خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۷۲
۱۔ نئی دہلی میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے نام سے ایک ادارہ ہے جو ایشیا کا سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ حال میں اُس کے تحت صدر اسلامی مرکز کے تین پروگرام ہوئے۔ ایک خود انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے زیر انتظام اور دو گڈورڈ بکس(Goodword Books) کے زیرِ انتظام۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ دی مسیج آف قرآن (The Message of Quran) یکم مئی ۲۰۰۵۔
۲۔ اسنس آف اسلام (Essence of Islam) ۵ جولائی ۲۰۰۵۔
۳۔ گاڈ اینڈ ہز کرییشنپلان(God and His Creation Plan) ۱۰ جولائی ۲۰۰۵۔
یہ تینوں پروگرام کافی کامیاب رہے۔ ہر ایک میں ہندو اور مسلمان دونوں طبقے کے تعلیم یافتہ افراد نے شرکت کی۔ تینوں پروگراموں کے موقع پر اسلامی مرکز کا بک اسٹال رکھا گیا۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں کتابیں اور پمفلٹ اور بروشر حاصل کیے۔
۲۔ مظفر نگر کے ایک گاؤں میں ۴ جون ۲۰۰۵ کو ایک واقعہ ہوا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق، ایک مسلم خاتون عمرانہ کے خسر علی محمد نے عمرانہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی (شوہر کا نام نور محمد ہے)۔ یہ واقعہ میڈیا میں بہت زیادہ پھیلا۔ یہ واقعہ انگریزی میگزین آؤٹ لُک کے شمارہ ۱۸ جولائی ۲۰۰۵ میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اسٹار نیوز نے اس واقعے پر ۶ جون ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ دستیاب معلومات کے مطابق، اس معاملے میں عمرانہ قصور وار نہیں ہے بلکہ اُس کا خُسر قصور وار ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہندستان میں سزا دینے کا اختیار کسی دارالافتاء یا دار القضاء کو نہیں ہے۔ اُس کا اختیار تمام تر صرف ملکی عدالت کو ہے۔
۳۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) نے عمرانہ کے واقعہ (۴ جون ۲۰۰۵) پر صدر اسلامی مرکز کا دوسرا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا۔ اس میں جو بات کہی گئی اس میں سے ایک یہ تھی کہ ہم کو اس معاملے میں میڈیا سے شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح معاشرہ کی تحریکیں چلائی جائیں اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔
۴۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ مہا میگھا کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار شاہ نے ۱۰ جون ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم تہذیب اور مسلم عورتوں کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں عورتوں کو پورے معنوں میں مرد کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اگر اِس اعتبار سے مسلم سماج میں کچھ کمی نظر آتی ہے تو وہ خود مسلمانوں کے اپنے عمل کی بنا پر ہے۔ اس کا تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں۔
۵۔ ۲۵ جون ۲۰۰۵ کو ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا تعلق مظفر نگر کے واقعہ (۴جون ۲۰۰۵) سے تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ اس معاملے میں مسلم علماء کی طرف سے جو رویّہ سامنے آیا وہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں عمرانہ بے قصور ہے۔ سارا قصور اس کے خسر کا ہے۔ مگر علماء نے برعکس فتوے دے کر خواہ مخواہ اسلام کو بدنام کیا ہے۔ یہ فتویٰ تمام مسلم علماء کا نہیں ہے۔ بلکہ صرف دیوبندکے علماء کا فتویٰ ہے۔ جہاں تک سلفی علماء کا تعلق ہے، وہ اس فتوے سے اتفاق نہیں کرتے۔
۶۔ بی بی سی لندن کے کرسپانڈنٹ مسٹر شکیل اختر نے ۲۹ جون ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں دو آل انڈیا مسلم تنظیمیں بنی ہیں، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔ یہ دونوں تنظیمیں حالات کے ری ایکشن کے تحت ہی بنیں۔ آل انڈیامسلم مجلس مشاورت فرقہ وارانہ فساد کے ردّ عمل کے تحت بنی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ شاہ بانو کے کیس پرسپریم کورٹ کے فیصلے کے ردّ عمل میں بنا۔ یہ دونوں تنظیمیں ’’میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی‘‘ کا مصداق تھیں۔ اس لیے دونوں تنظیمیں بے نتیجہ رہیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ اس دنیا میں منفی عمل سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔
۷۔ فاؤنڈیشن فار یونٹی آف ریلیجنز اینڈ انلائٹنڈ سٹیزنشپ (FUREC) کے زیر اہتمام نئی دہلی میں ایک دھرم سمّیلن ہوا۔ اس کی کارروائی اَدھیاتم سادھنا کیندر (مہرولی) میں ہوئی۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز اس میں شریک ہوئے اور روحانیت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری آج کی دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں پھول کے ساتھ کانٹے ہیں۔ یہاں ہر قسم کے مسائل ہیں جن کو قرآن میں کبد کہا گیا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ ان مسائل کے خلاف چیخ پکار نہ کرے۔ بلکہ وہ ان مسائل کے درمیان مثبت زندگی گزارے۔ اسی کا نام روحانیت ہے۔ یہ سیمینار ۳۰ جون ۲۰۰۵ کو مہرولی میں ہوا۔ اس کے کوآرڈینیٹر بریگیڈئر پی کے لنگر تھے۔
۸۔ گاڈس گریس فاؤنڈیشن (God's Grace Foundation) دہلی کا ایک تعمیری ادارہ ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید ظفر محمود ہیں۔ اس ادارے کے تحت، یکم جولائی ۲۰۰۵ کو ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس میں امریکا کے آٹھ پروفیسر شریک ہوئے۔ انڈیا سے ہر مذہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز بھی اس میں شریک ہوئے۔ اِس سیمینار کا موضوع یہ تھا:
Interfaith Bridge-building Session
صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مذکورہ موضوع پر خطاب کیا۔ اس سیمنار کی کارروائی سردار پٹیل بھون (نئی دہلی) میں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز کے ساتھ اسپریچول کلاس کے گیارہ اَفراد شریک ہوئے۔ اِن اَفراد نے سیمینار کے شُرکاء سے ملاقاتیں کیں اور ان کو اسلامی لٹریچر دیا۔ لوگوں نے بہت شوق سے اسلامی لٹریچر کو لیااور کہا کہ وہ ضرور اس کا مطالعہ کریں گے۔
۹۔ یو۔ این۔ آئی (نئی دہلی) کی نمائندہ ناز اصغر نے ٹیلیفون پر ۲؍ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں میں پانچ بڑے فقہی اسکول ہیں—مالکی، حنبلی، شافعی، حنفی اور جعفری۔ ہر مکتب فکر کے علماء اپنے مسلک پر فتوے دیتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کسی کے فتوے کو شرعی فتویٰ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر فتویٰ اپنے فقہی اسکول کی طرف منسوب رہے گا اور لوگوں کو یہ حق باقی رہے گا کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کو جانچیں اور اگر وہ پائیں کہ یہ فتویٰ قرآن و حدیث سے مطابق نہیں ہے تو وہ اس کو ردّ کردیں۔
۱۰۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار وجے ٹائمس (Vijay Times) کی نمائندہ دیکشا چوپڑا نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا تعلق زیادہ تر انڈیا کے مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ انڈیا کے مسلمان مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں مگر ان مسائل کے بارے میں یہ سمجھنا غلط ہے کہ ان کا سبب مذہب اسلام ہے۔ ان مسائل کے اسباب کچھ اور ہیں۔ مثلاً عمرانہ (۴ جون ۲۰۰۵) کے واقعے کا سبب جہالت ہے۔ جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ عمرانہ کا شوہر نور محمد ایک رکشہ چلانے والا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ اسی طرح کٹر پن بھی کم پڑھے لکھے مسلمانوں کا ظاہرہ ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں یہ چیز موجود نہیں ہے۔ ایک اور سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل کامن سول کوڈ نہیں۔ کامن سول کوڈ جیسا ایک ایکٹ (سول میرج ایکٹ) آج بھی موجود ہے مگر ہندستانی سماج پر اس کا اثر ایک فی صد بھی نہیں۔ ان مسائل کو صحیح طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں میں فرق کرتے ہوئے ان کو دیکھا جائے۔
۱۱۔ روزنامہ دَینک جاگرن (نئی دہلی) کے نمائندہ ارشد فریدی نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مظفر نگر کے واقعہ (۴ جون) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اس معاملے میں علماء اور جماعتوں کا فتویٰ غلط ہے۔ اسلام کے مطابق، سزا برا فعل کرنے والے کو ملے گی نہ کہ بالجبر برے فعل کا شکار ہونے والے کو۔ میرے نزدیک اس معاملے میں عمرانہ بے قصور ہے۔ اس معاملے کی تفصیلی روداد انگریزی میگزین آؤٹ لُک (Out Look) کے شمارہ ۱۸ جولائی ۲۰۰۵ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۲۔ اٹلی میں ایک تنظیم ایسوشیزون کلچریل ارمونیا(Associazione Culturale Armonia) کے نام سے ہے۔ اُس کا صدر دفتر نوالے (Noale) میں قائم ہے۔ اس تنظیم کا ایک وفد اُس کے صدر ایٹمبری ماریو (Atombri Mario) کی قیادت میں ۳ جولائی ۲۰۰۵ کو نئی دہلی آیا اور صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اُنھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک اسلام اور روحانیت کے موضوع پر گفتگو کی۔ اسلام کے روحانی تصور سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اُنھیں اسلامی مرکز کی انگریزی مطبوعات دی گئیں۔ اس کے علاوہ ان کی فرمائش پر اُن کو یہ دعا لکھ کر دی گئی: اَللہم أنت السلام ومنک السلام وإلیک یرجع السلام، اللہم حیینا بالسلام وادخلنا دارک دار السلام۔ تبارکت ربنا وتعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔ اس دعا کو اُنھیں رومن رسم الخط میں لکھ کر دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ دعا ہم کو بہت پسند ہے اور ہم اس کو اپنے کارکنوں کی مجلس میں باقاعدہ وِرد کے انداز میں پڑھیں گے۔
۱۳۔ ۵ جولائی ۲۰۰۵ کو اجودھیا میں قدیم بابری مسجد کے علاقے میں خود کُش حملہ ہوا۔ اس سلسلے میں نئی دہلی کے آج تک ٹی وی اور انڈیا ٹی وی نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دونوں میں یہ کہاگیا کہ اس قسم کا واقعہ ہر حال میں قابل مذمت ہے۔ اسلام میں تشدد جائز نہیں۔ صرف حکومت یا عدالت تحقیق وتفتیش کے بعد بقدر ضرورت تشدد کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ عوام کو کسی حال میں تشدد کی اجازت نہیں۔
۱۴۔ ہندی روزنامہ مہامیگھا (महामेघा) کے نئی دہلی کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار شاہ نے ۱۳ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ’’آتنک واد اور اسلام‘‘ سے تھا۔ جواب میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ آتنک واد کا فعل جو آج آپ دیکھ رہے ہیں وہ مسلمانوں کا فعل ہے وہ اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں۔
۱۵۔ اسلامی مرکز کے تحت اسپریچول کلاس کا ہفتے وار سلسلہ جنوری ۲۰۰۱ سے جاری ہے۔ اب تک یہ کلاس سی۔۲۹ نظام الدین ویسٹ میں ہورہی تھی۔ ۱۷ جولائی ۲۰۰۵ سے اس کا سلسلہ سی۔۱، نظام الدین ویسٹ مارکٹ میں شروع کیا گیا ہے۔ اس کلاس میں ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں کے تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوتے ہیں۔ چوں کہ شرکاء کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی اس لیے جگہ بدلنے کا فیصلہ کیا گیا۔
۱۶۔ ایک نئی کتاب زیر ترتیب ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے حالات پر مشتمل ہوگی۔
۱۷۔ مالدیپ میں عرصے سے ماہنامہ الرسالہ جارہا ہے۔ نیز الرسالہ مطبوعات بھی وہاں بڑی تعداد میں پہنچی ہیں۔ اب مالدیپ کے کچھ لوگ الرسالہ مطبوعات کا ترجمہ وہاں کی مقامی زبان میں شائع کررہے ہیں۔ اب تک اس قسم کے کئی ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں مالدیپ سے ایک خط موصول ہوا ہے۔