لو پروفائل میں کام کرنا
قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (12:67)۔ یعنی اے میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔
قرآن کی اس آیت میں تدبیر ِ کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریقِ ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقِ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا جس سے فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ سیرت ابنِ ہشام میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال: اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام، 2/397)۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے تیاری کا حکم دیا۔ اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اس کے سفر کی تیاری کا کام کرے۔ جب ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کے پاس آئے، اس وقت وہ رسول اللہ کے سفر کی کچھ تیاری کا کام کر رہی تھیں، تو پوچھا: بیٹی رسول اللہ نےکسی سفر کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ عائشہ نے کہا: ہاں، سامان سفر کی تیار کرنے کا۔ ابوبکر نے پوچھا، تمھارے خیال سے کہاں کا ارادہ ہے۔ عائشہ نے کہا، اللہ کی قسم مجھےنہیں معلوم۔ پھر رسول اللہ نے لوگوں کو خبر دیا کہ وہ مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں، اور ان کو تیاری کا حکم دیا۔ اس وقت یہ دعا کی: اللہ، تو قریش کی آنکھوں اور خبروں کو روک دے۔ یہاں تک کہ تو ہم کو ان کےشہر میں پہنچا دے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کام کا ایک طریقہ شور و غل کے ساتھ کام کرنا ہے، اور دوسراطریقہ ہے حکیمانہ طریقہ۔ شور و غل کے ساتھ کام کرنا نبی کا طریقہ نہیں۔ نبی کا طریقہ وہ ہے، جس میں خاموش تدبیر کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ کامیابی ہمیشہ خاموش تدبیر والے کام میں ہوتی ہے، نہ کہ شور و غل والے طریقے میں۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر بیک وقت دو آزادانہ نظام قائم ہیں — انا(ego)، اور دوسرا ضمیر (conscience)۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ انسان کے اندر انا (ایگو) کا نظام پوری طرح آزاد ہے، اور آزادی کے تحت وہ خود جیسا چاہے، اس کے مطابق، فیصلہ لے سکتا ہے،یعنی صحیح بھی اور غلط بھی۔ لیکن ضمیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس کے کنٹرول کا نظام بالکل الگ ہے۔ ضمیر اگرچہ انسان کی شخصیت کا ایک حصہ ہے، اوراپنے عمل میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان اگر اپنی زندگی میں صحیح راستہ اختیار کرے، تو ضمیر خاموش زبان میں اس کی تصدیق کرتا ہے، اور اگر انسان غلط راستے پر چل پڑے تو ضمیر فوراً اس کو وارننگ دیتا ہے کہ تم غلط راستے پر چل پڑے ہو، اور غلط راستے پر چلنے کا انجام اس سے مختلف ہوگا، جو صحیح راستے پر چلنے کا ہوتا ہے۔ ضمیر کا نظام گویا ایک غیبی آواز ہے، جو بر وقت انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتاہے۔