قتال، جہاد
قتال اور جہاد کا حکم اسلام میں کیا ہے۔ اس معاملے میں فقہاءاسلام کا مسلک سعودی عالم محمد بن ابراہیم التویجری نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں، جہاد اور قتال۔ جہادسے مراد جہاد دعوت ہے اور وہ حسن لذاتہ ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال حسن لغیرہ ہے۔ اس کا مقصدلڑ کر فتنہ کو ختم کرنا ہے۔کیوں کہ اس سے دعوت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (دیکھیے:موسوعة الفقہ الإسلامی، محمد بن إبراہیم التویجری، بیت الافکار الدولیہ، 2009، جلد 5 صفحہ450)۔
اس کا مطلب یہ ہےکہ اسلام میں قتال کا حکم ایک موقت (temporary) حکم ہے اور جہاد کا حکم ایک مستقل حکم۔ قتال فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ہے (البقرۃ193:، الانفال:39)۔ جب فتنہ ختم ہوجائےتو قتال کا حکم بھی موقوف ہوجائے گا۔ اس کے مقابلے میں جہاد برائے دعوت قرآن (الفرقان:52)ہے۔جہاد برائے قرآن یا برائے دعوت الی اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔یہی پر امن دعوت تمام انبیاء کا مشن تھا۔ یہ کبھی موقوف ہونے والا نہیں۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر کا کام انذار و تبشیر (النساء:165) تھا۔ یعنی پرا من انداز میں دعوت توحید کا کام انجام دینا۔ یہی کام پیغمبر کے بعد پیغمبر کی امت کا ہے۔ یہ ایک پرامن دعوتی جدو جہد ہے جو قیامت تک کسی توقف کے بغیر جاری رہے گی۔ قیامت کے سوا کوئی بھی دوسری چیز اس کو ختم کرنے والی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا، اور اس کے بعد داعیان توحید کو کھڑا کیا جو ہمیشہ پرامن انداز میں انسان کو اس کا مقصد حیات (purpose of creation) بتاتے رہے۔ مگر بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ دنیا میں جبر (despotism)کا نظام قائم ہوگیا۔ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق یہ مطلوب ہے کہ انسان کے لیے مذہب کے معاملہ میں ہمیشہ آپشن (options) کھلے رہیں۔ لیکن جبر کے تحت یہ آزادی دنیا میں باقی نہ رہی۔ انسان کو پابند کردیا گیا کہ وہ حکمراں کے عقیدہ (belief) کو مانے، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس صورتِ حال کی بنا پر دنیا سے مذہبی آزادی کا خاتمہ ہوگیااور ساری دنیا میں مذہبی جبر (religious persecution) کا دور قائم ہوگیا۔ یہ صورتِ حال خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف تھی۔ اس لیے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ(8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد قدیم مذہبی جبر کا نظام ہے، جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق نہ تھا۔ قرآن نے اپنے پیرؤوں کو یہ حکم دیا کہ ہزاروں سال سے قائم شدہ اس مذہبی جبر کے نظام کو ہر حال میں ختم کردو، خواہ اس کے لیے تم کو جنگ کرنا پڑے۔ اس جنگ کا نشانہ صرف ایک تھا۔ اور وہ یہ کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عقیدہ (belief) کے معاملے میں انسان کے لیے تمام آپشن (options) کھل جائیں۔ اس معاملے میں انسان کے لیے کوئی جبر باقی نہ رہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ یہ آپریشن (operation) شروع ہوا اور انہیں کے زمانہ میں اس آپریشن کا بڑا حصہ انجام پا گیا۔ پہلے قبائلی نظام (tribal system) ختم ہوا۔ اس کے بعد وقت کے دو بڑے ایمپائر، ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کا خاتمہ ہوگیا، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی جبر کے نظام کے دو بڑے مرکز بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے مسلسل طور پر تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1789 میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو انقلاب فرانس (French Revolution) کہا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس گویا ختم فتنہ کے عمل (process)کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اب قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب اہل توحید کو صرف پرامن دعوت کا کام کرنا ہے۔
مسلمانوں کی بعد کی تاریخ میں اس معاملے میں ایک فکری تبدیلی پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ عمومی طور پر قتال و جہاد کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ بلاشبہ ایک فکری انحراف تھا۔ اس فکری انحراف کی بنا پر یہ نقصان واقع ہوا کہ قتال ایک مستقل عمل کے طورپر مسلمانوں کے درمیان جاری ہوگیا۔ اور دعوت الی اللہ جو اصل مقصود تھا، وہ عملا پس پشت پڑگیا۔ مسلمانوں کے درمیان انحراف کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بظاہر اگر کچھ لوگ تم کو اپنے دشمن نظر آئیں تو اپنے حسن اخلاق سے ان کو اپنا دوست بناؤ (فصلت: 34)۔مگر بعد کے زمانے میں جب قتال کو جہاد کے معنی میں استعمال کیا جانےلگا تو صورت حال بدل گئی۔ اب مسلمانوں میں ہم اور وہ (we and they) کا تفریقی کلچر فروغ پانے لگا۔ اب مسلمانوں میں ایک نئی تفریق وجود میں آئی۔ اس تفریق کے تحت، کچھ لوگ اپنے تھے اور کچھ غیر تھے، کچھ مومن تھے اور کچھ کافر، کچھ دوست تھے اور کچھ دشمن۔ اس تفریق کی بنا پر مسلمانوں میں عدم برداشت (intolerance) کا کلچر پیدا ہوا۔ یہ کلچر بڑھتے بڑھتے جنگ اور خودکش بمباری (suicide bombing) تک پہنچ گیا۔
مسلمانوں کے درمیان یہ صورت حال، بلاشبہ ایک مہلک صورت حال ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان اجتماعی توبہ (النور :31)کریں۔ وہ پرتشددقتال کے کلچر کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پرامن دعوت کے کلچر کو پوری طرح اختیار کرلیں۔ اس اجتماعی توبہ میں مسلمانوں کے لیے دنیا کی فلاح بھی ہے اور آخرت کی فلاح بھی۔