سیاسی اصطلاحیں
دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب کی اصطلاحیں بعد کے زمانے میں اس وقت وضع کی گئیں جب کہ مسلمانوں کا ایک پولیٹکل امپائر بن چکا تھا۔ زمین کے ایک بڑے حصے پر مسلمانوں کا سیاسی غلبہ قائم ہوچکا تھا۔ اس سیاسی ماحول میں فقہ کی تشکیل ہوئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ قدرتی طورپر یہ ہوا کہ فقہ کی تدوین وتشکیل میں سیاسی نقطۂ نظر غالب آگیا۔ فقہ عملاً مسلمانوں کے دور سلطنت کا اظہار بن گئی۔
اس کی ایک مثال دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب کی اصلطلاحیں ہیں۔ ان اصطلاحات میں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مفروضہ کام کررہا تھا کہ مسلمان سیاسی طور پر غالب پوزیشن میں ہیں اور وہ اپنی اس سیاسی پوزیشن کے حوالے سے دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متعین کررہے ہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ سیاسی اقتدار کسی گروہ کا ایک وقتی مرحلہ(temporary phase) ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے بعد کے دور میں بننے والی فقہ، اسلام کے ابدی تقاضوں کا اظہار نہ تھی، وہ زیادہ تر وقتی ضرورتوں کے تحت مدون کی گئی۔
قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان جو تعلق ہے وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ خدا کے رسول کے ذریعے مسلمانوں کو خدا کا پیغام ملا ہے اوراس پیغام کو انھیں تمام قوموں تک پہنچانا ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس عمل کو نسل درنسل جاری رکھیں۔ دوسری قوموں کی نسبت سے مسلمانوں کا تعلق متعین کرنے کے لیے مرکزی تصور یہی ہے۔ یہ تصور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مدعو فرینڈلی بناتا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان ہمیشہ نارمل تعلق قائم ہو، تاکہ دعوت کا عمل مؤثر انداز میں جاری رہے۔
مگر فقہ کی تدوین کے وقت مسلم دنیا میں جو سیاسی ماحول تھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی ابواب تو فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ شامل ہوگئے مگر دعوت اورتبلیغ کا باب سرے سے اس میں شامل نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ کی تماتم کتابیں کتاب الدعوۃ والتبلیغ سے خالی نظر آتی ہیں۔
فقہ کی کتابوں کے ان ابواب کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا حاکم اور محکوم میں تقسیم ہے۔ ایک طرف مسلم حکمراں ہیں اور دوسری طرف محکوم غیر مسلم۔ مسلمانوں کے لیے مطلوب حالت یہ ہے کہ زمین پر ان کا سیاسی اقتدار قائم ہو، یعنی وہ حالت جس کو فقہ میں دارالاسلام کہا گیا ہے۔ اس کے بعد جو بقیہ دنیا ہے وہ یا تو ’’غیر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جس کو فقہ کی تقسیم میں دار الکفر بتایا گیا ہے۔ یا پھر یہ کہ مسلمانوں کے لیے وہ خطہ دار الحرب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی مسلمان ان سے برسرِ جنگ ہیں تاکہ وہاں اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔
اسلام کا یہ تصور بلاشبہہ اسلامی تاریخ کی سیاسی تعبیر کے ہم معنی ہے۔ اقتدار مسلمانوں کی مستقل وراثت نہیں۔ قرآن کے مطابق، اقتدار دوسرے تمام سامانِ حیات کی طرف صرف ایک ٹسٹ پیپر ہے اور وہ ہر قوم کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کی کوئی خصیوصیت نہیں۔ اس اصول کو مان لیا جائے تو دار الاسلام، دار الکفر اور دارلحرب کی اصطلاحیں اپنے آپ غیر متعلق (irrelevant)ہو جاتی ہیں۔
دار الاسلام، دار الکفر اور دارالحرب کی اصطلاحوں کے پیچھے یہ سیاسی مفروضہ شامل ہے کہ مسلمان اور دوسری قوموں کے درمیان حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے، مگر یہ تصور سراسر بے بنیاد ہے۔ قرآن و سنت میں اس کے لیے کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلم کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کو قرآن میں شاہد اور مشہور (البروج ۳) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
ایک مسلم پروفیسر نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام میں پوزیشن آف اسٹرنتھ (position of strength) کا ماڈل موجود ہے، مگر اسلام میں پوزیشن آف ماڈسٹی کا ماڈل موجود نہیں۔ یہ بات انھوں نے اس لیے کہی کہ انھوں نے اسلام کا ماڈل بعد کے مسلم دورِ اقتدار سے اخذ کیا۔ اس سے پہلے اسلام کے نبوی دور میں اسلام کا جو ماڈل تھا وہ تمام تر پوزیشن آف ماڈسٹی ہی کا ماڈل تھا۔ حالاں کہ اسلام میں اصل ماڈل کی حیثیت دَور دعوت کی ہے نہ کہ دور اقتدار کی۔