میں خدا کو پانا چاہتا ہوں

ایک صاحب اپنے ای میل میں لکھتے ہیں: میں خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ تقریباً 20/21سال سے آپ کی کتابیں، اورماہنامہ الرسالہ پڑھنے والوں میں سے ہوں۔ تذکیر القرآن کا تقریباًہر روز مطالعہ کرتا ہوں۔ سائنٹفک ریسرچ اور کائنات پر غور کرنے سے بھی یہ بات ثابت تو ہوجاتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے۔لیکن میں ذاتی طور پر خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ شاید میں اس کو پانے کی قیمت ادا نہیں کر پارہاہوں۔ بقول آپ کے اپنی ہستی کو مٹانا ہے۔ روزانہ دعا کرتا ہوں کہ خدا مل جائے۔ زندگی میں کوئی لطف باقی نہیں رہا۔ ایک بے مزہ زندگی سے اکتا گیا ہوں۔ کیا آپ سے کوئی رہنمائی مل سکتی ہے۔

آپ سے رہنمائی چاہنے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک، آپ کی تحریر آج سے 21 سال پہلے بنا کسی انسانی مداخلت کے بالکل معجزاتی طور پر مجھے اس وقت ملی، جب کہ میں روزانہ موت کی تمنا کیا کرتا تھا۔ پورا واقعہ لکھنا مشکل ہے۔ مختصر یہ کہ گویا کوئی ان دیکھی طاقت ہے، جو مجھے زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری، میری معلومات کے مطابق، آپ واحد انسان ہیں، جو خدا کو پانے کا پورے یقین کے ساتھ دعوی کرسکتے ہیں۔ کیا مجھے بھی خدا مل سکتا ہے، کیسے؟ (ایک قاریٔ الرسالہ، ممبئی)

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کو پانا، دراصل ایک پائی ہوئی حقیقت کو دوبارہ دریافت کرنا ہے۔ خدا کو پانا دراصل غیر شعور کو شعور بنا نا ہے۔یعنی جو چیز غیر شعوری طور پر ملی ہوئی ہے، اس کو شعوری طور پر اپنی یافت بنانا ہے۔ خدا آپ کا خالق ہے، اور اس نے آپ کو غیر موجود سے موجود کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کی زندگی میں شامل ہے، وہ خود بخود آپ کو ملا ہوا ہے۔ مگر یہ پانا غیر شعوری اعتبار سے ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ آپ غیر شعوری طور پر ملی ہوئی چیز کو شعوری طور پر دریافت کرلیں۔ خدا کو پانا بظاہر ایک مشکل کام معلوم ہوتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ آسان کام ہے۔

آپ سوچیے کہ جب آپ ماں کے پیٹ میں تھے، اسی وقت آپ کی ضرورت کی تمام چیزوں کی سپلائی باقاعدہ طورپر شروع ہوگئی تھی۔ یہ کون تھا، جس نے آپ کے لیےآپ کی ضروریات کی کامل فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر جب آپ ماں کے پیٹ سے نکلے، تو آپ نے پایا کہ آپ کےلیے یہاں مکمل معنوں میں ایک لائف سپورٹ ئسسٹم (life support system) موجود ہے۔ پھر جب آپ بڑے ہوئے، اور آپ دنیا میں چلنے پھرنے کے قابل ہوئےتو آپ نے پایا کہ پوری یونیورس آپ کے لیے کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe)ہے۔ اس قسم کے تجربات جو آپ کو ہر لمحہ پیش آتے ہیں، وہ گویا ملی ہوئی چیز کو آپ کے لیے ایک دریافت کردہ حقیقت (discovered reality) بنا رہے ہیں۔

میں جب پہلی بار امریکا گیا، تو وہاں ایرپورٹ کے باہر نکلتے ہوئے میں نے جو پہلی چیز دریافت کی، وہ یہ تھی کہ کیسا عجیب ہے وہ خالق جس نے میرے لیےزندگی بخش آکسیجن کی سپلائی کا نظام انڈیا میں بھی قائم کررکھا تھا، اور امریکا میں بھی اس کا تسلسل بلاانقطاع جاری ہے۔ یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ میں نے چاہا کہ میں روڈ پراپنے خالق کے لیے سجدے میں گر پڑوں۔ اسی طرح دوسرے تمام تجربات ہر لمحہ میرے لیے خدا کی یاد کے ریمائنڈر بنے رہتے ہیں۔ یہی وہ یاد دلانے والے واقعات ہیں، جن کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔

جو لوگ صبح و شام ان نشانیوں کے درمیان زندگی گزاریں، مگر ان کا حال یہ ہو کہ ان کے پاس دماغ ہو مگر وہ نہ سوچیں، ان کے پاس آنکھیں ہو مگر وہ نہ دیکھیں، ان کے پاس کان ہو مگر وہ نہ سنیں، ایسے لوگ خالق کے نزدیک اندھے بہرے ہیں۔ ان کو صرف قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ صورِ اسرافیل کے سواکوئی اور چیز نہیں ہے، جو ان کو غفلت کی نیند سے جگائے۔

خالق کی معرفت کوئی سادہ چیز نہیں۔ خالق کی معرفت جنت الفردوس کی قیمت ہے۔جنت الفردوس اس کے لیے ہے جو خدا کو دیکھے بغیر دیکھے، جو خدا کی جنت میں داخل ہونے سے پہلے ا س کو دریافت کرے۔ خدا کو پانے کی توفیق اس کو ملتی ہے، جو خدا کے لیے غیر خدا کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔

ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسکور کرے۔ یہ زندگی کی شروعات ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیں تو آپ کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے گا۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ یہ کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈئلزم ہمیشہ ناکامی کی طرفلے جاتی ہے۔ جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن یہ آئڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔

اعتدال کیا ہے

اعتدال کا اصول، کسی اصولی موقف کی طرح کسی مستقل اصول پر مبنی نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر مبنی ہے۔ یعنی جس موقعے پر خالص اصولی موقف بظاہر قابل عمل (practical)نہ ہو، وہاں حالات کو دیکھتے ہوئے رعایت کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور ایسے موقف کو اختیار کیا جائے، جس میں نقصان بھی کم ہو، اور اختلاف کی صورت ختم ہوجائے۔ مثلا ً پراپرٹی کی تقسیم کا معاملہ ہو، اور دو آدمیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے، تو دونوں پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ نزاع کی صورت کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے درمیانی حل پر راضی ہوجائیں، جس میں بظاہر نظری انصاف تو نہ ہو، لیکن اس سے نزاع کی صورت ختم ہوتی ہو۔ ایسے حل کو پریکٹکل وزڈم پر مبنی حل کہا جاتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom