شاہ راہِ دعوت سے انحراف
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تاریخ کے تین زمانوں کو معیاری زمانہ قرار دیا ہے۔ اسی لیے ان کو ’قُرون مشہود لہا بالخیر‘ کہا جاتا ہے۔ وہ تین زمانے یہ ہیں— عہدِ رسالت، عہدِصحابہ، عہدِ تابعین۔ اِن تین قرون کو تین جنریشن بھی کہا جاسکتا ہے۔ پہلی جنریشن وہ ہے جب کہ پیغمبر اسلام کی ذات، مسلم معاشرے کا مرکز و محور بنی ہوئی تھی۔ دوسری جنریشن وہ ہے جب کہ سماج پر صحابہ کا غلبہ قائم تھا اور تیسری جنریشن وہ ہے جب کہ تابعین مسلم معاشرے میں غالب حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے بعد مسلم معاشرے میں زوال کا دور شروع ہوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی تین جنریشن تک اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ تھا۔ اُس زمانے کے مسلمان، عرب کے اندر اور عرب کے باہر، اسلام کی دعوت پھیلانے میں مشغول رہے۔ اُس زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ساری انسانیت اُن کا کنسرن (concern) بنی ہوئی تھی۔
عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔ فقہ کی تدوین دراصل احکام کی تدوین کے ہم معنٰی تھی۔ چنانچہ فقہ کی کتابوں میں احکام سے متعلق تمام ابواب ملتے ہیں، لیکن دعوت الی اللہ کا باب فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مسلمانوں میں دعوتی ذہن ختم ہوا، اور احکامی ذہن ہر طرف پھیل گیا۔ اسلام کی اشاعت اگرچہ اُس کے بعد بھی جاری رہی، لیکن وہ اسلام کی اپنی داخلی قوت کے ذریعے تھی، نہ کہ مسلمانوں کی کسی دعوتی کوشش کے ذریعے۔ اب مسلمانوں کی تمام سرگرمیاں، فکری اور عملی دونوں، مسلم رُخی (Muslim-oriented) ہوگئی ہیں۔ اب مسلمان عالمی مشن کا عنوان نہ رہے، بلکہ وہ دوسری کمیونٹی کی طرح ایک محدودکمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔
آج سب سے زیادہ جس سنت کے اِحیاء کی ضرورت ہے، وہ یہی سنتِ دعوت ہے۔ مسلمانوں کے درمیان جب تک سنتِ دعوت کو زندہ نہ کیا جائے، اُن کے اندر کوئی بڑی اسلامی بیداری نہیں آسکتی۔ ’اصلاحِ مسلم‘ کے کام کو تبلیغ و دعوت کا عنوان دینا بھی اِس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ ’اصلاحِ مسلم‘ کے کام کو دعوت کا کام بتانا، صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ لوگوں کا ذہن اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ دعوت الی اللہ کیا ہے۔
دعوت الی اللہ کا مطلب ہے— غیر مسلموں تک خدا کے پیغام کو پہنچانا۔ دعوت الی اللہ کا یہ سب سے زیادہ مطلوب کام صرف احساسِ ذمّے داری کے تحت کیا جاسکتا ہے۔ اِس دعوتی کام کو انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ داعی گروہ کے اندر اپنے مدعوگروہ کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ اور اس کا سینہ اپنے مدعو کی طرف سے مکمل طورپر نفرت اور شکایت سے خالی ہو۔
دعوت الی اللہ کا یہ کام صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اپنے اندر یہ اعلیٰ انسانی صفت رکھتے ہوں کہ وہ نفرت کے باوجود محبت کرسکیں۔ جو شکایت کے باوجود شکایت سے بلند ہو کر سوچنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ جو آخرت کی پکڑ کے احساس سے اپنا دعوتی فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھے ہوں، نہ کہ کسی اور احساس کے تحت۔