انسان کے لیے سبق
قرآن میں ایک بات ان الفاظ میں آئی ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے، چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ اگر وہ عذر (excuse) کا شکار نہ ہو، تو وہ خود اپنی تخلیق پرغور کرکے بڑی بڑی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ اس کی زندگی خود ایک لائبریری ہے۔ اپنے مطالعہ سے خود وہ اپنے لیے بڑے بڑے سبق دریافت کرسکتا ہے۔
مثلاً انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔مثلاً سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور ٹھیک متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔ یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے۔
اگر آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث کی باتوں کو اپنے الفاظ میں ڈھال سکے، تو اس کی دریافت اس کے لیے ری ڈسکوری (rediscovery) بن جاتی ہے۔ وہ مذکور باتوں کو زیادہ موثر انداز میں دریافت کرنے لگتا ہے۔ مثلاً قرآن میں آیاہے:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ (14:34)یعنی اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا۔ اگر آپ کے پاس اپنے مطالعے کے مطابق، یہ لفظ موجود ہو کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جو ہیومن فرینڈلی دنیا ہے۔ اس کا احساسِ شکر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔