دار العمل دارالجزاء

دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء۔ یعنی دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور آخرت اس عمل کے مطابق بدلہ پانے کی جگہ۔ ہر عورت اور مرد اپنی زندگی کا ابتدائی بہت تھوڑا حصہ موجودہ دنیا میں گزارتے ہیں اور پھر موت کے بعد وہ اگلی دنیا میں پہنچا دیے جاتے ہیں جہاں ان کو اپنے عمل کے مطابق، یا جنت میں جگہ ملے گی یا جہنم میں۔

اس اعتبار سے موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ امتحان حال ہمیشہ ٹسٹ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ٹسٹ کا رزلٹ پانے کے لیے۔ جو طالب علم امتحان حال میں جاب حاصل کرنا چاہے وہ یقینی طورپر ناکام رہے گا۔ اسی طرح جو شخص موجودہ دنیا میں اپنے لیے خو شیوں کا ابدی محل بنانا چاہے وہ بھی اپنے مقصود کو نہیں پائے گا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا اس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی۔

عقلمند آدمی وہ ہے جو اس فرق کو سمجھے اور وہ دنیا میں وہ کرے جو اس کو یہاں کرنا ہے، اور آخرت کے لیے وہ چیز چاہے جو وہاں کسی خوش نصیب شخص کو ملنے والی ہے۔

اس معاملے میں عقلمند آدمی ٹھیک اسی اصول کو اختیار کرتا ہے جس کو طالب علم اختیار کرتا ہے۔ طالب علم جب امتحان حال میں ہوتا ہے تو وہ اپنی ساری توجہ اس طرف لگا دیتا ہے کہ وہ اپنے ٹسٹ پیپر کو صحیح طورپر کر سکے وہ امتحان حال میں اپنا معاشی محل بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔

ٹھیک یہی حال ہر انسان کا دنیا اور آخرت کی نسبت سے ہونا چاہیے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ موت سے پہلے کی مختصر زندگی کو آخرت کی تیاری میں لگائے تاکہ موت کے بعد کے دورِ حیات میں وہ اپنے لیے خوشیوں کی دنیا پاسکے۔ اگر کوئی عورت یا مرد موجودہ دنیا میں اس اعتبار سے غافل رہے تو اگلی دنیا میں اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی، حتی کہ یہ بھی ممکن نہ ہوگا کہ وہ لوٹ کر دوبارہ موجودہ دنیا میں آئے اور آخرت کی نسبت سے دوبارہ اپنی تعمیر کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom