پیغام
)برائے سوسائٹی فار دی پروموشن آف ریشنل تھنکنگ، احمد آباد- 380007 (
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسلمان کیا کریں۔ مگر حقیقی واقعات کے اعتبار سے زیادہ درست سوال یہ ہے کہ دو سوسالہ عمل کے باوجود موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کوششیں بے نتیجہ کیوں ہوگئیں۔ اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں احیاء کے نام سے تحریکیں اُٹھیں وہ سب کی سب ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، نہ کہ مثبت عمل کی تحریکیں۔ ردّ عمل کے طورپر جو کام کیا جائے اُس کے بارے میں قدرت کا قانون یہ ہے کہ اُس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کوششوں کا بے نتیجہ ہو جانا خود قدرت کے قانون کی بنا پر ہے، نہ کہ کسی کی سازش یا ظلم کی بنا پر۔
ردّ عمل کیا ہے اور مثبت عمل کیا۔ رد عمل یہ ہے کہ اپنے مسئلے کا ذمے داردوسروں کو بتا کر اُن کے خلاف لڑائی چھیڑ دی جائے۔ اور مثبت عمل یہ ہے کہ مسئلے کو خود اپنی کوتاہی کا سبب سمجھا جائے اور اپنے داخلی سبب کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
موجودہ دنیامقابلہ اور مسابقت کی دنیا ہے۔ اس لیے یہ بات بالکل فطری ہے کہ اس دنیا میں ایک کودوسرے سے زک یا نقصان پہنچے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس نقصان کو چیلنج کے طورپر لے۔ وہ سمجھے کہ یہ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسرے کی تیاری اور میری بے تیاری کا نتیجہ ہے۔ اور پھر اپنی اس کمی کو دور کرکے اس کا حل نکالے، نہ کہ دوسرے کے خلاف شکایت اور احتجاج کا ہنگامہ کھڑا کرے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ کام کرنا ہے کہ وہ اپنی پوری نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کریں۔ تعلیم عورت اور مرد کو باشعور بناتی ہے۔ اور باشعور لوگ ہی معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں اور اُس کے حل کی واقعی تدبیر اختیار کرکے کامیاب ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ عمل کو منصوبہ بند انداز میں کیا جائے۔ منصوبہ بند عمل حقیقت پسندانہ عمل کا دوسرا نام ہے۔
منصوبہ بند عمل حقائق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اورغیر منصوبہ بند عمل آرزوؤں اور تمناؤں کی بنیاد پر۔ منصوبہ بند عمل نتیجہ رخی (result-oriented) عمل ہوتا ہے اور غیرمنصوبہ بند عمل خواہش رُخی (desire-oriented)عمل۔
منصوبہ بند عمل وہ ہے جس میں داخلی خواہش اور خارجی حالات دونوں کی مکمل رعایت شامل ہو۔ اور غیر منصوبہ بند عمل وہ ہے جس میں صرف داخلی خواہش کا اظہار ہو اور حقائق خارجی سے اُس کا کوئی تعلق نہ ہو۔