عقل کا مسئلہ

عقل (reason) کیا ہے۔ عقل خالق کا ایک قیمتی عطیہ ہے۔ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالی نے عقل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا — میں نے کوئی مخلوق نہیں پیدا کی— جو میرے نزدیک تم سے زیادہ افضل ہو(مَا خلقت خلقا...أکْرم عَلیّ مِنْک)نوادر الاصول،الحکیم الترمذی، جلد 2، صفحہ 353۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام کمالات کا انحصار عقل پر اور عقل کے استعمال پر ہے۔ عقل کے بغیر کوئی بھی انسانی ترقی ممکن نہیں۔عقل نہ ہو تو انسان پتھر کے ایک اسٹیچو کی مانند ہوجائے گا۔ وہ نہ حق کو حق سمجھ سکے گا اور نہ باطل کو باطل۔عقل بذاتِ خود معیار (criterion) نہیں ہے۔ عقل، فہم وادراک کی صلاحیت (ability) ہے۔ عقل کی حیثیت آلہ یا فیکلٹی (faculty) کی ہے، عقل کی حیثیت مستقل بالذات جج کی نہیں۔ عقل، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے کی استعداد کا نام ہے:

Reason: The intellectual faculty by which conclusions are drawn from premises.

عقل اور وحی (revelation) کو ایک دوسرے کا حریف بتانا بلاشبہ ایک غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعۂ علم ہے، جب کہ عقل بذاتِ خود کوئی ذریعۂ علم نہیں۔ خود وحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرتاہے تو وہ بھی یہی کرتاہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اُس پر غور کرتاہے اور پھر یقین کے درجے میں پہنچ کر وہ وحی کی صداقت کو دریافت کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عقل، وحی کی مددگار ہے، نہ کہ وحی کی مدِّ مقابل۔

عقل، خالق کی دی ہوئی ایک فطری صلاحیت ہے، عقل کسی کی ذاتی ایجاد نہیں۔ اِس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوا کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح عقل کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے عقل کا غلو آمیز تصور (extreme version) پیش کیا۔ انھوں نے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کرتےہوئے خود ساختہ طورپر یہ دعوی کیا کہ عقل بذاتِ خود حصولِ علم کا معیاری ذریعہ ہے۔ مذہبی طبقے نے اِس تصورِ عقل کو درست سمجھ لیا اور وہ غیر ضروری طورپر عقل یا عقلی غوروفکر کو مذہب کا مخالف سمجھنے لگے اور وہ اِس طرح کی غیرعلمی باتیں کرنے لگے —عقل کا دائرہ الگ ہے اور وحی کا دائرہ الگ۔ عقل کا دائرہ وہاں پر ختم ہوجاتاہے، جہاں سے وحی کا آغاز ہوتاہے، وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ عقل الگ ہے اور عقل پرستی الگ۔

قرآن میں ’عقل‘کا مادّہ (root word)تقریباً 50 بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں بار بار عقل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ اپنی عقل کے ذریعے وحی کی صداقت کو دریافت کرو۔ مثال کے طور پر قرآن کی سورہ یوسف میں یہ آیت آئی ہے:إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (2:12)۔ یعنی ہم نے اِس کتاب کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے، تاکہ تم سمجھو:

We have sent down the Quran in Arabic, so that you may understand (by applying reason).

اِسی طرح قرآن میں بتایاگیا ہے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کی صداقت کو دریافت کرو(یونس، 10:16)، وغیرہ۔انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت۔ کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ۔ اُنھیں میں سے ایک صلاحیت عقل ہے، جس کے ذریعے انسان سوچنے اور تجزیہ کرنے کا کام لیتاہے۔ اِسی کے ساتھ انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے۔ انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اُس کا غلط استعمال کرے، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کان اور آنکھ کا صحیح استعمال بھی ہے اور اس کا غلط استعمال بھی۔

عقل انسان کو اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ ڈاٹا (data) جمع کرے، اور پھر حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے صحیح علم تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ تاہم عقل بذاتِ خود علم کا ذریعہ نہیں، اِس لیے عقل صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور غلط فیصلے تک بھی۔ جو لوگ عقل کو بذاتِ خود علم کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل عقلی مدرسۂ فکر (school of thought) کے انتہا پسند (extremists) لوگ ہیں۔ ایسے انتہا پسند لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، حتی کہ خود مذہب اور عقیدے کے دائرے میں بھی۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom