شرعی عدالتیں، ہندستانی عدلیہ کے متوازی نہیں

ہر قانونی نظام میں قانون کے دو حصے مانے گیے ہیں۔ ایک، اَحوالِ اجتماعی۔ دوسرا، احوالِ شخصی۔ احوالِ اجتماعی سے مراد وہ احوال ہیں جو دو یا زیادہ شخصوں کے درمیان پیدا شدہ معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ احوالِ شخصی سے مراد وہ معاملات ہیں جو کسی فرد کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہر قانونی نظام میں ایسا ہوتا ہے کہ احوالِ اجتماعی کا تعلق ریاست یا عدالت سے ہوتا ہے۔ مگر جہاں تک احوالِ شخصی کا تعلق ہے، اس معاملے میں لوگوں کو یہ رخصت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی دائرے والے معاملات کو بطورِ خود ثالث یا کسی اور طریقے سے طے کریں۔ اگر یہ فیصلہ سماج کے دوسرے لوگوں کے حقوق پر اثر انداز نہ ہوتا ہو تو اس کو ایک جائز فیصلہ تسلیم کرلیا جاتا ہے۔

برّ صغیر ہند میں یہ نظام ماضی قدیم سے چلا آرہا تھا۔مسلم عہدِ حکومت سے پہلے ہندستان میں راجاؤں کی حکومت تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان ہندستان میں آئے، اور مختلف راجاؤں کے حدودِ سلطنت میں آباد ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان ہندو راجاؤں نے اپنی مسلم رعایا کی مذہبی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایک مخصوص قانونی عہدہ قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ اس مسلم عہدے دار کا نام ’’ہُنر من‘‘ ہوتا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے شخصی معاملات میں انھیں شریعت کے مطابق فیصلہ دے۔

ہندستان میں جب مسلم عہد سلطنت شروع ہوا تو اس روایت کو باقی رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے ذمے دار افراد مقرر کیے گیے۔ ان کو قاضی کہا جاتا تھا۔ یہ گویا آزاد قانونی ادارہ تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ مسلم افراد کے شخصی یا خاندانی معاملات میں شریعت کی رہنمائی میں فیصلے دے۔ یہ قاضی احوالِ اجتماعی میں دخل نہیں دیتے تھے۔ وہ محدود طور پر صرف شخصی احوال میں مسلمانوں کی ایک دینی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔

انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں برٹش راج قائم ہوا تو برٹش حکمرانوں نے قاضی کے عہدے کو باقی رکھا۔ یہ قاضی ہندستان کے اکثر شہروں میں موجود ہوتے تھے اور وہ مسلمانوں کے شخصی احوال میں ان کی شرعی رہنمائی کرتے تھے۔

۱۹۴۷میں ہندستان آزاد ہوا تو اُس وقت مولانا ابوالکلام آزاد حکومتِ ہند میں وزیرِ تعلیم کے عہدے پر تھے۔ مولانا آزاد کے مشورے سے حکومت نے اِس مقصد کے لیے دہلی میں ایک مسلم جج مقرر کیا۔ ان کا نام محمد شفیع تھا۔ جب تک وہ زندہ رہے یہ نظام چلتا رہا۔ وہ خاص طورپر نکاح وطلاق کے معاملات میں اپنا فیصلہ دیتے تھے۔ مگر محمد شفیع صاحب کے انتقال کے بعد یہ نظام عملاً ٹوٹ گیا۔

اس کے بعد مختلف مدارس اور مسلم اداروں میں قائم شدہ دار الافتاء اور دار القضاء مسلمانوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے لگے۔ دار الافتاء اور دار القضاء کا یہ نظام کامیابی کے ساتھ چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں ان اداروں نے بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کی ہے۔ ہندستان کی ریاست یا یہاں کے سیاسی نظام نے اس کو تسلیم کیا۔ کیوں کہ وہ دستورِ ہند میں دی ہوئی مذہبی آزادی کے مطابق تھا۔

۴ جون ۲۰۰۵ کو مظفر نگر کے ایک گاؤں میں ایک واقعہ ہوا۔ جس نے غالباً پہلی بار نئی صورت حال پیدا کردی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک مسلم خاتون (عمرانہ)کے ساتھ خود اس کے خاندان کے ایک ممبر نے زنا بالجبر کا فعل کیا۔ اس پس منظر میں کچھ لوگوں نے ملوث افراد کا نام لیے بغیر بالواسطہ انداز میں ایک استفتاء مرتّب کیا، اور اس کو دیوبند کے دار الافتاء میں بھیج دیا۔ دالافتاء والوں نے اس معاملے میں اپنے فقہی اصول کے مطابق، ایک فتویٰ جاری کردیا۔ اس فتوے سے اصل مجرم کو تو کوئی سزا نہیں ملی، البتہ اس نے عمرانہ اور اس کے پورے خاندان کے لیے ناقابلِ بیان مسائل پیدا کردیے۔ ایسے مسائل جن کا کوئی حل مفتی صاحبان کے پاس نہ تھا۔ کیوں کہ مفتی صاحبان کے پاس فتویٰ تحریر کرنے کا اختیار ضرور موجود تھا مگراس فتوے کو نافذ کرنے کا کوئی اختیار انھیں حاصل نہ تھا۔

مزید یہ کہ دیوبند کے اس فتوے نے ایک سنگین نوعیت کا قانونی بحران پیدا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ سپریم کورٹ نے اس کی سماعت کرکے مختلف ریاستوں کے نام یہ نوٹس جاری کردیے کہ وہ مسلمانوں کے اس نظامِ فتویٰ پر پابندی لگائیں، کیوں کہ یہ لوگ اپنی حد سے تجاوز کرکے ملک کے عدالتی نظام میں مداخلت کررہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا یہ اقدام اصولی طورپر درست ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ فتوے کا نظام چلانے والوں نے غالباً نادانستہ طورپر یہ غلطی کی کہ وہ اپنی جائز حد سے باہر چلے گیے۔ انھوں نے زنا بالجبر کے ایک واقعے میں بالواسطہ طورپر ایک فتویٰ جاری کردیا۔ حالاں کہ زنا بالجبر مسلّمہ طورپر ایک فوجداری کیس ہے، اور فوجداری کیس سرکاری عدالت کی عمل داری میں آتا ہے۔ وہ دارالافتاء یا دارالقضاء کے دائرۂ عمل سے باہر کی چیز ہے۔

سپریم کورٹ کے اس اقدام نے ایک سنگین قسم کا قانونی بحران پیدا کردیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے اس اقدام کا تعلق موجودہ نظامِ فتویٰ کے وجود سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صرف ایک، یا بعض غلط فتووں سے ہے۔ اس معاملے کا سادہ حل یہ ہے کہ فتوے کا نظام چلانے والے ایک عرضی انڈیا کی سپریم کورٹ میں داخل کریں۔ اس عرضی میں غیر مشروط طورپر یہ کہا گیا ہو کہ زنا بالجبر کا مذکورہ کیس ایک فوج داری کیس تھا۔ ایسے معاملے میں فتویٰ دینا عملاً ملک کے عدالتی نظام میں ایک قسم کی مداخلت تھی۔ اب وہ اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے فتوے کو واپس لیتے ہیں اور آئندہ کے لیے عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے فتوے کا نظام مسلمانوں کے شخصی امور تک محدود رکھیں گے۔ وہ کسی بھی ایسے معاملے میں ہرگز کوئی فتویٰ نہ دیں گے جس کا تعلق دستورِ ہند کے مطابق، ملک میں قائم شدہ عدالت سے ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی عرضی سپریم کورٹ کے لیے یقینا قابلِ قبول ہوگی اور وہ اپنا جاری کردہ نوٹس واپس لے لے گی۔

میری اس تجویز پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو پسپائی ہے۔ اور پسپائی مسلمان کا طریقہ نہیں۔ ہمیں اقدام کرکے سامنے آنا چاہیے اور سپریم کورٹ سے لڑ کر اپنا حق منوانا چاہیے۔

میں کہوں گاکہ یہ پسپائی کی بات نہیں، بلکہ یہ اعترافِ خطا کی بات ہے۔ اور اعتراف اور پسپائی دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ مسلمان انڈیا میں دستورِ ہند کو مان کر رہ رہے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج داری نوعیت کے کیس میں فتویٰ دینا دستورِ ہند کے مطابق، ملک کے قانونی نظام میں مداخلت ہے۔ اور دستورِ ہند کے مطابق اِس قسم کی مداخلت جائز نہیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے یا تو وہ دستورِ ہند سے بغاوت کا اعلان کردیں اور پھر اپنے اس عمل کی ہر قیمت کو ادا کریں، یا پھروہ کھُلے طورپر یہ اعتراف کرلیں کہ مفتی صاحبان نے اس معاملے میں ملک کے قانونی نظام کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان دو کے سوا کوئی تیسرا انتخاب عملی طورپر ان کے لیے ممکن نہیں۔

یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ مسلمانوں کو دوسری بار وہ غلطی نہیں کرنا چاہیے جو انھوں نے ۱۹۸۶ میں شاہ بانو بیگم کے مشہور کیس میں کی تھی۔ شاہ بانو کے کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس کی ذمّے داری واضح طور پر خود مسلمانوں پر عائد ہوتی تھی۔ اس معاملے میں جو ہُوا وہ یہ تھا کہ ایک مسلم خاتون (شاہ بانو بیگم) اپنے طلاق کے کیس کو ملکی عدالت میں لے گئیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سابقہ شوہر مجھے ماہانہ گذارہ(maintenance) ادا کرے۔ اپنے مطالبے کے حق میں انھوں نے عدالت میں عبد اللہ یوسف علی کا ترجمۂ قرآن پیش کیا جس میں قرآن کی ایک متعلق آیت (البقرہ: ۲۴۱) کے تحت، متاع کا ترجمہ گذارہ (maintenance) کیاگیا تھا۔ انگریزی کا یہ ترجمۂ قرآن جو ساری دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبول تھا اس کو لے کر سپریم کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔

اصولی بات یہ تھی کہ عبد اللہ یوسف علی نے آیت کا جو ترجمہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ قرآنی لفظ متاع کا صحیح ترجمہ پراویجن (provision) ہے نہ کہ مین ٹیننس (maintenance

اس معاملے میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ مطلّقہ عورت کے خاوند کو چاہیے کہ وہ بوقت طلاق حسب حیثیت عورت کو کچھ رقم وغیرہ دے دے۔ بعد از طلاق ماہانہ گذارہ ادا کرنے کی ذمے داری سابقہ شوہر پر نہیں۔ ایسی حالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ خالص شرعی اعتبار سے درست نہ تھا۔ مگر اس نادرست فیصلے کی اصل ذمے داری دو مسلمانوں پر تھی— شاہ بانو بیگم (مدّعیّہ) اور عبد اللہ یوسف علی (مترجم قرآن) ایسی حالت میں اس معاملے میں مسلمانوں کی تحریک کا رُخ شاہ بانو بیگم اور عبد اللہ یوسف علی یا اُن کے ترجمۂ قرآن کے ناشر کی طرف ہونا چاہیے تھا نہ کہ سپریم کورٹ کی طرف۔

مگر اس معاملے میں مسلم علماء اور رہنماؤں نے یہ کھلی غلطی کی کہ انھوں نے اپنی پوری تحریک سپریم کورٹ اور حکومتِ ہند کے خلاف چلا دی۔ شاہ بانو یا عبد اللہ یوسف علی کے مذکورہ غلط ترجمے سے انھوں نے کوئی تعرض نہیں کیا۔

یہ روش بلاشبہہ خلافِ عدل تھی۔ چناں چہ انڈیا کے مسلمانوں کو اس غیر عادلانہ روش کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ تمام لوگ جانتے ہیں کہ دراصل شاہ بانو تحریک ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ انڈیا میں پہلی بار وہ عناصر سیاسی اقتدار پر قابض ہوگیے، جن کو مسلمان مسلم دشمن عناصر کہتے ہیں۔ (واضح ہو کہ مسلم دشمن عناصر کا نظریہ راقم الحروف کا نظریہ نہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک کوئی بھی ہمارا مستقل دشمن نہیں۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، دشمن بھی ہمارے لیے امکانی دوست (potential friend) کی حیثیت رکھتا ہے۔ حم السجدہ: ۳۴)

آخری بات یہ کہ غیر عادلانہ تحریک ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے وہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہوتی ہے۔ مسلمان نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیا میں اس قسم کے ناعاقبت اندیشانہ تجربے کر چکے ہیں۔ اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی غلطی کو مزید نہ دہرایا جائے کیوں کہ حدیث میں آیا ہے: لا یلدغ المؤمن من جُحرٍ واحدٍ مرّتین، البخاری (مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom