اصحابِ رسول، اخوان رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: وددت أنا قد رأینا إخواننا قالوا:أولسنا إخوانک یا رسول اللہ قال:أنتم أصحابی وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (حدیث نمبر249)۔یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں، لوگوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ آپ نے کہا تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔

اصحاب رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہل ایمان ہیں۔ اور اخوان رسول سے مراد آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں، جو بعد کے زمانے میں ظاہر ہوں گے۔ اصحاب رسول اور اخوان رسول میں سے کوئی افضل یا غیر اٖفضل نہیں ہے۔ دونوں عملاً یکساں درجے کے لوگ ہیں۔ اسلام میں درجہ کا تعلق زمانے سے نہیں ہے، بلکہ تقویٰ سے ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُم (49:13)۔ یعنی بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہے۔

اس حدیث کی تشریح ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن عبد اللہ بن عمرو؛ أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال:مثل أمتی کمثل المطر؛ لا یدرى أولہ خیر أم آخرہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14649)۔عبد اللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے، یا اس کا آخر۔

اس حدیث رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک تاریخی واقعہ کو بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اظہار دین کا مشن تھا۔ اس مشن کے دو دور تھے۔ پہلا دور یہ تھا کہ اسلامی مشن کے راستے میں رکاوٹوں کو ختم کرکے مواقع (opportunities) کے دروازوں کو کھولنا، اور دوسرا دور یہ تھا کہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال (avail) کرکے اسلام کا عالمی اظہار کرنا۔ پہلے دور کو حدیث میں تمثیل کی زبان میں اول المطر (first period of rain) کہا گیا ہے۔ اور دوسرے دور کو آخر المطر (second period of rain) کہا گیا ہے۔

صحابہ اور تابعین کے زمانے میں قدیم زمانے کی رکاوٹوں کا خاتمہ کیا گیا۔ مثلا شرک کے غلبہ کو ختم کرنا، بادشاہی نظام کو ختم کرنا، تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرنا جس کے نتیجے میں وہ واقعہ پیش آئے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت: 53) کہا گیا ہے۔اسلامی مشن کے اس عالمی اظہار کو حدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا یہ روایت: لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ ہذا الدین (مسند احمد، حدیث نمبر 16957 )۔ یعنی یہ امر (دین) ضرور پہنچے گا وہاں تک جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔ اللہ نہیں چھوڑے گا، مگر یہ کہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اس دین کو داخل کردے۔

اظہار دین کا یہ عالمی مشن تاریخ کا سب سے بڑا عالمی مشن تھا۔ اس لیے اللہ نے اس مشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے تاریخ میں ایسے حالات پیدا کیے جب کہ غیر اہل دین بھی اس کے موید بن جائیں۔ اللہ رب العالمین کے اس فیصلہ کو حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ضرور ان لوگوں کے ذریعہ کرے گاجو اہل اسلام نہ ہوں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔

اکیسویں صدی عیسوی میں یہ تاریخی عمل (historical process) اپنے نکتہ انتہا (culmination) تک پہنچ چکا ہے۔ اب تمام مواقع آخری حد تک کھل چکے ہیں۔ اب اہل اسلام کا ایک ہی مشن ہے، اور وہ ہے اللہ کے پیغام (قرآن ) کو پورے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کی قابل فہم زبان میں پہنچانا۔ اگر اہل اسلام کسی اور غیر متعلق کام میں اپنے آپ کو مشغول کرتے ہیں تو یہ مشغولیت ان کے لیے اس رُجز (المدثر:5) میں ملوث ہونے کے ہم معنی ہوگی جس کو ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom