عہد اسلام

قرآن و حدیث میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں (predictions) موجود ہیں، جو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو زمانے آنے والا ہے، وہ اسلام کا زمانہ ہوگا۔ مثلا ایک روایت یہ ہے: صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے لیٹےتھے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا، تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کا یہ حال تھا کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڈھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا تھا اور اس کے سر پر چلایا جاتا تھا، اور اس کو دو ٹکرے کردیا جاتا تھا، اور(کبھی ایسا ہوتا کہ کسی آدمی کے جسم پر)لوہے کی کنگھی کی جاتی، یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت سے بڑ ھ کر اس کی ہڈی تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر یہ چیز اس کو اس کےدین سے روکنے والی نہیں بنتی تھی۔

پھر آپ نے فرمایا:واللہ لیتمن ہذا الأمر، حتى یسیر الراکب من صنعاء إلى حضرموت، لا یخاف إلا اللہ، والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون۔یعنی خدا کی قسم یہ امر تکمیل تک پہنچے گا، یہاں ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا، اوراپنی بکریوں پر بھیڑیے کا،مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6943)۔

یہ قول رسول ایک پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں جو اہل دین پر ظلم کیا جاتا تھا، وہ اسلام کے بعد کی تاریخ میں اللہ کی مدد سے ختم ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قبل از اسلام کا دور، اگر مخالف اسلام دور تھا تو بعد از اسلام کا دور، موافق اسلام کا دور ہوگا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں یہ دور آیا۔ اب اس پیشین گوئی پر تقریبا ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یقینی ہے کہ یہ دور تاریخ میں آچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام اس دور کی آمد سے بے خبر ہیں۔

اس عظیم بے خبری کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب،حدیث کے مطابق یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے اکثر لوگوں سے ان کی عقلیں چھن جائیں گی (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔اس بنا پر وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کریں۔ عقل کیا ہے۔ عقل اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو جان سکے:

Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.

ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مصرکے سید قطب مزید تعلیم کے لیے امریکا گیے۔ وہاں وہ تین سال رہے۔ انھوں نے امریکا کے بارے ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا عربی نام یہ ہے، امریکا التی رایت:

The America I have seen

یہ کتاب امریکا کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آدمی وہی رائے قائم کرے گاجو عام طور پر امریکا کے بارے میں عربوں کی رائے ہے۔ عرب عام طور پر امریکاکے بارے میں اپنی رائے، اس الفاظ میں بیان کرتے ہیں: امریکا عدو الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ اس منفی رائے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ امریکا کو ایک غیرمتعلق پہلو سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ امریکا کو اسرائیل کے زاویہ سے دیکھتے ہیں، وہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکا کو اس کے کلچر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ لوگ امریکاکو اباحیت (permissiveness )کا ملک سمجھتے ہیں۔ مگر یہ دونوں پہلو امریکا کے غیر متعلق پہلو ہیں۔ اس کا متعلق پہلو یہ ہے کہ امریکا میں سائنسی تحقیق (scientific research) کاسب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ غیر متعلق پہلو سے دیکھنے میں امریکا ایک برا ملک نظر آتا ہے، لیکن اگر متعلق پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا انسانیت کا محسن ملک نظر آئے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom