یہ قیادت
پانچویں صدی عیسوی میں یونان میں کچھ سیاسی لیڈر ابھرے جنھوں نے لوگوں کے وقتی اور سطحی جذبات کو بھڑکا کر مقبولیت حاصل کی۔ ایسے لیڈر کو اس زمانہ میں ڈیماگاگ (Demagogue) کہا گیا۔ ان میں سے ایک مشہور نام کلیون (Cleon) کا ہے۔ وہ ایک بلند آواز آدمی تھا۔ اسی کے ساتھ اس کے اندر اس بات کی خصوصی صلاحیت تھی کہ وہ عوام پسند زبان میں کلام کرسکے۔ اس نے وقت کے نظام حکومت کے خلاف پرجوش تقریریں کرکے عوام کے اندر مقبولیت حاصل کر لی۔(8/357)
موجودہ زمانے میں ڈیماگاگ کا لفظ اس سیاسی لیڈر کے لئے بولا جاتا ہے جو لوگوں کے جذبات اور تعصبات کو مخاطب کرے اوراس طرح ان کے درمیان لیڈری اور مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ عوامی خواہشات کا نمائندہ بن کر لوگوں کی بھیڑ اپنے گرد اکھٹا کرلے (111/454-55) ویبسٹر کی ڈکشنری میں ڈیماگاگ کی تشریح اس طرح کی گئی ہے: ایک شخص جو عوام کے جذبات اوران کے تعصبات وغیرہ کو بھڑکائے اور اس طرح ان کا لیڈر بن کر اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرے:
A person who tries to stir up the people by appeals to emotion, prejudice, etc., in order to become a leader and achieve selfish ends.
قیادت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قائد وہ ہے جو عوام کے پیچھے چلے۔ جوعوامی جذبات کی ترجمانی کرے۔ دوسرا قائد وہ ہے جو عوام کو خود اپنے پیچھے چلائے، جو اصولوں کی نمائندگی کرنے والا ہو۔ پہلی قسم کے قائد کو موجودہ زمانے میں ڈیماگاگ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے قائدکو ہمیشہ زبردست مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسا قائد عوام کو اپنا وکیل معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے گرد بہت جلد عوام کی بھیڑ اکھٹاہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس معاملہ دوسری قسم کی قیادت کا ہے۔ ایسا قائد اپنے اعلیٰ ترین اوصاف کے باوجود عوام کے اندر اجنبی بن جاتا ہے۔اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ جمع نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہیں چلتا بلکہ وہ برتر اصولوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ ایسے قائد کو اکثر یہ کام کرنا پڑتا ہے کہ وہ بولنے والوں کو چپ کرائے اور چلنے والوں کو روکے۔