فارم، اسپرٹ
عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔صحابہ کے دوراور تابعین کے دور میں عام طور پر مبنی بر اسپرٹ دین کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن فقہاء کے دورمیں بعض اسباب سے مبنی بر فارم دین کا تصور عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں لوگ غلو (انتہا پسندی) کی حد تک پہنچ گئے۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہوتی تھی۔ اس بنا پر اس زمانے میں جزئی نوعیت کے طریق عبادت میں تنوع کا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ تصور اس حدیث پر مبنی تھا:أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ فَبِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1684)۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے، ہدایت پر رہوگے۔
لیکن بعد کے زمانے میں جب کہ طریقِ عبادت میں تعدد کا ذہن ختم ہوگیا، اور فارم میں توحد پر زور دیا جانے لگاتو اس قسم کا ذہن ختم ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ کیوں کہ اس روایت کے علاوہ بھی ایسی صحیح روایتیں ہیں، جس میں تعدد کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے زمانے میں ایک صحابی کا بلند آواز سے کہنا:رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 799)۔روایت کے مطابق، یہ کلمہ سن کر آپ نے اس کی تحسین کی، جب کہ رسول اللہ نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے جزئی طریقوں میں اسپرٹ اصل ہے۔ اس معاملے میں اگر اسپرٹ کو اصل مانا جائے تو اپنے آپ فرقہ بندی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عبادت کے جزئی طریقوں میں فارم پر زور دیا جانے لگے تو فرقہ بندی کا دروازہ کھل جاتا ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ عہدِ رسالت میں عبادت کا صرف ایک تصور پایا جاتا تھا، وہ ہے مبنی بر اسپرٹ عبادت۔ مبنی بر فارم عبادت کا تصور بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، اور پھر تاریخ میں عام ہوگیا۔ تاہم مبنی بر اسپرٹ عبادت ہی اصل عبادت ہے۔