معاونِ اسلام تہذیب
قدیم یونانی تہذیب سے لے کر جدید مغربی تہذیب (western civilization) تک تقریباً 100 سو تہذیبیں دنیا میں پائی گئی ہیں۔ مگر جدید مغربی تہذیب ایک منفرد تہذیب ہے۔ بقیہ تمام تہذیبیں سیاسی انقلاب کے تحت وجود میں آئیں۔ جب کہ جدید مغربی تہذیب استثنائی طور پر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کے تحت وجود میں آئی۔ قدیم تہذیبوں کے بانی سیاسی حکمراں ہوا کرتےتھے۔ مگر جدید مغربی تہذیب کو وجود میں لانے والے وہ لوگ ہیں، جن کو سائنسداں (scientists) کہا جاتا ہے۔
تہذیب کی تاریخ میں اسلامی تہذیب یا مسلم تہذیب کا نام بھی آتا ہے۔ مگر باعتبارِ حقیقت یہ درست نہیں۔جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی تہذیب نہ تھی، بلکہ وہ قدیم یونانی یا رومی تہذیب کی توسیع (expansion) تھی:
What is called Islamic civilization was in fact a modified version of Greco-Roman civilization
تہذیب (civilization) کےلیے موجودہ عرب دنیا میں حضارۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے دونوں مصادر (sources)، قرآن اور حدیث اس لفظ سے خالی ہیں۔ قرآن و سنت میں اسلامی حضارۃ (civilization) کا تصور موجود نہیں۔ علمائے متقدمین کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اسلامی حضارۃ کے موضوع پر پائی نہیں جاتی۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلامی حضارۃ ایک مبتدعانہ تصور ہے۔اس اصطلاح کا ماخذ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ:30) کہا گیا ہے۔
اس موضوع پر مزید غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اسلامی تہذیب کا تصور موجود نہیں ہے۔ البتہ اسلام میں اسلام کی موید تہذیب (supporting civilization) کا تصور موجود ہے۔ یہ تصور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول سے اخذ ہوتا ہے۔ یہ روایت حدیث کی کتابوں میں مختلف الفاظ میں موجود ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (حدیث نمبر 20454)۔یعنی مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جن کا (دین میں ) حصہ نہ ہو گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ایک پیشین گوئی (prediction) تھی۔ یہ پیشین گوئی آپ نے ساتویں صدی عیسوی میں کی۔ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں، جب کہ اس پیشین گوئی کو چودہ سوسال سے زیادہ گزرچکے ہیں۔ یہ لمبی مدت یہ یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ اب یہ پیغمبرانہ پیشین گوئی یقینی طور پر پوری ہوچکی۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اس کو دریافت کریں۔ اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کی مذکورہ پیشین گوئی اب پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس سے بے خبر ہیں تو اس کا سبب صرف تسمیہ (nomenclature) کا فرق ہے۔ یعنی پیشین گوئی ساتویں صدی عیسوی کی زبان میں کی گئی، اب وہ آج کی زبان میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔ زبان کے اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو چیز مستقبل (future)کا واقعہ معلوم ہوتی تھی، وہ اب حال (present) کا واقعہ بن چکی ہے۔ یہاں اس سلسلے میں چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں، جس سے یہ بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ کے زمانے میں جو قرآن اترا، اس کی ایک آیت یہ تھی: وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرَ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (10:61)۔ یعنی اور تیرے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز غائب نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔ ساتویں صدی میں جب یہ آیت اتری اس وقت انسان جانتا تھا کہ اس دنیا میں سب سے چھوٹی چیز ذرہ ہے۔ مگر 1911میں برٹش سائنٹسٹ ارنسٹ ردر فورڈ (Ernest Rutherford) کی دریافت سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں ذرہ سے بھی چھوٹی ایک چیز موجود ہے، جو اب سب ایٹمک پارٹکل (sub-atomic particle) کے نام سے عالمی طور پر معلوم ہوچکی ہے۔
تائید کا معاملہ
اسلامی تہذیب اور مؤید اسلام تہذیب کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر آدمی کے مزاج سے ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصور قدیم زمانہ میں موجود نہ تھا۔ یہ صرف موجودہ زمانہ میں ابھرا ہے۔ بظاہر یہ مسلم فخر کا ایک معاملہ تھا۔ مگر عملاً وہ غلط فکر کا معاملہ بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوا جو مسلمان کے لیے نہایت مفید معاملہ تھا۔ یہ واقعہ مغربی تہذیب کا معاملہ تھا۔ مغربی تہذیب مسلمانوں کے لیے حدیث کی زبان میں مؤید دین تہذیب تھی۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع (great opportunity) تھا جس کو استعمال کرکے مسلمان جدید معیار کے مطابق زیادہ مؤثر انداز میں اسلام کی اشاعت کا کام کرسکتے تھے۔ مگر اسلامی تہذیب کے نام پر فخر پسندی کا مزاج مسلمانوں پر اس طرح چھا گیاکہ وہ اس حقیقت کو دریافت ہی نہ کرسکےکہ مغربی تہذیب ان کے دین کے لیے تائید کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ کی وجہ سے مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھ لیا گیا۔ جب کہ باعتبارِ حقیقت وہ ایک مرید اسلام تہذیب تھی۔ اس غلط فکر کا نقصان اتنا بڑا ہے کہ شاید پوری مسلم تاریخ میں اتنے بڑے نقصان کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں۔
مغربی تہذیب نے تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے لیے نئے مواقع کھولے تھے۔ ان میں سب سے بڑا موقع یہ تھا کہ وہ اسلام کی عالمی دعوت کے ناتمام (unfinished) منصوبہ کو تکمیل تک پہنچاسکیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں اللہ کے کلام کو زمین پر آباد چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل کردیں۔ مگر مسلمان اپنی غلط فکری کی وجہ سے جدید مواقع کو اپنے دین کے حق میں استعمال نہ کرسکے۔