے ایک اصول وہ ہے جس کو حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے— مِن حُسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ(مسند احمد، ابن ماجہ، مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 4840) یعنی آدمی کے بہتر مسلم ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اُن چیزوں کو چھوڑ دے، جس میں اُس کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔

آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس اصولِ حیات کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ آپ یہ کیجیے کہ ضروری اور غیر ضروری میں فر ق کرنا سیکھئے۔ اپنے وقت اور اپنے دماغ کو صرف اُن چیزوں میں صرف کیجیے جو آپ کی ترقی کے لیے ضروری ہیں، بقیہ چیزوں کو اپنے دماغ سے نکالتے رہیے۔ اِسی اصول کو جارج برنارڈ شا نے اپنے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا تھا:

سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان وہ ہے جس کے پاس بھلانے کے لیے کچھ نہ ہو‘‘۔

سوال

ہم حلقۂ الرسالہ غیر مسلموں میں دعوتی کام کررہے ہیں۔ مہاراشٹر میں چوں کہ مراٹھی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے آپ کی کتابوں کے مراٹھی ترجموں کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ جناب عبد السلام چاؤش (ناگ پور) جو مراٹھی زبان پر کافی عبور رکھتے ہیں اور جنھوں نے چاؤش ڈکشنری (مراٹھی- انگریزی) اور کئی کتابیں تصنیف کی ہیں، اس کام کے لیے موزوں اور مناسب آدمی ہیں۔ براہِ کرم آپ ان کے ذمّے یہ کام سُپرد فرمائیں، تاکہ مہاراشٹر کے غیرمسلموں کی اہم ضرورت پوری ہو اور غیر مسلموں میں دعوتی کام میں آسانی ہوسکے۔ الحمد للہ آپ کی کتب انگریزی، عربی، اردو، ہندی اور دیگر عالمی زبانوں میں چھپ رہی ہیں لیکن مراٹھی داں طبقہ اس سے محروم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ اس طرف توجہ فرمائیں گے۔

اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے تاکہ آپ کی رہبری اور رہنمائی میں ہم دعوت کے عظیم الشان کام کو کرسکیں۔ (حافظ زبیر احمد، ناندیڑ)

جواب

عرض یہ ہے کہ دوسروں کے لیے تجویز پیش کرنا کوئی کام نہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ دستیاب وسائل کے دائرے میں آدمی اپنا کام شروع کردے، اور بقیہ معاملے کے لیے وہ خدا سے دعا کرتا رہے۔ وسائل کی کمی کا حل، تجویز پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ دعا اور کوشش کرنا ہے۔

آج کل یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ لوگ ہر معاملے میں تجویز پیش کیا کرتے ہیں۔ تجویز کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنی ذمے داری کو دوسرے کے سر ڈال کر یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنا کام کردیا۔ حالاں کہ یہ محض خوش خیالی ہے۔ صحابہ کا مزاج یہ تھا کہ وہ بقدر استطاعت اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتے تھے۔ وہ دوسروں کے لیے کوئی تجویز پیش نہیں کرتے تھے۔ یہی طریقہ صحیح اسلامی طریقہ ہے۔

سوال

میری عمر 29 سال ہے۔ شادی ہوئے قریب دو سال ہوگیے۔ ایک بچہ بھی ہے۔ میں ایک گاؤں میں رہتا ہوں۔ لیکن میری شادی شہر میں رہنے والی لڑکی سے ہوئی ہے۔ میری سمجھ سے میری بیوی کسی بھی طرح عقل مند نہیں ہے۔ ہمارے گھر والے اس کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔ لیکن وہ جب سے میرے گھر آئی ہے گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ کرنے لگتی ہے اور کسی بات کا فوراً الٹا جواب دے دیتی ہے۔ اس کے ذہن میں ذرا سا بھی اس بات کا اثر نہیں رہتا کہ ہم سسرال میں ہیں اور سسرال والوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ یہاں تک کہ میرے ساتھ بھی الٹی سیدھی بات بول جاتی ہے۔ لاکھ سمجھاؤ لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتی۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ امیر باپ کی بیٹی ہے۔ بلکہ مالی اعتبار سے ہم دونوں گھر والے یکساں ہیں۔ آخر یہ اس کی نادانی ہے یااس کاغرور کہ گھر میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتی حالاں کہ کئی بار ہم نے اس کو مارا بھی۔ لیکن پھر بھی اُس کی عادت میں ذرا سا سدھار پیدا نہیں ہوا۔ میں سوچتا ہوں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عقل مند عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن میرا کیا ہوگا۔ میری زندگی کیسے گذرے گی۔ (ایک قاری الرسالہ، جھارکھنڈ)

جواب

آپ کا خط مؤرخہ یکم اگست 2006 ملا۔ اس کو میں نے غور سے پڑھا۔ میرے نزدیک اس معاملے میں ساری غلطی صرف آپ کی ہے، کسی اور کی نہیں۔

1 - عقل مند عورت، ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کو تربیت دے کر عقل مند بنانا پڑتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق، آپ نے یہ کام نہیں کیا۔

2 - قرآن میں عورت کو تنبیہ کے لیے علامتی ضرب کی اجازت، استثنائی طورپر، صرف اُس وقت ہے جب کہ اس کے اندر نُشوز (النساء: 34) پایا جائے۔ آپ نے جواپنی بیوی کو مارا تو بلا شبہہ اس کا سبب نشوز نہیں تھا۔ اس لیے آپ نے بلا شبہہ ایک سخت غلط کام کیاہے۔آپ اس کی تلافی کے لیے فوراً اپنی بیوی سے معافی مانگیے اور خدا سے اُس کے لیے توبہ کیجیے۔

3 - اپنے تجربے کے مطابق، میں یہ سمجھتاہوں کہ بیوی سے آپ کی شکایت کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے والدین کی خدمت نہیں کرتی۔ میرے نزدیک، آپ کا یہ مطالبہ بھی غلط ہے۔ کیوں کہ شوہر کے والدین کی خدمت کرنا، بیوی کے شرعی فرائض میں شامل نہیں۔

4 - آپ نے لکھا ہے کہ میرے گھر والے میری بیوی کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں ۔ یہ بات بلاشبہہ غلط ہے۔ آپ نے صرف یہ کیا ہے کہ گھر والوں کے بولے ہوئے لفظ کو یک طرفہ طورپر سُن کر اس کو اپنے خط میں نقل کردیا۔ آپ نے خود سے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ کہ عملاً آپ کے گھر والوں کا رویّہ آپ کی بیوی کے ساتھ کیا ہے۔ میں آپ کے اِس بیان کو قطعی طورپر درست نہیں مانتا۔

5 - آپ کی اصل غلطی یہ ہے کہ آپ مشترک خاندان میں رہتے ہیں۔ آپ کو دو میں سے ایک کام کرنا چاہیے یا تو آپ الگ گھر لے کر بیوی کے ساتھ رہیں، یا آپ کو اگر مشترک خاندان میں رہناہے تو آپ یک طرفہ طورپر صبر کا طریقہ اختیار کریں۔آپ کو میرا مشو رہ ہے کہ آپ میری دو کتابیں ’خاتونِ اسلام‘ اور’ عورت معمارِ انسانیت‘ کا مطالعہ فر مائیں۔

سوال

میرا یہ تیسرا خط ہے جو میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں آپ سے جتنا متاثر ہوا ہوں کسی اور سے کبھی متاثر نہ ہو سکا۔

میں ایک غریب گھر کا نوجوان ہوں۔ میرے ماں باپ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ گھر کی آمدنی شروع سے لے کر اب تک بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے گھر میں ہمیشہtension بنا رہتا ہے۔ مالی حالت اچھی نہ ہونے کے باوجود میرے والد نے مجھے M.A. تک کی تعلیم دلائی۔ اب ذریعۂ معاش ڈھونڈنے کی فکر ہوئی۔ میں نے کئی جگہ سرکاری نوکری کی تلاش میں بھر پور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اب ہمارے پاس اتنا پیسہ اور وقت نہیں رہا کہ سرکاری ملازمت کی خاطر امتحانات میں شریک ہوسکوں۔ ہمارا کوئی رشتے دار بھی کسی شہر میں نہیں رہتا کہ اُس کا سہارا لے کر میں کسی شہر میں جا کر کوئی private service کی تلاش کرسکوں۔ میری شادی بھی ہوچکی ہے۔ پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ دن رات پریشان رہتا ہوں۔ آخر کیا کروں۔ مجھے راہ بتائیں۔ (محمد نثار احمد، ہزاری باغ، جھارکھنڈ)

جواب

عرض یہ کہ زندگی کی کامیابی کا کوئی پُر اسرار فارمولا نہیں ہے۔ زندگی ہر ایک کے لیے جدوجہد ہے۔ منصوبہ بند عمل ہی کسی کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔

آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایم۔اے کیا ہے۔ مجھے شک ہے کہ آپ نے ایم۔اے کسی ایسے مضمون میں کیا ہے جس کی مانگ مارکیٹ میں موجود نہیں۔ اگر میرا اندازہ صحیح ہو تو یہ آپ کی منصوبہ بندی میں نقص کا ثبوت ہوگا۔

اب آپ کے لیے زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک صورت کا انتخاب ہے۔ یا تو آپ ایسا کریں کہ اپنی موجودہ لیاقت کی بنیاد پر آپ کو جو کام مل سکتا ہے آپ اس کو لے لیں، خواہ وہ کوئی چھوٹا کام کیوں نہ ہو۔ اور اگر آپ بڑا جاب چاہتے ہیں تو آپ کو پھر سے پیچھے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یعنی آپ ایسی کوئی ڈگری حاصل کریں جو مارکیٹ میں اہمیت رکھتی ہو، یا ایسا کوئی ہنر سیکھیں جس کی بنیاد پر آپ کو آج کے زمانے میں کوئی اچھا جاب مل جائے۔

یاد رکھیے! غم اور ٹینشن میں جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ماضی کو بھُلا کر مستقبل کے لحاظ سے از سرِ نو اپنا عمل شروع کیجیے، اور پھر یقینا آپ کامیاب ہوجائیں گے۔

سوال

آپ کی کتاب ’’رہنمائے حیات‘‘ پڑھ رہی ہوں۔ بہت اچھی کتاب ہے۔ آپ کی کتابیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ آپ کی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی اور کی کتاب پڑھ نہیں سکتی۔ دوسروں کی کتابیں طبیعت پر بھاری لگنے لگتی ہیں۔ جس دن الرسالہ آتا ہے میں اُسی دن اُسے پورا پڑھ لیتی ہوں۔ پھر روزانہ اس کا ایک ایک article پڑھتی ہوں۔ آپ کی تحریریں پڑھ کر سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اللہ پر توکّل بڑھتا ہے۔ اور ہم اِس دنیا میں امتحان کے لیے آئے ہیں، یہ احساس قوی ہوتا ہے۔

1’ - رہنمائے حیات‘ صفحہ 204 ’صبر کا فائدہ‘ میں آپ نے لکھا ہے کہ فکری ارتقاء رُوحانی ارتقاء سے جُڑی ہوئی ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال آرہا ہے کہ فکری اِرتقاء کے نتیجے میں مادّی ترقی ہورہی ہے۔ مگر جو لوگ مادّی طورپر بڑھ رہے ہیں اُن میں رُوحانی ترقی نظر نہیں آتی بلکہ وہ زیادہ materialistic نظر آتے ہیں۔ اِس کو ذرا واضح کردیں کہ فکری ارتقاء اور روحانی اِرتقاء میں کیسے ہم آہنگی ہے۔

2 - شیطانی وسوسوں سے بچنے کا کیا حل ہے۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھتی ہوں۔ کیا اِس کے علاوہ کوئی اور طریقہ بھی ہے۔(فرزانہ فیصل، کراچی)

جواب

1 - آپ نے غالباً فکری ارتقاء کو تعلیمی ارتقاء کے معنی میں لے لیا ہے، مگر میرا مطلب یہ نہیں۔ تعلیمی ترقی کا فائدہ صرف یہ ہوا ہے کہ ڈگری یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ مگر فکری ترقی کا مطلب ہے— بصیرت کی ترقی، وزڈم کا بڑھنا اور شعوری ارتقاء۔ اِس اعتبار سے ابھی ہمارا معاشرہ بہت پیچھے ہے۔اس کی ایک پہچان یہ ہے کہ تعلیمی ترقی کے باوجود تمام لوگوں کے اندر منفی سوچ پرورش پارہی ہے۔ جب کہ حقیقی معنوں میں باشعور لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کے اندر منفی سوچ کا خاتمہ ہوجائے۔ وہ پوری طرح مثبت سوچ والے انسان بن جائیں۔

روحانیت کا تعلق، ہمارے نزدیک قلب سے نہیں ہے بلکہ ذہن سے ہے۔ ذہنی ترقی جب مثبت انداز میں ہوتی ہے تو ا س کے نتیجے کے طورپر وہ چیز بھی پیداہوتی ہے جس کو روحانی ترقی کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکری ارتقاء لازمی طورپر روحانی ارتقاء سے جُڑا ہوا ہے۔ فکر اوراحساس کا منبع صرف مائنڈ ہے۔ اس لیے دوسری چیزوں کی طرح روحانیت بھی مائنڈ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

2 - آپ کے دوسرے سوال کے بارے میں عرض ہے کہ آپ راقم الحروف کی تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا مطالعہ کریں۔

سوال

سورہ یٰسمیں ایک آیت ہے— تنزیل العزیز الرّحیم (یٰس:5)۔ مجھے عربی پر مہارت تو نہیں، تھوڑا علم ہے۔ اسی تھوڑے علم کی بنیاد پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس آیت میں تنزیلَ کی جگہ تنزیلُ یعنی لام پر فتحہ کی جگہ پیش ہونا چاہیے تھا۔ میں نے کئی عربی دانوں سے رجوع کیا مگر مجھے صحیح جواب ابھی تک نہیں مل پایا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ اس کی صراحت کریں گے۔ جواب کے لیے مشکور ہوں گا۔ (رستم علی، پٹنہ، بہار)

جواب

سورہ یٰسکی آیت میں لفظ ’تنزیلَ‘کا اعراب حذف کے اصول پر ہے۔ اِس آیت میں تنزیلَ فعل محذوف سے منصوب ہے۔ تفسیر قرطبی میں اس کی تشریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے: ’’تنزیلَ العزیزِ الرحیم‘‘ قرأ ابن عامر و حفص والأعمش وحمزۃ والکسائی وخلف: ’’تنزیلَ‘‘ بنصب اللام علی المصدر؛ أی نزّلَ اللہُ ذلک تنزیلاً۔ (القرطبی، جلد 15، صفحہ: 6)

سوال

الرسالہ مئی 2006 میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا تھا کہ—کسی ایسے شخض کو کافر نہیں کہیں گے جو قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی تاریخ میں جن لوگوں کو قادیانی یا احمدی کہا جاتا ہے اُن لوگوں کو کافر کس بنا پر کہاجاتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ بھی قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ (شبیر احمد وانی، سری نگر، کشمیر)

جواب

کون کافر ہے اور کون کافر نہیں ہے، یہ فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔ انسان کا کام نہیں۔ موجودہ زمانے میں تکفیر کا جو طریقہ رائج ہوا ہے، میں اس کو غلط سمجھتا ہوں۔ اہلِ ایمان کی ذمّے داری صرف تبلیغ ہے، تکفیر ان کی ذمے داری نہیں۔

سوال

سائنٹفک نقطۂ نظر (scientific attitude) کیا ہے۔ اکثر کہاجاتا ہے کہ فلاں شخص کے اندر سائنٹفک مزاج یا سائنٹفک نقطۂ نظر نہیں ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبد السلام اکبانی، ناگ پور)

جواب

سائنس کے لفظی معنی علم کے ہیں، مگر جدیداستعمال میں اس سے مراد وہ علوم ہیں جن کو علوم قطعیہ (exact sciences) کہاجاتا ہے۔ قدیم زمانے میں قیاسی منطق کا رواج تھا، اس کے تحت مفروضات کی بنیاد پر رائے قائم کی جاتی تھی۔ موجودہ زمانے میں مسلّمہ حقائق (established facts) پر رائے قائم کی جانے لگی۔ اسی سے سائنسی علوم پیدا ہوئے۔

سائنٹفک نقطۂ نظر مبنی بر حقائق نقطۂ نظر کا نام ہے۔ اس کے برعکس نقطۂ نظر وہ ہے جس کو مبنی بر مفروضات نقطۂ نظر کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ عام طورپر مشرقی اقوام میں سب سے بڑی کمی یہی ہے کہ ان کے درمیان سائنٹفک نقطۂ نظر کا ارتقاء نہ ہوسکا۔ یہاں ایک تمثیل بیان کرنا، ایک شعر پڑھ دینا، یا ایک لفظی تک بندی پیش کردینے کو بھی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس قسم کی چیزیں دلیل نہیں ہیں۔ چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

ہندستان کی آزادی (1947) کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو یہاں کے وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے پانچ سالہ پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ملک کے اوپر بہت بڑے بڑے ٹیکس عائد کردیے۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ اتنے بڑے بڑے ٹیکس ملک پر کیوں لگارہے ہیں تو انھوں نے ایک تمثیل کے ذریعے اس طرح اُس کا جواب دیا کہ گرمی کے زمانے میں نالوں اور ندیوں کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور ہر طرف سوکھا نظر آنے لگتا ہے۔ مگر یہ پانی فضا میں جاکر بادل بن جاتا ہے اور دوبارہ زمین پر برستا ہے۔ اور زمین میں ہر طرف سرسبزی پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح ہم جو ٹیکس لے رہے ہیں تو وہ مختلف ترقیوں کی صورت میں دوبارہ ملک کی طرف لوٹیں گے اور اس کی خوش حالی کو بڑھائیں گے۔

یہ ایک غیر سائنٹفک استدلال ہے جو واقعات پر نہیں بلکہ مفروضات پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ بھاپ اور بارش کا معاملہ فطرت کے اٹل قانون کے تحت ہوتا ہے۔ چناں چہ جب زمین کا پانی بھاپ کی صورت میں اوپر جاتا ہے تو اس کے بعد وہ فطرت کے لازمی قانون کے تحت دوبارہ زمین پر واپس آتا ہے اور یکساں طورپر سب کو سیراب کرتا ہے۔

مگر ٹیکس اور پلاننگ کا معاملہ اس سے یک سر مختلف ہے۔ یہاں ٹیکسوں کے ذریعے حاصل شدہ دولت کچھ انسانوں کے پاس جمع ہوتی ہے۔ یہ سرکاری انسان اگر دیانت دارانہ طورپر اس کو لوٹائیں تو وہ عوام کی طرف لوٹے گی ورنہ وہ انھیں کی جیبوں میں رہ جائے گی۔ چناں چہ عملاً یہی ہوا۔ 60 سال سے زیادہ مدت سے نہایت بڑے بڑے ٹیکس عوام سے وصول کیے جارہے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ ملک کے تھوڑے سے با اختیار لوگ تو بہت زیادہ امیر ہوگیے اور ملک کی اکثریت کے حصے میں غربت اور مصیبت کے سوا کچھ نہ آیا۔

سوال

میرا نام فاضل محمد وانی، عمر تقریباً 31 سال ہے۔ میں نے Chemistry میں M. Sc. کیا ہے اور کچھ عرصے سے ایک کالج میں contact پر لکچرر ہوں۔

محترم مولانا صاحب! جب بھی میں اپنے حال اور مستقبل کے متعلق سوچتا ہوں تو ایک بے چینی کی لہر دوڑتی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے pattern of life سے مطمئن نہیں ہوں۔اگر چہ اللہ کے فضل سے میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ میں ایک اچھے مسلمان کی طرح زندگی گزاروں۔ مثلاً پانچ وقت نماز، روزہ، زکوٰۃ ادا کرنا، سودی معاملات نہ کرنا وغیرہ۔ لیکن اِن سب کے باوجود میرے دل اور ذہن میں ایک خلش رہتی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سب کافی نہیں۔ ایک تڑپ ہے جو کوئی outlet نہ ملنے کی وجہ سے کبھی کبھی مجھ کو بے بسی اور لاچارگی (اور شاید نا اُمیدی) کی انتہا تک پہنچا دیتی ہے۔

میں شاید اپنے جذبات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہیں کرپاؤں گا۔ مختصراً عرض کروں کہ میں ایک داعی بننا چاہتا ہوں۔ میں ہندستان میں یا ہندستان کے باہر غیر مسلموں میں اِسلام کی تبلیغ کرنا چاہتا ہوں۔میں اس کو اپنا کیریر (career)بنانا چاہتا ہوں۔

تقریباً 2001 کی بات ہے کہ میں ہندستان کے ایک دعوتی ادارے میں گیا اور اُن سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن شاید میں اپنے آپ کو واضح نہ کرسکا اور با ت آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کے بعد میں نے وقفے وقفے سے South Africa کے دعوتی اداروں کو لکھا (میں صرف اِنھیں اخبار وغیرہ سے جانتا تھا) لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے CPS International کو لکھا، لیکن پھر وہی خاموشی رہی۔

اب میں آپ کو لکھ رہا ہوں اور میں محسوس کرتاہوں کہ شاید یہ میری آخری کوشش ہوگی کیوں کہ اب میری حالت نا اُمیدی سے گزر کر frustration level تک آرہی ہے۔مولانا صاحب، میں خود کو ایک شکست خوردہ اِنسان محسوس کرتاہوں۔

میں اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ وہ آپ کا سینہ میرے لیے کھول دے اور آپ میرے متعلق اللہ کی مرضی سے وہ فیصلہ کرسکیں جو میری اِس زندگی اور آنے والی زندگی کے لیے باعث رحمت ہو۔ (فاضل محمد وانی، سری نگر، کشمیر)

جواب

1 - دعوت ایک مشن ہے، دعوت کوئی کیریر(career) نہیں۔ آپ اگر دونوں کے درمیان اِس فرق کو سمجھ لیں تو آپ کا کنفیوژن اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آدمی کے اندر اگر کیریر کا مزاج ہو تو وہ کوئی خارجی نقشہ تلاش کرنے لگتا ہے جس کے اندر وہ اپنی جگہ پاسکے، لیکن صاحبِ مشن کو کسی خارجی نقشے کی ضرورت نہیں۔ اُس کی ذاتی تڑپ ہی اِس کے لیے کافی ہو جاتی ہے کہ وہ جہاں ہے، وہیں وہ اپنا کام شروع کردے۔

2 - اگر آپ دعوت الی اللہ کا کام کرنا چاہتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ کام خود اپنے آپ سے شروع ہوگا۔ آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ آپ اپنا مطالعہ بڑھائیں۔ اپنے آپ کو ذہنی اور فکری اعتبار سے حقیقی داعی بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ نے یہ فکری تیاری کی ہوتی تو آپ ’’شکست خوردگی‘‘ کے احساس سے دوچار نہ ہوتے۔

3 - اِس وقت ساری دنیا میں کہیں بھی صحیح معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہورہا ہے۔ ہر جگہ دعوت کے ساتھ مدعو سے نفرت اور شکایت بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔دعوت کا کام صرف الرسالہ مشن کے تحت ہورہا ہے۔ اگر آپ واقعی دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقام پر تعمیر ی ذہن کے تحت رہیے اور ماہ نامہ ’الرسالہ‘ کی ایجنسی لے لیجیے۔ ہمارے یہاں سے اردو، ہندی اور انگریزی میں بہت سی چھوٹی اور بڑی دعوتی کتابیں چھپی ہیں، اُن کو لے کر اپنے آس پاس کے لوگوں میں پھیلائیے۔

یاد رکھیے، دعوت کاکام ممکن سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ ناممکن کی طرف چھلانگ لگانے سے۔

سوال

حال ہی میں ہمارے یہاں اپنی برادری میں ایک مسئلہ پیش آیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے ہیں جن میں ایک بیٹا دو بچے چھوڑ کر طویل علالت کے بعد چل بسا اور دوسرا بیٹا اگر چہ ابھی جوان اور غیر شادی شدہ ہے اور اس سے کہاگیا تھا کہ وہ اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ سے شادی کر لے تاکہ یتیم بچوں کو اپنے ہی گھر میں ایک باپ کا سایہ اور اچھی پرورش مل سکے مگر اس نے کسی کی نہ سنی اور صاف صاف بیوہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا اور اب اس کی کسی اور لڑکی سے منگنی بھی ہو چکی ہے، نیز ان میں جو بھائی چل بسا وہ کچھ عرصے سے الگ مکان میں رہ رہا تھا اور وہ بڑے پیمانے پر کاروبار بھی کر رہا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مرحوم کے بچے یعنی پوتے اپنے دادا کے اسی طرح وارث قرار پائیں گے جس طرح ان کا مرحوم باپ وارث تھا یا وہ اپنے باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں اپنے دادا کی میراث سے محروم رہیں گے۔ اس سلسلے میں کچھ علماء سے بھی استفسار کیا گیا ہے اور انھوں نے کہا کہ شریعت اسلامی کی رو سے یتیم پوتے اپنے دادا کی میراث سے بحیثیت وارث کچھ نہیں لے سکیں گے۔ لیکن اگر ان کا دادا چاہے تو وہ اپنے طورسے کچھ حصہ لکھ کردے سکتا ہے یا ان کے حق میں 1/3 کی حد تک وصیت کرسکتا ہے۔

میں نے اس مسئلے کے بارے میں اپنے طورسے بھی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور حاصل مطالعہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں کہ یتیم پوتے اپنے دادا کی میراث کے وارث نہیں ہیں، کے بارے میں تقریباً تمام فقہاء اور ائمہ اربعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ بعض کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمیاں اور شبہات منکرین حدیث نے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور جس سے وہ عام مسلمانوں کو ذخیرۂ حدیث سے بد ظن کرتے ہوئے ان میں اپنے گمراہ کُن خیالات پھیلانا چاہتے ہیں۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر)

جواب

محجوب پوتے کے بارے میں یہ صحیح ہے کہ فقہاء کا اتفاق اُس بات پر ہے جو آپ نے تحریر فرمایا۔ مگر میرے علم کے مطابق، فقہاء کا یہ اتفاق قرآن اور حدیث کی کسی واضح نص پر مبنی نہیں ہے۔ اِس معاملے میں صرف ابوبکر صدیق کا ایک قول نقل کیاگیا ہے، اور وہ ہے: ’’الجَدُّ أَبٌ‘‘۔ مگر یہ ایک مبہم قول ہے، اور وہ شرعی ثبوت کے لیے کافی نہیں۔

اِس لیے میری رائے ہے کہ یا تو دادا وراثت کی تقسیم کرکے پوتے کو اس کا پورا حق دے دے۔ بصورتِ دیگر، پوتے کو یہ حق ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرکے اپنا قانونی حق وصول کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom