مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی اصولی بنیاد کیا ہے۔ اس کو مسلم اور ذمّی یا مسلم اور حربی جیسی اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس قسم کے فقہی الفاظ صرف وقتی تعلق کو بتاتے ہیں، وہ دونوں کے درمیان مستقل یا اصولی تعلق کو نہیں بتاتے۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کی فطری بنیاد یہ ہے کہ دونوں یکساں طورپر انسان ہیں۔ دونوں کے درمیان انسانیت کا ابدی رشتہ قائم ہے۔ انسانیت کا تعلق دونوں کے درمیان وہ فطری تعلق ہے جو کبھی اور کسی حال میں ٹوٹنے والا نہیں۔ ہر سماج میں اور ہر ملک میں یہ انسانی رشتہ یکساں طورپر برقرار رہتا ہے۔ یہ رشتہ وہ ہے جو پیدائش کے ساتھ ہی دونوں گروہوں کے درمیان اپنے آپ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اٹل رشتہ ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان دوسرا رشتہ وہ ہے جو عقیدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، مسلمان ایک صاحب مشن گروہ ہے۔ یہ مشن وہی ہے جو پیغمبرکا مشن تھا۔ یعنی خدا کے پیغام کو پُر امن طورپر دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ اس اعتبار سے زیادہ صحیح طورپر، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے—داعی اور مدعو، شاہد اور مشہود، ناصح اور منصوح۔
انسان کی نسبت سے مسلمانوں کے اوپر دوسرے لوگوں کے لیے وہ تمام فرائض عائد ہوتے ہیں جو اخلاق کے عنوان سے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات کی پابندی جس طرح دوسرے لوگوں کے لیے ضروری ہے اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ داعی کی حیثیت سے مسلمانوں کی اخلاقی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا ثبوت دیں، تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم رہیں جو کہ مؤثر دعوتی عمل کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔